اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
حقیقی مذہب تبدیل کرنے والے کا پھل !THE FRUIT OF A REAL CONVERT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اُس اچھی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج گِرتا ہے؛ وہ کلام کو سُنتے ہیں، قبول کرتے ہیں اور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا اور بعض سَو گُنا‘‘ (مرقس 4:20). |
’’بونے والا خُدا کے کلام کا بیج بوتا ہے‘‘ (مرقس4:14). یہ مسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے اُس کی زمینی منادی کے دوران، اور اب اُن کےلیے جو اُس کے کلام کی تبلیغ کرتے ہیں (رومیوں 10:14). ’’بیج بونا‘‘ خُدا کے کلام کی تبلیغ کی طرف حوالہ دیتا ہے، اور خاص طور پر یسوع کی خوشخبری کی تبلیغ دینے پر، جو زندہ کلام ہے، ’’کلام مجّسم ہوا، اور ہمارے درمیان خیمہ زن ہوا‘‘ (یوحنا 1:14). اب، یہاں مسیح کی خوشخبری کی منادی کے چار نتیجے ہیں۔
1۔ اوّل، وہ جن کے دِل سے شیطان فوراً کلام نکال کر لے جاتا ہے۔
’’ کچھ لوگ جنہیں کلام سنایا جاتا ہے راہ کے کنارے والے ہیں۔ جونہی کلام کا بیج بویا جاتا ہے، شیطان فوراً آتا ہے اور اُن کے دل سے وہ کلام نکال لے جاتا ہے‘‘ (مرقس 4:15).
اِس قسم کا شخص منادی سے نا ہی تو پریشان ہوتا ہے نا ہی اُسے کوئی فرق پڑتا ہے۔ وہ لاتعلق اور بے پرواہ ہے۔ شیطان ’’فوراً‘‘ وہ کلام جو اُس کے دل میں بیجا گیا تھا چھین لیتا ہے۔ پھر وہ چلا جاتا ہے اور ہم اُسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھتے۔
2۔ دوئم، وہ جو کچھ دِنوں تک ہی قائم رہتے ہیں، لیکن جب اُن پر اُس کلام کی وجہ سے مصیبت برپا ہوتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتے ہیں۔
’’اِسی طرح بعض لوگ اُس پھتریلی زمین؛ کی طرح ہیں جس پر بیج گرتا ہے۔ وہ خدا کے کلام کو سُنتے ہی قبول کر لیتے ہیں۔مگر وہ کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑنے پاتا۔ چنانچہ وہ کچھ دِنوں تک ہی قائم رہتے ہیں اور بعد میں، جب اُن پر اُس کلام کی وجہ سے مصیبت یا ایذا برپا ہوتی ہے تو وہ فوراً گرجاتے ہیں‘‘ (مرقس 4:16۔17)
وہ بخوشی کلام کو قبول کرتے ہیں (’’خوشی کے ساتھ‘‘ لوقا 8:13). میرے خیال میں ولیم میکڈونلڈ دُرست تھے جب اُنہوں نے کہا، ’’یہ اچھا ہوتا اگر وہ اُسے گہرائی کے ساتھ. . . ندامت. . . لیکن یہ محض ذہنی قبولیت ہے،‘‘ ایک جذبہ ( ولیم میکڈونلڈ، ایماندار کی بائبل پر تبصرہ Believer’s Bible Commentary، تھامس نیلسن اشاعت خانہ، ایڈیشن 1995، صفحہ 1330؛ مرقس 4:16۔17 پر ایک یاداشت). جب مسیح کا اقرار کرنے سے اُس کو مصیبت یا ’’ایذا‘‘ کا تجربہ ہوتا ہے وہ فوراً ’’گِر جاتا‘‘ ہے۔ لوقا اِس میں اضافہ کرتا ہے، ’’وہ جو کُچھ دیر کے لیے یقین کرتے ہیں [صرف ذہنی طور پر] اور آزمائش کے وقت میں گِر جاتے ہیں۔‘‘ ریئنیکر Reinecker کے مطابق ’’گِر جاتے ہیں‘‘ کا مطلب ہے ’’دور چلے جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں‘‘ (فریٹز ریئنیکر Fritz Reinecker، یونانی نئے عہد نامے کی زبان سے متعلق کُلید A Linguistic Key to the Greek New Testament، ژونڈروان اشاعت خانہ، ایڈیشن 1980، صفحہ 161؛ لوقا 8:14 پر ایک یاداشت( . وہ اپنے مقامی گرجہ گھر سے ’’دور چلے جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں‘‘۔ اپنے ضمیر کو غلام بنانے کے لیے وہ کچھ دیر کے لیے کسی دوسرے گرجہ گھر چلے جاتے ہیں، لیکن وہاں بھی وہ زیادہ عرصے تک نہیں ٹھہر تے کیونکہ خُود ’’اُن میں کوئی جڑ نہیں ہوتی‘‘ (مرقس 4:17)، یعنی کہ وہ مذہبی طور پر تبدیل نہیں ہوئے تھے؛ اُنہوں نے کبھی بھی ’’اُس [یسوع] میں جڑ نہیں پکڑی اور تعمیر‘‘ نہیں ہوئے (کلسیوں 2:7).
اگر اُن کی مسیحی والدین نے گرجہ گھر میں پرورش کی تھی، وہ اُس وقت تک وہاں رہتے ہیں جب تک کہ اُن کے والدین ہر چیز کے لیے رقم ادا کر رہے ہیں، لیکن بعد میں جب وہ خود مختار ہو جاتے ہیں اور جب حالات اُن کے لیے مشکل ہو جاتے ہیں تو وہ ’’گِر جاتے‘‘ ہیں۔
وہ تمام جو اِس حالت میں ہیں اُن کے لیے کہا جا سکتا ہے، ’’وہ مسیحی ہونے کا اُس وقت تک دعویٰ کرتا ہے جب تک ایسا کرنے سے وہ مشہور ہے، لیکن ایذائیں اُس کے جعلی پن کا بھید کھول دیتی ہیں‘‘ (ولیم میکڈونلڈ، ibid.؛ مرقس 4:17 پر ایک یاداشت). ہمارے مُناد ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan نے کہا کہ اِس قسم کےاشخاص ’’خوشخبری [بائبل] کے کلام کے ساتھ متفق ہو جائیں گے، اور مسکرائیں گے – اور پھر وہ واپس اُسی طرح کے ہو جائیں گے جیسے کہ پہلے تھے۔ وہ اُس کی سچائی کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہونگے، یا اُسے اپنی زندگیوں میں نہیں جیتے۔‘‘
3۔ سوئم، وہ جن کا دَم دُنیا کے خدشات سے اور اُن کا زیادہ کمانے کی خواہش کے وجہ سے گُھٹ جاتا ہے۔
اِسے با آوازِ بُلند پڑھیئے۔
’’ جھاڑیوں میں گرنے والے بیج سے مراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے تو ہیں لیکن اِس دنیا کی فکریں، دولت کا فریب اور دوسری چیزوں کا لالچ آڑے آ کر اس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے‘‘ (مرقس 4:18۔19).
ولیم میکڈونلڈ نے کہا، ’’یہ لوگ ایک عہد کے ساتھ آغاز بھی کرتے ہیں۔ تمام ظاہری باتوں کے لیے، وہ سچے ایماندار نظر آتے ہیں۔ لیکن پھر وہ، دُنیاوی پریشانیوں کے ساتھ، دولت مند بننے کی ہوس کے ساتھ، اپنے کاروبار میں بہت زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ روحانی باتوں میں دلچسپی کھو دیتے ہیں، یہاں تک کہ آخر میں وہ مسیحی ہونے کا داعویٰ بھی چھوڑ دیتے ہیں‘‘ (میکڈونلڈ، ibid. ؛ مرقس 4:18۔19 پر ایک یاداشت).
ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’وہ کہیں سے بھی ایماندار نہیں ہیں! اُنہوں نے کلام سُنا اور صرف اُسے تسلیم کرنے کا اقرار کیا‘‘ (جے. ورنن میکجی، ٹی ایچ. ڈی.، بائبل کے ذریعے Thru the Bible، تھامس نیلسن اشاعت خانہ، 1983، جلد چہارم، صفحہ 73؛ متی 13:22 پر ایک یاداشت). زندگی خود ظاہر کرتی ہے کہ اس قسم کا شخص کبھی بھی مذہبی طور پر تبدیل نہیں ہوتا۔ اکثر مسیحی گھرانوں میں پروان چڑھنے والے بچے مذہبی طور پر تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب وہ ’’خود مختار‘‘ ہوتے ہیں، اپنے اخراجات خود برداشت کرتےہیں کیونکہ اب اُن کے پاس نوکری ہوتی ہے، اور اُنہیں اب اُن کے مسیحی والدین سہارا نہیں دے رہے ہوتے، ’’اِس دُنیا کے خدشات‘‘ اور زیادہ پیسے کمانے کی خواہش، ’’کلام کا گلا گھونٹ‘‘ دیتی ہے، اور جیسا کہ ڈاکٹر میکجی نے کہا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’وہ بالکل بھی ایماندار نہیں ہیں!‘‘ (ibid.، متی 13:22 پر ایک یاداشت). وہ خوشخبری کا کلام جانتے ہیں، لیکن زندگی کی آزمائشیں اور بہتر روزگار کی خواہش، زیادہ اور زیادہ دولت کے ساتھ، ’’کلام کا گلا دبا‘‘ دیتی ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کبھی حقیقتاً مذہبی طور پر تبدیل ہوئے ہی نہیں تھے۔
4۔ چہارم، وہ جو حقیقتاً مذہبی طور پر تبدیل ہوتے ہیں۔
’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اُس اچھی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج گِرتا ہے؛ وہ کلام کو سُنتے ہیں، قبول کرتے ہیں اور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا اور بعض سَو گُنا‘‘ (مرقس 4:20).
’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اچھی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج گِرتا ہے۔‘‘ یہ ’’اچھی زمین‘‘ کیاہے؟ لوقا اِس میں اضافہ کرتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے اور اُسے قبول کرتے ہیں ’’ایک ایماندار اور اچھے دِل میں‘‘ (لوقا 8:15). ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’یہ وہ سُننے والے ہیں جو حقیقتاً مذہبی طور پر تبدیل ہوتے ہیں‘‘ (جے. ورنن میکجی، ٹی ایچ. ڈی.، ibid.، جلد چہارم، صفحہ 281؛ لوقا 8:15 پر ایک یاداشت).
تبدیلی سے پہلے کسی کا بھی ایک ’’ایماندار اور اچھا دِل‘‘ نہیں ہوتا۔ یرمیاہ نبی نے کہا، ’’دِل تمام چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لاعلاج ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 17:9). ڈاکٹر گِل نے کہا، ’’ایک ایماندار اور اچھا دِل؛ جو قدرتی طور پر کسی بھی انسان کا نہیں ہوتا؛ نہ ہی کوئی انسان ایسا دِل بنا سکتا ہے: یہ خُدا کا کام ہے، اور یہ اُسی کے مؤثر فضل کی بدولت ہے. . . یہ ایک نیا اور درست دِل ہوتا ہے. . . اِس لیے وہ جو کلام سُنتا ہے اُسے فوراًگرفت میں لیتا ہے، سمجھتا ہے اور تمام وفاداری اور ایمانداری کے ساتھ قبول کرتا ہے: [اور پھل لاتا ہے، متی4:20] اِس طرح کے سُننے والے سے جو پھل ملتاہے، اور سامنے آتا ہے، وہ فضل اور راستبازی کا سچا پھل ہوتا ہے، اور یہ تمام مسیح کے ذریعے سے ہوتا ہے، روح القدس کے اثر کے تحت. . . اور خُدا کے جلال میں ظاہر ہوتا ہے؛ اور بے شک وہ سب میں ایک سی تعداد میں نہیں ملتا، پھر بھی اُس کا معیار ایک جیسا ہوتا ہے؛ جیسا کہ لوقا کہتا ہے، صبر کے ساتھ سامنے لایا جاتا ہے؛ تسلسل سے اور مستقل طور پر. . . اور آخر تک رہتا ہے‘‘ (جان گِل، ڈی.ڈی.، نئے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the New Testament، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد اوّل، صفحات 147۔148؛ متی 13:23 پر ایک یاداشت).
یوں، ہم یقین کرتے ہیں کہ ایک شخص جو حقیقتاً مذہبی طور پر بدلتا ہے اُس کا دِل بھی بدلتا ہے، یا جیسے کہ رچرڈ بیکسٹر لکھتے ہیں، ’’رغبت کی تبدیلی. ‘‘ حِزِقی ایل نبی کے ذریعے خُداوند نے کہا،
’’میں تمہیں ایک نیا دل بخشوں گا، اور تُمہارے اندر نئی رُوح ڈال دوں گا: میں تمہارے جسم میں سے تمہارا سنگین دل نکال کر، تمہیں گوشین دل عطا کروں گا۔ اور میں اپنی روح تمہارے باطن میں ڈال دوں گا، اور تمہیں اپنے آئین پر عمل کرنے کی تلقین کروں گا، اور اپنی شریعت پر پابند رہنے کے لیے آمادہ کروں گا‘‘ (حِزِقی ایل 36:26۔27).
جب ایک شخص حقیقتاً مذہبی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے، وہ ’’پھل لائے گا‘‘ (مرقس 4:20). دِل کی اِس تبدیلی میں ’’روح القدس کا پھل‘‘ بھی شامل ہے،
’’مگر پاک رُوح کا پھل محبت ، خوشی ، اطمینان ، صبر، مہربانی، نیکی ، وفاداری، فروتنی اور پرہیزگاری ہے: ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالفت نہیں کرتی۔ اور جو مسیح یُسوع کے ہیں انہوں نے اپنے جسم کو اُس کی رغبتوں اور بُری خواہشوں سمیت صلیب پر چڑھا دیا ہے‘‘ (غلاطیوں 5:22۔24).
دِل کی اِس تبدیلی میں یہ بھی شامل ہے جسے ڈاکٹر جان آر. رائیس ’’ایک مسیحی کا پھل‘‘ کہتے ہیں – مسیح کے پاس کھوئی ہوئی جانوں کو لانے کا پھل (دیکھیئے جان آر. رائیس، ڈی.ڈی.، خُداوند کا بیٹا: یوحنا کی انجیل پر آیت در آیت تبصرہ A Verse-by-Verse Commentary on the Gospel of John: The Son of God، خُداوند کی تلوار اشاعت خانہ Sword of the Lord Publishers، اشاعت 1976، صفحہ 294۔300). یسوع نے کہا،
’’ میرے باپ کا جلال اِ س میں ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ اور دکھا دو کہ تم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا 15:8).
ہم یقین کرتے ہیں کہ ڈاکٹر رائیس دُرست تھے، کہ سچے شاگرد ’’زیادہ پھل لاتے ہیں‘‘ (یوحنا 8:15). یسوع نے اجتماعی پھل کے بارے میں بتایا،
’’ یہ مت کہو، کہ کیا فصل پکنے میں ابھی چار ماہ باقی ہیں؟ دھیان دو، میں تُم سے کہتا ہوں کہ اپنی آنکھیں کھولو، اور کھیتوں پر نظر ڈالو۔ اُن کی فصل پک کر تیار ہے۔ بلکہ اب فصل کاٹنے والا اپنی مزدوری پاتا ہے، اور ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹتا ہے: تاکہ بونے والا اور کاٹنے والا دونوں اکٹھے خوشی منائیں‘‘ (یوحنا 4:35۔36).
اور یہی وہ جانوں کا پھل ہے جو مسیح کے پاس لایا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے کہ ’’عظیم مقصد،‘‘
’’ اِس لیے تُم جاؤ، اور ساری قوموں کو شاگرد بناؤ، اور اُنہیں باپ، بیٹے اور پاک روح کے نام سے بپتسمہ دو: اور اُنہیں یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے: اور دیکھو، میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہُوں۔ آمین‘‘ (متی 28:19۔20).
اور مالک نے نوکر سے کہا، راستوں اور کھیتوں کی باڑوں کی طرف نکل جا، اور لوگوں کو مجبور کر کہ وہ آئیں، تاکہ میرا گھر بھر جائے‘‘ (لوقا 14:23).
وہ شخص جو حقیقتاً مذہبی طور پر بدلتا ہے وہ ایک نئی فطرت پائے گا، ایک نئی فطرت جو شدت کے ساتھ خواہش کرے گی کہ وہ نا صرف ’’کلام کو سُنے، اور قبول کرے‘‘ – بلکہ اُس کا ’’پھل بھی لائے‘‘ (مرقس 4:20). ایک حقیقی مذہبی طور پر تبدیل شُدہ کو کھوئے ہوؤں کے لیے ایک نئی فکرمندی ہوگی، تبلیغ انجیل میں ایک نیا جوش ہوگا، دُعا میں کھوئے ہوؤں کے لیے ایک نیا احساس ہوگا، کھوئے ہوؤں کو گرجہ گھر میں خوش آمدید کا احساس دلانے کے لیے مدد کی ایک نئی خواہش ہوگی –اور جب بھی کوئی کھویا ہوا دِل مذہبی طور پر تبدیل ہوتا ہے تو ایک نیا ہیجان ہوگا!
’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اُس اچھی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج گِرتا ہے؛ وہ کلام کو سُنتے ہیں، اور قبول کرتے ہیں، اور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا اور بعض سَو گُنا‘‘ (مرقس 4:20).
’’ صادق کا پھل زندگی کا درخت ہے؛ اور دانا ہے وہ جو دلوں کو جیتتا ہے‘‘ (امثال 11:30).
مہربانی سے کھڑے ہو جائیے اور گائیے، ’’انجیل کی تبلیغ کرو! انجیل کی تبلیغ کرو!‘‘ شاعر Dr. Oswald J. Smith ڈاکٹر اُوسوالڈ جے. سمتھ۔
ہمیں اِس وقت کے لیےایک نعرہ عطا کر، ایک ہیجان انگیز لفظ، ایک قوت کا لفظ،
طبلِ جنگ، شعلوں بھری سانس، جو فتح کا سبب ہو یا موت کا۔
ایک لفظ جو سوئی ہوئی کلیسیا کو جگا دے، جو خُداوند کی شدید طلب پر توجہ دے۔
اشارہ مِل گیا ہے، اے میزبانوں، اُٹھو، ہمارا نعرہ بشارتِ انجیل ہے!
مسرور مبشرِانجیل یسوع کے نام کا تمام دُنیا میں اب دعویٰ کرتا ہے؛
یہ لفظ آسمانوں کی بُلندیاں چھورہا ہے: بشارتِ انجیل! بشارتِ انجیل!
مرتے ہوئے لوگوں کے لیے، ایک مٹتی ہوئی نسل نے، انجیل کے فضل کا تحفہ عام کردیا؛
اُس دُنیا کے لیے جو اب اندھیروں میں ڈوب چُکی ہے، بشارتِ انجیل! بشارتِ انجیل!
(بشارتِ انجیل! بشارتِ انجیل!‘‘ ‘’Evangelize! Evangelize!’’ شاعر ڈاکٹر اُوسولڈ جے.
سمتھ، 1889۔1986؛ گایا گیا بطرزِ ’’اور کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
‘‘ And Can It Be?’’ ‘‘ شاعر چارلس ویزلی، 1707۔1788).
اب ’’اُنہیں اندر لے آؤ‘‘ کا کورس گائیں۔
اُنہیں اندر لے آؤ، اُنہیں اندر لے آؤ، اُنہیں گناہوں کے کھیتوں سے اندر لے آؤ؛
اُنہیں اندر لے آؤ، اُنہیں اندر لے آؤ، بھٹکے ہوؤں کو یسوع کے پاس لے آؤ۔
(’’اُنہیں اندر لے آؤ Bring Them In‘‘ شاعر الیگژینہ تھامسAlexcenah Thomas ، 19ویں صدی).
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) –
or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.
Or phone him at (818)352-0452.
لُبِ لُباب حقیقی مذہب تبدیل کرنے والے کا پھل !THE FRUIT OF A REAL CONVERT ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اُس اچھی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج گِرتا ہے؛ وہ کلام کو سُنتے ہیں، قبول کرتے ہیں اور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا اور بعض سَو گُنا‘‘ (مرقس 4:20). (مرقس 4:14؛ رومیوں 10:14؛ یوحنا 1:14) 1۔ اوّل، وہ جن کے دِل سے شیطان فوراً کلام نکال کر لے جاتا ہے، مرقس 4:15 .2۔ دوئم، وہ جو کچھ دِنوں تک ہی قائم رہتے ہیں، لیکن جب اُن پر اُس کلام کی وجہ سے 3۔ سوئم، وہ جن کا دَم دُنیا کے خدشات سے اور اُن کا زیادہ کمانے کی خواہش کے 4۔ چہارم، وہ جو حقیقتاً مذہبی طور پر تبدیل ہوتے ہیں۔ یرمیاہ
17:9؛ حِزِقی ایل 36:26۔27؛ |