Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

یسوع - عام لوگوں نے مسترد کیا

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 3)
CHRIST – REJECTED BY THE MASSES
(SERMON NUMBER 3 ON ISAIAH 53)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
10 مارچ، 2013، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, March 10, 2013

’’ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ اور خُداوند کا بازو کس پر ظاہر ہُوا؟ وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح، اور ایسی جڑ کی مانند تھاجو خشک زمین میں سے پھوٹ نکلی ہو: اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال؛ کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے، نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘ (اشعیا 53:‏1 – 2).

اشعیا نبی ہمیں بتاتا ہےکہ بہت کم خُدا کے مصائب زدہ خادم کے بارے میں اُس کے پیغام پر یقین کریں گے، بہت کم وہ حاصل کریں گے جو نبی نےاُس[یسوع] کے بارے میں کہا، اور بہت کم اُس کے قائل کرنے والے فضل کا تجربہ کر سکیں گے۔ یوحنا رسول نے اشعیا 53:‏1 کا حوالہ دیا یہ بیان کرنے کے لیے کہ یسوع کے دور میں یہودیوں کی اکثریت نے یقین نہ کیا۔

’’اگرچہ یسوع نے اُن کے درمیان اتنے معجزے دکھائے تھے پھر بھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے: تاکہ یسعیاہ [اشعیا] نبی کا کہا پورا ہو کہ، جب اُس نے کہا، اے خُداوند ، ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ اور خُداوند کی قوت کس پر ظاہر ہوئی؟‘‘ (یوحنا 12:‏37 – 38).

یوحنا رسول نے یہی آیت مسیح کے دوبارہ آسمان پر اُٹھائے جانے کے 30 سال بعد بھی دُہرائی تھی، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ رومی دنیا میں غیر یہودیوں کی اکثریت یہودیوں کے مقابلے میں صرف تھوڑا سا زیادہ خُداوند یسوع مسیح کے لیے ردِعمل ظاہر کرے گی۔ پولوس نے کہا،

’’کیونکہ یہودی اور غیر یہودی میں کوئی فرق نہیں اِس لیے کہ ایک وہی سب کا خُداوند ہےاور اُن سب کو جو اُس کا نام لیتے ہیں کثرت سے فیض پہنچاتا ہے… لیکن سب نے اُس خوشخبری پر کان نہیں دھَرا۔ چناچہ یسعیاہ [اشعیا] کہتا ہے، خداوند! ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا؟’’ (رومیوں 10:‏12، 16).

خود خداوند یسوع مسیح نے ہمیں یہی بات بتائی تھی۔ اُس نے کہا تھا کہ اُن کی تعداد جو اُس پر یقین کریں گے بچائے جانے کے لیے بہت کم ہوگی،

’’کیونکہ وہ دروازہ تنگ [چھوٹا] اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے، اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی 7:‏14).

یسوع نے یہی نقطہ بتایا جب اُس نے کہا،

’’ تنگ [چھوٹے] دروازے سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو: کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا 13:‏24)

عام طور پر دنیا میں لوگ یہ یقین کرتے ہیں کہ ہر کوئی جنت کے لیے اپنا راستہ پا سکتا ہے۔ لیکن یسوع نے اس کے بالکل مختلف کہا ،

’’اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی 7:‏14).

’’بہت سے لوگ اندر جانےکی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا13:‏24).

اس پریشان کُن سچائی کی بازگشت اشعیا کے دُکھ بھرے نوحے میں گونجتی ہے،

’’ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ اور خُداوند کا بازو کس پر ظاہر ہُوا؟‘‘ (اشعیا 53:‏1).

ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ یہودی اپنے مسیحا کے لیے ایک عظیم اور طاقتور حکمران کے منتظر تھے، جو دولت اور شان و شوکت کا بادشاہ ہو، اور غیر یہودی تو کسی مسیحا کا انتظار کر ہی نہیں رہے تھے! اس طرح سے ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سطحی طور پر انسانوں کو توقع نہیں تھی کہ مسیح ایک حقیر مصائب زدہ خادم کے طور پر آئے گا، صلیب پر اذیت کی موت مرنے کے لیے تا کہ اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکے۔

اعمال کی کتاب کے آٹھویں باب میں ، جو ایتھوپیا کا ہیجڑا تھا ، وہ اِن حقائق سے اسی قدر لا علم تھاجتنا کہ یہودیت کے کاہن اور فریسی۔ وہ اشعیا نبی کے صحیفہ کے ترپنویں باب کو پڑھ رہا تھا جب مبشرِ انجیل فلپس نے اُس کی چلتے ہوئے رتھ کو پکڑا تھا۔

فلپس دوڑ کر رتھ کے نزدیک پہنچا اور رتھ سوار کو یسعیاہ [اشعیا ] نبی کا صحیفہ پڑھتے ہوئے سُنا، فِلپس نے اُس سے پوچھا: کیا جو کچھ تو پڑھ رہا ہے اُسے سمجھتا بھی ہے؟ اور اُس نے کہا، میں کیسے… ‘‘ (اعمال 8:‏30 ۔31 ).

یہ افریقی بہت حد تک یقینی طور پر یہودیت میں تبدیل ہو ا تھا، اور واضح طور پر پرانے عہد نامے کے صحیفوں سے آگاہ تھا، مگر پھر بھی جب بات صحیفے کے اس پیغام کی آتی ہے تو وہ اسی قدر اندھیرے میں تھا جتنا کہ یہودی کاتب ۔

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس پیغام میں سے دیکھ سکتا ہے کہ مسیحا جب وہ آیا تھا، مشہور اور امیر نہیں ہو سکتا، جس کو انسانی شان و شوکت اور جلال نے گھیرا ہو، لیکن وہ ایک ’’دکھوں بھرے انسان، اوررنج سے آشنائی کے ساتھ‘‘ آئے گا، آدمیوں کا ٹھکرایا ہوا اور حقیر جانا ہوا‘‘ بننے کے لیے۔ اِس کے باوجود، حالانکہ یہ سچائی سادگی کے ساتھ بائبل کے ورق پر لکھی تھی،

’’وہ اپنے لوگوں میں آیا اور اُس کے اپنوں ہی نے اُسے قبول نہ کیا‘‘ (یوحنا 1:‏11).

اسرائیل کی قوم نے ایسا نہیں کیا، مجموعی طور پر ، انہوں نے یسوع کو اپنے مسیحا کے طور پر نہیں قبول کیا حالانکہ اُس کو مکمل طور پر اِس پیشن گوئی میں بیان کیا گیا تھا۔ اور نبی ہمیں دوسری آیت میں وجہ پیش کرتا ہے کہ انہوں نے اُسے مسترد کیا۔

’’وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح ، اور ایسی جڑ کی مانند تھا جو خُشک زمین میں سے پُھوٹ نکلی ہو۔اُس میں نہ کوئی [حُسن، طاقت] تھا نہ [جلال، قوت]؛ کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے، نہ اُس کی شکل و صور ت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘ (اشعیا 53:‏2)

لیکن ہمیں اُن یہودی لوگوں کو پرکھنا نہیں چاہیے جنہوں نے غیر یہودیوں کے مقابلے میں اُس [یسوع] کو شدید برہمی سے مسترد[ناپسند] کیا۔ جیسا کہ سُپرجئین Spurgeon نے کہا،

یاد رکھیے کہ جتنا یہودیوں کا سچ تھااُس کے برابر ہی غیر یہودیوں کا سچ تھا۔ یسوع مسیح کی انجیل دنیا کی سادہ ترین چیز ہے، لیکن پھر بھی کوئی آدمی اسے سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ اُسے خُدا [کا وسیلہ] نہ سمجھائے. . . روحانی موضوعات کے حوالے سے گناہ نسلِ انسانی پر ایک ذہنی کم مائیگی لایا ہے . . . . آپ کے ساتھ یہ کیسی ہے؟ کیا آپ بھی اندھیرے میں ہیں؟ . . . کیا آپ بھی اندھیرے میں ہیں؟ ہائے، اگر آپ بھی ہیں، یسوع کے ایمان میں [خداوند] آپ کو ہدایت دے (سی۔ ایچ۔ سپرجئین، ’’خشک زمین میں سے پھوٹتی ہوئی جڑ، ‘‘میٹروپولیٹن عبادت گاہ کے خطبہ گاہ سےThe Metropolitan Tabernacle Pulpit ، پِلگرِم اشاعت خانہPilgrim Publications ، 1971 دوبارہ اشاعت، جلد XVIII ، صفحات 565 – 566).

اب، آیت دو میں اپنے کلام کی طرف آتے ہیں، ہم تین وجوہات دیکھیں گے کہ یسوع کیوں مسترد کیا گیا ہے۔ دوسری آیت با آوازِ بلند پڑھیے،

’’وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح ، اور ایسی جڑ کی مانند تھا جو خُشک زمین میں سے پُھوٹ نکلی ہو۔اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے‘‘ (اشعیا 53:‏2).

1۔ اوّل، یسوع مسترد کیا گیا ہے کیونکہ وہ انسانوں پر ایک نازک پودے کی مانند ظاہر ہوا، ایک نازک کونپل۔

اِ س حقیقت کی وجہ سے یسوع پر بہت کم یقین کرتے ہیں۔

’’وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح ، اور ایسی جڑ کی مانند تھا جو خُشک زمین میں سے پُھوٹ نکلی ہو . . . ‘‘ (اشعیا 53:‏2).

یا، جیسا کہ ڈاکٹر گِل Dr. Gill نے کہا، نازک کونپل کی مانند، جیسا کہ لفظ اُجاگر کرتا ہے، جو درخت کی جڑ سے پھوٹ نکلتا ہے . . . جس کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا یا کوئی نگہداشت نہیں کی جاتی، نہ ہی اُس سے کوئی اُمید رکھی جاتی ہے؛ اور اُس کی پیدائش پر صورت [اُس کی گفتگو ] اِظہار کرتی ہے [معمولی] اور غیر وعدہ شدہ مسیح کے ظہور کا ؛ یہ وجہ دی گئی ہے کہ کیوں یہودی مجموعی طور پر یقین نہیں کرتے، مسترد کرتے اور اُسے حقیر جانتے تھے‘‘ (جُان گِل، ڈی۔ ڈی۔ ، پرانے عہد نامے کے آشکارہ بھید An Exposition of the Old Testament، دی بپٹسٹ سٹینڈرڈ بیئررThe Baptist Standard Bearer، 1989 دوبارہ اشاعت، جلد اوّل، صفحات 310 – 311).

’’وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح ، اور ایسی جڑ کی مانند تھا جو خُشک زمین میں سے پُھوٹ نکلی ہو . . . ‘‘ (اشعیا 53:‏2).

اِس کا مطلب ہے کہ خداوند باپ کے ’’سامنے‘‘ یسوع پیدا ہوا تھا اور پلا بڑھا تھا ، جس نے اُس پر دھیان دیا اور اُسے مضبوط کیا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر ینگ Dr. Young نے کہا، ’’ تاہم، آدمیوں کے لیے، خادم [یسوع] ایک پھوٹتی ہوئی جڑ کی مانند ظاہر ہوا . . . آدمی پھوٹتی ہوئی جڑ کو کاٹ دیتے ہیں، کیونکہ وہ درخت سے زندگی لے رہی ہوتی ہے اور آدمیوں کی نظروں میں برادری سے باہر کرنا ہے‘‘ (ایڈورڈ جے۔ ینگ، پی ایچ۔ ڈی۔، اشعیا کی کتاب The Book of Isaiah ، ولیم بی، عیئرڈ مینز پبلیشنگ کمپنیEerdmans Publishing Company، 1972، جلد 3 ، صفحات 341 – 342).

’’اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں گے تو سب لوگ اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رُومی یہاں آ کر ہماری ہیکل اور ہماری قوم دونوں پر قبضہ جما لیں گے‘‘ (یوحنا 11؛48).

’’آدمی پھوٹتی ہوئی جڑ کو کاٹ دیتے ہیں، کیونکہ وہ درخت سے زندگی لے رہی ہوتی ہے اور آدمیوں کی نظروں میں برادری سے باہر کرنا ہے‘‘ (ینگ، ibid.). وہ خوفزدہ تھے کہ اگر اُنہوں نے اُس پر یقین کیا تو وہ یہودی قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت کھو دیں گے۔ ایک ’’نازک پودے‘‘ کے طور پراُنہیں خوف تھا کہ وہ ’’درخت سے زندگی لے لے گا‘‘ اُن کی قوم کی۔

اور کیا یہ وہی وجہ نہیں ہے کہ آپ نے اُسے مسترد کیا ہے؟ اس کے بارے میں گہرائی سے غور کریں! کیا یہ آپ کے بارے میں بھی درست نہیں ہے – آپ خوفزدہ ہیں کہ کوئی ایسی چیز کھو نا جائے جو آپ کے لیے اہم ہو - اگر آپ اُس کے پاس جائیں اور اُس پر اعتماد کریں؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ آپ خوفزدہ ہیں کہ مسیح ’’درخت سے زندگی لے لے گا‘‘، کہ وہ کوئی ایسی چیز جو آپ کے لیے اہم ہے جذب کر لے گا؟

میں نے ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan سے کہا کہ مجھے اُس جریدے کی ایک نقل لا کر دیں جو اکتوبر1929 کو ہفتے کی شام کی ڈاک The Saturday Evening Postمیں چھپا تھا۔ وہ عظیم طبیعات دان ڈاکٹر البرٹ آئنسٹائین Dr. Albert Einstein کے ساتھ ایک انٹرویو تھا۔ انٹرویو لینے والے نے اُن سے پوچھا، ’’کیا آپ یسوع کی تاریخ وجودیت کو قبول کرتے ہیں؟‘‘ آئینسٹائین نے تاکیداً جواب دیا۔ کوئی بھی یسوع کی اصلی موجودگی کو محسوس کیے بغیر اناجیل کو نہیں پڑھ سکتا۔ اُس کی شخصیت ہر لفظ میں اُجاگر ہو رہی تھی۔ کوئی بھی طلسماتی کہانی ایسی زندگی کے ساتھ بھری ہوئی نہیں ہوتی ہے‘‘ (ہفتے کی شام کی ڈاک The Saturday Evening Post، 26 اکتوبر، 1929، صفحہ 117)۔ آئینسٹائین کا مسیح کے بارے میں بہت بُلند خیال تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہ وہ کبھی بھی مسیح میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ اُسے کس بات نے روکا تھا؟ یہ یقیناً کوئی دانائی کا مسئلہ نہیں تھا۔ آئینسٹائین ایک زناکار تھا، اور وہ اُس گناہ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ بالکل اتنا ہی سادہ ہے جتنا کہ وہ ہے۔ آپ کو ایک حقیقی مسیحی بننے کے لیے بعض چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔

اب، میں ایک غلط اُستاد ہوں گا اگر میں آپ کو یہ بتاتا کہ یہ درست نہیں ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہتا کہ آپ مسیح کے پاس کچھ بھی کھوئے بغیر آ سکتے ہیں، تو میں ایک غلط عقیدے کی تعلیم دے رہا ہوں گا۔ بے شک یسوع کے پاس آنے کےلیے کچھ کھونا پڑتا ہے! آپ کو اپنی پیاری زندگی کھونی پرتی ہے! مسیح کیسے اس کو اتنا سادہ بنا سکتا ہو گا؟ اُس نے کہا،

’’اگر کوئی میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے ہو اُسے کھوئے گا لیکن جو کوئی میری اور میری انجیل کے خاطر اپنی جان گنواتا ہے وہ اُسے محفوظ رکھے گا۔اگر آدمی ساری دنیا حاصل کر لے اور اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلےمیں کیا دے گا؟‘‘ (مرقس 8:‏34۔37 ).

یہ انتہائی سادہ ہے، کیا واقعی سادہ ہے؟ مسیح کے پاس آنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود اِنکاری کریں، آپ کو اپنے خود کے خیال، اپنے منصوبے ، اپنی تمنائیں چھوڑنی پڑیں گی۔ آپ کو ضرور اپنا آپ اُس کے حوالےکرنا ہے۔ یہی مسیح پر اعتماد کرنے کا مطلب ہے۔ آپ اُس پر اعتماد کریں – نہ کہ اپنے آپ پر۔ آپ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کریں - نا کہ اپنی ہی سوچوں اور مقاصد کے۔ آپ اپنی زندگی ’’کھو‘‘ دیتے ہیں جب آپ اپنا آپ اُس کے حوالے کرتے ہیں۔ یہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنی زندگی کھوتے ہیں، مسیح کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے، کہ آپ کی زندگی دائمی طور پر بچائی گئی ہے۔

اس لیے، ’’ نازک پودے‘‘ کا لفظ تشریح پیش کرتا ہے جو مطلب واضح کرتی ہے کہ خداوند کی حضوری میں میسح ایک زندگی دینے والا ہے۔ لیکن آدمیوں کی نظروں میں وہ[یسوع] زندگی کا لینے والا ہے، اور اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اُسے مسترد کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ [یسوع] اُن کی زندگی پر حکمرانی کرے! وہ اپنی زندگی کو چھوڑنے سے اور وہ [یسوع] اُن کی راہنمائی کرے ، اس سے خوفزدہ ہیں۔

2۔ دوئم، یسوع مسترد کیا گیا ہے کیونکہ وہ انسانوں پر خشک زمین سے پُھوٹتی جڑ کی مانند ظاہر ہوا تھا۔

’’وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح ، اور ایسی جڑ کی مانند تھا جو خُشک زمین میں سے پُھوٹ نکلی ہو . . . ‘‘ (اشعیا 53:‏2).

میرا وقت ختم ہو چکا ہے کیونکہ میں نے پہلے نقطے پر ہی بہت وقت لگادیا ہے۔ لیکن ہم باآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے مسیح ’’خشک زمین سے پھوٹتی جڑ‘‘ کی مانند ظاہر ہوا تھا۔‘‘ ڈاکٹر ینگ نے کہا،

خشک زمین اشارہ کرتی ہے اُس معمولی اور کم تر حالت کا اور اُس پس منظر کا جس میں خادم [یسوع] کو ظاہر ہونا تھا۔ یہ اُن حالات کی دُکھی نوعیت کے بارے میں بتاتے ہیں جن کے درمیان میں خادم کی زندگی گزری تھی . . . خشک سوختہ زمین میں جڑ کو زندگی محفوظ کرنے کے لیے ضرور جدوجہد کرنی پڑتی ہے (ینگ، ibid. ، صفحہ 342).

یہ پیشن گوئی اُس غربت کا حوالہ بھی دیتی ہے جس میں مسیح پیدا ہوا تھا۔ اُس کا پالنے والا[زمینی] باپ ایک بڑھئی تھا۔ اُس کی حقیقی ماں مریم ایک غریب کنواری لڑکی تھی۔ وہ ایک اصطبل میں پیدا ہوا تھا اور غریبوں کے درمیان پلا بڑھا تھا، ’’خشک زمین میں پھوٹتی ایک جڑ کی مانند‘‘۔ اُس نے اپنی زندگی کا کام کمتر، حقیر اور غریب لوگوں کے درمیان کیا۔ اُس کے شاگرد مچھیروں کےعلاوہ کچھ نہ تھے۔ وہ ہیرودیسؔ بادشاہ ، رومی گورنر پیلاطُس عالم کاتبوں اور فریسیوں سے ’’ خشک زمین میں پھوٹتی ایک جڑ کی مانند‘‘ مسترد کیا گیا تھا ۔ اُنہوں نے اُسے مرنے کی حد تک کوڑے مارے ، اور پھر انہوں نے اُس کے ہاتھوں اور پیروں کو صلیب پر کیلوں سے جڑ دیا۔ اُنہوں نے اُس کے ٹوٹے ہوئے مردہ بدن کو ایک مانگے کی قبر میں رکھا۔ اُس کی زمین پر تمام زندگی، مصائب اور موت، تمام ’’خشک زمین میں پھوٹتی ایک جڑ کی مانند‘‘ گزرے۔ لیکن، خداوند کا شُکر ہے کہ وہ تیسرے روز مردوں میں سے جی اُٹھا، ’’خشک زمین میں پھوٹتی ایک جڑ کی مانند‘‘! جیسے غیر متوقع طوفانی بارش کے بعد اچانک ایک پودے کی کمزور کونپل اُگتی ہے۔ لہٰذا مسیح بہار بن کر آیا، مردوں میں سے جی اُٹھ کر، ’’خشک زمین میں پھوٹتی ایک جڑ کی مانند۔‘‘ ہیلیلویاہ!

اور پھر بھی بہت سے لوگ اُس پر یقین نہیں کرتے ہیں۔ وہ اُس کے بارے میں ایک ’’زندگی کو چاٹ لینے والا‘‘ اور ایک ’’مردہ یہودی‘‘ کہتے ہیں۔

’’ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ اور خُداوند کا بازو کس پر ظاہر ہُوا؟ وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح، اور ایسی جڑ کی مانند تھاجو خشک زمین میں سے پھوٹ نکلی ہو . . . ‘‘ (اشعیا 53:‏1۔2)

3۔ سوئم، مسیح کو مسترد کیاہے کیونکہ اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال، نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی
ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے۔

مہربانی سے کھڑے ہو جایئے اور آیت نمبر دو باآوازِ بلند پڑھیئے۔

وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح، اور ایسی جڑ کی مانند تھاجو خشک زمین میں سے پھوٹ نکلی ہو۔ اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے، نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘ (اشعیا 53:‏1 – 2).

آپ بیٹھ سکتے ہیں۔

یسوع میں ’’نہ کوئی حسن تھا نہ کوئی جلال‘‘، وہ کہیں سے بھی شاہانہ اور شان و شوکت والا نظر نہیں آتا تھا۔ ڈاکٹر ینگ نے کہا، ’’ جب ہم خادم [یسوع] کو دیکھتے ہیں ہمیں کوئی خوبصورتی نظر نہیں آتی جس کی ہمیں خواہش کرنی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری رائے، ظاہری حالت کے مطابق ہے جو کہ سچی اور منصفانہ نہیں ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے۔ خادم[یسوع] خود اپنے ہی لوگوں کے درمیان آباد ہوا تھا، اور اُس کی جسمانی ہیّت کے پیچھے ایمان کی نظر کو سچا جلال نظر آ جانا چاہیئے تھا؛ لیکن اُس کی بیرونی حیثیت یا شکل و صورت و لباس کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کو اُس میں کوئی خوبصورتی یا کشش نظر نہیں آئی جو اُس [اسرائیل] کی نظر کو بھاتی. . . خادم [یسوع] کی ظاہری حالت ایسی تھی کہ انسان اگر غلط نقطہ نظر سے پرکھے، تو مکمل طور پر غلط اندازہ لگا سکتا ہے‘‘ (ینگ، ibid. (

ظاہری طور پر یسوع میں کوئی خوبصورتی یا شاہانت نہیں تھی کہ دنیا کو متوجہ کر سکے۔ وہ ایسی چیز پیش نہیں کرتا تھا جو زیادہ تر لوگوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی۔ وہ کامیابی یا شہرت یا پیسہ یا زمینی خوشی پیش نہیں کرتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس عبادت کے آغاز میں مسٹر پرودھومی Mr. Prudhomme نے کلام کے اُس حصے کو پڑھا تھا جو یہ بتاتا ہے کہ یسوع ہمیں کیا پیش کرتا ہے۔

’’اگر کوئی میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خود اِنکاری کرے، اپنی صلیب اُٹھا لے اور میرے پیچھے چلا آئے۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے ہو اُسے کھوئے گا لیکن جو کوئی میری اور میری انجیل کے خاطر اپنی جان گنواتا ہے وہ اُسے محفوظ رکھے گا۔اگر آدمی ساری دنیا حاصل کر لے اور اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلےمیں کیا دے گا؟‘‘ (مرقس 8:‏34۔37 ).

مسیح خود انکاری کی پیشکش کرتا ہے۔ مسیح پیش کرتا ہے کسی کا خود اپنی زندگی اور تقدیر پر گرفت کا کھو دینا۔ میسح پیشکش کرتا ہے روح کی نجات، گناہوں کی معافی، اور دائمی زندگی۔ یہ ناقابلِ احساس چیزیں ہیں، ایسی چیزیں جنہیں انسان کا احساس چھو نہیں سکتا یا نظر دیکھ نہیں سکتی، چیزیں جو اپنی قدرت میں نورانی ہیں۔ اسی لیے میسح مسترد کیا جاتا ہے اُن سے جن کے باطن کو خداوند نے نہیں کھولا ہے ، کیونکہ

’’جس میں خُدا کا پاک روح نہیں وہ خُدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتاہے کیونکہ وہ صرف پاک کے ذریعے سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 2:‏14).

لیکن مجھے تعجب ہوتا ہے، آج صبح، اگر خداوند آپ کے دل میں بول رہا ہو، میں حیران ہوں گا اگر خُداوند آپ سے کہہ رہا ہو، ’’بے شک اُس میں کوئی خوبصورتی نہیں ہے کہ ہم اُس کی خواہش کریں، پھر بھی میں تمہیں اپنے بیٹے کی طرف کھینچ رہا ہوں۔‘‘ کیا آپ نے یہ اپنے دل میں محسوس کیا ہے؟ کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ دُنیا کچھ بھی نہیں پیش کرتی ما سوائے گزرتی ہوئی لمحاتی خوشی کے یا گزرتی ہوئی لمحاتی کامیابی کے؟ کیا آپ نے کبھی اپنی روح کے بارے میں سوچاہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ اپنی آخرت کہاں گزاریں گے اگر یسوع اپنے خون سے آپ کے گناہوں کو صاف نہیں کرتا ہے؟ کیا آپ ان تمام اہم معاملات کے بارے میں سوچتے رہے ہیں؟ اور، اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو کیا آپ محض سادہ ایمان کے ساتھ اُس کے پاس جائیں گے جس کے پاس ’’نہ حسن ہے اور نہ ہی جلال ہے. . . نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘؟ (اشعیا 53:‏2). کیا آپ ناصرتؔ کے یسوع کے سامنے گھٹنے ٹیکیں گے، اور اپنے تمام دل کے ساتھ اُس پر اعتماد کریں گے؟ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ ایسا کریں۔

آئیے کھڑے ہویئے جیسا کہ مسٹر گریفتھ حمد کے دو بند گانے جارہے ہیں جو اُنہوں نے اس واعظ سے پہلے گائے تھے۔

دنیا لے لو، لیکن یسوع مجھے دے دو، اس کا ساری خوشیاں صرف نام کی ہیں؛
لیکن اُس کا پیار ابدی ہے، دائمی سالوں میں ایک جیسا۔

دنیا لے لو، لیکن یسوع مجھے دے دو، اُس کی صلیب میں میرا اعتماد رہے گا؛
جبتک میں واضح، اور شاندار تخیّل کے ساتھ، آمنے سامنے اپنے خداوند کو نہ دیکھ لوں۔
ہائے ، رحمدلی کی بلندی اور پستی! ہائے پیار کی اتنی وسعتیں!
ہائے ، نجات کی کاملیت، آسمانوں پر نا ختم ہونے والی زندگی کی ضمانت!
(’’ دنیا لے لو، لیکن یسوع مجھے دے دو‘‘ شاعر فینی جے۔ کراس بی
Fanny J. Crosby،‏ 1820۔1915).

اگر خداوند آپ کے دل میں بولتا ہے، اور آپ اس گزرتی دنیا کی شان و شوکت اور خوشیاں چھوڑنے کو تیار ہیں، اور اگر آپ اپنے آپ کو یسوع مسیح میں دینے کو تیار ہیں اور اُس میں ایمان کے وسیلے سے آئیں، اور آپ چاہیں کہ آپ کے گناہ اُس کے خون سے دُھل جائیں، اور اگر آپ ہمارے سے اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، توکیا آپ مہربانی سے اس کمرے کے پیچھے ابھی چلے جائیں گے؟ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کی ایک پُرسکون جگہ تک رہنمائی کریں گے جہاں ہم اِس پر گفتگو کر سکیں گے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ آئیں اور یسوع میں صرف ایمان کے وسیلے سے بچائے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے آئیں اور اُن کے لیے دعا کریں جہنوں نے ردعمل کا اظہار کیا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: مرقس 8:‏34۔37.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ نے Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’دنیا لے لو، لیکن یسوع مجھے دے دو‘‘ شاعر فینی جے۔ کراس بی Fanny J. Crosby، 1820۔1915).

لُبِ لُباب

یسوع - عام لوگوں نے مسترد کیا

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 3)
CHRIST – REJECTED BY THE MASSES
(SERMON NUMBER 3 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا اور خُداوند کا بازو کس پر ظاہر ہُوا؟ وہ اُس کے سامنے ایک نازک کونپل کی طرح، اور ایسی جڑ کی مانند تھاجو خشک زمین میں سے پھوٹ نکلی ہو۔ اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے، نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘ (اشعیا 53:‏1۔2).

(یوحنا12:‏37۔38؛ رومیوں10:‏12، 16؛ متی7:‏14؛
لوقا 13:‏24؛ اعمال8:‏30۔31؛ یوحنا1:‏11)

1۔  اوّل، یسوع مسترد کیا گیا ہے کیونکہ وہ انسانوں پر ایک نازک پودے کی مانند ظاہر ہوا،
ایک نازک کونپل، اشعیا 53:‏2الف؛ یوحنا 11:‏48؛ مرقس 8:‏34۔37 .

2۔  دوئم، یسوع مسترد کیا گیا ہے کیونکہ وہ انسانوں پرخشک زمین سے پُھوٹتی جڑ کی
 مانند ظاہر ہوا تھا، اشعیا 53:‏2ب.

3۔  سوئم، مسیح کو مسترد کیاہے کیونکہ اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال، نہ اُس کی شکل و
 صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے،
اشعیا 53:‏2ج؛ مرقس 8:‏34۔37؛ 1۔کرنتھیوں 2:‏14 .