اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
ایڈونیرام جڈسن کی تبدیلی – THE CONVERSION OF ADONIRAM JUDSON – ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر تُم تبدیل ہوکر بچوں کی مانند نہ بنو، تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے‘‘ (متی 18:3). |
یہ سیرت نگاری سے متعلق ایک واعظ ہوگا۔ میں آپ کو ایڈونیرام جڈسن (1788۔1850) کی تبدیلی کی کہانی سُنانے جا رہا ہوں۔ اُن کی تبدیلی خاص طور پر گرجہ گھر میں پلے بڑھے نوجوان لوگوں کے لیے دلچسپ ہوگی۔ وہ ’’گرجہ گھر میں پلے بچے‘‘ کی ایک مکمل تصویر ہیں جو ایک طویل جدوجہد کے بعد مذہبی طور پر تبدیل ہوتے ہیں۔
ایڈونیرام جڈسن مسیحی مبلغینِ دین کے بانی بن گئے تھے، شمالی امریکہ سے باہر بھیجے جانے والے مبلغینِ دین میں سے پہلا گروہ اُن کا تھا۔ 19فروری، 1812 میں ایڈونیرام اور عین جڈسن انڈیا کے لیے میساشوسٹز کے شہر کیپ ٹاؤن سے بحری سفر پر روانہ ہوئے۔ وہاں سے وہ خوشخبری کو برما (جو آج کل ماین مار Myanmar ہے) لے گئے۔ جڈسنز پہلے مسیحی مبلغینِ دین کی حیثیت سے ایک مکمل غیر قوم [کافر] سرزمین پر ناقابلِ برداشت مصیبتوں، قیدو بندش، اور خاندانی المیوں سے گذرنے کے لیے گئے تھے جہاں اِن سے پہلے کوئی مسیحی مبلغینِ دین نہیں گیا تھا۔ اِس کے باوجود اِن خُدا کے نا ماننے والے لوگوں کو مسیح کے لیے جیتنےاور بائبل کو پہلی دفعہ برمی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے جڈسن کبھی بھی اپنی ذمہ داری یا وابستگی سے نہیں ڈگمگائے تھے۔ کس طرح انیڈونیرام جڈسن اس قدر مضبوط مسیحی بنے؟ اُن کی زندگی کی کہانی پڑھتے ہوئے، مجھے یقین ہو گیا کہ اُن کی مسیحی زندگی کی بنیاد اُس حقیقی مذہبی تبدیلی میں پنہاں ہے جس کا تجربہ اُنہوں نے وفد کے دورے سے بھی پہلے ایک نوجوان شخص کی حیثیت سے کیا تھا۔ اِس واعظ میں مَیں زیادہ تر کورٹنی اینڈرسن Courtney Anderson کی کتاب سنہرے ساحل کی طرف: ایڈونیرام جڈسن کی زندگی To the Golden Shore: The Life of Adoniram Judson، (جڈسن اشاعت خانہ، 1987ایڈیشن( پر انحصار کر رہا ہوں۔
اُن کا نام ایڈونیرام جڈسن جونیئر تھا، اُن کے والد ایڈونیرام جڈسن سینیئر ایک پرانی طرز کے اجتماعی پادری تھے۔ جس شخص سے ایڈونیرام سب سے زیادہ ڈرتے تھے وہ اُن کے والد تھے۔ یہ اُس انسان کا انتہائی رعب و دبدبہ تھا جو اُن کے بیٹے کے لیے اُن سے خوف کی وجہ بنا تھا۔ اُنہیں ہنسی مذاق یا طنزو مزاح تقریباً بالکل نہیں آتا تھا۔ وہ اسی قدر سخت گیر اور کٹر تھے جس قدر خود خُدا تھا۔ دراصل، ایڈنیرام کے نوجوان ذہن میں، خُدا اور اُن کے والد نے تقریباً ایک جیسی شناخت بنا لی تھی۔
ایڈونیرام نے محض تین برس کی عمر میں پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اِس بات نے اُن کے والد کو یہ احساس دلایا کہ یہ لڑکا ایک عظیم انسان بن سکے گا، اور اُن کے والد نے یہ بات اُنہیں دھرائی۔ اُن کے والد صرف ایک غریب پادری تھے، لیکن وہ اپنے بیٹے کو اپنے سے بھی کئی گُنا بہتر بنانا چاہتے تھے – نئے انگلستان کے بہت بڑے گرجہ گھر میں ایک پادری۔ وہ اُمید کرتے تھے کہ اُن کا بیٹا وہ شہرت اور کامیابی حاصل کرے جو اُنہوں نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔
اپنے بچپن کے دوران ایڈونیرام نے ہر وہ کچھ پڑھ ڈالا جو اُن کے ہاتھوں کی پہنچ میں تھا، اپنے والد کی لائبریری سے لے کر اُن ناولوں اور ڈراموں تک جو اُن دِنوں میں شہرت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ بہت چاک و چوبند اور توانا تھے۔ جب وہ دس سال کے ہوگئے تو وہ ایک ماہر حساب دان بن چکے تھے، اور اُنہوں نے لاطینی اور یونانی زبان کی بنیادی باتیں سیکھ لی تھیں۔ اُن کے والد نے اُن سے کہا، ’’تم ایک بہت [شاندار] لڑکے ہو، ایڈونیرام، اور میں تم سے ایک عظیم انسان بننے کی اُمید کرتا ہوں۔‘‘ اِن الفاظ نے اُن پر گہرا نقش چھوڑا۔ ’’میں تم سے ایک عظیم انسان بننے کی اُمید کرتا ہوں۔‘‘
اِس وقت کے دوران اُن کے والد کی جماعت گرجہ گھر کی ایک انتہائی ناخوشگوار تقسیم سے گزری۔ آخر کار اُن کے خاندان کو ایک دوسرے قصبے کی طرف رُخ کرنا پڑا جہاں اُن کے والد ایک اور چھوٹے سے گرجہ گھر کے پادری بن گئے۔ اِس کے باوجود ایڈونیرام کو اپنے والد کی مثال زیادہ محترم تھی: کبھی سمجھوتا نہیں کرنا۔
ایڈونیرام نے محسوس کیا کہ اُن کا مقدر ایک عوامی مقرر، ایک شاعر یا جان ایڈمز John Adams جیسی ایک جانی مانی سماجی ہستی بننا تھا – کچھ ایسا جس کا تعلق کتابوں اور علم و فہم سے ہو، کچھ ایسا جو اُنہیں تعظیم اور تعریف دے، اور اُن کا نام آنے والی تاریخ میں جانا جا سکے۔
اُنہوں نے ہمیشہ سچا مذہبی بننا چاہا تھا۔ پھر بھی کیسے ایک حقیقی مسیحی، ایک ہی وقت میں ایک عظیم انسان بن سکتا ہے؟ جس وقت وہ بستر المرگ پر لیٹے تھے، اُن کو اپنے ذہن میں ایک آواز کہتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، ’’ہمارے لیے نہیں، ہمارے لیے نہیں، لیکن تیرے نام کوجلال ہو۔‘‘ یہ گمنام دیہی علاقے کا ایک پادری ہو سکتا تھا جس کی شُہرت ہمیشہ کے لیے ہو جائے گی، حالانکہ اُنہوں نے یہاں کے بارے میں نہیں سُنا تھا۔ دُنیا اپنے مجاہدوں کے بارے میں غلط تھی۔ دُنیا اپنا انصاف کرنے میں غلط تھی۔ گمنام دیہی علاقے کے پادری کی شہرت حقیقتاً بہت عظیم تھی – اِس قدر عظیم ہے کہ دُنیا کا کوئی اور کارنامہ اِس کے سامنے ہیچ ہے۔ یہ ہی واحد شہرت تھی جو موت کے بعد فتح بنی۔ ’’ہمارے لیے نہیں، ہمارے لیے نہیں، لیکن تیرے نام کوجلال ہو‘‘ اُن کے ذہن میں گونجتا رہا۔ اِن عجیب و غریب سوچوں سے دہشت زدہ ہو کر وہ بسترالمرگ میں تن کر بیٹھے تھے۔
تاہم، اُنہوں نے جلد ہی اِنہیں اپنے ذہن سے باہر نکال پھینکا۔ لیکن بس صرف اُس ایک مختصر سے لمحے میں بصیرت اِس قدر تیز ہو گئی تھی کہ وہ اُنہیں اپنی باقی کی تمام زندگی یاد رہنی تھی۔
سولہ سال کی عمر تک ایڈونیرام کالج میں داخلے کے لیے تیار تھے۔ حالانکہ ایڈونیرام کے والد خود ییل Yale یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے، لیکن اُنہوں نے اپنے بیٹے کو وہاں نہیں بھیجا، غالباً کیونکہ وہ گھر سے بہت دور تھی۔ حالانکہ ہارورڈ یونیورسٹی صرف پچاس میل دور تھی، اُنہوں نے اپنے بیٹے کو وہاں بھی نہ بھیجا کیونکہ وہ پہلے سے ہی آزاد خیال ہوتی جا رہی تھی۔ اِس کے بجائے محترم جڈسن نے اپنے بیٹے کو پرووِیڈینس کے رہوڈ جزیرے کے کالج بھیج دیا۔ ایڈونیرام کے کالج میں داخلے کے کچھ عرصے بعد ہی وہ ’’براؤن یونیورسٹی‘‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ محترم جڈسن جانتے تھے کہ وہ بائبل پر یقین رکھنے والی قابلِ اعتماد درس گاہ تھی۔ محترم جڈسن نے محسوس کیا کہ ایڈونیرام اِس کالج میں محفوظ رہیں گے۔
چونکہ ایڈونیرام پہلے ہی سے لاطینی، یونانی، حساب، علم افلاک، منطق، عوامی فنِ تقریر اور اِخلاقی فلسفہ جانتے تھے اُنہوں نے درس گاہ میں داخلہ نئے آنے والے طالب علم کی بجائے دوسرے سال کے طالبِ علم کی حیثیت سے لیا۔اُن کے پروفیسرز کو اُن کے آتے ساتھ ہی اُن کی اہلیت کا اندازہ ہوگیا۔ اُس تعلیمی سال کے آخر میں کالج کے صدر نے اُن کے والد کو ایک خط بھیجا، جس میں اُنہوں سے ایڈونیرام کو ایک ’’بہت ہی ملنسار اور اُمید افزا بیٹا‘‘ کہا۔ جیسے ہی محترم جڈسن نے وہ خط پڑھا اُن کا سینہ فخر سے پھول گیا۔
درسگاہ کے طالب علموں نے جلد ہی پا لیا کہ ایڈونیرام کی پندرہ روزہ دعائیہ اِجلاس میں دلچسپی بہت ہی کم تھی، حالانکہ وہ ایک پادری کے بیٹے تھے۔ اِس کے بجائے وہ درس گاہ کے مذہبی طور پرغیر تبدیل شُدہ نوجوان لوگوں میں بہت مشہور ہوگئے۔
ایڈونیرام کی دوستی جلد ہی جیکب عیامس Jacob Eames نامی نوجوان آدمی کے ساتھ ہو گئی، جو اُن سے ایک سال بڑا تھا۔ عیامس ذہین، خوش پوش اور بہت مشہور تھا – لیکن وہ ڈیعسٹ Deist تھا[یعنی ایسا شخص جو یہ یقین رکھتا ہو کہ خُدا نے کائنات بنائی اور پھر اُسے لاوارث چھوڑ دیا]، مسیحی نہیں تھا۔ وہ اور ایڈونیرام بہت گہرے دوست بن گئے، اور ایڈونیرام اُس سے اِس قدر متاثر ہوئے تھے کہ جلد ہی وہ اتنے ہی مُنکرہو گئے جتنا کہ جیکب عیامس تھا۔ اگر ایڈونیرام کے والد کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اُن کا بیٹا ایک ڈیعسٹ بن گیا تھا تو اُنہوں نے اُن کو فوراً یونیورسٹی سے نکال لیا ہوتا۔ محترم جڈسن آزاد خیالی، وحدت پسندی اور آفاقیت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، لیکن اُنہوں نے محسوس کیا تھا کہ ڈیعسزم سب سے بد ترین تھی۔ ڈیعسٹ بائبل کو مکمل طور پر مسترد کرتے تھے۔ ڈیعسٹ صرف یہ یقین رکھتے تھے کہ کوئی خُدا تھا جس کا نسلِ انسانی کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ مسیح کو خُدا کے بیٹے کے طور پر مسترد کرتے تھے ، جنت یا جہنم پر ، یا میسح کے خونی کفارے پر یقین نہیں کرتے تھے۔ لیکن محترم جڈسن کو معلوم نہیں تھا کہ ایڈونیرام کے دوست جیکب عیامس نے اُن کے بیٹے کو ایسی خطا اور بے اعتقادی میں پھنسا دیا تھا۔
جیکب عیامس اُن نوجوان لوگوں کا راہنما تھا جن کے ساتھ ایڈونیرام کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ یہ لڑکے اکٹھے مطالعہ کرتے، نوجوان خواتین کے ساتھ دعوتیں کیا کرتے، اکٹھے بات چیت کرتے اور اکٹھے کھیلتے تھے۔ اِن نوجوان لوگوں کی مسیحیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بہت عظیم مصنف، ڈرامہ نگار اور اداکار بننے کی باتیں کرتے تھے۔ وہ امریکہ میں نئی دُنیا کے شیکسپیئر اور گولڈسمتھز بن جائیں گے۔ وہ تمام مذہب جو ایڈونیرام کے والد نے اِس قدر احتیاط کے ساتھ اپنے بیٹے کو سیکھایا تھا مکمل طور پر غائب ہو گیا۔ جیکب عیامس نے ایڈونیرام کو اپنے والد کے پرانے عقیدوں سے ’’آزادی دِلا دی‘‘ تھی، اور اُنہیں شہرت اور قسمت تلاش کرنے کے لیے آزاد کر دیا تھا۔
پھر بھی ایڈونیرام کو جرم کے احساس کی پشیمانی تھی۔ اپنے والد کے خُدا کو مسترد کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ اپنے والد کو مسترد کرنا، جن کا وہ اب بھی اپنے دِل کی گہرائیوں سے احترام کرتے تھے۔ اُنہیں اپنے والد کی نفرت کا خُوف تھا، لہٰذا جب بھی وہ نصف تعلیمی سال کی چھٹیوں کے دوران کالج سے گھر آتے، اُنہوں نے کبھی بھی اپنی بے اعتقادی کا تذکرہ نہیں کیا۔
ایڈونیرام اپنی جماعت میں اوّل آئے تھے۔ اُنہیں طالبِ علموں کو الوادعی خطاب دینے کے لیے چُنا گیا تھا، اور اپنے گریجوایٹ ہونے پر مرکزی تقریر کرنی تھی۔ جیسے ہی اُنہیں یہ معلوم ہوا کہ اُنہوں نے یہ اعزاز حاصل کر لیا تھا، وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگے تھے اور لکھا، ’’پیارے ابو جان، مجھے مل گیا ہے۔ آپ کا پیار کرنے والا بیٹا، اے. جے. A.J. ‘‘ شروعات کے اختتام پر، ایڈونیرام نے طالبِ علموں کا الوادعی خطاب اعلٰی ترین اعزاز کے رُتبے پر دیا، جس میں حاضرین کے ساتھ اُن کے قابلِ قدر والد اور والدہ تھے
یوں، اُنیس سال کی عمر میں، ایڈونیرام اپنی زندگی کا کام شروع کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن اُنہیں ذرا بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا ہوگا! وہ گھر آگئے اور ہر اتوار کو اپنے والد اور والدہ کے ساتھ گرجہ گھر جایا کرتے۔ اُن کے والدین نہیں جانتے تھے کہ وہ اب ایک مُنکرتھے. ہر دفعہ جب بھی وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ خاندانی دعا میں شرکت کرتے اُنہیں محسوس ہوتا جیسے وہ ایک منافق تھے۔
ہر ہفتے وہ مذید بے چین ہوتے چلے گئے۔ وہ اُن خواہشات کے بارے میں سوچتے رہتے جو اُنہوں نے جیکب عیامس کے ساتھ بانٹیں تھی۔ اُسی موسمِ گرما میں اُنہوں نے گھر چھوڑنے اور نیویارک چلے جانے کاحتمی فیصلہ کیا۔ وہ تھیٹر سے منسلک لوگوں سے ملیں گے۔ وہ سٹیج کے لیے ڈرامے لکھنا سیکھیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے والد اور والدہ سوچتے تھے کہ نیویارک امریکہ کا سب سے زیادہ گنہگار شہر تھا، ایک جدید صیدوم۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے والدین سوچتے تھے کہ تھیٹر گناہ اور اخلاقی زوال کا ایک جہنمی گڑھا تھا۔ لیکن اُنہوں نے سوچا کہ اُن کے والدین انتہائی تنگ ذہنیت کے ہیں۔
جلد ہی وہ نیویارک جانے کے لیے تیار تھے۔ اُن کے والدین کا ردِعمل ایسے تھا جیسا کہ ایڈونیرام نے اُنہیں یہ بتایا ہو کہ وہ چاند کاسفر کرنے جارہے تھے! اُنہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ اُن کے اصولوں کو ایک بالغ کی مانند خود کے لیے سوچنے اور عمل کرنے کے لیے توڑ پھینکنے کی حد تک چلے گئے تھے ۔ اِس موقع پر اُن کے والد نے اُنہیں علاقے کاپادری بننے کے لیے مطالعہ کرنے کا پوچھا۔ جب ایڈونیرام نے یہ سُنا، اُنہوں نے غُصیلے انداز میں اپنے والدین کو سچائی بتا دی۔ اُن کا خُدا ایڈونیرام کا خُدا نہیں تھا۔ وہ اب بائبل پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ یقین نہیں رکھتے تھے کہ یسوع خدا کا بیٹا تھا۔
اُن کے والد نے اُنہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ اُن کی والدہ بہت روئیں اور چلائیں جب وہ اُن کے پیچھے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا رہی تھیں۔ ’’تم کیسے یہ اپنی ماں کے ساتھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ چلائیں۔ اُن کے پیارے ایڈونیرام نے شیطان کو چُنا اور خُدا کو مسترد کیا تھا۔ جب بھی وہ گھر کے اندر جاتے، اپنی والدہ کو ہچکیاں لیتے اور دعا کرتے ہوئے سنتے تھے۔
ایڈونیرام اسی سلسلے کے ساتھ چھے دِنوں تک رہے۔ پھر وہ اپنے گھوڑے پر بیٹھے اور نیویارک کی طرف چل پڑے۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو اُنہوں نے دریافت کیا کہ وہ اُن کے خوابوں کی جنت کی مانند نہیں تھا۔ اُن کے لیے کوئی خوش آمدید اور کوئی ملازمت نہیں تھی۔ وہ بیزاری اور ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ وہاں صرف چند ہفتے ٹھہرے۔
جس وقت سورج غروب ہو رہا تھا وہ ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچے۔ اپنے لیے اُنہوں نے ایک سرائے تلاش کیا، اپنے گھوڑے کو اصطبل میں رکھا، اور سرائے کے مالک سے ایک کمرے کے لیے دریافت کیا۔ سرائے تقریباً بھر چکی تھی۔ وہاں صرف ایک ہی کمرہ خالی تھا۔ مالک مکان نے بتایا کہ کمرہ ایک نوجوان آدمی کے ساتھ والا ہے جو کہ انتہائی بیمار بلکہ شاید مرنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ رات کو وہ پریشان ہوں۔ ’’نہیں،‘‘ ایڈونیرام نے کہا، ایک رات کی اچھی نیند پانے کے لیے ساتھ والے کمرے کی چند ایک آوازیں اُنہیں نہیں روک سکیں گی۔ اُنہیں کچھ کھلانے پلانے کے بعد، مالک مکان ایڈونیرام کو اپنےکمرے میں لے گیا اور اُنہیں وہیں چھوڑ دیا۔ ایڈونیرام بستر میں گھس گئے اور نیند آنے کا انتظار کرنے لگے۔
لیکن وہ سو نہ سکے۔ وہ ساتھ والے کمرے سے قدموں کے آنے اور جانے کی، تختے کے چوں چوں کی دھیمی آوازیں، اورکراہنے اور ہانپنے کی مدھم آوازیں آتی ہوئی سُن سکتے تھے۔ اِن آوازوں نے اُنہیں اِس قدر پریشان نہیں کیا – نہ ہی اِس سوچ نے کہ وہ آدمی شاید مر رہا ہے۔ ایڈونیرام کے نئے انگلستان میں موت عام تھی۔ یہ کسی کو بھی، کسی عمر میں آسکتی تھی۔
جس بات نے اُنہیں پریشان کیا وہ یہ تھی کہ ساتھ والے کمرے میں آدمی شاید مرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کیا وہ، خود، اِس کے لیے تیار تھے؟ یہ خیالات اُن کے ذہن میں گھومتے رہے جب وہ آدھے خوابناکی اور آدھے جاگنے کی حالت میں لیٹے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے حیرت سے سوچا کہ وہ خود کیسے موت کا سامنا کریں گے۔ اُن کے والد تو موت کو خوش آمدید کہیں گے جیسے کہ ایک دروازہ دائمی شان و شوکت کے لیے کھل رہا ہو۔ لیکن ایڈونیرام کےلیے، جو منکر تھے، موت ایک دروازہ تھا جو کھلتا ہو ایک خالی کھائی میں، اندھیرے میں، اور سب سے زیادہ بہتر فنا پزیری کی طرف، اور سب سے بدتر – کیا؟ جیسے جیسے اُنہوں نے قبر کے بارے میں سوچا، مردہ جسم کے آہستہ آہستہ گلنے سڑنے کے بارے میں سوچا، دفن کیے گئے کفن پر مٹی کے بوجھ کا سوچا تو اُن کا جسم دھیرے دھیرے خوفزدہ ہونا شروع ہوگیا۔ کیا ناقابلِ اختتام صدیوں سے یہی سب کچھ تھا؟
لیکن اُن کا کوئی اور حصہ آدھی رات کی اِن سوچوں پر ہنس پڑا۔ اُن کے کالج کے دوست رات کی اِن ہولناکیوں کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر، اُن کا دوست جیکب عیامس کیا سوچے گا؟ اُنہوں نے تصور میں عیامس کو اُن پر ہنستے ہوئے دیکھا اور شرم محسوس کی۔
جب وہ جاگے تو سورج کھڑکی میں سے چمک رہا تھا۔ اُن کے خوف اندھیرے کے ساتھ ہی غائب ہو گئے تھے۔ وہ مشکلوں سے یقین کر سکتے تھے کہ گذشتہ شب وہ کس قدر خوفزدہ اور کمزور رہے تھے۔ اُنہوں نے لباس زیبِ تن کیا اور ناشتہ کھانے کے لیے نیچے چلے گئے۔ وہ سرائے کے مالک کو ملے اور رقم ادا کی۔ پھر اُنہوں نے دریافت کیا کہ آیا ساتھ والے کمرے کا نوجوان آدمی بہتر تھا۔ آدمی نے جواب دیا، ’’وہ مر گیا ہے۔‘‘ پھر ایڈونیرام نے پوچھا، ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون تھا؟‘‘ سرائے کے مالک نے جواب دیا، ’’اوہو، جی ہاں۔ وہ براؤن یونیورسٹی سے ایک نوجوان آدمی تھا۔ اُس کا نام عیامس تھا، جیکب عیامس۔‘‘ وہ اُن کا بہترین دوست تھا، ناقابلِ یقین جیکب عیامس، جو گذشتہ شب اُن کے ساتھ والے کمرے میں فوت ہوا تھا۔
ایڈونیرام پھر کبھی یہ یاد نہ رکھ پائے کہ اُنہوں نے اگلے چند گھنٹے کیسے گزارے۔ اُنہیں کچھ یاد رہا تھا تو وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے کچھ عرصے تک سرائے کو نہیں چھوڑا تھا۔ آخر کار وہ رنج اور صدمے کے ساتھ وہاں سے چل پڑے۔ ایک لفظ اُن کے ذہن میں گردش کرتا رہا – ’’گمشدہ!‘‘ اُن کا دوست جیکب عیامس کھو گیا تھا، موت میں۔ ایسے ہی کھو گیا تھا جیسے ہوا میں دھواں کھو جاتا ہے۔ اگر عیامس کے اپنے نظریات سچے تھے، تو پھر نا ہی اُس کی زندگی اور نا ہی اُس کی موت کا کوئی مطلب تھا۔
لیکن کیا ہوگا اگر عیامس غلطی پر تھا؟ کیا ہوگا اگر بائبل واقعی سچی تھی اور ذاتی خُدا حقیقی تھا؟ پھر تو جیکب عیامس دائمی طور پر کھو گیا تھا۔ اور اِس سے پہلے ہی، اُسی لمحے، عیامس جانتا تھا کہ وہ غلطی کرتا رہا تھا۔ لیکن اب عیامس کو توبہ کرنے کے لیے بہت زیادہ دیر ہو گئی تھی۔ اپنی یہ غلطی جان کر، عیامس پہلے ہی سے جہنم کے شعلوں کی ناقابلِ تصور اذیتوں کا تجربہ کر رہا تھا۔ بچائے جانے کا تمام موقع کھو چکا تھا، دائمی طور پرکھو گیا تھا۔ یہ خیالات ایڈونیرام کے دہشت زدہ ذہن سے گزرتے گئے۔ ایڈونیرام نے سوچا کہ اُن کے بہترین دوست کا ساتھ والے کمرے میں فوت ہونا کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔ اُنہوں نے سوچا کہ اُن کے والد کے خُدا نے پرودگاری سے اِن واقعات کو ترتیب دیا تھا، کہ وہ بالکل بھی اتفاق سے نہیں ہوا تھا۔
اچانک ایڈونیرام کو محسوس ہوا کہ بائبل کا خُدا حقیقی خُدا تھا۔ اُنہوں نے اپنے گھوڑے کو موڑا اور گھر کی طرف چل دیئے۔ اُن کا سفر تقریباً صرف پانچ ہفتوں تک کا رہا تھا، لیکن اِن پانچ ہفتوں کے دوران سفرجو شروع ہوا تھا اپنے والدین کے اختیار سے نکلنے پر اور ختم ہوا روح کو دہلا دینے والی اچانک اندرونی تبدیلی پر۔ خود اپنی جان کے لیے فانی خوف کی وجہ سے وہ اب شدید کرب میں مبتلا تھے۔ وہ واپس گھر ایک بیدار گنہگار کے طور پر پہنچے۔
اِس موقع پر علاقے کے دو پادری اُن کے والد کے گھر آئے۔ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ ایڈونیرام ایک نئی راہبوں کی مذہبی الہٰیاتی تربیت گاہ میں داخلہ لیں جس نے ابھی اپنے دروازے کھولے تھے۔ اُنہوں نے اکتوبر میں اینڈوور علمِ الہٰیات کی مذہبی تربیت گاہ Andover Theological Seminary میں داخلہ لیا۔ وہ ابھی تک مذہبی طور پر تبدیل نہیں ہوئے تھے، لہٰذا اُن کا داخلہ ایک مخصوص طالبِ علم کے طور پر ہوا ناکہ ایک ایسے طالبِ علم کے طور پر جو پادری یا راہب بننے کے لیے ہوتا ہے۔ وہاں طالبِ علم کی حیثیت سے اُنہوں نے بائبل کا مطالعہ اُس کی اصلی زبانوں عبرانی اور یونانی میں کرنا شروع کیا۔ نومبر تک اُن کے شکوک وشبہات دور ہونا شروع ہو گئے، اور وہ یہ لکھنے کے قابل ہو گئے کہ ’’اُنہوں نے پاک روح کے سُدھارنے والے اثرات کو قبول کرنے کی اُمید پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ دسمبر کے دوسرے دِن – ایک ایسا دِن جو وہ کبھی بُھلا نہیں سکتے – وہ مذہبی طور پر تبدیل ہوئے تھے اور اُنہوں نے اپنی تمام زندگی خُدا کے نام وقف کر دی تھی۔ اُس وقت کے بعد سے وہ واقعی ایک نئے انسان تھے۔ اُنہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی دیناوی فتح کے خوابوں سے منہ موڑ لیا تھا، اور سادگی سے اپنے آپ سے پوچھا تھا، ’’میں کِس طرح بہتر طریقے سے خُداوند کو خوش کر سکتا ہوں؟‘‘
یہ ایک انتہائی اہم مذہبی تبدیلی تھی، کیونکہ اِس نے ایڈونیرام کو برما کے لیے پہلے غیرملکی مسیحی مبلغینِ دین بننے کی طرف راہنمائی کی تھی۔ میدانِ مقصد پہنچنے پر، یونانی لفظ ’’بپٹِیسو baptizo‘‘ کے مطالعے کو پوری طرح پڑھنے سے، ایڈونیرام جڈسن ایک بپتسمہ دینے والے بن گئے۔ وہ برما ایک ایسے وقت گئے تھے جب کوئی بھی مبلغینِ دین اُس کافر سرزمین پر نہیں آیا تھا۔ انتہائی شدید مشکلوں، قیدوبندشوں اور خاندانی المیوں جن میں اُن کی بیوی اور کئی بچوں کی موت شامل ہے میں سے گزرتے ہوئے، مسیح کے لیے کھوئی ہوئی جانوں کو فتح کرنے اور تمام بائبل کا برما کی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے ایڈونیرام جڈسن کبھی بھی اپنے وعدے یا ذمہ داری سے نہیں لڑکھڑائے۔ ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ ہمارے گرجہ گھر کے کچھ نوجوان شخص ایک حقیقی مذہبی تبدیلی کا تجربہ کریں، جیسا کہ ایڈونیرام جڈسن نے کیا، اور تمام زندگی کے لیے مسیح کی زندگی جاری رکھی۔ ڈاکٹر جان آر. رائس Dr. John R. Rice (1895۔1980) نے ایک گیت لکھاجو کہ بالکل درست طریقے سے ایڈونیرام کی مذہبی تبدیلی کی وضاحت کرتا ہے۔
میں نے خوشی کا راستہ طے کیا، میں نے زمینی خزانے کے لیے مشقت کی،
لیکن تمام کسوٹیوں سے پرے، مجھے امن صرف یسوع میں ملا. . .
مجھے میرے دکھاوے کی اچھائیوں نے ناکام کیا، اُس گناہ کا کوئی علاج نہیں جس نے مجھے بیمار کیا،
پھر خُداوند کی روح نے مجھے قائل کیا کہ اپنے گناہوں کو یسوع پر چھوڑ دوں. . .
خُداوند کے کلام کی میں نے بہت عرصہ مزاحمت کی، اُس کی روح نے بُلایا، اصرار کیا،
میں نے توبہ کرنے والوں میں نام لکھوایا، یسوع پیارے یسوع کے ساتھ۔
میرے تمام گناہ معاف ہوئے ہیں، گناہ کی زنجیریں کٹ گئی ہیں،
اور میرا تمام دِل یسوع صرف یسوع کو ہی دیا گیا ہے۔
ہائے مسیح، ناختم ہونے والے پیار کے لیے، اُن برکات کے لیے جو بڑھ رہی ہیں،
میرے تمام خوف دور کرنے کے لیے، میں اپنے یسوع کو پیار اور اُس کی حمدوثنا کرتا ہوں۔
میرے تمام گناہ معاف ہوئے ہیں، گناہ کی زنجیریں کٹ گئی ہیں،
اور میرا تمام دِل یسوع صرف یسوع کو ہی دیا گیا ہے۔
(’’یسوع، صرف یسوع Jesus, Only Jesus‘‘ شاعر ڈاکٹر جان آر. رائس، 1895۔1980).
مہربانی سے کھڑے ہو جایئے اور اپنے گانوں کے ورق میں سے گیت نمبر 5 گائیے، ’’تقریباً قائل ہوا۔‘‘
اب یقین کرنے کے لیے ’’تقریباً قائل ہوا‘‘؛ مسیح کو پانے کے لیے ’’تقریباً قائل ہوا‘‘
لگتا ہے کہ کسی جان کو کہنا ہے، ’’جا، اے پاک روح، اپنے راستے پر جا،
میں تجھے کسی اور مناسب دِن بلاؤں گا۔‘‘
تقریباً قائل ہوا،‘‘ فصل ماضی کی ہے! ’’تقریباً قائل ہوا،‘‘ عذاب آخر میں آتا ہے!
’’تقریباً‘‘ پر ہر عمل نہیں کر سکتے؛ ’’تقریباً‘‘ ہے لیکن ناکامی کے لیے!
دُکھ کی بات ہے، دُکھ کی بات ہے، وہ ناقابلِ برداشت چِلانا – ’’تقریباً‘‘ لیکن کھویا ہوا۔
(’’تقریباً قائل ہوا‘‘ شاعر فلپس پی. بلِس، 1838۔1876).
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) –
or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.
Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نےDr. Kreighton L. Chan
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ: Mr. Benjamin Kincaid Griffith:
’’اِس سکوت میں، اے خُداوند، بول‘‘ (شاعر ای. میری گریمز E. May
style="margin-left:2.0in">Grimes، 1868۔1927؛ پادری سے ترمیم کیا گیا