اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
چین کے نئے سال پر ایک واعظA CHINESE NEW YEAR’S SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’ آسمان سے اُن لوگوں کی ساری بے دینی اور نا راستی پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے، جو سچائی کو اپنی ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں؛ چونکہ خدا کے معتلق جو کچھ بھی معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن پر ظاہر ہے؛ اِس لیے کے خدا نے خود اُسے اُن پر ظاہر کر دیا ہے۔ کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی اَن دیکھی صفات ہیں دنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں؛ لہٰذا انسان کے پاس کوئی عُذر نہیں: اگرچہ، وہ خدا کے بارے میں جانتے تھے لیکن انھوں نے اُس کی تمجید اور شکرگزاری خُدا کے طور پر نہ کی جس کے وہ لائق تھا؛ بلکہ اُن کے خیالات فضول ثابت ہوئے اور اُن کے ناسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن بے وقوف نکلے، اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی اِنسان اور پرندوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑے کی صورت میں بدل ڈالا۔ (رومیوں 1:18۔23). |
چینیوں کا نیا سال چینی روایتی چھٹیوں میں سب سے اہم ہے۔ یہ انسان کی دُنیاوی تاریخ میں سب سے پُرانا مسلسل تاریخ وار نظامِ تقویم ہے۔ اِس کی تاریخ قبل از مسیح سے دوہزار سال سے بھی پہلے ملتی ہے، اُس دور میں جب شہنشاہ ھوآنگ ٹائی Huang Ti پہلا نظامِ تقویم [کیلنڈر] متعارف کروایا تھا۔ مغربی نظامِ تقویم ہی کی طرح، چینی نظامِ تقویم بھی ایک سال کا ہوتا ہے۔ لیکن مغربی نظامِ تقویم کے برعکس، چینی نظامِ تقویم چاند کی گردشوں پر منحصر کرتا ہے۔ اِس طریقے کی تاریخوں کی وجہ سے، چینی نئے سال کا آغاز جنوری کے آخر اور فروری کے وسط میں کہیں بھی آ سکتا ہے۔ اِس سال چینی نیا سال کل آ تا ہے۔ لیکن روایتی طور پر تقریبات کئی دِنوں تک جاری رہتی ہیں۔ اِس لیے یہ بالکل مناسب ہوگا کہ ہم یہ ضیافت چینی نئے سال سے پہلے کی شام کو منائیں۔
ایک مکمل قمری گردش ساٹھ سال لیتی ہے اور یہ ہر 12 سالوں کی پانچ گردشوں سے بنا ہے۔ چینی قمری نظامِ تقویم میں بارہ سالوں میں سے ہر سال کو کسی ممالیہ[دودھ پلانے والے جانور]، حشرات یاپرندے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے – جو چوہا، بیل، چیتا، خرگوش، اژدھا، سانپ، گھوڑا، بھیڑ، بندر، مرغا، کُتا، اور سؤر پر مشتمل ہیں۔ یہ سال (2012 بعد از مسیح) اژدھا کا سال ہے۔
اِس نظامِ تقویم کی اقسام اور نئے سال کی تقریبات اُن ممالک میں بھی رائج ہیں جو چینیوں سے متاثر رہیں ہیں، جن میں کوریا، جاپان (1873 تک)، ویت نام، منگولیا، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور ، تائیوان اور تمام دُنیا کی چینی برادری والے شامل ہیں۔ چین کا نیا سال مشرقی ایشیا کے باہر کے ممالک میں بھی نئے سال کے تہوار کو متاثر کرتا ہوا ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ ایران۔
گذرے ہوئے آخری چار ہزار سالوں میں چینی نئے سال نے قصہ کہانیوں اور روایات کا ایک سلسلہ اپنایا، جیسا کہ ’’نیعن Nien ‘‘ ایک غضبناک اژدھا، جس کے بارے میں قدیم چینی یقین رکھتے ہیں کہ وہ نئے سال کی شام کو لوگوں کو کھاتا ہے۔ آج کے دِن تک نیعن کو بحیثیت ایک خوفناک اژدھا کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے جو کہ صرف چُھٹی کے دِن لال رنگ کے ذریعے سے یا پٹاخوں کے ذریعے سے خوفزدہ کر کے بھگایا جا سکتا ہے۔ اِس یقین کی جڑیں چینیوں کے ذریعے سے شیطان کے قدیم شعور کو ظاہر کرتی نظر آتی ہیں، جن کا ابھی تک ارضِ چین میں شیاطین پر مضبوط یقین ہے۔ بائبل شیطان کی پیشنگوئی کرتی ہے،
’’وہ بڑا اژدھا. . . وہی پرانا سانپ، جس کا نام ابلیس، اور شیطان ہے، اورجو ساری دُنیا کو گمراہ کرتا ہے‘‘ (مکاشفہ 12:9).
لیکن شیطان کو پٹاخوں یا لال رنگ کی پٹیوں سے خوفزدہ کر کے بھگایا نہیں جا سکتا! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لال رنگوں کا استعمال اژدھے پر فتح پانے کے لیے شاید ابتدائی خون کی قربانیوں میں اپنی جڑیں رکھتا ہے – اشارتاً مسیح کا خُون۔ بائبل کہتی ہے، ’’وہ برّے کے خُون کی بدولت اُس [شیطان] پر غالب آئے‘‘ – یسوع میسح (مکاشفہ 12:11). اِس بات کو سمجھنے کے لیے کہ چینیوں کے نئے سال کا گذرتی ہوئی صدیوں میں ارتقاء کیسے ہوا، ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین چار مذہبی ادوار سے گذرا ہے۔
جب میں نے پہلی مرتبہ چینیوں کے لیے مذہبی تبلیغی مبشر کی خُدا کی طرف سے آواز محسوس کی، میں نے پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں میں نے منادی کے لیے ڈاکٹر ٹِموتھی لِن Dr. Timothy Lin سے بہت زیادہ تربیت حاصل کی، جو کہ بائبل کے ایک چینی عالم تھے جنہوں نے اِس سے قبل باب جونز یونیورسٹی کےگریجوایٹ سکول میں درجہ بہ درجہ علمِ الہٰیات اور سامی زبانیں پڑھائیں تھی۔ وہ 1960کی دہائی اور 1970 کی ابتدائی دہائی میں میرے پادری اور اُستاد تھے۔ بعد میں وہ ڈاکٹر جیمس ہڈسن ٹیلر سوئم کے جانشین کے طور پر تائیوان میں چینی مبلغینِ انجیل کی مذہبی تربیت گاہ میں بحیثیت صدر چلے گئے۔
سان فرانسسکو میں ہیملٹن سکوائر کے پبتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے پادری، ڈاکٹر ڈیوڈ اِنز، باب یونیورسٹی کے ڈاکٹر لِن کو جانتے تھے۔ ڈاکٹر اِنز نے مجھے ڈاکٹر لِن کے رومیوں 1:18۔32 کے لُبِ لُباب کی یاد دہانی کرائی۔ ڈاکٹر لِن کا لُبِ لُباب تھا (1) نور نے آشکارہ کیا، رومیوں 1:18۔20؛ (2) نور نے مسترد کیا، رومیوں 1:21۔25؛ (3) نور نے برطرف کیا، رومیوں 1:26۔32 . میں ڈاکٹر لِن کے لُبِ لُباب کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن میں آخر میں چوتھے نقطے کا اضافہ کروں گا۔
1۔ اوّل، چین ایک خُدا کی سرزمین تھا۔
ڈاکٹر لِن نے کہا کہ قدیمی دُنیا بشمولِ چین، اصل میں ایک خُدا پر یقین رکھتے تھے۔ ڈاکٹر لِن نے رومیوں 1:18۔20 میں سے حوالہ دیا، جو کہ ڈاکٹر چَین Dr. Chan نے چند لمحات قبل پڑھا تھا۔
’’آسمان سے اُن لوگوں کی ساری بے دینی اور نا راستی پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے جو سچائی کو اپنی ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں؛ چونکہ خدا کے معتلق جو کچھ بھی معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن پر ظاہر ہے؛ اِس لیے کے خدا نے خود اُسے اُن پر ظاہر کر دیا ہے۔ کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی ان دیکھی صفات ہیں دنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں؛ لہٰذا انسان کے پاس کوئی عُذر نہیں‘‘ (رومیوں 1:18۔20).
جو قدیمی دُنیا میں ہوا تھا یہ اُس کی ایک تصویر ہے ۔ اصل میں ’’ساری زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی‘‘ (پیدائش 11:1). لیکن گناہ کی وجہ سے، بابل کے بُرج پر، ’’کیونکہ وہاں خُدا نے سارے جہاں کی زبان میں اختلاف ڈالا تھا: اور وہاں سے خُدا نے اُنہیں تمام روئے زمین پر منتشر کر دیا تھا‘‘ (پیدائش 11:9).
جب لوگوں کے یہ گروہ بابل کے برج پر بکھرے تھے تو اُن میں سے کچھ بہت دور مشرق تک سفر کر گئے جو کہ اب چین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیمس لیگی Dr. James Legge (1815۔1897) ایک مشہور چینی ثقافتی زبان کے عالم تھے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں چینی زبان اور ادب کے بیس سال تک پروفیسر رہے تھے۔ اپنی کتاب، چین کے مذاہب The Religions of China (چارلس سکرِیبنر کے بیٹوں کی Charles Scribner’ Sons، 1881)، ڈاکٹر لیگی نے واضح کیا کہ چین کا اصلی مذہب توحید تھا، ایک خُدا میں یقین، جس کو وہ شَینگ ٹی Shang Ti (آسمان کا بادشاہ) کہتے تھے۔ ڈاکٹر لیگی نے دکھایا کہ اصل میں مسیح سے دو ہزار سال قبل، چینی ایک خُدا کی پرستش کرتے تھے۔ یہ کنفیوشیئس Confucius (551۔479 قبل ازیں مسیح) اور بُدھا Buddha (563۔483 قبل ازیں مسیح) کے پیدا ہونے سے تقریباً 1,500 سال پہلے کی بات تھی۔ بُدھ مت چین میں ہندوستان سے آیا تھا، اور اِس لیے، چین میں لایا جانے والا غیر ملکی مذہب تھا۔ کنفیوژئین اِزم اخلاقیات اور درست اور غلط کا ایک نظام تھا – حقیقت میں کوئی مذہب نہیں تھا۔ لیکن ایک خُدا کی پرستش کا اِس سے بھی پُرانا مذہب، شَینگ ٹی (آسمان کا بادشاہ)، کنفیوشیئش یا بُدھا کے بھی پیدا ہونے سے تقریباً 1,500 سال پہلے رائج تھا۔ صدیاں گذرنے کے ساتھ ساتھ، مذید روحوں میں اضافہ ہوتا گیا اور بعد میں اُن کی پرستش کی جاتی رہی، لیکن شَینگ ٹی (آسمان کا بادشاہ) قدیم چینی تہذیب و تمدن کا اعلٰی ترین درجے کا خُدا مانا جاتا رہا۔ ڈاکٹر لیگی کا نقطۂ نظر ڈاکٹر وِلہم شزمیت Dr. Wilhelm Schmidt (مذہب کا نقطۂ آغاز اور افزائش The Origin and Growth of Religion، کوُپر سکوائر اشاعت خانے والے، 1972 ایڈیشن( کے نقطۂ نظر جیسا ہے۔ شَینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ، سینکڑوں سالوں تک قدیم چین کا سچا خُدا تھا! مہربانی سے کھڑے ہو جائیے اور حمد نمبر 6 کا پہلا بند گائیے۔
حمد و ستائش، میری جان، آسمان کے بادشاہ، تیرے قدموں میں اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں؛
بخشا ہوا، صحت یاب، قائم شُدہ، معاف کیا گیا، کون، میرے جیسا، اُس کی حمد و ثنا گانی چاہیے؟
ہیلیلویاہ! ہیلیلویاہ! ابدیت تک رہنے والے بادشاہ کی حمد و ستائش کریں!
(’’ حمد و ستائش، میری جان، آسمان کے بادشاہ‘‘ شاعر ہنری ایف. لِٹ
Henry F. Lyte ، 1793۔1847).
یہ ہے شَینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ! وہ ہمار ا خُدا ہے، خُداوند یسوع مسیح کا خُدا!
2۔ دوئم، چین بہت سے خُداؤں کی سرزمین بن گیا۔
لیکن، صدیاں گذرنے کے ساتھ، چینی لوگوں نے شَینگ ٹی (آسمان کا بادشاہ) ایک خُدا کی پرستش سے دور ہونا شروع ہو کر بہت سے خُداؤں کی پرستش شروع کردی۔ اِس پیغام سے قبل جو حوالہ ڈاکٹر چَین نے پڑھا تھا جاری رہتا ہے یہ کہتے ہوئے،
’’اگرچہ، جب وہ خدا کے بارے میں جانتے تھے، لیکن انھوں نے اُس کی تمجید اور شکرگزاری خُدا کے طور پر نہ کی جس کے وہ لائق تھا۔ بلکہ اُن کے خیالات فضول ثابت ہوئے، اور اُن کے ناسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن بے وقوف نکلے۔ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی اِنسان اور پرندوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑے کی صورت میں بدل ڈالا‘‘ (رومیوں 1:21۔23).
چین میں جو کچھ ہوا تھا بالکل ویسا ہی ہے جو امریکہ میں ہو رہا ہے۔ ابتدائی چینی لوگ ایک خُدا پر یقین رکھتے تھے، جس کو وہ شَینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ کہتے تھے، بالکل اِسی طرح، امریکہ میں ابتدائی نو آبادکار خُدا پر یقین رکھتے تھے۔ وہ زائرین تھے۔ وہ میسحی تھے جو امریکہ میں مذہب کی آزادی کی تلاش میں آئے تھے۔ پہلی شکرگذاری پر وہ خُدا کی عبادت کرتے، اُن کی حفاظت کرنے پر اور اُن کے لیے سُہولیات فراہم کرنے پر اُس کا شکریہ ادا کرتے۔ لیکن آج، صرف 400سال بعد، بہت سے امریکی شکرگذاری پر خُدا کےبارے میں بالکل نہیں سوچتے۔ اور، آج، بہت سے امریکی عجیب و غریب فرقوں اور جھوٹے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت سے دوسرے امریکی تو سچ میں خُدا پر بالکل ہی یقین نہیں رکھتے۔ اِس لیے یہ امریکی، صرف 400 سال میں، قدیم چینیوں کی مانند بن گئے۔ اب وہ بہت سے جھوٹے خداؤں کی پرستش کرتے ہیں۔ بہت سے امریکی تو اب شکرگذاری کو ’’ٹرکی کا دِن‘‘ [ٹرکی ایک بڑا پرندہ ہے] کہتے ہیں۔بجائے اِس کے کہ اُس دِن یہ خُدا کا شکر ادا کریں، اِن امریکیوں کے لیے تو یہ دِن محض ٹرکی کھانے، شراب پینے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا اِن امریکیوں نے ایک خُدا کی پرستش چھوڑ دی ہے بالکل ایسے ہی جیسے قدیم چینی لوگوں نے چھوڑ دی تھی۔
’’وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن بے وقوف نکلے، اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی اِنسان اور پرندوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑے کی صورت میں بدل ڈالا‘‘ (رومیوں1:22:23).
3۔ سوئم، چین بغیر خُدا کے ایک سرزمین بن گیا۔
یکم اکتوبر 1949 ماؤ سیعائی سوٹنگ Mao Tse Tung اور اُس کی اشتراکیت پسند قوتوں نے چین پر فتح پائی۔ ماؤ مسیحی مبلغینِ دین کو ’’روحانی جارحیت پسند‘‘ کہتا تھا۔ آنے والے دس سالوں کے دوران تمام غیر ملکی مسیحی مبلغینِ دین یا تو چین سے فرار ہو گئے یا اشترکیت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو ئے۔ غیر مُلکی مسیحی مبلغینِ دین کے چلے جانے کے بعد اشتراکیت پسندوں نے اصلی چینی مسیحی باشندوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ بہتیروں کو قتل کر دیا۔ باقی تائیوان فرار ہو گئے۔
ہزاروں چینی مسیحیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ چند ایک معجزانہ طور پر بچ گئے اور بیس سال سے بھی زیادہ قید کاٹنے کے بعد رہا کر دیے گئے۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں ماؤ سیعائی سوٹنگ نے دُنیا پر چین کے دروازے بند کر دیئے۔ چین باقی تمام دُنیا کے لیے بند رہا جب تک کہ صدر نیکسن President Nixon نے فروری 1972 میں اِس کے دروازے نہ کھول دیے۔ جو نیکسن نے کیا وہ تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ تھا۔ آنے والی نسلیں صدر نیکسن کی قدروقیمت کا ناصرف چین کھولنے کے لیے، بلکہ بےشمار دوسری وجوہات کے لیے دوبارہ اندازہ لگائیں گی۔ جیسے کہ ضروری عسکری خدمت گذاری کا خاتمہ اور ہمارے امریکی سکولوں کو یکجا کرنے کا عمل۔ وہ سب سے پہلے صدر بھی تھے جنہوں نے سابقہ سویت یونین کا دورہ کیا، اس طرح صدر ریگن President Reagan کے اِس ’’شیطانی سلطنت‘‘ کو منہدم کرنے کے کام کے لیے راہ ہموار کی۔ نیکسن ایک دُنیا تبدیل کر دینے والے صدر تھے۔ اُن کے بغیر آج چین کے ساتھ شاید ہمارے تعلقات نہ ہوتے! اگر آپ ایک تبادلے والے طالب علم ہیں تو آپ یہاں صدر نیکسن کے بغیر کبھی نہ ہوتے! صدر نیکسن کے بغیر آپ کبھی بھی چین جانے کے قابل نہ ہوتے!
تمام مسیحی مبلغینِ دین کے چلے جانے کے بعد، اور چین کے مسیحیوں کے شکار کرنے اور قید کرنے کے بعد، بہت سے لوگ حیرانی کے ساتھ سوچتے تھے کہ کیا چین میں مسیحیت زندہ رہ سکے گی (ذریعہ، چین: خُون کے دھبوں کا سراغ China, The Blood-Stained Trail، رائیلی کے. سمتھ Riley K. Smith، شہیدوں کی آواز The Voice of the Martyrs، 2008، صفحات 62۔63).
لیکن خُدا پر ایمان نہ رکھنے والے اشتراکیت پسند یہ بھول گئے کہ بائبل نے اُن کے بارے میں کیا کہا تھا،
’’احمق اپنے دِل میں کہتا ہے، کوئی خُدا ہے ہی نہیں‘‘ (زبور 14:1).
یہ برخلافِ خُدا اشتراکیت پسند بائبل میں ’’احمق‘‘ کہلاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ کوئی انسان خُدا کو قتل نہیں کر سکتا! بائبل اُسے ’’ابدی خُدا‘‘ کہتی ہے (استثنا 33:27). یہ ہمیں چوتھے نقطے تک راہنمائی کرتی ہے۔
4۔ چہارم، چین اب ایک سچے خُدا کے طرف واپس آ رہا ہے۔
یرمیاہ نبی نے ایک حیران کُن پیشنگوئی کی تھی جب اُس نے کہا،
’’اے خداوند. . . مختلف قوموں کے لوگ زمین کے کناروں سے تیرے پاس آئیں گے ‘‘ (یرمیاہ 16:19).
اس طرح، یرمیاہ نبی نے یہ واضح کر دیا کہ غیر اقوام خُداوند یسوع مسیح, خُدا کے بیٹے کے ذریعے سے خُدا کے پاس آئیں گے۔ ایک اور نبی اشعیا نے کہا کہ چینی لوگ اُن میں سے ہونگے جو مسیح کے پاس دُنیا کے آخری وقت میں آئیں گے،
’’دیکھ، وہ بہت دُور سے آئیں گے: کچھ شمال کی جانب سے، کچھ مغرب کی طرف سے، اور کچھ آسوان کے علاقوں سے‘‘ (اشعیا 49:12).
’’سِنِم Sinim‘‘ (جس کا تلفظ سی۔نیم see-neem ہے) سٹرانگ Strong؛ براؤن، ڈرائیور اور بریگز ؛ جیسنیئس؛ ڈاکٹر جان گِل؛ کیئل اور ڈیلٹژزچ Keil and Delitzsch ، اور ڈاکٹر جیمس ہڈسن ٹیلر، جو کہ چین کے اندرونی ملکی وفد کے بانی ہیں، کی مکمل اور جامع اتفاقِ رائے کے مطابق۔
اشعیا 49:12 ایک اہم پیشن گوئی ہے، جو کے چینیوں کے واپس سچے خُدا کی طرف دُنیا کے آخری وقتوں میں آنے کے بارے میں ہے۔ چین کی عوامی جمہوریت میں جاری عظیم تجدیدِ نو آج کی جدید تاریخ میں نئے مسیحیوں کی ایک بہت بڑی مدد کی التجا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً 1,000 لوگ روزانہ دِن اور رات چین میں ہر ایک گھنٹے میں مسیحی ہو رہے ہیں! اِس کے بارے میں سوچیئے! ہمارے اِس دور میں تقریباً 24,000 لوگ چین میں روزانہ مسیحی ہو رہے ہیں۔ اب اِتوار کی صبح ریاست ہائے متحدہ، کینیڈا اور یورپ کے گرجہ گھر کے تمام لوگوں کو اکٹھا مِلا کر جتنے لوگ ہوتے ہیں اُس کی نسبت چین میں گرجہ گھر میں زیادہ لوگ ہوتے ہیں۔ ہم چین میں کڑوروں لوگوں کی گواہی دیکھ رہے ہیں جو خُداوند یسوع مسیح کے ذریعے سے خُدا کے پاس آ رہے ہیں۔
میسح آیا کہ نسلِ انسانی کو اصلی خُدا کے پاس واپس لے جائے، جس کی تمام قوموں میں ہمارے قدیم آباؤ اجداد پرستش کرتے تھے۔ میسح آیا ہے ہمیں واپس خُدا کے پاس لے جانے کے لیے۔ مسیح صلیب پر مرا تاکہ ہمارے گناہ کا کفارہ ادا کر سکے۔ وہ مُردو ں میں سے زندہ ہوا تاکہ ہمیں ایک نیا جنم اور ابدی زندگی عطا کرے۔ ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ آپ یسوع، خُدا کے بیٹے کے پاس آئیں اور مذہبی طور پر تبدیل ہوں! مہربانی سے کھڑے ہو جایئے اور حمد نمبر چھے کا پہلا بند گائیے۔
حمد وستائش، میری جان، آسمان کے بادشاہ، تیرے قدموں میں اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں؛
بخشا ہوا، صحت یاب، قائم شُدہ، معاف کیا گیا، کون، میرے جیسا، اُس کی حمد و ثنا گانی چاہیے؟
ہیلیلویاہ! ہیلیلویاہ! ابدیت تک رہنے والے بادشاہ کی حمد و ستائش کریں!
ایک گیت ہے جو اِس بات کو بہت واضح کر دیتا ہے۔ یسوع مسیح کو اپنا ذاتی نجات دہندہ اور خُداوند جاننا اِس دُنیا کی مال و دولت کے ہونے سے کئی گُنا زیادہ انتہائی اہم ہے۔
ایکڑوں کے ھیروں، سونے کے پہاڑوں،
چاندی کے دریا، اَن کہے زیورات؛
یہ تمام مل کر بھی، آپ کو یا مجھے خرید نہیں سکتے
امن جب ہم سورہے ہیں یا ایک ضمیر جو آزاد ہے۔
ایک دِل جو مطمئن ہے، ایک ذہن جو اطمینان بخش ہے،
یہ ایسے خزانے ہیں جو پیسہ خرید نہیں سکتا؛
اگر آپ کے پاس یسوع ہے، تو آپ کی جان کے پاس زیادہ دولت ہے،
ایکڑوں کے ھیروں، سونے کے پہاڑوں سے زیادہ۔
(’’ ایکڑوں کے ھیروں‘‘ شاعر آرتھر سمتھ، 1959).
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ رومیوں 1:18۔23 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ: Mr. Benjamin Kincaid Griffith:
’’اُس کے بجائے میں یسوع چاہوں گا‘‘ (شاعری کی ہے رہیا ایف. مِلر Rhea F. Miller، 1922؛
موسیقی ترتیب دی ہے جارج بیورلی شیا، George Beverly Shea، 1909۔( .
لُبِ لُباب چین کے نئے سال پر ایک واعظ A CHINESE NEW YEAR’S SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’ آسمان سے اُن لوگوں کی ساری بے دینی اور نا راستی پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے، جو سچائی کو اپنی ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں؛ چونکہ خدا کے معتلق جو کچھ بھی معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن پر ظاہر ہے؛ اِس لیے کے خدا نے خود اُسے اُن پر ظاہر کر دیا ہے۔ کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی اَن دیکھی صفات ہیں دنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں؛ لہٰذا انسان کے پاس کوئی عُذر نہیں: اگرچہ، وہ خدا کے بارے میں جانتے تھے لیکن انھوں نے اُس کی تمجید اور شکرگزاری خُدا کے طور پر نہ کی جس کے وہ لائق تھا؛ بلکہ اُن کے خیالات فضول ثابت ہوئے اور اُن کے ناسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن بے وقوف نکلے، اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی اِنسان اور پرندوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑے کی صورت میں بدل ڈالا۔ (رومیوں 1:18۔23). (مکاشفہ 12:9،11) 1۔ اوّل، چین ایک خُدا کی سرزمین تھا، رومیوں 1:18۔20؛ پیدائش 11:1،9 . 2۔ دوئم، چین بہت سے خُداؤں کی سرزمین بن گیا، رومیوں1:21۔23 . 3۔ سوئم، چین بغیر خُدا کے ایک سرزمین بن گیا، زبور 14:1؛ استثنا 33:27 . 4۔ چہارم، چین اب ایک سچے خُدا کے طرف واپس آ رہا ہے، یرمیاہ 16:19؛ اشعیا 49:12 . |