اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
تقریباً مسیحی – محترم جناب جارج وائٹ فیلڈ، ایم۔اے۔ THE ALMOST CHRISTIAN – ADAPTED FROM A SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ ’’تُو مجھے ذراسی ترغیب سے مسیح بنا لینا چاہتا ہے‘‘ (اعمال 26:28). |
18 ویں صدی کی تبلیغ کے موازنے میں ہمارے دور کی زیادہ تر تبلیغ بہت کمزور ہے۔ آج سینکڑوں بائبل کے کالجوں اور سیمنری سے تربیت حاصل کردہ آدمیوں کے ساتھ، ہم بہت کم ایسے پاتے ہیں جو ریوڑ سے آزاد ہونے کی جرأت کریں اور کھوئے ہوئے گنہگاروں کے لیے اِتوار کو تبلیغ کریں – بجائے اِس کے کہ آیت با آیت بائبل کے بے مزہ مطالعے کو پیش کریں کہ جس کا ہدف ’’مسیحی‘‘ کہلائے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔
میں جرأت کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے زیادہ تر مبلغین تو یہاں تک بھول چُکے ہیں کہ ایک انجیلی بشارت کا واعظ کیسے تیار کریں جس کا ہدف گنہگار ہوں۔ یا، شاید اُنہوں نے شروع میں ہی کیسے ہوگا نہیں سیکھا تھا! میں جانتا ہوں کہ جو نسل میرے سے کم عمر ہے اُسے بہت کم اندازہ ہے کہ کیسے ایک ایسا واعظ ادا کیا جائے۔ آپ کیسے دراصل ایک انجیلی بشارت کا واعظ تیار کرتے ہیں؟ بہت سوں کو کوئی اندازہ نہیں ہے! آج کل کے زیادہ تر واعظ ایک جیسے لگتے ہیں۔ وہ ’’تعلیم‘‘ دیتے ہیں – لیکن بہت کم جانتے ہیں کہ مذید اور ’’تبلیغ‘‘ کیسے دی جائے۔
اور ہمارے دور کی کم معیاری تبلیغ گرجہ گھروں کو خالی کر رہی ہے۔ دس میں سے ایک بھی گرجہ گھر میں اب شام کو عبادت نہیں ہوتی ہے۔ 1958 میں ہر بپتسمہ دینے والا گرجہ گھر (شمالی بپتسمہ دینے والے، جنوبی بپتسمہ دینے والے، یکساں بپتسمہ دینے والے، خود مختیار بپتسمہ دینے والے) ایک شام کی عبادت کرتا تھا۔ میں یہ بات اپنے ذاتی مشاہدے کی وجہ سے جانتا ہوں۔ میں وہاں تھا! 1958 میں تمام بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں کی شام کی عبادت ہوا کرتی تھی۔ کیا ہوا؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹیلی وژن نے اُنہیں اپنی جانب کھینچ لیا ہے! 1958 میں ہم بالکل ’’ٹیلی وژن کے سُنہرے دور‘‘ کے وسط میں تھے، جیسا کہ یہ آج کہلایا جاتا ہے۔ لیکن آج، 150 یا اِس سے زیادہ چینلز میں سے چُننے کے لیے، ٹی وی واقعی ’’ایک بہت بڑا بنجر علاقہ‘‘ بن گیا ہے جیسا کہ نیوٹن مائی نو Newton Minow نے کہا تھا۔ جی نہیں، یہ وجہ نہیں ہے کہ لوگ اِتوار کی شب کو اب عبادت کے لیے نہیں آتے ہیں کیونکہ وہاں ٹی وی پر کچھ مذیدار ہوتا ہے! وجہ یہ ہے کہ پادری اب اِس قدر شدت کے ساتھ تبلیغ نہیں کرتے جو ہجوم کو اپنی جانب راغب کرے!
یہ اُس عظیم مبلغ جارج وائٹ فیلڈ (1714۔1770)کے ساتھ کس قدر مختلف تھا! جب یہ اعلان ہوتا تھا کہ وہ بولے گا، چند گھنٹوں کے اندر اندر ہزاروں اکٹھے ہو جاتے، اکثر صبح 5:00 بجے اُسے واعظ ادا کرتے سُننے کے لیے برف باری میں کھڑے ہوتے تھے۔ بُرا مت منائیے گا، وہاں کبھی کوئی گانے والوں کا گروہ نہیں ہوتا تھا، نا ہی کوئی سر کے اوپر سے فلمیں دکھائی جانے والی مشین، یہاں تک کہ مائیکروفون بھی نہیں ہوتا تھا – اور یقینی طور پر بیٹھنے کے لیے کوئی کرسیاں بھی نہیں ہوتی تھیں! اِس کے باوجود وہ، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں، اِس شخص جارج وائٹ فیلڈ کو شعلہ بیانی کے ساتھ واعظ ادا کرتا سُننے کے لیے بِلا ناغہ آتے تھے۔
ڈاکٹر جے۔ سی۔ رائیلی Dr. J. C. Ryle نے اُس کی شہرت کی وجوہات میں سے ایک یہ پیش کی: ’’وائٹ فیلڈ واحد خالص خوشخبری کی تبلیغ کرتا تھا۔ بہت کم لوگ اپنے سُننے والوں کو اِس قدر زیادہ گندم اور اِس قدر کم بھوسہ دیتے ہیں۔وہ اپنے منبر پر [دوسری چیزوں] کے بارے میں باتیں کرنے کے لیے چڑھتا تھا۔ وہ مسلسل آپ کو آپ کے گناہوں، آپ کے دِل اور یسوع مسیح کے بارے میں بتاتا رہتا تھا... ’ہائے، یسوع مسیح کی راستبازی!‘ وہ اکثر اوقات یہ کہتا ہوگا‘‘ (جے۔ سی۔ رائیلی، ’’نیا جنم The New Birth ‘‘)۔ کون آج کل ایسے تبلیغ دیتا ہے؟ تو اِس میں حیرت کی کونسی بات ہے ہمارے گرجہ گھر اِتوار کی شب کو بند ہوتے ہیں!
یہاں جارج فیلڈ کے واعظوں میں سے ایک ترمیم اور مختصر کیا گیا نسخہ ’’تقریباً مسیحی The Almost Christian ‘‘ ہے، جو میں آپ کو ایک درست انجیلی بشارت کی تبلیغ کے لیے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ لیکن اگر آپ اِسے اپنے گرجہ گھر میں ادا کریں، تو آپ کو محض اِسے پڑھنا نہیں ہے۔ اِس میں کوئی شعلہ بیانی ضرور ہونی چاہیے – جیسی کہ تب تھی جب وائٹ فیلڈ نے تبلیغ کی تھی!
’’تُو مجھے ذراسی ترغیب سے مسیح بنا لینا چاہتا ہے‘‘ (اعمال 26:28).
پولوس رسول جانتا تھا کہ مسیح نے کہا تھا اُس کے پیروکار ’’میرے نام کی خاطر شہنشاہوں اور حکمرانوں کے سامنے پیش کیے‘‘ جائیں گے (لوقا 21:12)۔ اِن حکمرانوں نے کبھی بھی خوشخبری نہ سُنی ہوتی اگر رسولوں کو گرفتار نہ کیا گیا ہوتا اور اُن کے سامنے پیش نہ کیا گیا ہوتا، جس سے رسولوں کو موقع ملتا تھا کہ اُنہیں یسوع اور اُس کے مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنے کے بارے میں تبلیغ کریں۔
جب پولوس کو اپنے دفاع کے لیے ایک غیر قوم گورنر فیستُس Festus کے سامنے پیش کیا گیا، اور شہنشاہ اگِریپا کے سامنے پیش کیا گیا، اُس نے اپنے دفاع کے لیے موقعے کا فائدہ اُٹھایا – اور اِس کے ساتھ ساتھ اُن کو خوشخبری کی تبلیغ کرنے کا فائدہ اُٹھایا۔ اور یہ اُس نے اِس قدر قوت کے ساتھ کیا تھا کہ فیستُس چِلّا اُٹھا تھا، پولوس . . . علم کی زیادتی نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے‘‘ (اعمال 26:24)۔ بہادر رسول نے جواب دیا، ’’معظم فیستُس، میں پاگل نہیں ہوں، لیکن میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں سچ اور معقول ہے‘‘ (اعمال 26:25)۔
فیستُس کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو شہنشاہ اگرِیپا اُس کے واعظ میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا، پولوس براہ راست اُس سے ہمکلام ہوا تھا: ’’بادشاہ اِن باتوں کے بارے میں جانتا ہے [کہ مسیح نے مصائب برداشت کیے اور مُردوں میں سے جی اُٹھا، اعمال 26:23] . . . کیونکہ میں قائل ہوں کہ اِن میں سے کوئی سی بھی باتیں اُس سے پوشیدہ نہیں ہیں‘‘ (اعمال 26:26)۔ پھر پولوس نے اگریپا بادشاہ کے ساتھ سختی سے بات کی، یہ کہتے ہوئے، ’’بادشاہ اگریپا، کیا تو نبیوں کو مانتاہے؟ میں جانتا ہوں کہ تو مانتا ہے‘‘ (اعمال 26:27)۔ جب پولوس نے یہ کہا تھا، تو بادشاہ کے جذبات اِس قدر جھنجھوڑے گئے تھے کہ وہ چِلّا اُٹھا تھا، ’’تو مجھے ذرا سی ترغیب سے مسیحی بنا لینا چاہتا ہے‘‘ (اعمال 26:28)۔
حتّٰی کہ آج جب انجیل کی تبلیغ جوش وخروش اور قوت کے ساتھ کی جاتی ہے، کچھ لوگ، جیسا کہ فیستُس تھا خوشخبری کو پانے کے لیے انتہائی مغرور اور لاپرواہ ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ مبلغ ’’پاگل‘‘ ہے۔ دوسرے جیسے کہ بادشاہ اگریپا تھا، تقریباً مسیحی بننے کے لیے قائل ہو تے ہیں۔ وہ اپنے دِلوں میں کہتے ہیں،
’’تُو مجھے ذراسی ترغیب سے مسیح بنا لینا چاہتا ہے‘‘ (اعمال 26:28).
یہ آپ کے لیے ہے، جو تقریباً مسیح بننے کے لیے قائل ہیں، کہ میں آج صبح بول رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ کو ’’تقریبا‘‘ ایک مسیحی ہونے کے خطرات کے بارے میں خبردار کر دیا جائے۔ اِس لیے، تلاوت کے لفظوں میں سے، میں آپ پر تین باتیں آشکارہ کروں گا۔
I۔ اوّل، تقریباً مسیحی ہونے سےکیا مُراد ہے۔
ایک تقریباً مسیحی ایک ایساشخص ہے جو دو آراؤں کے بیچ میں کھڑا ہوتا ہے؛ جو مسیح اور دُنیا کے درمیان متزلزل ہوتا ہے۔ یعقوب رسول اُسے ایسے بیان کرتا ہے،
’’وہ شخص دو دِلا ہے‘‘ (یعقوب 1:8).
تقریباً مسیحی وہ شخص ہے جو بیرونی مذہبی مشاہدات پر انحصار کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے، ’’میں بائبل پڑھتا ہوں۔ میں گرجہ گھر جاتا ہوں۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟‘‘ وہ سوچتا ہے کہ وہ راستباز ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے جنہیں وہ جانتا ہے بہتر ہے۔ لیکن اِسی وقت میں، وہ اپنے دِل کے باطنی مذہب کے لیے واقعی ایک اجنبی ہے۔ اُس کے پاس دینداروں کی سی وضع تو ہے، لیکن زندگی میں دینداری [کا کوئی اثر قبول] نہیں کریں گے‘‘ (2۔تیموتاؤس 3:5)۔ وہ گرجہ گھر میں حاضری کے لیے مہینہ در مہینہ جاتا ہے، اِس کے باوجود وہ کبھی بھی مسیح میں تبدیل شُدہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف اور بدتر ہوتا جاتا ہے جیسے جیسے مہینے اور سال گزرتے ہیں۔
تقریباً مسیح ’’نیک‘‘ بننے پر انحصار کرتا ہے اور اِس سوچ کے ساتھ مطمئین ہوتا ہے کہ اُس نے کسی کے ساتھ کوئی بُرا نہیں کیا ہے۔ پر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مسیح نے کہا تھا، ’’اِس نکمے نوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو: جہاں وہ روتا اور دانت پیستا رہے گا‘‘ (متی 25:30)۔ وہ بھول جاتا ہے کہ بنجر انجیر کا درخت معلون تھا اور جڑوں تک سے سوکھا ہوا تھا، گندا پھل نہ لا سکنے کے سبب سے نہیں، بلکہ کوئی بھی پھل نہ لا سکنے کے سبب سے۔
ایک تقریباً مسیحی ایماندار اور اپنے آپ کے ساتھ سخت ہوتا ہے؛ مگر دونوں اُس کی ایمانداری اور سختی خود ستائشی سے آتی ہے۔ سچ، وہ بیرونی طور پر گناہ نہیں کرتا ہے، لیکن یہ خُدا کی شریعت کے قوانین کے لیے تابعداری سے باہر نہیں ہے، لیکن یا تو چونکہ اُس کا مزاج گناہوں کی زیادتی پسند نہیں کرتا ہے، یا کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھونا نہیں چاہتا ہے، یا اپنے آپ کو اپنے پیشہ ور کاروبار کے لیے ناموزوں کرنا نہیں چاہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ کوئی شرابی نہیں ہے، لیکن اُس میں کوئی مسیحی خود انکاری بھی نہیں ہے۔ وہ خُداکے کلام کے مقابلے میں دنیا کے ذریعے سے زیادہ راہنمائی پاتا ہے۔ وہ جو خود اُس کی تباہ خواہشات کو بہتر لگتا ہے وہ کرتا ہے، خُدا کی مرضی کو کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتا، مگر اپنے مذہب کی بیرونی ضروریات کے لیے صرف حالات کے مطابق ڈھلتا ہے۔
حالانکہ میں نے آپ کو تقریباً مسیحی ہونے کے کردار کا ایک خلاصہ پیش کیا ہے، میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ دیکھیں گے کہ یہ آپ کی کچھ خصوصیات میں سے آپ کو بیان کرتا ہے۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ رسول کے ساتھ اِن الفاظ کو کہنے میں شریک ہوں گے جو تلاوت میں درج ہیں، اور خواہش کریں گےکہ آپ صرف ’’تقریبا نہیں، [بلکہ] کُلی طور پر مسیحی ہونگے‘‘ (اعمال 26:29)۔
II۔ دوئم، کیوں بہت سے تقریباً مسیحی ہونے سے زیادہ نہیں ہیں۔
کیوں آپ میں سے کچھ صرف عمومی مسیحی رہ جاتے ہیں، صرف نام کے مسیحی؟ کیوں آپ ’’تقریباً مسیح‘‘ ہونے سے زیادہ نہیں ہیں؟
1. کیونکہ آپ کے پاس مسیحی ہونا کیا ہے اِس کا ایک غلط تصور ہے۔ آپ میں کچھ سوچتے ہیں کہ اِس کا مطلب ہے گرجہ گھر کے لیے جانا۔ آپ میں کچھ سوچتے ہیں کہ اِس کا مطلب کچھ باتوں میں یقین کرنا ہے۔ چند ایک، بہت کم، جانتے ہیں کہ یہ طبعیت کی ایک تبدیلی ہے، الہٰی زندگی کا استقبال ہے، جیتے جاگتے یسوع مسیح کے ساتھ، ایک لازمی ملاپ ہے؛ میرا مطلب ہے مسیح میں نئے سِرے سے جنم ہے۔ اِس کے باوجود آپ نیکودیمُس کے ساتھ کہتے ہیں، ’’یہ باتیں کیسے ممکن ہو سکتی ہیں؟‘‘ (یوحنا 3:9)۔ اور کیونکہ آپ نے کوشش نہیں کی ہوتی، اندر داخل ہونے کے لیے جدوجہد نہیں کی ہوتی (لوقا 13:24) تو آپ ایک عمومی سے مسیحی رہ جاتے ہیں، صرف ایک تقریباً مسیحی۔
2. ایک اور وجہ کہ آپ صرف ایک تقریباً مسیح رہ جاتے ہیں یہ ہے کہ آپ میں سے کچھ کے پاس غلامی سے تعلق رکھنے والی، انسان کا غٖلامانہ خوف ہے – کسی شخص کا ایک خوف یا لوگوں کا جو آپ کو محکومی میں رکھتے ہیں،اور آپ کو گناہ کا ایک غلام بنائے رکھتے ہیں، اور مسیح سے آپ کو دور رکھتے ہیں۔ آپ میں سے کچھ خوف کرتے ہیں کہ آپ کے والدین کیا کہیں گے اگر آپ مسیح میں داخل ہونے کے لیے کوشش شروع کرتے ہیں۔ آپ میں سے دوسرے خوف کرتے ہیں کہ آپ کے دوست کیا کہیں گے۔ آپ میں سے کچھ تو شاید یہ بھی خوف کرتے ہیں کہ گرجہ گھر میں دوسرے نجات نہ پائے ہوئے نوجوان لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گے اگر آپ سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ مسیح نے آپ کے بارے میں بتایا ہے جب اُس نے کہا، ’’تم کیسے ایمان لاسکتے ہو، جو ایک دوسرے سے عزت پانا چاہتے ہو؟‘‘ (یوحنا 5:44)۔ یعقوب رسول نے کہا، ’’دُنیا سے دوستی رکھنا خُدا سے دشمنی کرنا ہے‘‘ (یعقوب 4:4)۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ صرف تقریباً ایک مسیحی ہیں، چونکہ آپ ’’خُدا کی طرف سے عزت پانے کی بجائے انسانوں کی طرف سے عزت پانے کے زیادہ دلدادہ ہیں‘‘؟ (یوحنا 12:43)۔ یوں، بہت سے جو دعا کرتے اور مسیح کو تلاش کرتے ہیں اُسے کبھی نہیں پاتے، کیونکہ وہ کبھی بھی کھوئے ہوئے اور دُنیاوی دوستوں کو نہیں چھوڑیں گے!
3. اِس کے باوجود ایک اور وجہ کہ آپ میں سے کچھ صرف تقریباً مسیحی رہ جاتے ہیں یہ ہے کیونکہ آپ خوشی دینے والی چیزوں سے پیار کرتے ہیں۔ آپ ’’خُدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ‘‘ ہیں (2۔تیموتاؤس 3:4)۔ لیکن مسیح نے کہا، ’’اگر کوئی آدمی میری پیروی کرنا چاہے تو وہ خود انکاری کرے‘‘ (لوقا 9:23)۔ جب آپ یہ سُنتے ہیں، تو آپ میں سے کچھ افسردگی کے ساتھ چلے جاتے ہیں، کیونکہ آپ کا جنسی مسرت کے لیے پیار زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ایسے ہیں جو سوچتے ہیں وہ جنت بغیر اپنی جسمانی و دنیاوی رُجحانات کے خلاف کوشش کیےجا سکتے ہیں۔ اور یہ ایک اور وجہ ہے کیوں بہت سے صرف تقریباً ہیں، اور کُلّی طور پر مسیحی نہیں ہیں۔
4. آخری وجہ جو میں آپ کو دوں گا، اتنے بہت ساروں کے لیے جو تقریباً مسیحی رہ جاتے ہیں، وہ اُن کا غیر مستحکم اور تبدیل ہو جانے والا مزاج ہے۔
ہم ڈھیروں وعدے والے تبدیل مسیح میں نجات پائے ہوؤں کےاوپر ماتم کرتے اور روتے ہیں، جو نجات پائے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن کچھ عرصے کے بعد ایمان سے برگزشتہ ہو جاتے ہیں،اور زندہ رہ جانے پر خاتمہ کرتے ہیں، مسیح کے محتاج۔ میں وہ ہولناک دھمکی اُن کے لیے دہرانے سے کپکپاتا ہوں، ’’اگر کوئی میرا ساتھ دینا چھوڑ دے، تو میرا دِل اُس سے خوش نہ ہوگا‘‘ (عبرانیوں 10:38)، اور دوبارہ، ’’اگر وہ لوگ جن کے دِل نورِ الہٰی سے روشن ہو چکے ہیں اور جو آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے ہیں، جو پاک روح پا چکے ہیں، جو خُدا کے عمدہ کلام اور دُنیا کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے ہیں، اگر وہ اپنے ایمان سے برگزشتہ ہو جائیں تو اُنہیں پھر سے توبہ کی طرف مائل کرنا ممکن نہیں . . . ‘‘ (عبرانیوں 6:4۔6)۔ ایک غیر مستحکم، تبدیل ہوجانے والے مزاج کے ذریعے سے وہ شروع کرتے ہوئے اچھے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن ایمان سے برگزشتہ ہو کر دائمی لعنت پاتے ہیں۔
III۔ سوئم، احمق، بالکل دیوانگی، اُن بچے کچھوں کی جو تقریباً مسیحی سے زیادہ کچھ نہیں۔
1. پہلا ثبوت جو میں نے دیا ہے یہ ہے کہ آپ اِس طرح سے نجات نہیں پا سکتے ہیں۔ ایسے لوگ تقریباً مسیحی ہوتے ہیں؛ لیکن تقریباً ہدف پر نشانے کے لیے اُس کو واقعی خطا کرنا ہے۔ آپ کا مسیحی خاندان کیا کہے گا جب آپ مریں گے؟ ’’وہ تقریبا نجات پا گیا تھا!‘‘
’’تقریبا‘‘ مدد نہیں کرسکتا؛
’’تقریباً‘‘ صرف ناکامی کے لیے ہے!
افسوس، افسوس، وہ شدید ماتم،
’’تقریبا‘‘ – لیکن کھویا ہوا۔
(تقریباً قائل کیا ہوا Almost Persuaded ‘‘
شاعر فلپس پی۔ بلِس Philip P. Bliss، 1838۔1876)۔
2. ایک تقریباً مسیحی ہونے کی حماقت کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک تقریباً مسیحی تمام دُنیا میں سب سے زیادہ نقصان دہ مخلوقات میں سے ایک ہے۔ وہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہے۔ وہ ایک جھوٹا نبی ہے۔ تقریباً مسیحی ’’ناصرف خود خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوتے؛ اور وہ جو داخل ہو رہے ہوتے ہیں اُن کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ یہ وہ ہیں جو مسیح کے دہریوں یا مسلمانوں، یا حتّٰی کہ مورمونز کے مقابلے میں بڑے دشمن ہیں۔ کیونکہ لگ بھگ ہر کوئی مسلمان سے، یا ایک مورمون سے یا دہریے سے واقف ہوتا ہے؛ مگر ایک تقریباً مسیحی، سمجھ سے بالا تر منافقت کے ذریعے سے، بہت سوں کو اپنے پیچھے کھینچ لیتا ہے جنہوں نے کبھی ایک مسلمان یا مورمون یا دہریے کی پیروی نہ کی ہوتی۔ اِس لیے تقریباً مسیح کو بہت زیادہ لعنت پانے کی ضرور توقع کرنی چاہیے، دہریے یا مورمون یا ایک مسلمان کے مقابلے میں جہنم کی بدترین سزا – کیونکہ خُدا کے کاموں کو تباہ کرنے کے لیے کسی بھی مقلد یا دہریے کے مقابلے میں جو کبھی کر سکیں ایک تقریباً مسیحی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ جہنم میں اِسی لیے سب سے گہری کھائی تقریباً مسیحی کے لیے سنبھال کر رکھی گئی ہے۔
3. ایک تقریباً مسیحی ہونے کی حماقت کا تیسرا ثبوت یہ ہے کہ یہ ہمارے خُداوند اور نجات دہندہ یسوع مسیح کی جانب ناشُکری کی سب سے بڑی قسم ہے۔
یسوع آسمان سے ہمیں بچانے کے لیے نیچے آیا۔ اُس کی دِل شکنی کی گئی، تحقیر کی گئی، گتسمنی کی اذیت میں پسینہ خون کی مانند بہایا گیا، گرفتار کیا گیا، مذاق میں نقل اُتاری گئی، مار مار کر ادھ موا کیا گیا، اور صلیب پر کیلوں سے جڑا گیا، ہماری جگہ پر مرنے کے لیے۔ یسوع نے اپنا قیمتی خون ہمیں پاک صاف کرنے کے لیے بہایا۔ ہائے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ اُس سے پیار کرتے ہیں، جب کہ آپ کا دِل مکمل طور پر اُس کے ساتھ ہی نہیں ہے؟ آپ کیسے جان سکتے ہیں کہ اُس نے آپ کو دائمی پریشانی اور سزا سے بچانے کے لیے مصائب برداشت کیے اور آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر اُس کےحوالے نہیں کرتے ہیں؟
یسوع کو اپنا مکمل دِل دیجیے۔ دو آراؤں کے درمیان متزلزل ہونا چھوڑ دیجیے۔ آپ کو کیوں اب اتنی سی دیر کےلیے بھی خود کو مسیح سے دور رکھنا چاہیے؟ آپ کو کیوں گناہ کی غلامی کے ساتھ اِس قدر پیار میں مبتلا ہونا چاہیے کہ آپ دُنیا سے منہ نہیں موڑیں گے، جان اور شیطان – جو، روحانی زنجیروں کی طرح، آپ کے دِل کو باندھتے ہیں اور اِسے جکڑے رہتے ہیں، اور اِسے مسیح کےلیے تیزی سے پہنچنے سے روکتے ہیں؟ آپ کس سے خوفزدہ ہیں؟ آپ کیوں اپنے آپ کو مکمل طور پر مسیح کے حوالے نہیں کریں گے؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ صرف آدھے مسیح ہونے سے آپ کو خوشی ملے گی؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ مسیح پر مکمل طور سے اپنے آپ کو پھینکنے سے آپ دُکھی ہو جائیں گے؟
یہ سوچنا ایک بہت بڑا فریب ہے کہ دُنیا او رمسیح کے درمیان میں تذبذب آپ کو تسلی دے سکتا ہے۔ جی نہیں – ایسی جھجھک آپ کو اُس عظیم آرام و سکون کے تجربے سے صرف دور رکھتی ہے جس کی پیشکش مسیح کرتا ہے۔ خُدا کے ساتھ امن و سکون آپ صرف اُس وقت ہی پا سکتے ہیں جب آپ مکمل طور پر اپنے دِل کو یسوع کے لیے دیتے ہیں۔
اختتام کرتے ہوئے، میں آپ کی تقریباً مسیحی ہونے سے دور ہونے پر حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ خُدا کے غضب اور فیصلے سے تیزی کے ساتھ دور بھاگیں۔ چاہے آپ کو کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے مسیح کے لیے تیزی سے جائیں۔ پھر اپنے آپ کو اُسے دینے کےلیے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ ہمیشہ دعا کرتے رہیں،ہمیشہ اپنے آپ کو ایک جامع نظر اور اُس کی بہت بڑی خوشی کے لیے تیار کرتے رہیں، جس کی حضوری میں وہاں مسرت کی بھرپوری ہے، اور جس کے داہنے ہاتھ پر ہمیشہ کے لیے مسرتیں ہیں۔ آمین!
یہ واعظ ’’تقریباً مسیحی‘‘، پہلی عظیم بیداری (1730۔1760) کے دوران جارج وائٹ فیلڈ نے دیا تھا۔ میں نے اِس کی ترمیم کی ہے اور سادہ کیا ہے تاکہ یہ زیادہ آسانی سے جدید لوگوں کی کم خواندہ ذہنوں کی سمجھ میں آجائے۔ شاید آپ اِسے دوبارہ پڑھیں، اور اِس کے بارے میں گہرائی سے سوچیں۔ خُدا کرے کہ آپ ’’تقریباً ایک مسیحی‘‘ ہونے سے منہ موڑ لیں۔ خُدا کرے کہ وہ خود آپ کو ایک ’’کُلّی طور پر ‘‘ حقیقی مسیحی بنائے (اعمال 26:29)، کہ کسی دِن آپ کے بارے میں یہ نا کہا جائے،
’’تقریبا‘‘ مدد نہیں کرسکتا؛
’’تقریباً‘‘ صرف ناکامی کے لیے ہے!
افسوس، افسوس، وہ شدید ماتم،
’’تقریبا‘‘ – لیکن کھویا ہوا۔
(تقریباً قائل کیا ہوا Almost Persuaded ‘‘
شاعر فلپس پی۔ بلِس Philip P. Bliss، 1838۔1876)۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ اعمال 26:19۔29 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’تقریبا قائل کیا گیا Almost Persuaded ‘‘ (شاعر فلپس پی۔ بلِس Philip P. Bliss، 1838۔1876).
لُبِ لُباب تقریباً مسیحی – محترم جناب جارج وائٹ فیلڈ، ایم۔اے۔ THE ALMOST CHRISTIAN – ADAPTED FROM A SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’تُو مجھے ذراسی ترغیب سے مسیح بنا لینا چاہتا ہے‘‘ (اعمال 26:28). ( لوقا 21:12؛ اعمال 26:24، 25، 23، 26، 27، 28) I. اوّل، تقریباً مسیحی ہونے سےکیا مُراد ہے، یعقوب 1:8؛ II. دوئم، کیوں بہت سے تقریباً مسیحی ہونے سے زیادہ نہیں ہیں، III. سوئم، احمق، بالکل دیوانگی، اُن بچے کچھوں کی جو |