Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

انسان کی تنہائی کے لیے خُدا کا عِلاج

GOD’S CURE FOR MAN’S LONELINESS
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
16 ستمبر، 2012، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, September 16, 2012

میں تیئس سالوں تک لاس اینجلز کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کا ایک رُکن تھا۔ چینی گرجہ گھر میں میرے پادری ڈاکٹر ٹیموٹھی لِن Dr. Timothy Lin تھے۔ وہ باب جونز یونیورسٹی سے بائبل کی زبانوں اور علمِ الہٰیات کی تدریس چھوڑ کر یہاں گرجہ گھر آئے تھے۔ بہت سی باتیں جو آج میں جانتا ہوں مجھے ڈاکٹر لِن نے اُس چینی گرجہ گھر میں سیکھائی تھیں، جیسا کہ یہ کبھی تھا۔ ڈاکٹر لِن نے مجھے تبلیغ کے بارے میں بہت کچھ سیکھایا۔ اُنہوں نے کہا،

      پادریوں سے متعلق تمام ذمہ داریوں میں سے، سب سے مشکل اور دشوار کام یہ جاننا ہے، بغیر کسی شک کے، کہ اُسے ہر روز خُدا کے پیغام کی تبلیغ کے لیے عزم کرنا ہوتا ہے... کبھی کبھی جمعرات تک، جس پیغام کی تبلیغ کرنی ہوتی ہے وہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہوتا ہے۔ اگر [وہ] ایسا معاملہ ہو، پھر پادری کو جذبۂ شوق کے ساتھ دعا کرنی اور روزہ رکھنا چاہیے… جیسے ہی ہم دعا کرنا اور روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ہماری روحانی آگاہی پر سے اکثر رکاوٹیں ہٹ جاتی ہیں، اور جو پیغام خُدا چاہتا ہے شیشے کی مانند واضح ہو جائے گا۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربات سے بتا رہا ہوں (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔، گرجہ گھر کے بڑھنے کا راز The Secret of Church Growth، پہلا چینی بپتسمہ دینے والا گرجہ گھر، 1992، صفحہ 23)۔

حال ہی میں خُدا ہم سے بہت اچھا رہا ہے۔ اُس نے بغیر کسی مشک کے مجھے ایک کے بعد دوسرا واعظ دیا۔ اِتوار کی صبح، اور اِتوار کی شام کو، اور یہاں تک کہ ہفتہ کی شب کو کیا تبلیغ کرنی ہے اِسے جاننا میرے لیے بہت آسان ظاہر ہوتا ہے! کچھ پادری مجھے کہہ چُکے ہیں، ’’آپ کیسے تین مختلف واعظ ہر ہفتے کر سکتے ہیں، اور اِسکے باوجود لوگوں کی توجہ بھی مرکوز رکھتے ہیں؟‘‘ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ خُدا ہی کے فضل سے ہوتا ہے! میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ جاننا کہ کیا تبلیغ کرنی ہے اتنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ہم ہر ہفتے کے دِن دعا کر رہے اور روزہ رکھ رہے ہیں۔ ہر ہفتے کے دِن روزہ رکھنے اور دعا کرنے سے مجھے خُداوند کی برکات حاصل ہوتی ہیں، اور کیا تبلیغ کرنی ہے یہ جاننا میرے لیے آسان ہو جاتا ہے!

یہی گذشتہ ہفتے ہوا تھا۔ میں نے اِتوار کی شام کے واعظ پر کافی زیادہ وقت صرف کیا تھا۔ اِس کے باوجود مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اِتوار کی صبح کیا تبلیغ کرنی تھی۔ لیکن خُدا مجھے یہ کہتا ہوا ظاہر ہوتا ہے، ’’فکر مت کرو۔ جیسے ہی تم شام کے واعظ کو لکھنا ختم کرو گے، میں تمہیں دکھاؤں گا کہ اِتوار کی صبح کیا تبلیغ دینی ہے۔‘‘ خُدا کی ستائش ہو! بالکل یہی تھا جو ہوا!

جیسے ہی میں نے اِتوار کی شام کا واعظ لکھنا ختم کیا، خُدا نے مجھے دکھا دیا کہ اِس صبح کیا بولنا ہے۔ یہ یوں ہوا تھا۔ میں نے شام کا واعظ لکھنا ختم کیا اور اپنے سامنے کے کمرے میں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے چلا گیا۔ میں عموماً جب دوپہر کا کھانا کھاتا ہوں تو فوکس والوں کی خبریںFox News دیکھتا ہوں۔ اِس لیے میں نے ٹیلی وژن چلا دیا۔ ناجانے کیسے وہ کسی اور چینل پر لگا جو میں کبھی نہیں دیکھتا۔ لیکن جب میں نے اِسے چلایا، جارج بِیورلی شیا George Beverly Shea گا رہا تھا،

وقت کی گھنٹیاں خبر دے رہی ہیں، ایک اور دِن گزر گیا۔
   کوئی پھسلا اور گرا، کیا وہ کوئی تم تھے؟
آپ نے اضافی قوت چاہی ہوگی اپنے حوصلے کو دوبارہ نیا کرنے کے لیے،
   دِل چھوٹا مت کرو، تمہارے لیے میرے پاس خبر ہے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ خُدا کیا کر سکتا ہے، جو اُس نے دوسروں کے لیے کیا، تمہارے لیے بھی کرے گا؛
   گلے لگا لینے کے لیے وہ تمہیں معاف کر دے گا، یہ کوئی راز نہیں کہ خُدا کیا کر سکتا ہے۔
(’’یہ کوئی راز نہیں It Is No Secret ‘‘ شاعر سٹُوآرٹ ہیمبلن Stuart Hamblen، 1908۔1989)۔

میری بیوی مسٹر شیا Mr. Shea کو گاتا ہوا سُننے کے لیے بیٹھک میں چلی آئیں۔ پھر بِلی گراہن آیا اور تبلیغ شروع کر دی۔ یہ ایک پُرانی ویڈیو تھی جو 1988 میں کولوراڈوColorado کی شہر ڈینورDenver میں بنی تھی۔ جب میں نے ٹی وی چلایا تھا تو میں اِس کے بارے میں جانتا تک نہیں تھا۔ مسٹر گراہم نے تنہائی پر اپنا عظیم واعظ دینا شروع کیا۔ اُسی وقت اِس صبح اِسی موضوع پر تبلیغ کرنے کے لیے خُدا نے مجھے بتایا! اِس کی تائید اُس وقت ہو گئی جب میری بیوی نے مجھے کہا، ’’اگلی اِتوار کی صبح آپ کو اِس موضوع پر تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مسز ہائیمرز بہت کم ہی مجھے گرجہ گھر میں کیا کرنا ہے کے لیے کہتی ہیں – بہت ہی شاذ و نادر۔ جب وہ کہتی ہیں، میں ہمیشہ اُن کی سُنتا ہوں۔ میں نے پایا ہے کہ جب وہ ایسا کرتی ہیں تو وہ ہمیشہ درست ہوتی ہیں۔ اِس لیے، تنہائی پر مسٹر گراہم کے مشہور واعظ کی یہ میری تاویل ہے۔

مہربانی سے کھڑے ہو جائیے اور میرے ساتھ زبور 102:6۔7 کھولیے۔

’’میں بیابان کا ایک قسم کے ماہی خور پرندے کی مانند ہوں: میں بیابان کے اُلّوکی مانند ہوں جو کھنڈروں میں پایا جاتا ہے۔ میں پڑا جا گتا رہتا ہُوں، اور اُس چڑیا کی مانند ہوں جو چھت پر اکیلی ہو‘‘ (زبور 102:6۔7).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر جان گِل Dr. John Gill (1697۔1771) نے اُن آیات پر ایک اچھی رائے دی تھی۔ اُنہوں نے کہا،

      یہودیوں کے گھروں پر اُن کی چھتیں ہموار ہوتی تھیں، اور یہاں تنہائی کے پرندے آتے اور راتوں کو تنہائی میں بیٹھتے تھے، جن کے ساتھ زبور نویس اپنا [موازنہ] کرتا ہے؛ یا تو جان پہچان والوں اور دوستوں سے جُدا ہو گیا ہوا؛ یا، [اُداس اور تنہا] حالات میں، وہ تنہا رہنے کو چُنتا ہے، اپنی اُداسی سے بھرپور کیفیت اور حالت پر ماتم کرتا ہوا (جان گِل، ڈی۔ڈی۔، پرانے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the Old Testament، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، 1989 دوبارہ اشاعت، جلد چہارم، صفحہ 127؛ زبور 102:6۔7 پر ایک یاداشت)۔

’’میں بیابان کا ایک قسم کے ماہی خور پرندے کی مانند ہوں: میں بیابان کے اُلّوکی مانند ہوں جو کھنڈروں میں پایا جاتا ہے۔ میں پڑا جا گتا رہتا ہُوں، اور اُس چڑیا کی مانند ہوں جو چھت پر اکیلی ہو‘‘ (زبور 102:6۔7).

بہت سے لوگ ایسے محسوس کرتے ہیں – اتنا ہی تنہا جتنا کہ بیابان میں ایک ماہی خور پرندہ، یا ریگستان کا ایک الّو۔ آج کالج کی عمر کے نوجوان لوگوں کو جو اِتنا ہی تنہا محسوس کرتے ہیں جتنا چھت پر ایک چڑیا پانا ایک عام سی بات ہے۔ میں چوّن سالوں سے ہائی سکول کی عمر کے اور کالج کی عمر کی نوجوان لوگوں کے لیے منادی کر چکا ہوں۔ میں نے پایا ہے کہ بہت سے نوجوان لوگ اپنے اندر ایک درد بھر ی تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ ایک نوجوان نے کہا،

      میں کسی کے لیے خاص ہونا چاہتا ہوں، لیکن کوئی بھی نہیں ہے جو میری پرواہ کرتا ہو۔ میں کسی کو مجھے چھوتا ہوا، میری طرف ہنستا ہوا، یا میرے ساتھ رہنے کی چاہت کرتا ہوا یاد نہیں کرسکتاہوں... میں اِس قدر تنہا ہوں کہ میں اِسے مذید برداشت نہیں کر سکتا ہوں (جوش میکڈوّل Josh McDowell کا اقتباس، منقطع شُدہ نسل The Disconnected Generation، ورڈWord ، 2000، صفحہ 11)۔

آج ہزاروں لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں۔ ایک جانے مانے نفسیات دان، ڈاکٹر لیونارڈ ذونن Dr. Leonard Zunin نے کہا، ’’نسلِ انسان کا بدترین مسئلہ ہے۔‘‘ سند یافتہ ماہرِ تحلیل نفسی ایرک فروم Erich Fromm نے کہا، ’’انسان کی گہری ترین ضرورت اُس کی جُدائی پر قابو پانا ہے، اپنی تنہائی کے قید خانے کو چھوڑنا ہے۔‘‘

اور نوجوان لوگوں کے لیے لاس اینجلز جیسے بڑے شہر کے مقابلے میں کوئی اور جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ مصنف ہربرٹ پروخنو Herbert Prochnow نے کہا، ’’شہر ایک بہت بڑی برادری ہے جہاں لوگ ہجوم میں بھی اکیلے ہیں۔‘‘ ایک چینی طالب علم نے ایک دفعہ کہا تھا، ’’مجھے کوئی نہیں سمجھتا ہے۔ صبح میرے اُٹھنے کے لمحے سے لیکر، جب تک میں رات کو بستر میں نہیں چلا جاتا، میں تنہا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ کیا آپ نے ایسا کچھ کبھی محسوس کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ کوئی آپ کی پرواہ نہیں کرتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ کوئی آپ کو سمجھتا، یا آپ سے ہمدردی نہیں کرتا ہے؟ کیا آپ نے جب آپ ہجوم میں ہوتے ہیں خود کو کبھی تنہا محسوس کیا؟ میں نوجوان لوگوں کو کہتے ہوئے سُن چُکا ہوں کہ وہ شاپنگ سنٹر میں چہل قدمی کے لیے جاتے ہیں، محض دوسرے لوگوں کے ساتھ ہونے کے لیے۔ لیکن اِس سے مدد نہیں ملتی ہے! وہ خوش لوگوں کے ہجوم میں تنہا محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے ہنستے اور مذاق کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی تنہائی کے قیدخانے سے فرار نہیں ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر لِن نے اکثر ’’نوجوانوں کی تنہائی‘‘ پر بات کی۔ اُنہوں نے اِسے بہت اچھی طرح سے سمجھا تھا اور اِس کے بارے میں اِس قدر بات کی، کہ میں جانتا ہوں یہ وہ کچھ ہے جو اُنہوں نے کبھی محسوس کیاتھا ۔ اُنہوں نے ضرور بہت تنہا محسوس کیا ہوگا جب وہ گھر سے بہت دور تھے، چین کے کالج میں پڑھ رہے تھے، جب وہ نوجوان تھے۔ آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیاہے؟ کیا آپ نے کبھی تنہا اور غیر مطلوب محسوس کیا؟

نوبل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے Ernest Hemingway (1899۔1961) کے پاس وہ سب کچھ تھا جسے پیسہ خرید سکتا تھا۔ جان کینیڈی نے اُنہیں ریاست ہائے متحدہ کے اپنے صدر بننے کی افتتاحی تقریب پر بولنے کے لیے مدعو کیا۔ لیکن ہیمنگوے اُس کے لیے پہنچ نہیں سکے کیونکہ وہ ذہنی دباؤ میں تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس قدر تنہا تھے کہ اُنہوں نے ’’ریڈیو میں جلی ہوئی ٹیوب‘‘ کی مانند محسوس کیا۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد اُنہوں نے خود کشی کر لی تھی۔ جب میں اور میرا خاندان فلوریڈا کے شہر کی ویسٹ میں تھے، ہم نے اُس گھر کا دورہ کیا تھا جہاں اُنہوں نے اپنے ناولوں اور چھوٹی کہانیوں کا 75 % کام لکھا تھا۔ جس دوران عیلیانہ اور لڑکے کہیں اور گئے، میں واپس ہیمنگوے کے گھر آوارہ گردی کرتے ہوئے پہنچا۔یہ دوپہر کا آخر تھا۔ یہ ایک سنسنی خیز تجربہ تھا۔ یوں ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے اُس گھر کو ذہنی دباؤ اور تنہائی ہی کے لیے وقف کر دیا گیا تھا۔ میں نے بالکل آسیب زدہ محسوس کیا، ایک ایسی جگہ جہاں اُمید اور خوشی کا وجود ہی نہ ہو، اور انسان تنہائی سے پاگل ہو جائے۔ کچھ سالوں کے بعد، آئی ڈاہو Idahoکے شہر کیٹچمKetchum میں ہیمنگوے نے اپنی بھنوں سے اوپر اپنے سر کی کھوپڑی کو شاٹ گن رکھ کر اُڑا دیا۔ ہم بھی وہیں کیٹچم ہی میں تھے، ایک سال جب ہم چُھٹیوں پر تھے۔ اور دوبارہ میں تنہائی کے آسیبوں کو محسوس کر سکا جنہوں نے اُس کا پیچھا کیا تھا، اور بالاآخر اُسے مار دیا تھا۔ اُن کی سوانح حیات لکھنے والوں میں سے ایک نے کہا، ’’اُن کی موت اپنے تمام خونی بھیانک پن کے ساتھ ناقابلِ فراموش رہتی ہے‘‘ (کینتھ ایس۔ لئن Kenneth S. Lynn، ہیمنگوے، ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 1987، صفحہ 593)۔ میں خود بھی کبھی اُسے بُھلا نہیں پایا ہوں۔

کیا آپ جانتے ہیں کے پچیس سال سے کم عمر کے نوجوان لوگوں میں خودکشی سے مرنا دوسرے نمبر پر ہے؟ ہائی سکول میں میرا ایک دوست تھا جس نے اپنے آپ کو ایسے ہی مارا تھا جیسے ارنسٹ ہیمینگوے نے اپنے آپ کو مارا تھا۔ اُس نے اپنے آپ کو سر میں گولی مار لی تھی۔ بعد میں اُس کی ماں نے بتایا تھا کہ میں اُس کا واحد دوست تھا۔ یہ میرے ضمیر کو سالوں تک تڑپاتا رہا تھا، کیونکہ میں اُس کی مدد کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہ کر سکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں نے اُسے مارا کیونکہ میں اُسے کبھی گرجہ گھر لے کر نہیں گیا تھا۔ مہربانی سے آپ بھی وہی غلطی نہ کیجیے گا جو میں نے کی۔ اپنے ہر دوست کو خوشخبری سُننے کے لیے لائیں! میں دہراتا ہوں – اپنے ہر دوست کو خوشخبری سُننے کے لیے گرجہ گھر لے کر آئیں! پھر آپ کو کبھی کوئی پشیمانی نہیں ہوگی! ’’آج کسی کی مدد کرو۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!
   (’’آج کسی کی مدد کرو Help Somebody Today‘‘ شاعر کیری ای۔ بریَک
     Carrie E. Breck، 1855۔1934؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔

میرے دوست ڈاکٹر جان ایس۔ والڈرِپ Dr. John S. Waldrip ایک پادری ہیں۔ جب وہ نوجوان تھے اُنہوں نے کہا،

      میں ایک رات کے ہالے میں تھا جو نوجوان عورتوں اور آدمیوں سے لبریز تھا۔ میں وہاں کھڑا تھا، ایک پُرہجوم کمرے میں، ہر کسی سے مکمل طور پر کٹا ہوا اور تنہا... ہم اپنے لائحہ عمل کو دیوار در دیوار واقعات کے ساتھ بھر رہے تھے... لیکن تمام کاروائیوں کے باوجود، ہم بہت کم دوسروں کے ساتھ گہرا لگاؤ کر پاتے۔ ہم دوست بنانے کے مقابلے میں شناساؤں کا ایک سماج بن چُکے ہیں (جان ایس۔ والڈرِپ، ٹی ایچ۔ ڈی۔، تنہا دِل کے لے علاج Cure for the Lonely Heart، ‘‘ 2مئی، 2004)۔

حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اِس قدر لوگ زبور نویس کی مانند محسوس کرتے ہیں!

’’میں بیابان کا ایک قسم کے ماہی خور پرندے کی مانند ہوں: میں بیابان کے اُلّوکی مانند ہوں جو کھنڈروں میں پایا جاتا ہے۔ میں پڑا جا گتا رہتا ہُوں، اور اُس چڑیا کی مانند ہوں جو چھت پر اکیلی ہو‘‘ (زبور 102:6۔7).

’’آج کسی کی مدد کرو۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!

لیکن خُدا آپ کو تنہا نہیں چاہتا ہے۔ باغِ عدن میں خُدا نے کہا، ’’آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں‘‘ (پیدائش 2:18)۔ مسیحی شاعر جان مِلٹن John Milton (1608۔1674) نے کہا، ’’تنہائی پہلی بات تھی جسے خُدا کی نظر نے اچھی بات نہیں مانا تھا۔‘‘ یہ آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا یہ اُس وقت تھا۔ خُدا آپ کو تنہا نہیں چاہتا ہے۔ اُس نے کہا، ’’یہ اچھا نہیں کہ انسان اکیلا رہے‘‘ – یا عورت بھی! اِسی لیے خُدا نے تنہائی کے لیے دو عِلاج مہیا کیے۔

I ۔ اوّل، خُدا نے آپ کے روحانی تنہائی اور بیگانگی کے علاج کے لیے اپنے بیٹے کو صلیب پر مرنے کے لیے بھیجا۔

جب ہمارے پہلے والدین نےگناہ کیا، وہ ایک دم خُدا سے بیگانہ ہو گئے تھے، خُدا سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ آدم نے اپنے آپ کو خُدا سے چُھپا لیا تھا (پیدائش 3:10)۔ آدم اور اُس کی بیوی کو باغِ عدن سے اُن کے گناہ کے سبب نکالا گیا تھا۔ وہ خُدا کی رفاقت سے علیحدہ کر دیے گئے تھے۔ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ اُن کی گنہگار طبیعت تمام نسلِ انسانی میں منتقل ہو گئی تھی۔ اِس لیے خُدا آپ کو غیر حقیقی محسوس ہوتا ہے۔ گناہ آپ کو خُدا سے علیحدہ کر دیتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’تمہاری بدکاری نے تمہیں اپنے خدا سے دُور کر دیا ہے، اور تمہارے گناہوں نے اُسے تُم سے ایسا رُوپوش کیا کہ وہ سُنتا نہیں‘‘ (اشعیا 59:2).

یہاں تک کہ آج بھی، لوگ دُنیا میں خُدا اور اُمید کے بغیر آوارہ گردی کرتے ہیں۔ دہریے ایچ۔ جی۔ ویلز H. G. Wells (1866۔1946) نے کہا، ’’میں پینسٹھ برس کا ہوں اور میں تنہا ہوں اور کبھی امن نہیں پایا۔‘‘ لیکن خُدا آپ کو ایسی حالت میں نہیں چاہتا ہے۔ خُدا آپ کو رفاقت میں بحال کرنا چاہتا ہے۔ اِسی لیے اُس نے یسوع کو صلیب پر مرنے کے لیے بھیجا، تاکہ آپ کے گناہوں کو معافی مل سکے اور آپ خُدا کے لیے بحال ہو جائیں۔ بائبل کہتی ہے،

’’اُس کے بیٹے کی مَوت کے وسیلہ سے ہماری اُس سے صلح ہوگئی تو صلح ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے‘‘ (رومیوں 5:10).

جب آپ یسوع مسیح کے پاس ایمان کے ساتھ آتے ہیں، تو آپ کے گناہوں کو آپ کی جگہ پر یسوع کے صلیب پر مرنے سے معافی مل جاتی ہے – اور آپ کی خُدا سے صُلح ہو جاتی ہے! اور یسوع جسمانی طور پر مُردوں میں سے آپ کو دائمی زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا۔ ایمان کے ساتھ یسوع کے پاس آئیں اور وہ آپ کو گناہ اور خُدا سے بیگانگی سے بچائے گا۔ میں آپ میں سے کسی کے ساتھ بھی جو یسوع پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے اور نجات پانا چاہتا ہے بات کرنے کے لیے دستیاب ہوں۔ ’’آج کسی کی مدد کرو۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!

II۔ دوئم، خُداوند نے ہمیں اپنی جذباتی تنہائی کے علاج کے لیے مقامی گرجہ گھر دیا ہے۔

میں یقین نہیں کرتا کہ خُدا آپ کو بچانا چاہتا ہے،اور پھر آپ کو تنہا اِس سرد مہر اور غیر دوستانہ دُنیا میں چھوڑ دے۔ مجھے بلی گراہم کے واعظ کا حصہ اچھا لگا تھا۔ لیکن میں نہیں سوچتا اُنہوں نے کافی کچھ کہا تھا۔ اُنہوں نے خُدا سے تنہائی اور روحانی بیگانگی سے بچنے کے لیے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن اُنہیں زیادہ کہنے کی ضرورت تھی۔ اُنہیں کہنے کی ضرورت تھی کہ مسیح بھی اپنی کلیسا بنانے کے لیے آیا تھا، آپ کو جذباتی تنہائی سے نجات دلانے کے لیےآیا تھا۔ مسیح نے کہا،

’’ میں اپنی کلیسیا قائم کروں گا؛ اور مَوت بھی اُس پر غالب نہ آنے پائے گی‘‘
       (متی 16:18).

خُدا مقامی گرجہ گھر کو رفاقت اور خوشی کی ایک جگہ کے طور پر پیش کرتا ہے – جہاں آپ کی جذباتی تنہائی کا علاج ہو سکتا ہے۔ ’’ آج کسی کی مدد کرو۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!

جب آپ ہائی سکول یا کالج سے تعلیم مکمل کرتے ہیں تو ہر کوئی کہتا ہے، ’’رابطے میں رہیے گا‘‘ یا ’’میں جلد ہی آپ کو دیکھوں گا۔‘‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اگر آپ کبھی دوبارہ اُنہیں دیکھتے ہیں تو وہ 40 یا 50 سالوں کے بعد ہوتا ہے – اور آپ مشکلوں سے ہی اُنہیں پہچان پاتے ہیں! لیکن آپ کبھی بھی اپنے مقامی گرجہ گھر سے تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ حتٰی کہ جب آپ مرتے ہیں تو آپ جنت میں ایک دوسرے کو ملتے ہیں! اِسی لیے میں نے وہ چھوٹا سا گیت لکھا جو مسٹر گریفتھ Mr. Griffithنے ایک لمحہ پہلے گایا،

بڑا شہر جس کی دیکھ بھال کرتے لوگ نظر نہیں آتے ہیں؛
   اُن کے پاس دینے کے لیے کم اور پیار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن یسوع کے لیے گھر آئیں اور آپ جان جائیں گے،
   وہاں میز پر کھانا ہے اور رفاقت میں شرکت ہے!
گھر کے لیے گرجہ گھر آئیں اور کھائیں، پیاری رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
   یہ ایک اچھی دعوت ہوگی، جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!
(’’کھانے کے لیے گھر آئیں Come Home to Dinner‘‘ شاعر ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونئیر؛ بطرزِ ’’ایک فاختہ کے پروں پر On the Wings of a Dove‘‘)۔

میرے ساتھ کورس گائیے!

گھر کے لیے گرجہ گھر آئیں اور کھائیں، پیاری رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
   یہ ایک اچھی دعوت ہوگی، جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!

لیکن یہ آپ کے تنہائی کا علاج نہیں کرے گا اگر آپ محض چند گھنٹوں کے لیے اِتوار کی صبح آتے ہیں! اوہ، نہیں! اِسی لیے بہت سے گرجہ گھر دُنیا میں سے نوجوان لوگوں کو جیت نہیں پاتے کیونکہ وہ اپنی اِتوار کی شام کی عبادت بند کر تے ہیں! میں اِس سے زیادہ بیوقوفانہ بات سوچ بھی نہیں سکتا! کیا وہ دیکھ نہیں سکتے کہ یہی بات ہے جس نے مرکزی فرقوں کے گرجہ گھروں کو مارا ہے؟ اِس نے میتھوڈِسٹ Methodistsاور پریسبائی ٹیرئین Presbyterians کو مارا۔ اور یہ اُن بے وقوف خود انحصار بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں کو بھی مار دے گی جو اپنی اِتوار کی شام کی عبادتیں بند کرتے ہیں! یہ ابھی تو آپ کے گرجہ گھر کو نہیں مارے گی، لیکن چند ایک دہائیوں میں یہ اِسے مارے گی۔ نوجوان لوگوں کو اِتوار کی رات کو ضرور واپس آنا چاہیے ورنہ اُن کی تنہائی کا علاج نہیں ہوگا۔ اور اُنہیں ہفتے کی شب کو بھی لوگوں کے ساتھ گرجہ گھر میں ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر لِن کہا کرتے تھے، ’’گرجہ گھر کو اپنا دوسرا گھر بنا لو۔‘‘ وہ درست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سینکڑوں چینی نوجوان لوگ جب وہ پادری تھے گرجہ گھر میں کھینچے چلے آتے تھے۔ حیات نو آیا اور اُن کا چینی گرجہ گھر یروشلم میں گرجہ گھر کی مانند بن گیا۔ وہ ’’خُدا کی تمجید کرتے تھے اور سب لوگوں کی نظروں میں مقبول تھے اور خُداوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا جاتا تھا‘‘ (اعمال 2:47)۔

اور ایک اور بات۔ اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ یہ گرجہ گھر آپ کی تنہائی کا علاج کرے، تو اگلی مرتبہ جب آپ آئیں تو کسی اور کو بھی اپنے ساتھ لائیں! جی ہاں! جب اگلی مرتبہ آپ آئیں تو اپنے کسی دوست یا رشتہ دار کو ساتھ لائیں – ہو سکتا ہے کہ شاید آج ہی رات! ایک چینی لڑکا جو یہاں چند ایک ہفتے رہ چُکا ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے گذشتہ اِتوار کی صبح سُنتا ہے۔ جب وہ اِتوار کی رات کو واپس آیا تو اپنے ساتھ ایک دوست لے کر آیا! یہ آپ کی تنہائی کو دور کرنے کا علاج ہے۔ کسی دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں! سب سے پہلی بات جو یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہی تھی، ’’میرے پیچھے ہو لو اور میں تمہیں انسانوں کو پکڑنے والا بنا دوں گا‘‘ (متی 4:19)۔ آج دوپہر کو پکڑنے کے لیے جائیں! جائیں اور ایک دوست یا رشتہ دار کو آج رات اپنے ساتھ یہاں لائیں – یا کم از کم اگلے اِتوار کو! ’’میں تمہیں انسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا۔‘‘ اِسے گائیے!

میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا،
   اِنسانوں کو پکڑنے والا، اِنسانوں کو پکڑنے والا،
میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا
   اگر تم میرے پیچھے ہو لو؛
اگر تم میرے پیچھے ہولو، اگر تم میرے پیچھے ہو لو؛
   میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا
اگر تم میرے پیچھے ہو لو۔
(’’میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا I Will Make You Fishers of Men‘
     ‘ شاعر ھیری ڈی۔ کلارک Harry D. Clarke، 1888۔1957)۔

جب آپ دوسروں کے گرجہ گھر لانے کے لیے مصروف ہونگے تو آپ کے پاس تنہا ہونے کا وقت ہی نہیں ہوگا!

کتنے کہیں گے، ’’پادری، میں اِسے کروں گا۔ میں بالکل اگلی مرتبہ جب گرجہ گھر آؤں گا تو کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ مہربانی سے اپنا ہاتھ بُلند کیجیے۔ ڈاکٹر چین Dr. Chan، آئیں اور اِن کے لیے دعا کریں (دعا)۔ وہ کورس دوبارہ گائیے!

میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا،
   اِنسانوں کو پکڑنے والا، اِنسانوں کو پکڑنے والا،
میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا
   اگر تم میرے پیچھے ہو لو؛
اگر تم میرے پیچھے ہولو، اگر تم میرے پیچھے ہو لو؛
   میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا
اگر تم میرے پیچھے ہو لو۔

سالگرہ کی دعوت میں لطف اندوز ہونے کے لیے کسی نہ کسی کو ساتھ لائیں – ہمارے ساتھ دوپہر یا رات کا کھانا کھانے اور خوشخبری سُننے کے لیے! ’’گھر کے لیے گرجہ گھر آئیں۔‘‘ وہ کورس ایک اور مرتبہ گائیں!

گھر کے لیے گرجہ گھر آئیں اور کھائیں، پیاری رفاقت کے لیے اکٹھے ہوں؛
   یہ ایک اچھی دعوت ہوگی، جب ہم کھانے کے لیے بیٹھیں گے!

خُدا اُن کی ایسا کرنے کے لیے مدد کرے! یسوع کے نام میں، آمین۔ ’’ آج کسی کی مدد کرو۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ زبور 102:1۔7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’کھانے کے لیے گھر آئیں Come Home to Dinner‘‘ (شاعر ڈاکٹر آر۔ ایل
ہائیمرز، جونئیر؛ بطرزِ ’’ایک فاختہ کے پروں پر On the Wings of a Dove‘‘) \
’’میں تمہیں اِنسانوں کو پکڑنے والا بناؤں گا I Will Make You Fishers of
Men‘‘ (شاعر ھیری ڈی۔ کلارک Harry D. Clarke، 1888۔1957) \
’’آج کسی کی مدد کرو Help Somebody Today‘‘ (شاعر کیری ای۔ بریَک
Carrie E. Breck، 1855۔1934؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)

لُبِ لُباب

انسان کی تنہائی کے لیے خُدا کا عِلاج

GOD’S CURE FOR MAN’S LONELINESS

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’میں بیابان کا ایک قسم کے ماہی خور پرندے کی مانند ہوں: میں بیابان کے اُلّوکی مانند ہوں جو کھنڈروں میں پایا جاتا ہے۔ میں پڑا جا گتا رہتا ہُوں، اور اُس چڑیا کی مانند ہوں جو چھت پر اکیلی ہو‘‘ (زبور 102:6۔7).

(پیدائش 2:18)

I.  اوّل، خُدا نے آپ کے روحانی تنہائی اور بیگانگی کے علاج کے لیے اپنے
بیٹے کو صلیب پر مرنے کے لیے بھیجا، پیدائش 3:10؛ اشعیا 59:2؛
رومیوں 5:10 .

II. دوئم، خُداوند نے ہمیں اپنی جذباتی تنہائی کے علاج کے لیے مقامی گرجہ
گھر دیا ہے، متی 16:18؛ اعمال 2:47؛ متی 4:19 .