اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
والدکے دِن پر نصیحت کے چند الفاظ A FEW WORDS OF ADVICE ON FATHER’S DAY ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’اولاد والوں تم اپنے بچوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ اُنہیں ایسی تربیت اور نصیحت دے کر اُن کی پرورش کرو جو خداوند کو پسند ہو‘‘ (افسیوں 6:4). |
میں نے والدیت پر بہت کم تبلیغ کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اِس کی وجہ میرا اپنا تجربہ ہے۔ اِس موضوع پر بات چیت کرنے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ سب سے پہلے الفاظ جو میں نے ادا کیے وہ رات کو ایک گاڑی میں دیے گئے تھے، جب کہ میرے والد صاحب گاڑی سے باہر گیس اسٹیشن والے کو قیمت ادا کر رہے تھے۔ میری والدہ نے کہا، ’’ابو کہاں ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا میں نے اُن کی طرف اپنی آنکھوں میں خوف کےساتھ دیکھا اور وہ دہرایا جو اُنہوں نے کہا تھا، ’’ابو کہاں ہیں؟‘‘ امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ ایک چھ ماہ کے بچے کے لیے بہت شاندار بات ہے کہ وہ اپنے پہلے الفاظ میں ایک مکمل جملہ ادا کرے، ’’ابو کہاں ہیں؟‘‘ میں نے یہ کہانی اُنہیں اتنی بار بتاتے ہوئے سنا کہ دراصل ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مجھے وہ ہوتا ہوا یاد آ جائے گا۔ میرا اب بھی خیال ہے کہ میں اُسے یاد کر سکتا ہوں، حالانکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی کوئی بات یاد نہیں رکھ سکتا جو اُس وقت رونما ہوئی جب وہ چھ ماہ کے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ درست ہیں، لیکن اگر مجھے یہ یاد نہیں ، خوف کا وہ احساس جو مجھے ہوا تھا کبھی نہ جاتا۔ ’’ابو کہاں ہیں؟‘‘بچپن میں شاید ہی میں نے اُنہیں کبھی دیکھا ہوگا۔ جب میں دو سال کا تھا وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ گھر ہمارے پاس واپس صرف چند ہفتوں کے لیے آئے تھے جب میں سات برس کا تھا۔ بالاآخر اُنہوں نے جب میں چودہ برس کا تھا تو طلاق دے دی، اور پھر جب اُنہوں نے اُس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی دوبارہ شادی کی تو اُن کے دوبارہ واپس آنے کی میری تمام اُمیدیں اور خواب ہمیشہ کے لیےچکنا چور ہو گئے۔ اپنے بچپن میں علیحدگی کے بارے میں بہت کم سُنا تھا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں نے ایک عورت کو کسی سے سرگوشی میں کہتے ہوئے سُنا تھا، ’’تم جانتے ہو، یہ ایک ٹوٹے ہوئے گھرانے سے آیا ہے۔‘‘ جب میں تیرہ سال کا تھا تو کچھ ایسے حالات رونما ہوئے تھے جن کی وجہ سے مجھے مجبوراً ایک دوسرے خاندان کے ساتھ رہنا پڑا تھا، جہاں میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔
1995 میں چرچل کی کتاب، میری ابتدائی زندگی My Early Life کے تعارف میں اُس کے سوانح نگار ولیم مانچیسٹر William Manchester نے کہا، ’’جذباتی طور پر دونوں [اُس کے والدین] کے طرف سے متروکہ، نوجوان ونسٹن خود کو موردِ الزام دیتا تھا. . . اُن کی لاپرواہی کی وجہ سےاُس کی کچلی ہوئی نفرت کو کہیں نہ کہیں نکلنا تھا۔ یوں وہ ایک کٹھن بچہ اور قابلِ افسوس طالبِ علم بنا۔ اپنی تمام زندگی میں ذہنی دباؤ کے دوروں کا سامنا کرتا رہا – ’کالا کتا‘ جیسا کہ وہ اُنہیں کہتا تھا۔ پیار، جس کے بارے میں اُس کو یقین تھا، کوئی ایسی چیز ہے جس کو حاصل کیا جاتا ہے، اور اُس نے اُنہیں تکلیف دہ قوت اور خواہش کی مخلوق بن کر کارناموں میں پا لیا تھا۔‘‘ جب میں نے یہ کئی سال پہلے پڑھا تو میں آنسوؤں کے ساتھ رو پڑا، کیونکہ کسی نہ کسی طرح یہ میرا بچپن بیان کرتا تھا۔ میں نے اُن کی علیحدگی کے لیے ہمیشہ اپنے آپ کو موردِالزام ٹھہرایا۔ اِس سے بھی کوئی مدد نہیں ملی جب ایک خالہ نے بتایا، ’’رابرٹ، اُن کے ساتھ ایسا تم نے کیا۔‘‘ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں تھا، لیکن اُس خیال نے مجھے جب میں بچہ تھا اذیت پہنچائی تھی۔
1902 میں، 28 سال کی عمر میں، چرچل نے ایک کتاب جس کا نام دریائی جنگ The River War تھا سوڈان میں اپنے عسکری تجربوں پر لکھی۔ اپنے تنہا پچپن پر روشنی ڈالتے ہوئے، نوجوان چرچل نے کہا، ’’تنہا درخت، اگر وہ کبھی پورے بڑھ جائیں، تو بہت مضبوط بڑھتے ہیں۔‘‘ میرا خیال ہے کہ، کسی نہ کسی حد تک میرا بھی یہی حال ہے۔
میں نے بہت سکون محسوس کیا جب میری امی نے اسّی برس کی عمر میں شاندار طور پر مذہبی تبدیلی کی تھی۔ اُن کی زندگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی آگئی تھی جو صرف خُدا نے دی تھی۔ میرے والد بھی بہت اُمید کے ساتھ اپنے مرنے سے چند ہفتے پہلے بچا لیے گئے تھے۔ میں جب بھی اُن کے بارے میں سوچتا ہوں خُدا سے اِس بات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن بچپن کا وہ درد اب بھی کبھی کبھی ہوتا ہے۔
اور اِس لیے والد کے دِن یا ولدیت پر بات چیت کرنا میرے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ جب میں خود باپ بنا تو میں جانتا تھا کہ میری اپنی زندگی میں میرے پاس کوئی نمونہ نہیں تھا۔ لہٰذا میں جان بوجھ کر خدا سے میری مدد کے لیے دعا کیا کرتا۔ ایک دِن میں شدت کے ساتھ حیران رہ گیا جب میرے بیٹوں میں سے ایک نے مجھے بتایا، ’’میں شکرگزار ہوں کہ خُدا نے مجھے آپ کا بیٹا بننے کے لائق سمجھا، اور میں اُمید کرتا ہوں کہ کسی دِن میں جتنے آپ میرے ساتھ ہیں اُس سے کم از کم آدھا اچھا باپ بن پاؤں۔‘‘
ایک وجہ کی بِنا پر میں آپ کو اپنی کہانی بتا رہا ہوں۔ آج بہت سے نوجوان لوگ شادی سے خوفزدہ ہیں۔ میں نے پایا ہے کہ اُن میں سے بہت سے بچے پیدا کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ شادی کے خوف کو ’’عورت سے نفرت misogyny‘‘ کہتے ہیں۔ بہت سی وجوہات کی بِنا پر یہ آج بہت پھیل گیا ہے، لیکن میرے خیال میں سب سے عام وجہ یہ ہے کہ وہ بہت سے ناکام شادیاں دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر اپنے والدین کی شادی کی ناکامی بھی۔ یہ خوف ایسے لوگ پیدا کرتا ہے خود کا اپنا ایک خاندان پانے کی خوشی سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقی المیہ ہے۔
مجھے اِس بات کو واضح کر لینے دیجیے کہ نوجوان مسیحی لوگوں کو شادی اور بچوں کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ خُدا شادی میں کامیابی کے لیے آپ کی مدد کر سکتا ہے، اور زیادہ یقینی طور پر وہ آپ کی مدد کر سکتا ہے اگر آپ حقیقی طور پر تبدیل ہوئے ہیں، اور اگر آپ اپنی زندگی گزارتے ہوئے اُس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سچ ہے کیونکہ خُدا نے میری اور میری بیوی کی اِس معاملے میں مدد کی تھی۔ جی ہاں، جب آپ کی شادی اور بچے ہو جاتے ہیں تو پریشانیاں اور جدوجہد ہوتی ہے، لیکن جو خوشی آپ پاتے ہیں وہ اُن کسوٹیوں سے لاکھ درجے اچھی ہوتی ہے۔ سب سے بڑی انسانی خوشی جس کا میں نے تجربہ کیا وہ شادی اور بچوں کی وجہ سے آئی تھی۔ ڈاکٹر رائس Dr. Rice کی کتاب، گھر، معاشقہ، شادی اور بچے The Home, Courtship, Marriage and Children لیجیے۔ اِسے پڑھئیے اور اِس کا مطالعہ کیجیے۔ ڈاکٹر رائس آپ کے راہنما ہو سکتے ہیں، اور آپ کے لیے اور آپ کے بچوں کے لیے ایک خوشحال گھرانا بنانے کے لیے ایک مثالی نمونہ بن سکتے ہیں۔ اِس لیے، یہاں، کچھ باتیں ہیں جو خُدا نے مجھے میری دعا کے جواب میں سیکھائیں۔
اوّل، باپ کو اپنے بچوں کو بِلا کسی شرط کے یعنی صاف صاف پیار کرنا چاہیے۔ آپ کے بچے چاہے کچھ بھی کریں اُنہیں پیار کرنا مت چھوڑیں۔ اُنہیں اِس بات کا احساس ہونے دیں کہ چاہے وہ کوئی بھی غلطی کریں وہ ہمیشہ گھر آنے کے قابل ہونگے۔ اگر وہ بہت زیادہ غلط راستے پر چلے جائیں، تو شاید اُن کا گرجہ گھر اُنہیں خوش آمدید نا کہے۔ لیکن وہ ہمیشہ جب ضرورت محسوس کریں گھر آ سکتے ہیں۔ مصرف بیٹے کی تمثیل سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے۔ جیسے لڑکا گھر آیا، ’’لیکن ابھی وہ کافی دور ہی تھا کہ اُس کے باپ نے اُسےدیکھ لیا اور اُسے اُس پر بڑا ترس آیا، اُس نے دوڑ کر اُسے گلے لگا لیا اور خوب پیار کیا‘‘ (لوقا 15:20). اِس کے علاوہ آپ کو چاہے کوئی بھی نصیحت ہو، ہمیشہ اِس تمثیل میں باپ کو یاد رکھئیے۔ اپنے بچوں کو بِلا کسی شرط کے پیار کریں۔ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ جان جائیں کہ اُن کے لیے آپ کے پیار کو حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کہ آپ اُنہیں ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے چاہے وہ کچھ بھی کرتے رہیں۔
دوئم، جیسا کہ رسول نے کہا، ’’اولاد والوں، تم اپنے بچوں کو غصہ نہ دلاؤ۔‘‘ جب میرے بیٹے پروان چڑھ رہے تھے میں نے ڈاکٹر جان آر. رائس کی نصیحت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ جب آپ غصے میں ہوتے ہیں تو اپنے بچوں کو مت ماریں، بلکہ ’’غصہ ٹھنڈا‘‘ ہونے کا انتظار کریں۔ پھر وضاحت کریں کہ کیوں آپ اُنہیں تربیت دے رہے ہیں، اور اُس کے بعد اُن سے بغلگیر ہوں۔ میں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی، اور عموماً کامیاب رہا۔ آپ کے بچے ’’غصے میں نہیں آئیں گے‘‘ اگر آپ اُن کی اِس طرح سے تربیت کریں۔ کبھی بھی غصے میں بچے کو چھڑی کے ساتھ نہ ماریں۔ خُدا سے اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں حکمت پانے کی مدد مانگیں۔
سوئم، ’’اُنہیں ایسی تربیت اور نصیحت دے کر اُن کی پرورش کرو جو خُداوند کو پسند ہو۔‘‘ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ بچوں کو رکھنے کے لیے بہترین جگہ گرجہ گھر تھی۔ لہذا میری بیوی اور میں نے شروع سے ہی اُنہیں گرجہ گھر لے آئے تھے۔ اُن کے پیدائش کے بعد پہلے اتوار ہی کو وہ گرجہ گھر میں تھے۔ اپنی تمام زندگی میں اُنہوں نے کبھی بھی اتوار کو گرجہ ترک نہیں کیا۔ وہ کامل نہیں ہیں، لیکن وہ گرجے جانا کبھی ترک نہیں کرتے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ وہ گذشتہ شب ہفتے کی شام کی عبادات او ربشارتِ انجیل کے لیے یہاں پر تھے۔ وہ آج صبح یہاں میرے ساتھ ہیں، اور وہ آج رات کو یہاں گرجہ گھر میں میرے ساتھ ہونگے۔ یہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے، اور میں دعا کرتا ہوں کہ یہ ایسا ہی رہے۔
ڈاکٹر جان آر. رائس نے کہا، ’’بائبل میں ماؤں کا تذکرہ کوئی 363 مرتبہ کیا گیا ہے، لیکن والدوں کا تذکرہ 1,300 مرتبہ سے زیادہ کیا گیا ہے۔ والد کا مطلب خُدا باپ کی شبیہہ ہونا تھا، اپنے خاندان کا سردار کاہن، بادشاہ، منصف، مشیر، فراہم کرنے والا، غلطی کا بدلہ لینے والا!‘‘ (ڈاکٹر جان آر. رائس، ’’اور اے اولاد والو‘‘).
دوبارہ ڈاکٹر رائس نے باپ ہونے کے لیے کچھ باتیں کہیں جو میں محسوس کرتا ہوں کہ اِن بدی کے دِنوں میں اہم ہیں۔ اِس لیے میں تمام حوالہ جو اُنہوں نے لکھا یہاں بیان کروں گا۔ ڈاکٹر رائس نےکہا،
ماضی میں اولاد والوں نے امریکہ میں جو اختیار اور عزت اور ذمہ داری برادشت کی اُس میں ایک افسوسناک گراوٹ آئی ہے۔ جب ایک باپ بیٹوں یا بیٹیوں کی شادی منظور یا نامنظور کر دیتا ہے، اور اکثر اوقت اُس کا اہتمام کرتا ہے. . . لیکن بہت سی باتیں والدوں کے اختیار اور شان میں سے نکلنی جاری رہیں۔ تحریک نسواں، بیویوں کی بغاوت. . . اِن تمام نے والدوں کے کردار کی اہمیت کم کی ہے۔
بےدین نفسیات دانوں نے سیکھایا ہے کہ بچوں کی جسمانی سزا غلط ہے، کہ ہر لڑکپن کی عمر کے بچے کواپنی زندگی کا خود منصوبہ بنانا چاہیے – منشیات اور شراب اور تمباکو اور جنسی بداخلاقی کے لیے یا اُن کے خلاف – جیسا اُس کو پسند ہو۔سیاستدانوں کو بچے ہوئے انتہائی ووٹ پانے کے لیے نوبالغوں کے ذریعے سے ووٹ لینے کی اُمید ہے۔
اِس لیے والدوں کے لیے خدا کی جگہ بطورِ خاندان کے ایک سردار کاہن کے، بطورِ منصف، حکمران، فراہم کرنے والے کے، اوربطورِ راہنما، امریکہ میں بہت بُری طرح سے اِس تمام میں کمی آئی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ، خُدا کے منصوبے میں، والد اپنے بچوں کی شان ہیں۔ بہت حد تک بچے وہی بنتے ہیں جو اُن کے والد اُنہیں بناتے ہیں (رائس، ibid.).
ہر شخص جو آج صبح یہاں پر موجود ہے اُسے اپنے گھر میں راہنما یا مثال بننے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اِس لیے میں آپ سے یسوع کے نام میں اِلتجا کرتا ہوں، اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا خاندان خُدا کے لیے جئیے، اور آپ کے بچوں کو سیکھائیں اور منظم کریں اور دعا کریں کہ وہ یسوع پر بھروسہ کریں اور خود ایک مضبوط مسیحی بنیں۔
لیکن اگر آپ اپنے گھر میں ایسا سب کچھ کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ اوہ، یسوع کے پاس آئیں، اُس پر بھروسہ کریں اور بچائےجائیں۔ ہر دفعہ جب دروازہ کھلے گرجہ گھر میں آئیں، اور اپنے بچوں کو اُن کے سامنے آپ کی ایک نئی زندگی جینا دیکھنے دین۔ خُدا سے ہر روز ایک نیا او ربہتر باپ بننے کی دعا کریں۔
اور کیا ہوگا اگر آپ ایک نوجوان شخص ہیں جس کا والد مسیحی نہیں ہیں؟ یسوع کے پاس آئیں اور اُس پر بھروسہ کریں۔ پھر خُدا سے اپنی مسیحی زندگی گزارنے کےلیے دعا کریں۔ خُدا آپ کی مدد کرے گا، بے شک اگر خود آپ کے اپنے والد ایک اچھی مثال نہیں تھے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سچ ہے کیونکہ خُدا نے میری مدد زندگی کے طوفانوں میں کی تھی۔ خُدا کے کلام میں آپ کے لیے ایک انتہائی قیمتی وعدہ ہے،
’’خواہ میرے ماں باپ مجھے ترک کر دیں تو بھی میرا خداوند مجھے قبول فرمائے گا۔ اے خُداوند مجھے اپنی راہ بتا، اور مجھ پر ظلم ڈھانے والوں کے سبب سے مجھے راہ راست پر چلا۔ مجھے اب بھی اِس بات کا یقین ہے کہ میں زندوں کی زمین پرخُداوند کے احسان کو دیکھ لوں گا۔ خُداوند کا انتظار کر: مضبوط ہو اور حوصلہ رکھ اور خُداوند کی آس رکھ‘‘ (زبور 27:10، 11، 13، 14).
اور اگر آپ ابھی بھی مسیحی نہیں ہیں تو میں آج صبح آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ یسوع پر بھروسہ کریں۔ آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے وہ صلیب پر مرا تھا۔ وہ آسمانوں میں زندہ ہے اور آپ کے لیے دعا کر رہا ہے۔ اوہ، یسوع پر آج صبح ہی سے بھروسہ کریں! ہم آپ کے حمد و ثنا کے گیتوں کے کتاب میں سے گیت نمبر 7 گانے جا رہے ہیں۔ جب ہم گا رہے ہوں تو مہربانی سے اپنے تشریف سے اُٹھ کر کمرے کا آخر میں جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا اور مشاورت کے لیے ایک پرسکون مقام پر لے جائیں گے۔ آپ جائیں جبکہ ہم گاتے ہیں۔
بغیر کسی التجا کے، میں جیسا ہوں،
مگر یہ کہ تیرا خو ن میرے لیے بہایا گیا تھا،
اور کہ تو نے مجھے اپنے پاس آنے کی پیشکش کی تھی،
اوہ خُدا کے برّے، میں آتا ہوں! میں آتا ہوں!
میں انتظار نہیں کر رہا ہوں، میں جیسا ہوں
ایک تاریک دھبے سے اپنی روح کو چھٹکارا دلانے کے لیے،
تیرے لیے جس کا خون ہر داغ کو پاک صاف کردیتا ہے،
اوہ خُدا کے برّے، میں آتا ہوں! میں آتا ہوں!
غریب، تباہ حال، اندھا، میں جیسا ہوں؛
نظارے، دولت، ذہن کی شفایابی،
جی ہاں، جو کچھ مجھے چاہیے میں تجھ میں پاتا ہوں،
اوہ خُدا کےبرّے، میں آتا ہوں! میں آتا ہوں!
(’’میں جیسا ہوں Just As I Am‘‘ شاعر شارلٹ ایلیٹ Charlotte Elliott، 1789۔1871).
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) –
or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.
Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے
Dr. Kreighton L. Chan افسیوں 6:1۔4 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے
اُٹھ کھڑے ہوؤ، اے خُدا کے لوگوRise Up, O Men of God ‘‘ (شاعر ولیم پی. میرِلWilliam P. Merrill، 1867۔1954).