اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
گرجہ گھروں میں اِرتداد – بائبل کی پیشن گوئی میں پیشِ آگاہی APOSTASY IN THE CHURCHES – FORETOLD IN BIBLE PROPHECY ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 2:3). |
ڈاکٹر ڈبلیو. اے. کِرسویل Dr. W. A. Criswell، ٹیکساس، ڈیلاس کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے طویل عرصے تک پہچانے جانے والے پادری نے کہا،
جملہ ’‘ایمان سے برگشتگی‘‘ کا ترجمہ شاید ’’اِرتداد‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں ڈیفینیٹ آرٹیکل [the] کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ پولوس کے ذہن میں ایک مخصوص اِرتداد یا انحراف موجود تھا۔ جو بات ’’خداوند کے دِن‘‘ کے آنے سے پہلے میں مضمر ہے وہ یہ ہے کہ اقراری ایمانداروں کی ایمان سے برگشتگی کا وقت آئے گا (دی کرسویل بائبل کا مطالعہ The Criswell Study Bible ، تھامس نیلسن اشاعت خانہ Thomas Nelson Publishers ، 1979؛ 2۔ تسالیونیکیوں 2:3پر ایک یاداشت).
لفظ ’’اِرتداد apostasy‘‘ یونانی زبان کے لفظ ’’آپوسٹاسیاapostasia ‘‘ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ’’فرض سے دستبرداری‘‘ یا ’’اُس ایمان سے جو کبھی مقدسین کو سونپا گیا تھا‘‘ اُس سے ’’دستبرداری‘‘ (یہودہ 3) ۔غور کیجیے کہ رسول ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ’’پہلے وقوع پزیر ہوگا، یعنی کہ دجال کے ’’افشا ‘‘ ہونے سے پہلے۔ اِس لیے سخت مصیبت میں دجال کے افشا ہونے سے ’’پہلے‘‘ ایمان کا ایک مخصوص اِرتداد یا اِنحراف ضرور رونما ہوگا۔ ڈاکٹر چارلس سی. رائری Dr. Charles C. Ryrie نے کہا کہ اِرتداد ایک ’’ایک جارحانہ . . . خدا کے خلاف ایک بغاوت ہے جو گناہ کے آدمی کے ظہور کی تیاری کے لیے راستہ تیار کرے گا‘‘(دی رائری بائبل کا مطالعہ The Ryrie Study Bible ، موڈی اشاعت خانہ Moody Press، 1978؛ 2۔ تسالونیکیوں 2:3 پر ایک یاداشت).
سخت مصیبت کے دور میں آخری اِرتداد اچانک نمودار نہیں ہوگا۔ یہ ایک روشن خیالی Enlightenment کے نام سے چلائی جانے والی تحریک سے شروع ہوا تھا، جو اٹھارویں صدی میں شروع ہوا تھا اور ’’وجوہات کے زمانے‘‘ کے طور پر پہچانا گیا ہے۔ اِس تحریک میں انسانی استدلال نے بائبل میں ایمان کو خُدا کے کلام کے سے حیثیت سے برطرف کر دیا۔ اپنی کتاب نئی کافریت The New Paganismمیں ڈاکٹر ھیرالڈ لِنڈسِل Dr. Harold Lindsell (1913۔1998) نے کہا کہ روشن خیالی ’’. . . جو کچھ ابتدائی کلیسیاؤں نے کیا اُس کو اُلٹ کردے گی اور اور یورپ کے لیے اور مغرب کے لیے عمومی طور پر ایک نئی کافریت لاتی ہے؛ اِس نئی کافریت نے کلیسیا کو اُس کے کُلیدی مذہب اور تمدنی و تہذیبی رُتبے سے بے دخل کر دیا ہے اور وہ لے کر آئی ہے جسے ہم اب مغربی دُنیا میں میسحیت سے پہلے کا زمانہ کہتے ہیں۔ [روشن خیالی کے نتیجے کے طور پر]، مسیحی ایمان کافریت کے سمندر میں سے گزر رہا ہے اور حالات بہتر نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں‘‘ (ھیرالڈ لِنڈسل، نئی کافریت، ہارپر اور رُو Harper and Row، 1987، صفحہ 45). گذشتہ تین سو سالوں میں ’’روشن خیالی نے مسیحیت کے ساتھ زندگی اور موت کی جدوجہد میں جنگ لڑی تھی‘‘ (لِنڈسل، ibid.). آج ہم اُسی ’’زندگی اور موت کی جدوجہد‘‘ میں رہ رہے ہیں۔
روشن خیالی میں سے تین آدمی اُبھرے تھے: جوہان سیملر Johann Semler (1725۔1791)، چارلس ڈاروِن Charles Darwin (1809۔1882) اور چارلس جی. فنّی Charles G. Finney(1792۔1875). سیملر تاریخی تنقیدی طریقۂ کار کا بانی تھا، جس نے بائبل کے اختیار کو کھوکھلا کیا۔ ڈاروِن قدرت ارتقاء کے نظریے کا بانی تھا، جس نے بائبل کی رو سے انسان بحیثیت ایک خاص تخلیق کے نظریے کو برطرف کر دیا۔ فنّی فیصلہ سازیت کا بانی تھا، جس نے فضل کے ذریعے سے نجات کو انسان صلاحیت سے بدل دیا، جو کہ پیلے گئیس Pelagius کی قدیم بدعت کی طرف واپس تھی (صدی 354۔418 بعد از مسیح).
بائبل پر تنقیدیت، ارتقاء کی قبولیت، اور اور فیصلہ سازیت کے ظہور نے گرجہ گھروں کو غیر تبدیل شُدہ لوگوں سے بھر دیا – جو گذشتہ دو سو سالوں کے میں بہت تیزی کے ساتھ ایمان سے دور ہوتے چلے گئے – جس کا نتیجہ انگریزی بولنے والی دُنیا میں آج کا یہ اِرتداد یا انحراف ہے۔ اِس واعظ میں مَیں اختصار کے ساتھ کلیسیاؤں کے ’’مین لائن‘‘ میں مکمل اِرتداد، اور مبشرانِ انجیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اِرتداد پر بات چیت کروں گا، ’’کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں‘‘ (2۔تسالونیکیوں 2:3).
1۔ اوّل، کلیساؤں کی ’’مین لائن‘‘ کا مکمل اِرتداد۔
’’مین لائن‘‘ سے میرا مطلب وہ بڑے بڑے فرقے جیسے کہ یونائیٹڈ پریسبائی ٹیرئین the United Presbyterians، محتدہ میتھوڈسٹ the United Methodists، ایپیسکوپیلئینthe Episcopalians ، یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ the United Church of Christ( جس کی پیداوار باراک اوباما ہیں)، لوتھراِزم کی اہم شاخیں، اور امریکی بپتسمہ دینے والوں کے ساتھ مغربی ’’اعتدال پسند‘‘ بپتسمہ دینے والے، جو جمی کارٹر جسیے لوگوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا پطرس 2:1 کہتی ہے،
’’جس طرح نبی اسرائیل میں جھوٹے نبی موجود تھے اسی طرح تم میں جھوٹے اُستاد اُٹھ کھڑے ہوں گے جو چوری چھپے ہلاک کرنے والی بدعتیں شروع کریں گے اور اُس مالک کا بھی انکار کردیں گے جس نے اُنہیں قیمت دے کر چھڑایا ہے۔ یہ لوگ اپنی آپ کو جلد ہی ہلاکت میں ڈالیں گے‘‘ (2۔ پطرس 2:1).
اِس آیت سے تعلق رکھتے ہوئے ڈاکٹر جان ایف. والوُرد Dr. John F. Walvoord (1910۔2002) نے کہا،
یہ پیشن گوئی ایک نا یقین رکھنے والی دُنیا میں محض بے اعتقادی کی غیب گوئی نہیں کرتی ہے. . . یہ ایک پیشن گوئی ہے جو تاریخ کے اوراق میں اُن مسیح اساتذہ کے بھیس میں اُبھرے گی جو اُس کی بنیادی تعلیمات سے انکار کریں گے۔ اِس حوالے میں [2۔پطرس 2:1 میں] ہماری توجہ اِس حقیقت کی طرف مرکوز کروائی گئی ہے کہ وہ تباہ کُن بدعتوں کی تعلیم دیں گے، جو ایمان کو تباہ کر دیں گی، تعلیمات جو کریں گی. . . خداوند کا انکار جو اُنہیں لے کر آیا. . . جو شخص جو (1) یسوع مسیح کی شخصیت سے انکاری اور (2) اور انکاری ہے اِس بات سے کہ اُس نے ہمارے گناہوں کے لیے صلیب پر جان دی اور کہ اُن نے ہمیں خود اپنی قیمتی خون سے خریدا ہے کسی حقیر یا مُحیط مسیح تعلیم سے ساتھ چھیڑ کھانی نہیں کر رہا ہے؛ وہ اُس کے بالکل دِل کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ بائبل کی تعریف میں جو شخص یسوع مسیح کی ہستی اور اُس کے اعمال سے انکاری ہوتا ہے وہ قطعاً مسیحی نہیں ہے۔ وہ خلاف مسیحیت ہے؛ وہ خوشخبری کے لیے مزاحمتی ہے؛ وہ ایک بدعتی ہے، ایک غیرمحفوظ شخص. . .
وہ تعلیم دے رے ہیں کہ یسوع مسیح خُدا کا بیٹا نہیں ہے، کہ اُس کی صلیبی موت کا کوئی بھی تعلق خُدا کا ہمارے گناہوں کے معافی دینے سے نہیں ہے. . . کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے آزادانہ طور پر خود کو دہریے قرار دیا ہے. . . ہماری اِس صدی میں گرجہ گھر کے سکول کے بائبل کے شعبے میں دہریت نئی ہے۔ بے شمار مسیحی بے اعتقادی کی وسعت اور گہرائی کا احساس نہیں کر پاتے جو گرجہ گھر میں پھیل چکی ہے، اور مسیح کی ہستی اور اُس کے صلیب پر ہمارے لیے کام کی مرکزی تعلیم کی تردید کے دُور دُور تک پھیلاؤ کی وسعت اور گہرائی کو بھی احساس نہیں کر پاتے۔ پطرس کو کافی عرصہ پہلے یہ متوقع تھا۔ [پطرس کی پیشن گوئی] کے پورا ہونے کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔
ناصرف عالمینِ الہیات نے اِس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ دہریے ہیں، اُنہوں نے اِس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ بائبل کا خُدا مردہ ہے اور وجود نہیں رکھتا ہے کیونکہ وہ اصل میں کبھی وجود رکھتا ہی نہیں تھا۔ وہ یہ بھی تعلیم دیتے ہیں کہ بائبل کی اخلاقیات بھی مردہ ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج اخلاقیات کی ضرورت جو کہ ہمارے جدید حالات کے لیے موزوں ہے۔ وہ پرانی اخلاقیات کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، خاص طور پر اِس لیے کیونکہ اِس کا تعلق جنس سے ہوتا ہے، اور جدید یا گرِے ہوئے معیار زندگی کو متعارف کروا رہے ہوں۔ ہماری دنیا خاص طور پر اُن سے جو کلیسا کے ترجمان ہیں یہ سُننے کے لیے انتہائی مشتاق ہے، کیونکہ یہ اُنہیں جانوروں جیسی زندگی گزارنے کی آزادی فراہم کرتی ہے بجائے اِس کے کہ اُس اِنسان کی مانند زندگی گزریں جو خُدا نے اپنی صورت اور مماثلت پر تخلیق کیا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہیں ہیں جہاں بدکاری کو مُسلمہ طور پر اخلاقیات مانا جاتا ہے، اور جہاں زندگی کے نئے معیار کے بننے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جو اُس کو نظرانداز کرتا ہے کہ بائبل کیا سیکھاتی ہے (جان ایف. وُلورُڈ، ٹی ایچ.ڈی.، سترویں سال اور پیشنگوئیوں میں in Prophecy and the Seventies، غلطیوں سے پاک چارلس ایل. فیعین برگ Charles L. Feinberg نے کیا، ٹی ایچ.ڈی.، پی ایچ.ڈی.، موڈی اشاعت خانہ Moody Press، 1971، صفحات 112۔115).
ڈاکٹر وُلورُڈ Dr. Walvoord نے یہ چالیس سال پہلے لکھا تھا۔ وہ ایک معزز عالمِ الہٰیات تھے، اور ڈلاس الہٰیاتی مدرسہ گاہ Dallas Theological Seminary کے صدر تھے۔ میں اُنہیں جانتاتھا اور وہ ہمارے گرجہ گھر میں بھی واعظ دیتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ جو اُنہوں نے کہا بالکل درست ہے، کیونکہ میں نے اُس دور میں دو آزاد خیال الہٰیاتی درسگاہوں سے گریجوایٹ کیا تھا۔ شاید یہ کچھ لوگوں کو حیران کر دے کہ ’’مین لائن‘‘ کہلائی جانے والی کلیسیائیں اب لونڈے بازی کی عادت اور ہم جنس شادیوں کی تعیناتی کی وکالت کررہی ہیں۔ لیکن یہ مجھے حیران نہیں کرتی ہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ اِس سمت میں چالیس سال پہلے ہی چل پڑے تھے۔
پس، آج ہم ’’مین لائن‘‘ فرقوں کے مکمل اِرتداد کو دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شاید اُن گرجہ گھروں میں کچھ مٹھی بھر بکھرے ہوئے مسیحی ہوں، جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے وہ کم اور مذید کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر ولورڈ نے کہا کہ وہ جو خوشخبری کی مرکزی تعلیم سے انکار کرتا ہے، ’’[وہ] سِرے سے مسیحی ہے ہی نہیں. . . وہ ایک بدعتی ہے، ایک غیر محفوظ شخص۔‘‘ جب آپ کیلیفورنیا، پسادینہ کی گلیوں میں پھریں، اور اُن قدیم بڑی گرجہ گھر کی عمارتوں کو دیکھیں، وہ تقریباً تمام کی تمام اُن مردوں (اور عورتوں) کے ذریعے سے چلائے جا رہے ہیں جو کبھی بچائے ہی نہیں گئے تھے، اور یہ بھی پسادینہ میں فُلر سیمنری کے پروفیسرز کے بارے میں بڑھتا ہوا سچ ہے، چونکہ وہ الہٰیاتی آزاد خیالی کے اندھیرے میں اُتر چکی ہے۔
’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 2:3).
پیچھے 19ویں صدی میں سپرجئین (1834۔1892) نے کہا، کلیسیا جدید بدعت کے اُبلتے ہوئے کچڑ کے چھینٹوں تلے دب چکی ہے‘‘ (’’خون جو بہتوں کے لیے بہایا گیاThe Blood Shed for Many،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگِرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1974، صفحہ 374). ولیم بُوتھ William Booth (1829۔1912) سلویشن آرمی کے بانی نے 1901 میں، جیسا کہ یہ اُس وقت تھا، کہا،
20ویں صدی کا سب سے بڑا خطرہ مذہب بغیر پاک روح کے، مسیحیت بغیر مسیح کے، معافی بغیر کفارے کے، نجات بغیر احیاء یا تجدید کے، سیاست خُدا کے بغیر اور جنت بغیر جہنم کے ہوگا (آوازِ جنگ The War Cry، 5 جنوری، 1901، صفحہ 7) .
ہمارے دور کے گرجہ گھروں میں کے بارے میں اُنیسویں صدی کے دو آدمیوں نے پیشن گوئیاں کی تھیں جو سچی ثابت ہو چکی ہیں۔
2۔ دوئم، بشارتِ انجیل کے گرجہ گھروں میں بڑھا ہوا اِرتداد یا اِنحراف۔
گذشتہ سالوں تک، بشارتِ انجیل والوں نے مسیح کے اعمال اور ہستی پر بائبل کی بنیادی تعلیمات کا اعلان کیا۔ تاہم، آج تمام بشارتِ انجیل والوں میں سب کچھ درست نہیں ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں کےدوران میں نے خود اپنی آنکھوں سے درج ذیل چھے پیشن گوئیوں کو سچا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ بہت سے بشارتِ انجیل کے گرجہ گھروں میں بڑھتی ہوئی مُردنی کی اِس فہرست میں سے گزرتے ہوئے مجھے انتہائی شدید تکلیف ہوتی ہے۔
1. بہت سے بشارتِ انجیل والے کبھی تبدیل ہوئے ہی نہیں تھے۔ آخری ایام میں دس کنواریوں کے تمثیل اِس ہولناک سچائی کی منظر کشی کرتی ہے۔ ’’اُن میں سے پانچ عقل مند اور پانچ بے وقوف تھیں۔ وہ جو بے وقوف تھیں اُنہوں نے اپنے چراغ تو لے لیے، مگر اپنے ساتھ کوئی تیل نہ لیا‘‘ (متی 25:2۔3). اُن میں سے آدھیوں کے پاس پاک روح نہیں تھی، جس کو تیل سے علامت دی گئی ہے۔ یعنی کہ، اُن میں سے آدھی بچائی نہیں گئی تھیں۔ جب مسیح دُلہا، واپس آیا، اُس نے بے وقوف کنواریوں سے کہا، ’’میں تمہیں نہیں جانتا‘‘ (متی 25:12). اُداسی کے ساتھ، آج کے اِن بدکار دِنوں میں، بشارتِ انجیل والوں کی ایک بہت بڑی تعداد غیر تبدیل شُدہ ہیں، اور جب یسوع واپس آئے گا تو تیار نہیں ہونگے۔ ڈاکٹر ڈبلیو. اے.کِرسِویل Dr. W. A. Criswell نے کہا کہ 75 % گرجہ گھر کے اراکین کھوئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اے. ڈبلیو. ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے کہا کہ 90 % غیر محفوظ ہیں۔ نوجوان بلی گراہم نے کہا کہ 85 % بشارتِ انجیل والے کھوئے ہوئے ہیں۔ میسحی راہنماؤں کے یہ اندازے آج بشارتِ انجیل دینے والوں کی قابلِ مذمت حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔
2. ’’جب دُلہا کے آنے میں دیر ہو گئی اور وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سو گئیں‘‘ (متی 25:5). غور کیجیے کہ مسیح نے کہا، وہ سب کی سب اُونگھتے اُونگھتے سو گئیں۔‘‘ ڈاکڑ جان ایف. ولورڈ نے کہا، ’’آج کل گرجہ گھر ہیں جو اِتوار کی شب سرد اور مردہ ہوتے ہیں – وہ والے جن کی منافع بخش لمبی شام کی عبادتیں نہیں ہوتیں۔ بے شمار گرجہ گھروں کی آج ہفتے میں صرف ایک عبادت ہوتی ہے، اِتوار کی صبح. . . ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب گرجہ گھر میں بے شمار مسائل ہیں‘‘ (ibid.، صفحہ 112). اِس کے علاوہ، نفسوں کے جیتنے والے کہاں ہیں؟ لاس اینجلز میں مَیں ایسے کسی گرجہ گھر کو نہیں جانتا ہوں ماسوائے اپنے جس کے ہر ایک رُکن نے نفس جیتنے کا پروگرام کیا ہے۔ میں جانتا ہو جب ایسا نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن ایسا اب ہے۔ خُدا ہماری مدد کرے! ’’وہ سب کی سب اُونگھتے اُونگھتے سو گئیں‘‘ (متی 25:5).
3. ’’بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث کئی لوگوں کی محبت ٹھنڈی [پڑ جائے] گی‘‘ (متی 24:12). ہمارے بہت سے گرجہ گھروں میں بہت کم یا سِرے سے رفاقت ہے ہی نہیں، اور نہ ہی ہفتہ وار باہر جاکر نفس جیتنے کا کام۔ یعنی کہ، ارکان کا آپس میں کوئی پیار ہے ہی نہیں، اور کھوئے ہوئے کے لیے بھی کوئی پیار نہیں! میرے دیرینہ پادری، ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin، بھی ایک سیمنری کے پروفیسر اور ایک سیمنری کے صدر تھے۔ ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’ہمارے خداوند پر یقین کرنا غیرمشروط طور پر ضروری ہے، اور ایک دوسرے سے پیار کرنا بھی غیر مشروط طور پر ضروری ہے. . . میری دعا ہے کہ آخری ایام میں گرجہ گھر اِس کے بارے میں تین مرتبہ سوچیں‘‘ (ٹموتھی لِن، پی ایچ.ڈی.، گرجہ گھروں کے بڑھنے کا راز The Secret of Church Growth، پہلا بپتسمہ دینے والا چینی گرجہ گھرFirst Chinese Baptist Church، 1992، صفحات 28، 29). ’’اور بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث کئی لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی 24:12).
4. پھر بھی جب ابنِ آدم آئے گا تو کیا وہ زمین پر ایمان پائے گا؟‘‘ (لوقا 18:8). ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’اِس آیت کا سیاق و سباق واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہاں لفظ ’ایمان‘ دعا میں ایمان کی طرف حوالہ دے رہا ہے۔ اور ہمارے خداوند کا بیان ایک کُہرام ہے کہ اُس کی کلیسیا، دعا کا ایمان اُس کی دوسری آمد پر کھو دے گی‘‘ (ibid.، صفحات 94، 95). دوبارہ ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’لوگ اکثر کہتے ہیں کہ اِس سے کوئی فرق نہیں کہ آیا. . . آپ گھر میں تنہاں دعا کرتے ہیں یا بہن اور بھائیوں کے ساتھ گرجہ گھر میں اکٹھے دعا کرتے ہیں۔ اِس قسم کا بیان محض کسی کاہل کا ہی ہو سکتا ہے، یا. . . اُس کا جو دعا کی طاقت سے واقف نہیں ہے!‘‘ (ibid.، صفحہ 92). لوقا 18:8 ظاہر کرتی ہے کہ آخری ایام میں مسیحی دعائیہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ تنہائی میں دعا کو بھی نظر انداز کر دیں گے۔ بہت سے گرجہ گھروں میں اب ہفتے کے درمیان میں بائبل کے مطالعے کا اِجلاس ہوتا ہے بجائے اِس کے کہ دعائیہ عبادت ہو۔ کس قدر غم کی بات ہے کہ یہ آخری ایام میں سچ ہے!
5. ’’مسیح کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟‘‘ (2۔پطرس 3:4). 2۔پطرس 3:1۔9 کے سیاق و سباق میں، پطرس مسیحیوں کو دوسری آمد کے پیشن گوئی سے ’’خبردار‘‘ کرنے کے لیے لکھ رہا ہے، کہ کہیں وہ اُن سے متاثر نہ ہو جائیں جو پوچھتے ہیں، ’’اُس کے آنے کا وعدہ کہا گیا؟‘‘ ڈاکٹر ایڈ ڈوبسن Dr. Ed Dobson نے آخری دِنوں کے ایک نشان کے طور پر کہا کہ یہ ایک حقیقت ہو گی کہ’’یسوع کی آمد کی علامات کا نظر انداز کیا جانا دور دور تک پھیل گیا ہوگا‘‘ (ڈاکٹر ایڈ. ڈوبسن، اختتام The End، ژونڈروان اشاعتی گھرZondervan Publishing House ، 1997، صفحہ 160). میرے رفیقِ کار ڈاکٹر سی. ایل. کیگن Dr. C. L. Cagan نے مجھے یاد دلایا کہ چالیس سال پہلے بشارت انجیل پھیلانے والوں میں مسیح کی دوسری آمد کی علامات کے بارے میں بہت زیادہ اشتیاق ہوتا تھا۔ ’’لیکن اب چونکہ تقریباً ہر روز وہ علامات واقعی پوری ہو رہی ہیں، اُن کے پیشن گوئی کی جانب بہت کم رُجحان ہے۔‘‘ بشارتِ انجیل پھیلانے والوں کے درمیان مسیح کی آمد کی علامات کو نظر انداز کر دینا خود آخری دِنوں کی ایک نشانی ہے! – اور اس بدکار لمحے میں گرجہ گھر کے ارکان کی دنیاداری کی ایک نشانی ہے۔
6. ’’اپنی خواہش کے مطابق بہت سے اُستاد بنا لیں گے‘‘ (2۔تیموتاؤس 4:3). پولوس رسول ہمیں ’’تبلیغ‘‘ کرنے کے لیے کہہ رہا ہے (4:2). لیکن اُس نے پیشن گوئی کی تھی کہ آخری ایام میں گرجہ گھروں کے لوگ معیاری تبلیغ کو ’’برداشت نہیں‘‘ کریں گے، بلکہ ’’اپنی خواہش کے مطابق بہت سے اُستاد بنا لیں گے، تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا لگے۔‘‘ پچاس سال پہلے ہماری بہت سے واعظ گاہوں میں عظیم تبلیغ ہوا کرتی تھی۔ آج زیادہ تر واعظ گاہوں میں ہمیں آیت بہ آیت ’’تدریس‘‘ ملتی ہے۔ ڈاکڑ لِن نے کہا، ’’مغربی ساحل پر مذہبی درسگاہ [سیمنری] سے درجہ بہ درجہ علمِ الہٰیات کے ایک پروفیسر نے یہ رائے قائم کی: ’میرے خیال میں تدریس اور تبلیغ بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں!‘ اِس سے زیادہ میں غیر متفق نہیں ہو سکوں گا۔ تدریس اور تبلیغ دو مختلف زمروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بحیثیت سیمنری کے پروفیسر کے، وہ تدریس اور تبلیغ کےدرمیان امتیاز بھی نہیں کر سکتے تھے۔ تو کیا اُن کے طالبِ علم پھر تبلیغ کر پائیں گے؟ اِس کا جواب ایک سیدھا سادہ ’نہیں‘ ہے۔ منبر پر کھڑے ہو کر بہت سے سیمنری سے فارغ التحصیل گریجوایٹ آج صرف لیکچر دے سکتے ہیں، لیکن ایک پیغام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ایک پادری جس کو تبلیغ کرنے نہیں آتی اُس باروچی کی مانند ہے جسے کھانا پکانا نہیں آتا ہے!. . . آخری دِنوں کے گرجہ گھروں میں ویرانی و بربادی پادریوں کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ پادریوں کے بہتان کی وجہ سے ہے جو [خُدا کی طرف سے بلائے نہیں گئے ہیں]‘‘ (ibid.، صفحات 20، 21).
آج ہم مین لائن گرجہ گھروں کی ہولناک زمانہ ساز حالت اور زیادہ تر بشارتِ انجیل کے پھیلانے والے گرجہ گھروں کی قابلِ رحم حالت کو دیکھتے ہیں۔ ہماری انتہائی حوصلہ شکنی ہوگی اگر ہم بائبل میں کی گئی اِن حالتوں کی پیشن گوئی کو دیکھ نہیں پاتے۔ عمومی طور پر اُس کے آنے کی نشا نیوں کی بات کرتے ہوئے، یسوع مسیح نے کہا،
’’جب یہ باتیں ہونا شروع ہو جائیں تو سیدھے کھڑے ہو کر سر اوپر اُٹھانا کیونکہ تمہاری مخلصی نزدیک ہے‘‘ (لوقا 21:28) .
اِرتداد کے اِن تاریک دِنوں میں مسیح کے آنے کی نشانیوں سے ہماری حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ جب لوگ کہتے ہیں، ’’آپ گرجہ گھر بہت جاتے ہیں،‘‘ یاد رکھیئے کہ اُن کی شکایت ایک نشانی ہے کہ یسوع جلدی آنے والا ہے۔ جب وہ کہیں، ’’آپ بہت زیادہ دعا کرتے ہیں‘‘ یا ’’آپ بہت زیادہ بشارتِ انجیل دیتے ہیں،‘‘ یاد رکھیے کہ یہ بھی یسوع کے جلدی آنے کی نشانی ہے! دوسروں کو اونگھنے اور سو جانے دیجیے، جیسا کہ اُن کنواریوں نے کیا تھا، لیکن خود کو جگائے رکھیئے! دعائیہ عبادات میں جاگتے رہیں! جاگتے رہیں جب وہ وقت نفسوں کو جیتنے کے لیے جانے کا ہو! تبلیغ کے دوران جاگتے رہیں!
’’جب یہ باتیں ہونا شروع ہو جائیں تو سیدھے کھڑے ہو کر سر اوپر اُٹھانا کیونکہ تمہاری مخلصی نزدیک ہے‘‘ (لوقا 21:28) .
مہربانی سے کھڑے ہو جائیے اور حمد و ثنا کا گیت نمبر 4گائیے۔
اندھیری رات تھی، گناہ کے خلاف ہمارے جنگ تھی؛
ہم دُکھوں کا کس قدر بھاری بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے؛
لیکن اب ہم اُس کے آنے کی علامات دیکھتے ہیں؛
ہمارے دِل ہم میں جگمگا اُٹھتے ہیں، خوشی کا پیالہ ہم پر لبریز ہوتا ہے!
وہ دوبارہ آ رہا ہے، وہ دوبارہ آ رہا ہے،
بالکل وہی یسوع، جِسے لوگوں نے رد کیا؛
وہ دوبارہ آ رہا ہے، وہ دوبارہ آ رہا ہے،
عظیم جلال اور قوت کے ساتھ، وہ دوبارہ آ رہا ہے!
(’’وہ دوبارہ آ رہا ہےHe is Coming Again ‘‘ شاعر میبل جانسٹن کیمپ
Mabel Johnston Camp، 1871۔1937).
اور اگر آپ اب بھی بچائے نہیں گئے ہیں، تو اب گناہ سے آپ کے جاگنے کا وقت آ گیا ہے، یسوع پر بھروسہ کریں اور بچائے جائیں! بائبل کہتی ہے،
’’اے سونے والے جاگ، اور مُردوں میں سے جی اُٹھ، تو یسوع کا نور تجھ پر چمکے گا‘‘
(افسیوں 5:14).
تم جو سوئے ہوئے ہو جاگ جاؤ، اور نجات دہندہ پر بھروسہ کرو۔ تمہارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے وہ صلیت پر مرا تھا۔ وہ آسمان میں زندہ ہے۔ اُس پر بھروسہ کرو اور وہ تمہیں بچائے گا، یہاں تک کہ ابھی، یہاں تک کہ اِرتداد کے اِن شیطانی بدکار اور تاریک دِنوں میں!
یسوع کی جانب اپنی نظریں اُٹھائیں،
اُس کے شاندار چہرے کو بھرپور نگاہ سے دیکھیے؛
اور زمین کی باتیں حیرت ناک طور پر مدھم پڑ جائیں گی
اُس کے فضل اور جلال کے نور میں۔
(’’یسوع کی جانب اپنی نظریں اُٹھائیں Turn Your Eyes Upon Jesus، شاعر ھیلن ایچ. لیمل
Helen H. Lemmel، 1863۔1961).
جب ہم یہ کورس دوبارہ گائیں گے، مہربانی سے کمرے کے پچھلی جانب چلے جایئے۔ ڈاکٹر کیگن آپ کو دعا اور مشاورت کے لیے ایک پرسکون مقام پر لے جائیں گے۔
یسوع کی جانب اپنی نظریں اُٹھائیں،
اُس کے شاندار چہرے کو بھرپور نگاہ سے دیکھیے؛
اور زمین کی باتیں حیرت ناک طور پر مدھم پڑ جائیں گی
اُس کے فضل اور جلال کے نور میں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) –
or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.
Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے
Dr. Kreighton L. Chan متی 25:5۔13 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے
’’اِس طرح کہ ادوار میں In Times Like These ‘‘
(شاعر روتھ کائی جونز Ruth Caye Jones ، 1902۔1972).
لُبِ لُباب گرجہ گھروں میں اِرتداد – بائبل کی پیشن گوئی میں پیشِ آگاہی APOSTASY IN THE CHURCHES – FORETOLD IN BIBLE PROPHECY ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 2:3). (یہودہ3) I. اوّل، کلیساؤں کی ’’مین لائن‘‘ کا مکمل اِرتداد، 2۔ پطرس 2:1 . II. دوم، بشارتِ انجیل کے گرجہ گھروں میں بڑھا ہوا اِرتداد یا اِنحراف، |