اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
چین – اور مصرف بیٹا (چینی وسط خزاں کے میلے میں دیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ |
آئیے اکٹھے کھڑے ہوں۔ اب آج شام میں چاہتا ہوں کہ آپ لوقا کی انجیل میں سے 15 باب کھولیں، اور آیت 11 سے پڑھنا شروع کریں۔ یہ سکوفیلڈ بائبل کے صفحہ نمبر 1097 پر ہے۔
’’اور پھر یُسوع نے کہا، کسی شخص کے دو بیٹے تھے: اُن میں سے چھوٹے نے اپنے باپ سے کہا، اَے باپ! جائداد میں جو حِصّہ میرا ہے مجھے دے دے۔ اُس نے جائداد اُن میں بانٹ دی۔ تھوڑے دِنوں بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا سارا مال ومتاع جمع کیا اور دُور کسی دُوسرے ملک کو روانہ ہو گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش و عشرت میں اُڑادی۔ جب سب کچھ خرچ ہوگیا تو اُس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا؛ اور وہ محتاج ہوکر رہ گیا۔ تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈ نے پہنچا؛ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُؤر کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا: لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ تب وہ ہوش میں آیا، اور کہنے لگا، میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے، لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہا ہوں! میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا، اور اُسے کہوں گا، اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں، اب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں: مجھے بھی اپنے مزدوروں میں شامل کرلے۔ پس وہ اُٹھا، اور اپنے باپ کے پاس چل دیا۔ لیکن ابھی وہ کافی دور تھا کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا، اور اُسے اُس پر بڑا ترس آیا۔ اُس نے دوڑ کر اُس گلے لگا لیا اور خوب پیار کیا‘‘ (لوقا 15:11۔20).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
بائبل کہتی ہے کہ یسوع کو سُننے کے لیے شرابی اور گنہگار لوگ آیا کرتے تھے۔ وہ اُن دِنوں کے بدترین لوگ ہوا کرتے تھے، بدترین گنہگار۔ اور مذہبی رہنما اِس بات کی شکایت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے، ’’یہ آدمی [یسوع] گنہگاروں کے ساتھ میل جول رکھتا اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا بھی ہے‘‘ (لوقا 15:2)۔ یہ اُن کی مذہبی روایت کے خلاف تھا کہ گنہگاروں کے ساتھ کھانا کھایا جائے۔ یسوع نے اُن کو تین تماثیل یا کہانیوں کے ذریعے سے جواب دیا۔ اُس نے اُنہیں کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل سُنائی۔ اُس نے اُنہیں کھوئے ہوئے سکّے کی تمثیل سُنائی۔ اور آخر میں اُس نے اُنہیں کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل سُنائی، یا جیسا کہ یہ مصرف بیٹے کی تمثیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ ڈاکٹر جان آر۔ رائس نے کہا،
جاپان کے شہر ٹوکیو کے شمال میں ایک قصبے میں مَیں ایک ترجمان کےذریعے سے اِس دل کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی کی تبلیغ کیا کرتا تھا، جس نے اپنے باپ کی عزت نہ کی (جاپانیوں میں یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے)، جو اپنے گھر سے راضی نہ تھا، جو بہت دور چلا گیا اور شراب میں دُھت ہو گیا... اپنے باپ کی دولت ضائع کی اور کنگال ہو گیا۔ وہ حیرانی کے ساتھ سُنتے تھے! مصرف بیٹے کی اِس تمثیل میں تنبیہہ اور التجا کس قدر آفاقی ہے! میں نے پایا کہ جاپان میں یہ ایک پرانی قدیم کہانی تھی، جیسا کہ یہ ہر سرزمین پر ہے جب سے کائن نے اپنے ماں باپ کا دِل توڑا (جان آر۔ رائس۔، ڈی۔ڈی۔، ’’دور کا مُلک یا باپ کا گھر،‘‘ بائبل کا باغ The Bible Garden، خُداوند کی تلوار اشاعت خانہ Sword of the Lord Publishers، 1982، صفحہ 268)۔
اِس تمثیل میں ہم بے شمار واقعات دیکھتے ہیں۔
I۔ اوّل، بیٹا گھر سے چلا گیا تھا۔
نوجوان آدمی نے اپنے حصے کی مانگ کی تھی۔ پھر اُس نے پیسہ لیا اور گھر چھوڑ دیا۔
’’ تھوڑے دِنوں بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا سارا مال ومتاع جمع کیا اور دُور کسی دُوسرے ملک کو روانہ ہو گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش و عشرت میں اُڑادی‘‘ (اعمال 15:13).
آدم سب سے پہلا تھا جو خُدا سے دور چلا گیا تھا۔ بائبل کہتی ہے، ’’ایک آدمی کے ذریعے سے گناہ دُنیا میں داخل ہوا‘‘ (رومیوں 5:12)۔ آدم نے خُدا کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اُس نے منع کیا ہوا پھل کھایا تھا، اور پھر باغ میں خُدا سے چُھپ گیا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں سے خُدا کو نکال دیا تھا اور باغِ عدن سے اِس دُنیا میں باہر نکالا گیا تھا۔ اُس نے وہ پیارا گھر چھوڑا تھا جو خُدا نے اُسے دیا تھا، اور ’’کسی دوسرے مُلک‘‘ میں چلا گیا۔
بابل کے بُرج پر، تمام نسل انسانی نے خُدا کے خلاف بغاوت کی تھی، اُنہوں نے کہا،
’’آؤ ہم اپنے لیے ایک شہر بسائیں اور اُس میں ایک ایسا بُرج تعمیر کریں جس کی چوٹی آسمان تک جا پہنچے؛ اور تاکہ ہمارا نام مشہور ہو، اور ہم تمام روئے زمین پر تتر بتر نہ ہوں‘‘ (پیدائش 11:4).
اُنہوں نے خُدا کے خلاف بغاوت کی تھی، اور اپنی زندگیوں کو اُس کے بغیر اپنی مرضی سے گزارنے کے بارے میں سوچا تھا۔ جس کے نتیجے میں، وہ ’’تمام روئے زمین پر تتر بتر ہوگئے‘‘ (پیدائش 11:9)۔ اُن میں سے کچھ بہت دور مشرق میں سفر کر گئے، اور چین میں، اور دوسری ایشیائی سرزمینوں پر بس گئے۔
شروع میں یہ چینی لوگ خُدا کے بارے میں جانتے تھے۔ وہ خُدا کو شینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ کہتے تھے۔ وہ اُس قدیم دور میں اب بھی ایک خُدا کو ماننے والے تھے۔ وہ ابھی تک صرف ایک خُدا پر یقین رکھتے تھے۔
آج ہم وسطِ خزاں کا میلہ منا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت قدیم میلہ ہے۔ یہ وقت میں بہت پیچھے چینی تہذیب کے آغاز تک چلا جاتا ہے۔ مگر شروع میں چینی چاند کے پوجا نہیں کرتے تھے۔ شروع میں وہ یقین نہیں کرتے تھے کہ چاند ایک خُدا تھا۔ وہ یقین کرتے تھے کہ آسمان کا بادشاہ شینگ ٹی وہ خُدا تھا جس نے چاند اور ستارے بنائے تھے۔لیکن جیسے جیسے صدیاں بیتتی گئیں، وہ خُدا سے دور اور دور ہوتے چلے گئے۔ بہت سے قصے کہانیوں نے جنم لیا جن کا بالاآخر نتیجہ چاند کی پرستش نکلا۔
ڈاکٹر جیمس لیگی (1815۔1897) Dr. James Legge، آکسفورڈ یونیورسٹی میں ادب اور چینی زباندانی کے ایک پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر لیگی کے مطابق، قدیم چینی چاند کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل میں چینی ایک خُدا کی پوچا کرتے تھے، جسے وہ شینگ ٹی (آسمان کا بادشاہ) کہتے تھے۔ ڈاکٹرلیگی نے شُن شہنشاہ Emperor Shun جس کا دورِحکومت 2207 قبل از مسیح ختم ہو گیا تھا کی ’’بنیادی قوائد و ضوبط کی کتاب Canon‘‘ میں سے حوالہ دیا۔ ’’شُن کی قانونی کتاب‘‘ نے کہا، ’’ ’وہ شینگ ٹی کے لیے خصوصی قربانی دیتا تھا، لیکن عام طریقوں کےساتھ‘، یعنی کہ ... خُدا کے لیے‘‘ (جیمس لیگی، پی ایچ۔ ڈی۔، چین کے مذاہب The Religions of China، ہوڈر اینڈ سٹُوگٹن Hodder and Stoughton، 1880، صفحات 24۔25)۔ قدیم زمانے میں چینی اور دوسرے ایشیائی لوگ صرف ایک خُدا شینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ کی پوجا کرتے تھے۔ یہ کنفوشیئس (551۔479قبل از مسیح) Confucius اور بُدھا (563۔483قبل از مسیح) Buddha کے پیدا ہونے سے 1,500 سال سے بھی کہیں پہلے کی بات ہے۔ بُدھ مت کے چین میں آنے سے صدیوں پہلے، لوگ ایک ہی خُدا کی پرستش کرتے تھے۔ ایک صرف ایک خُدا میں یقین رکھتےتھے۔ گزرتی صدیوں کے ساتھ مذید روحوں کا اضافہ ہوتا رہا اور پرستش کی جاتی تھی۔ لیکن اُس وقت بھی قدیم چینی تہذیب کا اعلٰی ترین درجے کا خُدا شینگ ٹی ہی رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ایشیائی لوگ شینگ ٹی، آسمان کے خُدا کو بھول گئے۔ اُنہوں نے دوسرے خُداؤں اور حتٰی کہ اپنے اباؤاجداد کی روحوں کی پرستش شروع کردی۔ بائبل کہتی ہے،
’’ اگرچہ وہ خدا کے بارے میں جانتے تھے لیکن اُنہوں نے اُس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی جس کے وہ لائق تھا۔ بلکہ اُن کے خیالات فضول ثابت ہوئے اور اُن کے ناسمجھ دلوں پر اندھیرا اچھا گیا۔ وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن بے وقوف نکلے۔ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی اِنسان اور پرندوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا‘‘ (رومیوں 1:21۔23).
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں جسے سکوفیلڈ بائبل ’’کافر دُنیا کے اِرتداد کے سات مراحل‘‘ کہتی ہے۔ دوسرے خُدا کے نا ماننے والوں کے ساتھ، چینی لوگ بھی ایک خُدا پر اپنے اصلی اعتقاد سے دور چلے گئے، اور بہت سے بتوں کی پوجا شروع کر دی۔ اُن میں سے کچھ بُت انسانوں کی مانند عکس رکھتے تھے۔ دوسرے بُت پرندوں، جانوروں اور ’’کیڑے مکوڑوں‘‘ کی مانند تھے۔ آخر کار، سینکڑوں سالوں بعد، انڈیا سے چین میں بُدھ مت کا مذہب آیا۔ بہت سے چینی لوگوں نے انڈیا سے اِس غیر ملکی مذہب کو قبول کیا اور بدھ مت کے پیروکار بن گئے۔ اب وہ اپنے بنائے ہوئے سینکڑوں بتوں کے ساتھ بُدھا کے عکس کی بھی پوچا کرتے تھے۔ اور وہ اب بُدھا کے عکس کی پوجا کے ساتھ ساتھ چاند اور ستاروں کی بھی پوجا کرتے۔ وہ آسمان کے بادشاہ شینگ ٹی کی پوجا سے گِر کر مکمل بُت پرستی میں گرفتار ہو گئے۔ مصرف بیٹے کی طرح، چینی لوگوں نے اپنا ’’سفر کسی دوسرے ملک‘‘ میں کیا، جو بابل کے بُرج سے بھی کہیں دور تھا، اور کافرانہ بُت پرستی کے اندھیروں میں گِرتے چلے گئے۔
شکرگزاری کے وقت کچھ اِس سے بہت ملتا جُلتا امریکہ میں رونما ہوا تھا۔ زائرین مسیحی تھے جو امریکہ مذہب کی آزادی کی تلاش میں آئے تھے۔ پہلی شکرگزاری کے موقع پر اُنہوں نے خُدا کی پرستش کی۔ اُنہوں نے خُدا کا اُنہیں خوراک مہیا کرنا اور حفاظت کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ یہ 1621 میں ہوا تھا۔لیکن آج، پہلی شکرگزاری کے تقریباً 400 سال گزرنے کے بعد، بہت سے امریکی شکر گزاری کے موقع پر خُدا کے بارے میں بالکل بھی نہیں سوچتے ہیں۔ کچھ امریکی سوچتے ہیں کہ ہم عجیب ہیں کیونکہ ہم شکرگزاری کے اِتوار کو گرجہ گھر جاتے ہیں۔ وہ مکمل طور پر بھول گئے ہیں کہ ابتدائی امریکی ہمیشہ شکرگزاری منانے کے لیے گرجہ گھر جاتے تھے۔ ’’شکرگزاری‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اِس بات کو ظاہر کرنے کے لیے کہ کوئی خُدا ہے جس کے مشکور ہوں اور عبادت کریں۔بہت سے امریکی تو لفظ ’’شکرگزاری‘‘ کو استعمال بھی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ اُنہیں یاد دِلاتا ہے کہ کوئی خُدا ہے جس کی اُنہیں شکر گزاری کرنی چاہیے۔ لہٰذا، وہ اِسے اب ’’ٹرکی کا دِن‘‘ کہتے ہیں۔ خُدا کو شکریہ ادا کرنے کے بجائے، اُن کے لیے یہ دِن اپنے آپ کو ٹی وی دیکھنے میں مصروف رکھنے، شراب پینے، اور ٹرکی کو ہڑپ کرنے میں گزارنا چاہیے۔ اِس لیے، یہ امریکی بالکل قدیم چینیوں کی مانند ہی ہیں۔
’’ اُنہوں نے خدا کی سچّائی کو جھوٹ سے بدل ڈالا اور خالق کی بہ نسبت مخلوقات کی پر ستش و عبادت میں زیادہ مشغول ہوگئے حالانکہ خالق ہی ابدتک حمدوستائش کےلائق ہے‘‘ (رومیوں 1:25).
دیکھا کیسے دُنیا کی کافر قومیں مصرف بیٹے کی مانند ہیں! ہم نے تمام اچھی چیزیں خُدا باپ سے جو اُس نے ہمیں دیں لے لی ہیں۔ ہم خُدا سے بہت دور جا چُکے ہیں اور اپنی زندگیاں ’’عیش و عشرت میں گزار کر‘‘ ضائع کر چکے ہیں۔
کیا آپ اِس کا حصہ ہیں؟ کیا آپ اُس خُدا سے جس نے آپ کو بنایا ہے بہت دور سفر کر چُکے ہیں؟ کیا آپ ’’کسی دوسرے مُلک‘‘ میں رہ رہے ہیں – خُدا سے بہت دور؟ اِس شام خُدا آپ کو اپنے پاس اپنے گھر میں بُلا رہا ہے۔ وہ آپ کو اپنے دِل میں یہ کہنے کے لیے بُلا رہا ہے،
میں خُدا سے بہت دور بھٹکتا رہا ہوں،
اب میں گھر آ رہا ہوں؛
میں بہت عرصہ گناہ کی راہوں پر چل چُکا ہوں،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
گھر آ رہا ہوں،گھر آ رہا ہوں،
کبھی مذید اور بھٹکنے کے لیے نہیں۔
تیرے پیار بھرے بازو کُھلے ہوئے ہیں،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
(’’اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں Lord, I’m Coming Home ‘‘
شاعر ولیم جے۔ کِرک پیٹرک William J. Kirkpatrick، 1838۔1821)۔
II۔ دوئم، بیٹا دُکھی ہو گیا تھا۔
’’ جب سب کچھ خرچ ہوگیا تو اُس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا؛ اور وہ محتاج ہوکر رہ گیا۔ تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈ نے پہنچا؛ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُؤر کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا: لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا ‘‘ (لوقا 15:14۔16).
مصرف بیٹا کسی دوسرے ملک اپنے جیبیں پیسوں سے بھر کر چلا گیا تھا۔ اُس کے کہلانے کو بہت سے دوست تھے – جب تک کہ پیسہ ختم نہیں ہوگیا۔ پھر اُس کے کہلائے جانے والے ’’دوست‘‘ اُس سے دور چلے گئے۔ وہ ’’اُس مُلک کے ایک باشندے کے پاس‘‘ کام ڈھونڈنے کے لیے پہنچا۔ میرا یقین ہے کہ یہ شیطان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بائبل شیطان کو ’’اِس دُنیا کا خُدا‘‘ کہتی ہے (2۔کرنتھیوں 4:4)۔ شیطان کا اِس موجودہ دُنیا پر اختیار ہے۔ کسی دِن اُس کو شکست ہوگی جب مسیح دوبارہ آئے گا۔ لیکن اِس وقت شیطان ’’اِس دُنیا کا خُدا ہے‘‘، ’’اُس مُلک کا ایک باشندہ‘‘۔ شیطان نے بلا شک و شبہ اُس سے ہر ایک چیز کا وعدہ کیا تھا۔ مگر شیطان ایک جھوٹا ہے۔ اُس کی مدد کرنے کے بجائے، شیطان نے اُسے سؤر چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہ اِس قدر فاقہ زدہ ہو گیا تھا کہ اُس نے وہ پھلیاں کھائیں جو اُن سؤروں کو کھانے کے لیے دی جاتی تھیں!
کیا ایسا ہی چین میں رونما نہیں ہوا تھا؟ چینی لوگوں نے مسیح کا پیغام مسترد کر دیا تھا جو مشنری اُن کے پاس لے کر آئے تھے۔ اُنہوں نے سینکڑوں مشنریوں کو باکسر کی بغاوت Boxer Rebellion کے دوران قتل کیا تھا – اور بعد میں چینیوں نے مذید کو قتل کیا تھا۔ زیادہ تر چینیوں نے مسیح کو مسترد کیا تھا۔ لیکن پھر ماؤ سی ٹُنگ Mao Tse Tung کا دور آیا۔ وہ ایک اشتراکیت پسند تھا جسے شیطان نے استعمال کیا تھا۔ چینی لوگ، مصرف بیٹے کے مانند، ’’اُس ملک کے باشندے کے پاس [خود] کام ڈھونڈنے کے لیے گئے۔‘‘ اشتراکیت پسندوں کے انقلاب کے بعد، اُنہوں نے سوچا کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن ماؤ نے [اُنہیں] اپنے کھیتوں میں سؤر چرانے کے لیے بھیج دیا‘‘ (لوقا 15:15)۔ اُن کی زندگیاں پہلے کی نسبت انتہائی دشوار گزار ہو گئیں۔ اشتراکیت پسندوں نے اُن سے ہر چیز کا وعدہ کیا، لیکن ثقافتی انقلاب کے دوران اُنہیں سختیوں اور دکھوں کے سوا کچھ نہ دیا۔
یہ آپ پر کس طرح لاگو ہوتا ہے؟ یہ بہت سادہ ہے۔ شیطان آپ کو اِس دُنیا میں کیا پیش کرتا ہے؟ بہت سے چینی لوگ امریکہ تعلیم حاصل کرنے اور بہتر زندگی پانے کے لیے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں امریکیوں کی مانند ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ یہ کس قدر شیطانی دھوکہ ہے! امریکیوں کے پاس کیا ہے؟ اُن کے پاس طلاق، منشیات، افراتفری، اور دُکھ ہیں۔ اُن کی تمام دولت اور پیسے نے زیادہ تر امریکیوں کو ایک خوشگوار زندگی بھی مہیا نہیں کی ہے۔ زیادہ تر امریکی پریشان ہیں، تنہا ہیں، اور آج نااُمید ہیں۔ کیا آپ واقعی یہ چاہتے ہیں؟
نااُمید زندگی سے فرار ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مسیح کے پاس آنے کا راستہ! صرف مسیح آپ کو بچا سکتا ہے اور اُمید کی زندگی دے سکتا ہے! گیت کہتا ہے،
میں نے بہت سے قیمتی سال گنوا دیے ہیں،
اب میں گھر آ رہا ہوں؛
میں اب شدید آنسوؤں کے ساتھ توبہ کرتا ہوں،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
گھر آ رہا ہوں، گھر آرہا ہوں،
کبھی مذید اور بھٹکنے کے لیے نہیں۔
تیرے پیار بھرے بازو کُھلے ہوئے ہیں،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
III۔ سوئم، بیٹے نے توبہ کی تھی۔
’’تب وہ ہوش میں آیا، اور کہنے لگا، میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے، لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہا ہوں! میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا، اور اُسے کہوں گا، اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں‘‘ (لوقا 15:17۔18).
’’تب وہ ہوش میں آیا‘‘ – ایک جدید ترجمہ اس کو یوں بیان کرتا ہے، ’’جب وہ اپنے حواس میں آیا۔‘‘ ایک گنہگار کو ’’اپنے حواس میں آنے کے لیے‘‘ خُدا کی روح چاہیے ہوتی ہے۔ خُدا کی روح اُسے اپنی ہولناک حالت کے بارے میں سوچنا شروع کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ وہ سوچتا ہے، میں یہاں اِن چیٹھڑوں اور غلاظت میں سؤروں کے ساتھ چرتا ہوا کیا کر رہا ہوں؟ میرے باپ کے ملازم مجھ سے کئی گنا بہتر ہیں۔ اُن کے پاس کھانے کو بہت ہے اور میں بھوکوں مر رہا ہوں۔‘‘ پھر اُس نے کہا، ’’ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا، اور اُسے کہوں گا، اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں‘‘ (لوقا 15:18)۔ اُس نےکہا، ’’میں نے خُدا کی نظر میں گناہ کیا ہے،‘‘ میں نے خُدا کے خلاف گناہ کیا ہے!
ماؤ سی ٹُنگ کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کی ہولناکیوں کے بعد، چین میں لوگوں نے ’’اپنے حواس میں آنا‘‘ شروع کر دیا تھا۔ بالاآخر اُنہوں نے دیکھنا شروع کر دیا تھا کہ آخر کار اُنہیں خُدا کی ضرورت تھی۔ تھوڑا تھوڑا کر کے، اُنہوں نے اپنے گناہوں پر توبہ کرنی شروع کر دی تھی۔ پہلے پہلے کچھ، اور بعد میں بہت سوں نے خُدا کو پانے کی چاہت شروع کر دی۔ وہ ’’گھر والے گرجوں‘‘ میں ملتے۔ وہ اپنے گناہوں پر روتے تھے۔ امریکی گرجہ گھر کے ارکان آج تقریباً کبھی بھی نہیں روتے اور چلاتے۔ لیکن چینی مسیحیوں نے اپنے گناہوں پر رونا اور ماتم کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خُدا کے لیے بہت بھوکے ہو گئے۔ جلد ہی ہزاروں توبہ کر رہے تھے اور یسوع کے لیے گھر آ رہے تھے۔ پھر وہاں ہزاروں لاکھوں ہو گئے۔ جب غیر ملکی مشنریوں نے چین کو 1949 میں چھوڑا تھا، وہاں ایک ملین سے کم مقامی چینی مسیحی تھے۔ آج یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 120 ملین سے زیادہ لوگ چین میں مسیحی ہو چکے ہیں۔ یہ حیرت انگیز ہے! ہفتے کے ساتوں دِن، رات اور دِن، ہر گھنٹے تقریباً 700 لوگ چین میں مسیحی ہو رہے ہیں۔ آج تمام دُنیا میں چین مسیحیت کے عظیم ترین دھماکے کا تجربہ کر رہا ہے! یہ گذشتہ 2,000سالوں میں مسیحیت کا عظیم ترین حیاتِ نو ہے! اِس کے لیے خُداوند کی ستائش ہو!
خُداوند کی ستائش ہوجس سے تمام برکات نکلتی ہیں؛
یہاں نیچے تمام مخلوقات اُس کی ستائش کرو؛
اے آسمانی میزبان، اوپر اُس کی ستائش ہو؛
باپ، بیٹے اور پاک روح کی ستائش ہو! آمین۔
(’’خُدا کے جلال کے لیے حمد The Doxology‘‘ شاعر تھامس کین Thomas Ken، 1637۔1711)
IV ۔ چہارم، باپ نے بیٹے کو خوش آمدید کیا تھا۔
’’ پس وہ اُٹھا اور اپنے باپ کے پاس چل دیا۔ لیکن ابھی وہ کافی دور تھا کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا اور اُسے اُس پر بڑا ترس آیا۔ اُس نے دوڑ کر اُس گلے لگا لیا اور خوب پیار کیا‘‘ (لوقا 15:20).
’’وہ اُٹھا اور اپنے باپ کے پاس چل دیا۔‘‘ اور اُس کے باپ نے اُسے کُھلی بانہوں کے ساتھ قبول کیا، ’’اور اُسے چوما۔‘‘ جب وہ گھر کی طرف آ رہا تھا، اُس کا باپ اُس کی راہ تک رہا تھا۔ یہ خُدا کی ایک تصویر ہے۔ جب آپ مسیح کے وسیلے سے خُدا کے لیے آتے ہیں، تو آپ پائیں گے کہ وہ تمام وقتوں سے آپ کے لیے انتظار کر رہا تھا! بائبل کہتی ہے، ’’ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی منائی جائے گی‘‘ (لوقا 15:7)۔ اگر آپ یہ جانتے کہ ایک شخص کے خُدا کے پاس واپس آنے پر آسمان میں خوشی منائی جاتی ہے، تو میرا یقین ہے کہ یہ آپ کو متاثر کرے گا کہ آپ مسیح کو قبول کریں، جیسا کہ اِس شام چین میں موجود لوگ کر رہے ہیں۔
خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرنے کے لیے بھیج دیا۔ اور مسیح نے اپنا خون اُس صلیب پر ہمارے تمام گناہ دھونے کے لیے بہا دیا۔ بائبل کہتی ہے، ’’یسوع مسیح دُنیا میں گنہگاروں کو بچانے کے لیے آیا‘‘ (1۔تیموتاؤس 1:15)۔ اور مسیح جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور آسمان میں اُٹھایا گیا، ایک اور وسعت میں ۔ وہ وہاں ہے، آپ کے لیے دعا کر رہا ہے، اور آپ کا انتظار کر رہا ہے کہ اُس کے پاس آئیں اور گناہ، موت اور جہنم سے بچائے جائیں۔ وہ آپ کے گناہ معاف کر دے گا، اور وہ آپ کو دائمی زندگی دے گا۔ ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ آپ اُس کے بیٹے خداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرنے کے وسیلے سے گھر آ جائیں گے! ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ وہ محسوس کریں جو اُس پرانے گیت میں کہا گیا،
خُداوند، میں گناہ اور بھٹکنے سے تھک گیا ہوں،
اب میں گھر آ رہا ہوں۔
میں تیرے پیار پر بھروسہ کروں گا، تیرے کلام پر یقین کروں گا،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
گھر آ رہا ہوں، گھر آرہا ہوں،
کبھی مذید اور بھٹکنے کے لیے نہیں۔
تیرے پیار بھرے بازو کُھلے ہوئے ہیں،
اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
سٹیوآرٹ ہیمبلن Stuart Hamblen ایک میتھوڈسِٹ مبلغ کا بیٹا تھا۔ اُس نے گرجہ گھر میں پرورش پائی تھی۔ لیکن جب وہ بڑا ہوا تو اُس نے گھر چھوڑ دیا اور خُدا سے بہت دور چلا گیا تھا۔ وہ ہالی ووڈ میں مُلک کا ایک امیر اور مشہور گلوکار بنا تھا۔ وہ جنوبی کیلیفورنیا میں جہاں اُس کا بہت ’’شاندار اثرو رسوخ‘‘ ہے، ہر روز ایک ریڈیو پروگرام نشر کرتا ہے (ہمارے دور میں حیاتِ نو Revival in Our Time ، اُس نے گناہ کی زندگی گزاری تھی، خُدا کے بغیر، مسیح کے بغیر۔ لیکن ایک رات 1949 میں اُس کی مسیحی بیوی اُسے ایک انجانے نوجوان مبشرِ انجیل بنام بلی گراہم کو سُننے کے لیے لائی۔ عبادت ایک بہت بڑے خیمے میں ہوئی تھی، یہیں لاس اینجلز کے وسطی قصبے میں، جو واشنگٹن اور ھِل سٹریٹ کے کونے میں ہے۔ اُس رات سٹیوآرٹ ہیمبلن یسوع کے پاس آیا تھا اور اُس نے نجات پائی تھی۔ چند ایک مہینوں کے بعد اُس نے اُس گیت کے الفاظ لکھے جو مسٹر گریفتھ ایک ایک لمحہ پہلے گایا تھا۔
وقت کی گھنٹیاں خبر دے رہی ہیں، ایک اور دِن گزر گیا۔
کوئی پھسلا اور گرا، کیا وہ کوئی تم تھے؟
آپ نے اضافی قوت چاہی ہوگی، اپنے حوصلے کو دوبارہ نیا کرنے کے لیے،
دِل چھوٹا مت کرو، تمہارے لیے میرے پاس خبر ہے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ خُدا کیا کر سکتا ہے،
جو اُس نے دوسروں کے لیے کیا، تمہارے لیے بھی کرے گا۔
گلے لگا لینے کے لیے وہ تمہیں معاف کر دے گا
یہ کوئی راز نہیں کہ خُدا کیا کر سکتا ہے۔
(’’یہ کوئی راز نہیں It Is No Secret ‘‘ شاعر سٹُوآرٹ ہیمبلن Stuart Hamblen، 1908۔1989)۔
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اِس شام خُدا آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ آپ اُس کے بیٹے یسوع کے پاس آئیں گے اور بچائے جائٰیں گے! تاریخ کے اِس لمحے میں ہزاروں لاکھوں لوگ عوامی جمہوریہ چین میں یسوع کے لیے گھر آ رہے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ اُن کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ یسوع آپ کے گناہوں کو معاف کرے گا اور خُدا کے ساتھ امن و سکون دے گا۔
اگر مسیحی بننے میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے عبادت کے بعد موجود ہوں۔یا آپ مجھے اگلے ہفتے فون کر سکتے ہیں۔ میرا فون نمبر ہماری ویب سائٹ www.realconversion.com کے سامنے ہی درج ہے۔ اور آپ چاہے کچھ بھی کریں، اگلے اِتوار اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ گرجہ گھر کے لیے واپس آئیں گے! آئیے دعا کے لیے کھڑے ہو جائیں (فضل)۔
’’چاند کیک – اور خُدا جس نے چاند کو بنایا!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
’’خُدا کیوں چین کو نعمتیں عطا کر رہا ہے – لیکن امریکہ کو فیصلے!‘‘ پڑھنے کے لیے
یہاں کلِک کیجیے
’’چین میں کامیابی کا راز‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
’’چین – دروازہ کھلا ہے!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
’’چین – پر خدا کی رُوح کی مُہر!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
’’چین – وہ مشرق کی طرف سے آئیں گے!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
’’چین میں شکرگزاری۔‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’یہ راز نہیں ہے It Is No Secret‘‘ (شاعر سٹوآرٹ ہیمبلن Stuart Hamblen، 1908۔1989)۔
چین – اور مصرف بیٹا (چینی وسط خزاں کے میلے میں دیا گیا ایک واعظ) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’اور پھر یُسوع نے کہا، کسی شخص کے دو بیٹے تھے: اُن میں سے چھوٹے نے اپنے باپ سے کہا، اَے باپ! جائداد میں جو حِصّہ میرا ہے مجھے دے دے۔ اُس نے جائداد اُن میں بانٹ دی۔ تھوڑے دِنوں بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا سارا مال ومتاع جمع کیا اور دُور کسی دُوسرے ملک کو روانہ ہو گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش و عشرت میں اُڑادی۔ جب سب کچھ خرچ ہوگیا تو اُس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا؛ اور وہ محتاج ہوکر رہ گیا۔ تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈ نے پہنچا؛ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُؤر کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا: لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ تب وہ ہوش میں آیا، اور کہنے لگا، میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے، لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہا ہوں! میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا، اور اُسے کہوں گا، اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں، اب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں: مجھے بھی اپنے مزدوروں میں شامل کرلے۔ پس وہ اُٹھا، اور اپنے باپ کے پاس چل دیا۔ لیکن ابھی وہ کافی دور تھا کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا، اور اُسے اُس پر بڑا ترس آیا۔ اُس نے دوڑ کر اُس گلے لگا لیا اور خوب پیار کیا‘‘ (لوقا 15:11۔20). (لوقا 15:2) I. اوّل، بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا، لوقا 15:13؛ رومیوں 5:12؛
پیدائش 11:4، 9؛ II. دوئم، بیٹا بہت دُکھی ہو گیا تھا، لوقا 15:14۔16؛ 2۔کرنتھیوں 4:4 ۔ III. سوئم، بیٹے نے توبہ کی تھی، لوقا 15:17۔18 . IV. چہارم، باپ نے بیٹے کو خوش آمدید کیا تھا، لوقا 15:20، 7، 1۔تیموتاؤس 1:15 . |