اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
مُردوں میں سے ابھی جی اٹھنا!RESURRECTION NOW! ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:4۔6)۔ |
مسیح کے معجزات روحانی سچائیوں کی عکاسی کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ اُس نے اندھوں کی آنکھوں کو بینائی یہ دکھانے کے لیے دی تھی کہ وہ روحانی طورپر اندھے دِلوں کو کھول سکتا ہے۔ اُس نے کوڑھیوں کو شفا یہ ظاہر کرنے کے لیے دی کہ وہ روحانی طور پر غلیظ جانوں کو شفا بخش سکتا ہے۔ لیکن تین مرتبہ اُس نے مُردہ جسموں کو زندہ کیا۔ مرقس کے پانچویں باب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اُس نے مُردوں میں سے یائر کی بیٹی کو زندہ کیا۔ لوقا کے ساتویں باب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اُس نے نائین کی بیوہ کے بیٹے کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ یوحنا کے گیارہویں باب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اُس نے لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ اِن مُردوں کے زندہ کیے جانے سے ہم جو سبق سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یسوع اُن لوگوں کو جو ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہیں زندہ کر سکتا ہے (افسیوں2:1)۔ آج اِس عبادت میں ہمارے پاس یائر کی بے شمار بیٹیاں ہیں، بے شمار بیواؤں کے بیٹے، مُردوں میں سے جی اُٹھے بے شمار لعزر ہیں – کیونکہ ہم میں سے بے شمار گناہوں اور قصوروں میں مُردہ ہیں، لیکن مسیح کی قوت کے ذریعے سے ہم روحانی موت سے زندہ کیے جا چکے ہیں، زندگی کے نئے پن میں چلنے کے لیے! مُردوں میں سے وہ زندہ کیا جانا جس کا ہم تجربہ کر چکے ہیں ’’احیاءregeneration‘‘ کہلاتا ہے – ایک اصطلاح جو موت سے زندگی کے بارے میں بات کرتی ہے، جو نئے جنم کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ڈبلیو۔ جی۔ ٹی۔ شیڈ Dr. W. G. T. Shedd نے نشاندہی کی کہ بائبل اکثر ’’احیاء کا اِظہار کرنے کے لیے مُردوں میں سے زندہ کیے جانے کا اظہار‘‘ کرتی ہے… احیاء کے بارے میں روحانی طور پر زندہ کیے جانے کی حیثیت سے بات کرتی ہے‘‘ (ڈبلیو۔ جی۔ ٹی۔ شیڈ، پی ایچ۔ ڈی۔W. G. T. Shedd, Ph.D.، ڈوگمیٹیک علم الہٰیات Dogmatic Theology، پی اور آر۔ پبلیشنگ P and R Publishing، 2003 ایڈیشن، صفحات864، 865)۔ افسیوں کے دوسرے باب میں جسمانی اور روحانی طور پر زندہ ہونے کے درمیان تعلق واضح طور پر بتایا گیا ہے،
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:4۔6)۔
اِن آیات سے ہم نئے جنم کے بارے میں تین بہت بڑی سچائیاں سیکھتے ہیں – جی اُٹھے مسیح کی قوت کے ذریعے سے احیاء کے بارے میں تین سچائیاں۔
I۔ پہلی سچائی، ہم مُردہ تھے۔
بائبل کے مطابق تمام کے تمام لوگ روحانی طور پر مُردہ ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم برگشتگی کی وجہ سے زخمی ہو گئے تھے – لیکن وہ یقین نہیں کرتے کہ ہم اِس کے وجہ سے مارے گئے تھے۔ لیکن خُدا کا کلام انتہائی واضح ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ہم نا صرف زخمی ہوئے تھے، بلکہ ہم ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ تھے‘‘ (افسیوں2:1)۔ اِس کے باوجود یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان میں پھر بھی کافی اچھائیاں ہیں، کہ انسان کی خود کی فطرت گناہوں میں مُردہ نہیں ہوتی ہے۔ سی۔ جی۔ فنّی C. G. Finney نے وہ غلط نکتۂ نظر پیش کیا تھا جب اُس نے کہا،
کیوں گناہ نسل انسانی کے لیے اِس قدر قدرتی ہے؟ اِس لیے نہیں کیونکہ اُن کی فطرت خودبخود گناہ سے بھرپور ہے… یہ عقیدہ ہے… لامحدود طور پر خُدا کے لیے ذلت آمیز، اور خُدا کے لیے اور نسل انسانی کی ذہنی استعداد کے لیے ایک ہی طرح سے قابلِ نفرت عمل ہے، اور اِسے ہر ایک واعظ گاہ سے نکال دیا جانا چاہیے، اور عقیدے کے ہر فارمولے میں سے نکال دیا جانا چاہیے، اور دُنیا سے نکال دیا جانا چاہیے۔ یہ کافرانہ فلسفے کے آثار قدیمہ کا ایک قدیم خیال ہے، اور اِس کو آگسٹین نے مسیحیت کے عقائد کے درمیان میں دھوکے سے شامل کر دیا تھا (سی۔ جی۔ فنیC. G. Finney، فنی کی درجہ بہ درجہ تھیالوجی Finney’s Systematic Theology، 1994 ایڈیشن، صفحات268، 263)۔
ٹھیک ہے، انسان کے گناہ میں مُردہ ہونے کے عقیدے کو ہماری زیادہ تر واعظ گاہوں میں سے نکالا جا چکا ہے۔ اِس کا نتیجہ کیا ہے؟ وہ اخلاقی اور روحانی انتشار جو آج کل ہم دیکھتے ہیں – یہ نتیجہ ہے!
کیا انسان کے گناہ میں مُردہ ہونے کے عقیدے کو آگسٹین نے ایجاد کیا تھا؟ جی نہیں، اُس نے یہ نہیں کیا تھا! انسان کا مایوسانہ طور پر ہونا اور گناہ کے بے بسی میں ہونا ساری بائبل میں سیکھایا گیا ہے۔ نوح کے دِنوں میں،
’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
ایوب کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں،
’’وہ کون ہے جو ناپاک میں سے پاک شَے نکال سکے؟ کوئی بھی نہیں‘‘ (ایوب 14:4).
’’اِنسان کیا ہے کہ وہ پاک ہو؟ یا وہ جو عورت سے پیدا ہُوا، راستباز کیسے ٹھہرے؟‘‘ (ایوب 15:14).
زبور نویس نے کہا،
’’یقیناً میں اپنی پیدایش ہی سے گنہگار تھا؛ بلکہ اُس وقت سے گنہگار ہُوں جب میں اپنی ماں کے رحم میں پڑا‘‘ (زبُور 51:5).
’’شریر پیدایش سے گمراہ ہو جاتے ہیں؛ ماں کے پیٹ سے ہی وہ گمراہ اور جھوٹے ہوتے ہیں‘‘ (زبور 58:3).
سُلیمان بادشاہ نے کہا،
’’اُن کے سینے عمر بھر دیوانگی سے بھرے رہتے ہیں‘‘ (واعظ 9:3).
یرمیاہ نبی نے کہا،
’’دل سب چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لاعلاج ہوتا ہے، اُس کا بھید کون جان سکتا ہے؟‘‘ (یرمیاہ 17:9).
اور پولوس رسول نے ہمیں بتایا،
’’تمہارے قصوروں اور گناہوں کی وجہ سے تمہارا حال مُردوں کا سا تھا۔ کبھی ہم بھی اُن میں شامل تھے اور نفسانی خواہشوں میں زندگی گزارتے تھے اور دل و دماغ کی ہر ہوس کو پورا کرنے میں لگے رہتے تھے اور طبعی طور پر دُوسرے اِنسانوں کی طرح خدا کے غضب کے ماتحت تھے‘‘ (افسیوں 2:1،3).
دوبارہ، کُلسیوں میں، رسول نے کہا،
’’تُم تو اپنے گناہوں کے باعث مُردہ تھے‘‘ (کُلسیوں 2:13).
فنی نے انسان کے گناہ میں مُردہ ہونے کے عقیدے پر حملہ اِس کو آگسٹین کے ساتھ منسوب کرنے سے کیا تھا۔ اِس کے باوجود، جیسا کہ میں نے ظاہر کیا، اِس عقیدے کی تعلیم بائبل میں ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک دی گئی ہے۔ دراصل، فنی کے آئیڈیاز بدعتی پیلیگئیس Pelagius (354۔420 بعد از مسیح) سے آئے۔ اُس کے بدعتی خیالات صدیوں تک گردش کرتے رہے ہیں۔ جس بات کی فنی نے تعلیم دی وہ اپنی بھرپور طاقت میں پیلگئین اِزم تھی! آئیے اُن عقائد کے ساتھ مضبوطی سے ڈٹے رہیں جن کی واضح طور پر کلام پاک میں تعلیم دی گئی ہے! انسان ایک غیراصلاح یافتہ یا گمراہ حالت میں، گناہ میں مردہ ہوتا ہے! انسان بیمار نہیں ہے۔ وہ خُدا کے باتوں کے لیے مُردہ ہے!
’’تمہارے قصوروں اور گناہوں کی وجہ سے تمہارا حال مُردوں کا سا تھا‘‘ (افسیوں 2:1).
’’ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے‘‘ (افسیوں 2:5).
اِس سے زیادہ اور کیا بات واضح ہو سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں !
’’گناہوں میں مُردہ‘‘ – کیا یہ انسان کی اُس کی فطرت حالت میں سچی تصویر نہیں ہے؟ عظیم سپرجیئن Spurgeon نے کہا،
اُس لاش کا مشاہدہ کریں: آپ شاید اِس کو ماریں، آپ شاید اِس کو زخمی کریں، لیکن وہ روئے گی نہیں؛ آپ شاید اِس پر منوں وزن کا انبار لاد دیں، لیکن یہ خستہ حال نہیں ہوگی؛ آپ شاید اِس کو تاریکی میں بند کر دیں، لیکن یہ اندھیرے کو محسوس نہیں کرتی۔ یوں غیرنجات یافتہ انسان اپنے گناہ کے بوجھ سے لاد دیا گیا ہے، لیکن وہ اِس سے خستہ حال نہیں ہوتا ہے؛ وہ خُدا کی سزا کے قیدخانے میں بند کیا جا چکا ہے، لیکن وہ آزادی کے لیے نہیں ہانپتا؛ وہ خُدا کے عتاب تلے آیا ہوا ہے… لیکن وہ عتاب اُس کی روح میں کوئی ہلچل پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ وہ مُردہ ہے… اوہ! لیکن کیا تم زندہ ہوتے تو کبھی بھی اُس وقت تک خاموش نہیں رہتے جب تک کہ تمہیں آنے والے قہر سے نجات نہ مل جاتی۔ انسان روحانی باتوں کے بارے میں غافل ہی رہتا ہے، اور اُن سے تحریک نہیں پاتا کیونکہ روحانی سمجھ میں، وہ مُردہ ہوتا ہے (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن، ’’مسیح کے ساتھ زندہ ہونا Resurrection with Christ،‘‘ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرم پبلیکیشنزPilgrim Publications، جلد14، صفحات207، 208)۔
آپ گرجا گھر میں بیٹھ سکتے ہیں اور اُن واعظوں کو سُن سکتے ہیں جن کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا – کیونکہ آپ ’’قصوروں میں مُردہ‘‘ ہیں۔ آپ یسوع کے اذیتوں کے بارے میں سن سکتے ہیں، اُس کے بارے میں کوڑھے کھانے اور صلیب پر کیلوں سے جڑے جانے کے بارے میں سُن سکتے ہیں اور کوئی بھی دیر پا تعلق نہیں پاتے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ آپ سُن سکتے ہیں کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا اور اپنے شاگردوں پر ’’بے شمار بے خطا ثبوتوں کے ذریعے سے‘‘ ظاہر ہوا تھا (اعمال1:3) اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی شاہانت اور قدرت سے متحرک نہیں ہوتے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ آپ اُس کے خون کے بارے میں سُن سکتے ہیں جو آپ کے گناہوں کو دھونے کے لیے میسر ہے، اور آپ اپنے پاک صاف ہونے کی ضرورت کو محسوس نہیں کر پاتے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ آپ دوسروں کو جوش و سرگرمی کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور خود ویسے دعا مانگنے کے قابل نہیں ہوتے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ آپ ایک بڑی سی کالی جلد والی بائبل خرید سکتے ہیں اور اُسے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اُن الفاظ میں کوئی زندگی نہیں ہوتی؛ وہ آپ کے لیے صرف الفاظ ہی ہوتے ہیں – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ دوسروں کے پاس اپنے ایمان میں خوشی ہوتی ہے لیکن آپ میں کوئی خوشی نہیں ہوتی – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ دوسرے مسیح کو جانتے ہیں اور اُس کو جاننے میں خوشی مناتے ہیں، لیکن آپ اُس یسوع کو نہیں جانتے؛ آپ شکوک اور خوف سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ دوسرے آپ کو مسیح کے پاس آنے کے لیے کہتے ہیں لیکن آپ بار بار اگر کہہ سکتے ہیں تو صرف یہی ہے کہ ’’کیسے؟‘‘ میں کیسے اُس یسوع کے پاس جا سکتا ہوں؟‘‘ جواب آپ سے بچ کر نکل جاتا ہے اور آپ اِس کو سمجھ نہیں پاتے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔
میں آپ کو ابھی کہتا ہوں کہ اگر آپ سیکھنے کے ذریعے سے نجات پانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ آپ کبھی بھی نہیں ’’سیکھ‘‘ پائیں گے کہ نجات کیسے حاصل کرنی ہے!کبھی بھی نہیں، بائبل کا پچاس سال تک مطالعہ کرنے کے بعد بھی نہیں – آپ کبھی بھی نہیں سیکھ پائیں گے کہ نجات کیسے حاصل کرنے ہے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔ اور جتنا زیادہ آپ مطالعہ کرتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں اُتنے ہی بدتر آپ ہوتے جاتے ہیں، ہوتے ہی جاتے ہیں جب تک کہ وہ تھوڑی سی دلچسپی بھی جو کبھی آپ میں تھی غائب ہو جاتی ہے اور آپ گرجا گھر میں کسی بھی بات کے کبھی بھی بدلے جانے کی اُمید کے بغیر بیٹھے ہوتے ہیں – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں – ’’سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہو پاتے کہ حقیقت کو پہچان پائیں‘‘ (2تیموتاؤس3:7)۔ اور بالاآخر آپ اپنے گناہوں ہی میں مر جائیں گے اور خود کو اگلے جہاں میں پائیں گے، جہاں پر آپ عذاب میں ہوں گے، خدا کی حضوری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر نکالے ہوئے، مایوسی میں، شعلوں میں، بغیر کسی اُمید کے، ’’تاریکی کے اندھیرے میں ہمیشہ کے لیے‘‘ (یہودہ13) – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں۔
لیکن اب ہماری تلاوت اُمید کی ایک جھلک دکھاتی ہے – اور وہ اُمید صرف اور صرف مسیح میں خُدا کے فضل اور رحم میں ہوتی ہے۔ یہ میرا تجربہ تھا، اور میں دعا مانگتا ہوں کہ یہ آپ کا بھی ہو۔ خُداوند کا شُکر ہو، ہم میں سے وہ جو نجات پا چکے ہیں کہہ سکتے ہیں، کہ ہم جی اُٹھے مسیح کے وسیلے سے زندگی بسر کرنے کے لیے تیار کیے جا چکے ہیں!
II۔ دوسری سچائی، ہم زندہ کیے گئے۔
مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور آیات چار اور پانچ باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) ‘‘ (افسیوں2:4۔5)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
ہائے، یہ سنو، اے گنہگار! رسول کے بابرکت الفاظ کوسُنو، ’’لیکن خُدا۔‘‘ یہاں اُن الفاظ میں ایک اُمید ہے! ’’لیکن خُدا۔‘‘ آپ گناہوں میں مردہ ہوتے ہیں، ’’لیکن خُدا!‘‘ اُن الفاظ کے لیے اُس کی ستائش کرو! چھلانگیں ماریں اور خوشی سے ناچیں جب آپ اُن الفاظ کوسُنتے ہیں! ’’لیکن خُدا!‘‘ ہم ایمان کی تاریخ میں اُن الفاظ کا بار بار اِطلاق کر سکتے ہیں۔ جب حالات بے بس تھے، گاہے بگاہے خُدا نے خود مداخلت کی اور افسیوں2:4 کے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے، ’’لیکن خُدا!‘‘
ساری کی ساری دُنیا گناہ سے اِس قدر بگڑ چکی تھی کہ خُدا نے کہا، ’’میں انسان کو تباہ کر دوں گا جس کو میں نے تخلیق کیا‘‘ (پیدائش6:7)۔ لیکن نوح نے خُدا کے نظروں میں مقبولیت پائی‘‘ (پیدائش6:8)۔ ’’لیکن خُدا‘‘ نے مداخلت کی اور نوح اور اُس کے خاندان کو بہت بڑے سیلاب سے بچا لیا۔ اسرائیل کے بچے مصر میں، فرعون کے تحت غلامی میں اسیری کے تحت کراہتے اور سسکتے تھے۔ لیکن خُدا نے موسیٰ سے کہا، ’’میں تمہیں مِصریوں کے جوئے کے نیچے سے نکال لاؤں گا اور میں اپنے بازو پھیلا کر تمہیں اُن کی غلامی سے نجات بخشوں گا اور اُنہیں سخت ترین سزائیں دوں گا۔ اور میں تمہیں اپنا کر اپنی قوم بنا لوں گا اور میں تمہارا خُدا ہوں گا۔ تب تم جانو گے کہ میں خُداوند تمہارا خُدا ہوں جو تمہیں مِصریوں کے جوئے کے نیچے سے نکال لایا‘‘ (خروج6:6۔7)۔ ’’لیکن خُدا۔‘‘ قاضیوں کے زمانے میں، مدیانیوں نے اسرائیل کے بچے کو اِس قدر خستہ حال کر دیا تھا (قضاۃ6:6)۔ لیکن خُدا جِدون کے پاس آیا جب وہ گیہوں جھاڑ رہا تھا تاکہ ’’اُسے مدیانیوں سے بچائے رکھے‘‘ (قضاۃ6:11)۔ اور خُداوند نے [جدون سے] کہا، ’’یقینی طور پر میں تیرے ساتھ رہوں گا اور تو سب مدیانیوں کو ایک ساتھ مار ڈالے گا‘‘ (قضاۃ6:16)۔ اور جدون پکار اُٹھا، ’’اُٹھو! خُداوند نے مدیانی لشکر کو تمہارے ہاتھوں میں کر دیا ہے‘‘ (قضاۃ7:15)۔ ’’لیکن خُدا۔‘‘ یسوع کو گرفتار کیا گیا تھا، پیٹا گیا، صلیب پر کیلوں سے جڑا گیا، فوت ہوا، اور ایک مہربند قبر میں دفنایا گیا۔ لیکن خُدا نے اُس کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا، ’’خُدا نے اُسی یسوع کو تیسرے روز زندہ کر کے ظاہر بھی کر دیا‘‘ (اعمال10:40)۔ ’’لیکن خُدا۔‘‘ سردار کاہن اور اُس کے لوگوں نے رسولوں کو پکڑا اور اُنہیں ایک ’’عام قید خانے میں‘‘ ڈلوا دیا (اعمال5:18) اُںہیں خوشخبری کی منادی کرنے سے روکنے کے لیے۔ لیکن رات میں خُدا کے فرشتے نے قیدخانے کے دروازے کھول دیے… اور کہا، ’’جاؤ اور ہیکل کے صحن میں کھڑے ہو کر اِس نئی زندگی کی ساری باتیں لوگوں کو سُناؤ‘‘ (اعمال5:19،20)۔ ’’لیکن خُدا‘‘ نے قیدخانے کے دروازے کھول دیے اور اُن کی منادی کو برکت بخشی۔
بار بار، ساری بائبل میں، ہمیں ایک کے بعد دوسری مثال خُدا کے رحم کے بارے میں پیش کی گئی ہے۔
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛)‘‘ (افسیوں2:4۔5)۔
اور چونکہ خُدا نے نوح کے زمانے میں، اور موسیٰ کے زمانے میں، اور مدیانیوں کے زمانے میں اور رسولوں کے زمانے میں اور مسیح کے جی اُٹھنے کے زمانے میں رحم دکھایا تھا – تو کیا تمہارا نہیں خیال وہ تم پر رحم کر سکتا ہے؟
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛)‘‘ (افسیوں2:4۔5)۔
دیکھو اور اُنہیں پر نظر ڈالو جو ہمارے درمیان ہی میں سے ’’اُٹھا لیے‘‘ گئے۔ دیکھو اور نظر ڈالو اُن پر جنہیں مُردوں میں سے زندہ کر دیا گیا، اور مسیح میں خُدا کے فضل کے وسیلے سے زندہ کر دیا گیا! دیکھو – ہمارے سارے مُناد بھائیو، ہمارے گرجا گھر کے تمام کے تمام رہنماؤں – وہ تمام کے تمام کبھی ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ تھے۔ اِس کے باوجود، دیکھو اور نظر ڈالو – وہ مسیح کے ساتھ اکٹھے اُٹھائے جا‘‘ چکے ہیں – مسیح میں زندہ کیے جا چکے ہیں – فضل کے وسیلے سے نجات پا چکے ہیں! کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ’’مسیح میں … زندہ‘‘ نہیں اُٹھائے گئے؟ کون شک کر سکتا ہے کہ ’’مسیح کے ساتھ‘‘ مُردوں میں سے زندہ کیے جا چکے ہیں؟ سپرجیئن نے کہا،
بیچاری مارتھا بہت زیادہ حیران ہوئی تھی کہ مسیح کو اُس کے بھائی [لعزر]کو مُردوں میں سے زندہ کر دینا چاہیے تھا لیکن اُس نے کہا، جیسا کہ اُس کومذید اور حیرت میں مبتلا کرنا چاہتا ہو، ’’جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی نہ مرے گا۔ کیا تو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟‘‘ (یوحنا11:26)۔ یہ اُن باتوں میں سے ایک ہے جس کا ہمیں یقین کرنا ہوتا ہے، کہ جب ہم روحانی زندگی پا چکے ہوتے ہیں تو یہ مسیح کی زندگی کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نتیجتاً کبھی بھی نہیں مر سکتی (سپرجیئن، ibid.، صفحہ214)۔
جی ہاں! ’’کبھی بھی نہیں مرتا!‘‘ ہم اُن لوگوں کے بارے میں جو نئے سرے سے جنم لیتے ہیں فنی کے جھوٹے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ فنی نے کہا، ’’اُنہیں خصوصی مقصد کے تحت باخبر کیا جاتا ہے کہ اُن کی نجات آخر تک پاکیزگی میں اُن کی ثابت قدمی پر قائم رہنے سے مشروط ہوتی ہے۔ اُنہیں بُلایا جاتا ہے… خوف کرنے کے لیے… کہیں وہ گمراہ نہ ہو جائیں‘‘ (چارلس جی فنی Charles G. Finney، فنی کی درجہ بہ درجہ تھیالوجی Finney’s Systematic Theology، بیت عنیاہ بپلیشرز ہاؤس Bethany House Publishers، 1878 کے ایڈیشن کی دوبارہ اشاعت 1994، صفحہ546)۔ جی ہاں، فنی نے کہا تھا کہ ایک نجات یافتہ شخص اپنی نجات کو کھو سکتا ہے!¬ درحقیقت، فنی نے کہا تھا کہ ایک مسیحی، اُس کے مرنے کے بعد، جنت میں سے باہر گِر سکتا ہے اور اپنی نجات کو کھو سکتا ہے! یہاں فنی کی تھیالوجی کی کتاب میں سے بالکل صحیح حوالہ درج ہے، ’’جنت میں مقدسین فطری اِمکان کے ذریعے سے مُرتد اور برگشتہ ہو سکتے ہیں اور کھو جاتے ہیں‘‘ (سی۔ جی۔ فنی، ibid.، صفحہ508)۔ جی ہاں، فنی نے کہا کہ ایک مسیحی جنت میں سے نکل سکتا ہے اور کھو سکتا ہے!
یہ پیلگیئین بدعت ہے۔ ہم اِسے مسترد کرتے ہیں! وہ جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے ’’غیرنجات یافتہ‘‘ نہیں ہو سکتا۔ وہ جو نیا جنم لے [احیاء؛ اخلاقی اور روحانی طور پر سُدھر] چکا ہوتا ہے ’’غیراصلاح یافتہ‘‘ نہیں ہو سکتا!
’’جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے، [خُدا نے] مسیح کے ساتھ ہمیں زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛)‘‘ (افسیوں2: 4۔5)۔
سپرجیئن نے کہا، ’’ایک مرتبہ الوہی زندگی پا چکنے کے بعد، وہ اِس کو کبھی بھی کھو نہیں سکتا۔ خُدا… ہمیں باطنی زندگی کے ساتھ نہیں اُٹھاتا، اور پھر ہمیں فنا ہونے کے لیے چھوڑ دیتا… وہ آج کو نہیں بچاتا اور آنے والے کل کو تباہ نہیں کرتا… خُدا کو جلال ہو، تب، آپ جو مسیح میں ایمان کے وسیلے سے زندگی بسر کرتے ہیں ایک لازوال زندگی بسر کرتے ہیں… اِس میں خوشی منائیں، اور اپنے خُدا کو تمام ستائش دو!‘‘ (سپرجیئن، ibid.، صفحہ215)۔ لیکن ایک نکتہ اور بھی ہے۔ ہم مُردہ تھے۔ ہمیں زندہ کیا جاتا ہے۔ لیکن،
III۔ تیسری سچائی، ہمیں زندہ کیا گیا۔
مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور آیات پانچ اور چھ باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:4۔6)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، ’’میں مسیح کے پاس کیسے گیا تھا؟‘‘ وہ تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں مسیح کہاں پر ہے – اوپر تیسرے آسمان میں (2کرنتھیوں12:2)۔ وہ جانتے ہیں مسیح وہاں پر ہے، فضا سے اوپر، اِس کہکشاں کے ستاروں سے پرے، اُس جگہ میں جسے وہ ’’بہشت‘‘ کہتا ہے (لوقا23:43)۔ وہ بائبل میں پڑھ چکے ہوتے ہیں کہ مسیح وہاں پر ہے، خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ ’’میں وہاں اوپر کیسے جا سکتا ہوں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ میں کیسے اوپر اتنی دور مسیح کے پاس جا سکتا ہوں – ایک دوسرے جہاں میں؟‘‘
ٹھیک ہے، بیشک، اِس کا جواب واضح ہونا چاہیے۔ آپ وہاں پر خود اپنے بل بوتے پر جاتے ہیں! لیکن ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے بے شمار لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ مسیح کے پاس خود اپنی کوششوں کے ذریعے سے جا سکتے ہیں! یہ ہی وجہ ہے کہ وہ لڑکھڑا جاتے ہیں جب وہ یوحنا6:44 کا مطالعہ کرتے ہیں،
’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے، اُسے کھینچ نہ لائے اور میں اُسے آخری دِن پھر سے زندہ کر دُوں گا‘‘ (یوحنا6: 44).
اُنہیں اِس بات کا یقین کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی کہ خُدا اُنہیں ریپچر [مسیح کی آمد ثانی کے موقع پر آسمان کے بادلوں میں اُس کا استقبال کرنے کے لیے] ہوا میں مسیح سے اوپر ملاقات کے لیے کھینچ لے گا (دیکھیں1 تسالونیکیوں4:16۔17؛ 1 کرنتھیوں15:51۔53)۔ اِس کے باوجود اُنہیں ایک ہی بات میں یقین کرنے پر انتہائی شدید دشواری ہوتی ہے جب اِس کا تعلق نجات سے ہو جاتا ہے! دونوں باتیں، سب کے پڑھنے کے لیے، وہاں، یوحنا6:44 میں موجود ہیں،
’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے، اُسے کھینچ نہ لائے اور میں اُسے آخری دِن پھر سے زندہ کر دُوں گا‘‘ (یوحنا6:44).
خُدا کی وہی قوی قدرت، جو ہوا میں مسیح کو ملنے کے لیے مسیحیوں کو اوپر کھینچ لے گی، ابھی آپ کو خُدا کے داھنے ہاتھ پر مسیح کے پاس اوپر کھینچ لیتی ہے! یہ خُدا ہے جو ایک گنہگار کو مسیح کے پاس کھینچتا ہے – گنہگار خود نہیں – بلکہ خُدا اُس کو کھینچتا ہے۔ ’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے… کھینچ نہ لائے۔‘‘ یہ ریپچر کی مانند ہے – صرف یہ ابھی ہو جاتا ہے – جب آپ مسیح کے پاس جاتے ہیں! تب، اُس شاندار لمحے میں، افسیوں2:6 رونما ہوتی ہے! اِس پر نظر ڈالیں! کھڑے ہو جائیں اور اِس کو باآوازِ بُلند پڑھیں!
’’اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:6)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
اُس آیت کے بارے میں ڈاکٹر ھینڈریکسن Dr. Hendriksen نے کہا، ’’ہم خود میں… زندہ کیے گئے، اُٹھائے گئے، اور آسمانی مقاموں میں قائم کیے گئے‘‘ (ولیم ھینڈریکسن، پی ایچ۔ ڈی۔ William Hendriksen, Ph.D.، نئے عہد نامے پر تبصرہ New Testament Commentary، بیکر کُتب گھر Baker Book House، دوبارہ اشاعت1981، صفحہ118؛ افسیوں2:6 پر غور طلب بات)۔ مذھبی سُدھار کا مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible اِسکو یوں تحریر کرتا ہے،
… ہمیں زندہ کیا… ہمیں اوپر اُٹھایا… ہمیں بیٹھایا۔ یہ مسیح کی زندگی میں تاریخی واقعات ہیں: اُس کا مُردوں میں سے زندہ ہو جانا اور خُدا کے داہنے ہاتھ پر تخت پر بیٹھنا۔ لیکن پولوس اِس کا اِطلاق اُس کے ساتھ کرتا ہے جو ایمانداروں کے ساتھ رونما ہو چکا ہے۔ پولوس مسیح اور اُن کے درمیان جو اُس کے پاس جاتے ہیں متحد ہونے کی تعلیم دیتا ہے… اُس کے پاس… تاکہ جو کچھ مخلصی دینے والے کے بارے میں کہا گیا ہے وہ مخلصی پانے والے کے بارے میں بھی ہو سکے (مذھبی سُدھار کا مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible، Ligonier Ministries، 2005، صفحہ1706، افسیوں2:5، 6 پر غور طلب بات)۔
مسیح کے پاس آنے صرف خُدا کے قدرت اور فضل کے وسیلے سے ممکن بنایا گیا ہے، جو ہماری جانوں کو اوپر مسیح کی جانب کھینچتے ہیں جب ہم مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جاتے ہیں!
تب آپ کو کیا کرنا چاہیے اگر آپ ابھی تک گمراہ ہیں؟ یسوع نے کہا، ’’اندر داخل ہونے کی کوشش کرو‘‘ (لوقا13:24)۔ پڑھیں اور اِن واعظوں کو دوبارہ پڑھیں۔ ’’جدوجہد کریں‘‘ اپنی تمام تر وجودیت کے ساتھ ’’اندر داخل ہونے کے لیے۔‘‘ ’’کھٹکھٹائیں، اور یہ کھول دیا جائے گا‘‘ (لوقا11:9)۔ یونانی الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’کھٹکھٹانا جاری رکھیں، دعا مانگنا جاری رکھیں۔‘‘ خُدا سے جتنا ممکن ہو سکتا ہے اپنی گناہ سے بھرپور، گمراہ حالت سے بیدار ہونے کے اُتنی زیادہ دعا مانگیں۔ اُس سے اپنی جان کو اُٹھانے کے لیے دعا مانگیں، آپ کو زندہ کرنے کے لیے، اور آپ کو مسیح کی جانب کھینچنے کے لیے۔ جہنم کی ہولناکیوں کے بارے میں سوچیں، اور مسیح کے بغیر دائمیت کے بارے میں سوچیں۔ ’’اندر داخل ہونے کی کوشش کریں‘‘ اور خُدا [آپ کو] مسیح کے ساتھ اکٹھا اُٹھا لے گا‘‘… اور آپ کو ’’مسیح یسوع میں آسمانی مقامات میں‘‘ اوپر اُٹھا لے گا۔ کاش وہ خوشی سے بھرپور لمحہ آپ کے لیے جلد ہی آ جائے! کاش آپ کو جلد ہی زندہ کر دیا جائے – ’’مسیح یسوع میں آسمانی مقامات میں‘‘ اوپر کھینچنے کے لیے۔ کاش آپ، جو گناہوں میں مُردہ ہیں، جی اُٹھنے کا تجربہ ابھی کریں! کاش آپ مسیح میں خُدا کی قوت کے وسیلے سے دوبارہ جنم لیں! آمین۔
’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:4۔6)۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین نے کی تھی: افسیوں2:1۔7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’آؤ، اے گہنگاروCome, Ye Sinners، (شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart، 1712۔1768؛
’’ہاں، میں جانتا ہوںYes, I Know‘‘ شاعرہ آنہ ڈبلیو۔ واٹرمین Anna W. Waterman، 1920 کی طرز پر گایا گیا)
لُبِ لُباب مُردوں میں سے ابھی جی اٹھنا!RESURRECTION NOW! ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’لیکن خُدا بہت ہی محبت کرنے والا اور رحم کرنے میں غنی ہے۔ اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مُردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا، (فضل کے وسیلے سے تمہیں نجات ملی ہے؛) اور اُس نے ہمیں مسیح یسوع کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا (افسیوں2:4۔6)۔ (افسیوں 2:1). I. پہلی سچائی، ہم مُردہ تھے، افسیوں 2:1؛ پیدائش 6:5؛ ایوب 14:4: 15:14؛ II. دوسری سچائی، ہم زندہ کیے گئے، افسیوں 2:4۔5؛ پیدائش 6:7،8؛ III. تیسری سچائی، ہمیں زندہ کیا گیا، افسیوں 2:5۔6؛
2۔ کرنتھیوں 12:2؛ لوقا 23:43؛ یوحنا 6:44؛ 1۔ تھسلنیکیوں 4:16۔17؛ 1۔ کرنتھیوں 15:51۔53؛ |