اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
انصاف اور متبادلJUSTICE AND SUBSTITUTION ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ |
میں ہر روز آدھا گھنٹہ تیراکی کرنے کے لیے جِمنازیم جاتا ہوں۔ وہاں آدمیوں کے لاکر والے کمرے میں ایک بہت بڑی سکرین والا ٹیلی ویژن ہے۔ اگلے ہی دِن، جب میں اپنا تیراکی کا لباس پہن رہا تھا تو میں نے بروس ولز کی ایک فلم کو ٹی وی کی سکرین پر چلتے ہوئے دیکھا۔ میں چند ایک منٹ اُس کو دیکھنے کے لیے رُک گیا۔ وہ آج کل کی عام فلموں کی مانند ہی ایک فلم تھی – جو زندگی کے ایک انتہائی تاریک پہلو کو پیش کر رہی تھی۔ اہم کردار شہر کی آدھی شب کی تاریکی میں، چوہوں کی مانند سائیوں میں سے چُھپتے چھپاتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ وہ بِلا کسی سوال کے ایک تاثر تھا۔ وہ ایک جدید شہر کی گلیوں اور سڑکوں کی خوفزدہ کر دینے والی تاریکی میں کُترنے والے جانوروں یا کیڑوں کی مانند تھے، سوراخوں میں چھپتے چھپاتے ہوئے۔ ڈاکٹر کارل ایف۔ ھنری Dr. Carl F. Henry کے الفاظ ذہن میں گوجن گئے،
جنگلی ایک زوال پزیر ہوتی ہوئی تہذیب کی مٹی کو کھسکانے میں لگے ہوئے ہیں اور پہلے سے ہی ایک معذور کلیسیا کے سائے میں نظر بچا کر دبے پاؤں جا چکے ہیں (کارل ایف، ایچ۔ ھنری، پی ایچ۔ ڈی۔ Carl F. H. Henry, Ph.D.، ایک عظیم تہذیب کی تخفیف Twilight of a Great Civilization، کراسوے کُتب Crossway Books، 1988، صفحہ17)۔
جدید دُنیا کی ڈاکٹر ھنری کی تصویری منظر کشی میں دو سوچوں کو اِکٹھا کیا گیا ہے – پہلی، کہ ہمارے لوگ ’’جنگلی‘‘ بن چکے ہیں، اور دوسری، کہ کلیسیائیں ’’معذور‘‘ ہیں – اِن جنگلیوں کو حقیقی مسیحیت میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ بِلاشُبہ ’’فیصلہ سازیت‘‘ کا ہولناک نتیجہ ہے۔
میرے ذہن نے جبلتی طور پر اِس تاریک تصویر کے بارے میں بائبل کی پیشن گوئی کی اصطلاح میں سوچا، جو ہمیں بتاتی ہے،
’’… آخری زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے لوگ خُود غرض، زَردوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والے، بے ضبط، تُند مزاج، نیکی کے دشمن، دغاباز، بے حیا، گھمنڈی، خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ہوں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:1۔4).
اور پھر ہمیں وجہ بتائی جاتی ہے – ’’آخری زمانہ میں‘‘ لوگ ’’جنگلی‘‘ بن جائیں گے کیونکہ وہ ’’ابلیس کے عقیدوں کو مانیں گے… اپنے ضمیر کو گرم لوہے کے ساتھ داغا جانے دیں گے‘‘ (1۔ تیموتاؤس4:1۔2)۔ ڈاروِن، مارکس، اور فرائیڈ کے شیطانی عقائد نے مغربی تہذیب کو اِس قدر زہریلا کر دیا ہے اور ہماری سوچوں پر اتنے حاوی ہو گئے ہیں کہ لوگ خود کو جانوروں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں – دورِحاضرہ کی ایک فلم میں تاریک گلیوں میں سے دوڑتے بھاگتے ہوئے چوہوں کی مانند! ہمارے لوگوں کا ضمیر جھوٹی تعلیمات اور تہذیبی بدکاریوں سے اِس حد تک داغا جا چکا ہے کہ ’’گناہ‘‘ کا تصور اُنھیں ایک طلسماتی کہانی کی مانند دکھائی دیتا ہے – زمانۂ وکٹوریہ کی ایک یادگار۔ ’’گناہ‘‘ کا انتہائی تصور دورِ حاضرہ کی سوچ سے نکالا جا چکا ہے، اور مذید اور ہمارے لوگوں کے ذہن میں پنہاں نہیں ہے۔
جب ہم مسیح کی ہمارے گناہوں کو معاف کردینے کی بات کرتے ہیں ہم اُنھیں کچھ ایسا پیش کر رہے ہوتے ہیں جس کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنھیں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے! اگر انسان کا ضمیر اِس حد تک ’’داغا‘‘ جا چکا ہے کہ وہ اپنے گناہ کے لیے کوئی جُرم محسوس نہیں کرتا، تو پھر مسیح کے ذریعے سے معافی کے پیغام کی کوئی کشش نہیں ہوتی!
میں حیران ہوتا ہوں – کیا یہ آج کی رات آپ کا معاملہ ہے؟ کیا آپ کا کوئی قصور ہے؟ کہ آپ کو ضمیر کے کوئی کچوکے لگتے ہیں؟ کیا آپ کو کوئی احساس ہوتا ہے کہ آپ نے ایک پاک خُدا کو ٹھیس پہنچائی ہے؟ کیا آپ کو اپنے گناہ کے لیے روزِ قیامت سزا و جزا کا کوئی خوف ہوتا ہے؟ یا کیا آپ کو پہلے سے ہی خُدا کی جانب سے مسترد کیا جا چکا ہے، آپ کے ’’ضمیر کو گرم لوہے کے ساتھ داغا جا چکا ہے‘‘؟
اگر آپ پہلے سے ہی نااُمیدی کے ساتھ بھرے ہوئے ایک سخت ’’وحشی یا جنگلی‘‘ نہیں ہیں – اگر آپ میں ضمیر کی کوئی چنگاری باقی بچی ہوئی ہے – اگر آپ میں ذرا سا بھی خُدا کا خوف موجود ہے، یا گناہ کی حالت میں مرنے کے اِمکان کی ہلکی سی بھی دھشت کی جھلک موجود ہے، تو پھر میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آج کی رات میری تلاوت پر دھیان دیں!
’’خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا 53:10).
تلاوت میں دو لفظ نمایاں دکھائی دیتے ہیں – ’’گناہ‘‘ اور ’’قربانی۔‘‘ مسیح کا صلیب پر ’’قربانی‘‘ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ اُسکو کسی وجہ کے تحت مصلوب نہ کیا گیا ہو۔ اور بائبل تعلیم دیتی ہے کہ وہ وجہ کہ اُس کو مصلوب کیا گیا گناہ کے لیے جرمانہ ادا کرنا تھی۔
’’خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا 53:10).
یہاں، پھر، وہ وجہ ہے کہ خُدا نے صلیب پر یسوع کو قربان کیا – گناہ کی وجہ سے۔
I۔ پہلی بات، گناہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
دورِ حاضرہ کے لوگوں کے ذہنوں سے ڈٓاروِن، مارکس اور فرائیڈ کے تصورات نے گناہ کی حقیقت کو نکال باہر پھینکا ہے۔ ’’گناہ‘‘ کے تصور کو خارج کر دینے سے انسان نے فرض کر لیا ہے کہ اُسے برابر کے حقوق میسر ہیں اور وہ آزاد کیا جا چکا ہے۔ مگر دورِ حاضرہ کی کہلائی جانے والی ’’آزادی‘‘ کی سوچ نے لوگوں کو آزاد نہیں کیا ہے! اِس کے بجائے اِن ’’نئے‘‘ فلسفہ دانوں نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ محض تعلیم یافتہ جانور ہیں۔ صحیح اور غلط کی پہچان کے تصور کے بغیر، دور حاضرہ کے لوگ اخلاقی انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ بیشک یہ واقعی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو محض اُسی کو دہرایا جا رہا ہے جو عظیم سیلاب سے پہلے رونما ہو چکا تھا جب،
’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
دوبارہ، آج کا اخلاقی انتشار صرف اُس کا دہرایا جانا ہی ہے جو عبرانی لوگوں کے ساتھ قضاۃ کے زمانے میں رونما ہو چکا تھا جب،
’’اُن دِنوں اِسرائیل کا کوئی بادشاہ نہ تھا۔ چنانچہ ہر شخص وہی کرتا تھا جو اُسے بھلا لگتا تھا‘‘ (قضاۃ 21:25).
سیلاب سے پہلے کی وحشیانہ بدکاریاں اور قضاۃ کے دور کے دوران اخلاقی علاقیت یا نسبتیت اور دوسرے تمام زمانوں کا اِرتداد اور بداعمالیاں – بشمول خود ہماری اپنی – اُن کی جڑیں اصلی گناہ میں ہیں۔
خُدا نے آدم کو اِمتحان میں ڈالا تھا، اُس سے صرف ایک ہی بات کا تقاضا کیا تھا – کہ وہ ’’نیکی اور بدی کی پہچان کے درخت‘‘ کا پھل نہیں کھائے گا۔ خُدا نے اُس کو خبردار کیا تھا،
’’… جب تُو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).
آدم نے اُس منع کیے ہوئے پھل کو کھانے سے گناہ کیا تھا۔ اور ٹھیک اُسی وقت گناہ نے اُس کو تباہ کر دیا، اور اُس کی روح مر گئی۔ مگر المیہ آدم کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گیا۔ اُس کے گناہ کا ہولناک نتیجہ اُس کی تمام آل اولاد کے لیے موت اور تباہی لایا،
’’جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 5:12).
یوں تمام کی تمام نسل انسانی ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوگئی (افسیوں2:5)۔
تمام کی تمام نسل اںسانی – ہر ایک شخص – اِسی لیے گناہ میں پیدا ہوتا ہے اور گناہ میں مُردہ ہوتا ہے۔ اور اِس میں کوئی غلطی مت کیجیے گا، گناہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ درحقیقت گناہ سزا کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ کے ضمیر کی آواز، حالانکہ یہ آلودہ ہوتی ہے، پھر بھی کہتی ہے، آپ کو بتاتی ہے کہ راستبازی کو انعام ملنا چاہیے اور گناہ کو سزا ملنی چاہیے۔ کبھی کبھار تو یہاں تک کہ سب سے زیادہ بدچلن دِل بھی یہ بات جانتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ نے کبھی سوچا ہو، ’’اگر کوئی خُدا ہے تو مجھے میرے گناہ کے لیے سزا ملنی چاہیے‘‘؟ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کو اُن اوقات میں سزا ملنی چاہیے جب خود آپ کا اپنا ضمیر آپ ہی کے بُرے خیالات اور اعمال سے ڈنگ مارتا ہے۔ اُن اوقات میں جب آپ کے ضمیر کو کچوکے لگتے ہیں تو آپ جان جاتے ہیں کہ گناہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
مگر اِس حقیقت میں اِس بات کا اضافہ کریں کہ خُدا خود کہہ چکا ہے کہ گناہ ’’ایسا مکروہ کام ہے جس سے مجھے نفرت ہے‘‘ (یرمیاہ44:4)۔ سپرجیئن نے کہا،
کلام مقدس میں اِس سچ سے زیادہ اور کوئی بات واضح نہیں کہ گناہ خود اپنے آپ میں خُدا کے لیے اِس قدر گِھناؤنا ہوتا ہے کہ وہ ضرور بہ ضرور اِس کو کُچلنے کے لیے اپنی غیر معمولی قوت کے تمام کی تمام توانائی صرف کرے گا… خبردار رہیں، وہ جو خُدا کو اِس معاملے میں بھول جاتے ہیں، وہ آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور آپ کو نجات دلانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ گناہ کو ضرور سزا ملنی چاہیے (سی۔ ایچ۔ سپرجیئنC. H. Spurgeon ، ’’فدیہ Expiation،‘‘میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1991، جلد دہم، صفحہ171)۔
آج، ہم مسلسل سُنتے ہیں کہ خُدا کی واحد خاصیت محبت ہے۔ مگر یہ صرف کسی حد تک سچ ہے – کیونکہ خُدا کی اور بھی خصوصیات ہیں – اور اُن میں سے ایک انصاف ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’اور اُس کی سب راہیں اِنصاف والی ہیں۔ وہ صادق القول خدا ہے جو بدی سے مبّرا ہے، وہ راستباز اور عادل ہے‘‘ (استثنا 32:4).
گناہ خُدا کے کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ گناہ سزا کا تقاضا کرتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’جو جان گناہ کرے گی وہی مرے گی‘‘ (حزقی ایل 18:4،20).
’’کیونکہ گناہ کی مزدوری مَوت ہے‘‘ (رومیوں 6:23).
گناہ کو ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے!
کیا آپ خُدا کے انصاف کی حقیقت پر شک کرتے ہیں؟ کیا آپ اِس خیال سے کہ خُدا گناہ کی سزا دیتا ہے اِجتناب کرتے ہیں؟ کیا آپ نے بائبل میں ہر اُس آیت سے اجتناب کیا ہے جو جہنم کی آگ کے بارے میں بتاتی ہے؟ کیا آپ اُن آیات کو پڑھتے ہیں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے، اور اُن آیات کو مسترد کر دیتے ہیں جو اُس ’’جھیل جو آگ اور گندھک سے جلتی ہے‘‘ کے بارے میں بات کرتی ہے؟ (مکاشفہ21:8)۔ اگر آپ انصاف کے خُدا سے چھپ رہے ہیں جیسے آدم نے کیا تھا – وہ خُدا جو تقاضا کرتا ہے کہ گناہ کو ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے!
جب تک کہ آپ ڈاکٹر ھنری کے ’’وحشیوں‘‘ میں سے ایک نہیں ہوتے جو ’’سائیوں میں نظر بچا کر دبے پاؤں چلتے ہیں‘‘ – گٹر کے چوہے، بُروس وِلیز کے شہر کی پچھلی گلیوں میں سے بھاگتے ہوئے – جب تک کہ آپ تمام کی تمام انسانیت کھو نہیں چکتے، اور ایک ایسے ضمیر کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتے جو تمام نور سے خالی ہو – یقینی طور پر آپ جانتےہیں، اپنی روح کی گہرائیوں میں کہ گناہ کو سزا ملنی چاہیے۔ اور بالکل اتنے ہی یقین کے ساتھ آپ کو جان لینا چاہیے کہ آپ گناہ کر چکے ہیں! اور اِسی لیے، آپ کو آپ کے گناہ کے لیے ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے! ’’گناہ۔‘‘ ’’گناہ۔‘‘ ’’گناہ۔‘‘ یہ پہلا لفظ ہے جس پر ہم غور کر چکے ہیں۔
’’اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا 53:10).
لیکن تلاوت میں اِس سے زیادہ ہے۔
II۔ دوسری بات، خُدا گنہگاروں کے لیے ایک متبادل کو مہیا کر چکا ہے۔
ہم بائبل سے نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ گناہ کو ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے۔ خُدا کا انتہائی انصاف اِس کا تقاضا کرتا ہے۔ گناہ کو ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے۔ یہاں پر ہم ایک خطرناک صورتِ حال میں ہیں۔ ہم گناہ کر چکے ہیں۔ ’’ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ہیں‘‘ (اشعیا53:6)۔ اور ہمیں ہمارے گناہ کے لیے ضرور بہ ضرور سزا ملنی چاہیے۔ خُدا کے لیے یہ ناممکن ہے کہ ’’ہمیں بخش دے‘‘ جب تک کہ کوئی اور ہمارے گناہ کے لیے سزا نہ پا لے – ہماری جگہ پر – ہمارے متبادل کے طور پر۔ خدا کا انصاف اِس کا تقاضا کرتا ہے!
یہ محض کوئی بھی شخص نہیں ہو سکتا – کیونکہ تمام انسانوں نے ’’گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں‘‘ (رومیوں3:23)۔ کیونکہ خُدا کے لیے ہماری جگہ پر کسی اور کا فیصلہ کرنا – ہمارے متبادل کے طور پر – تو اِس کے لیے اُس شخص کو بے گناہ ہونا چاہیے۔ نسل انسانی میں ہمارے درمیان کون ہے جو بے گناہ ہے؟ کوئی بھی نہیں! ’’کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں3:23)۔
کیونکہ ایک گنہگار کو بھی اُس کے الہٰی انصاف سے بچانے کے لیے، خُدا کو خود اپنے بے گناہ بیٹے کو آسمان سے نیچے بھیجنا پڑا، کیونکہ یسوع – خُدا کا اِکلوتا بیٹا – ہی واحد ایک تھا،
’’اُس نے نہ تو کبھی گناہ کیا نہ اُس کے مَنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘ (1۔ پطرس 2:22).
وہ کامل، خُدا کا بے گناہ بیٹا جس کو آسمان سے اِس زمین پر بھیجا گیا کہ انسانی گناہ کے صدمے کو برداشت کرے – اور بدکار گناہ سے بھرپور آدمیوں اور عورتوں کی جگہ پر مرے! یسوع مسیح ہی وہ واحد اور تنہا ہستی ہے جو خُدا کے انصاف کو مطمئن کر پاتا، گنہگاروں کی جگہ لے پاتا اور اُس کے جہنم کے مستحق گناہ کی ادائیگی کر پاتا! یہ یسوع وہی ایک ہے جس کے بارے میں نبی نے بتایا،
’’خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا 53:10).
تو اُس کی جان کو – اور تنہا اُسی کو – گناہ کی قربانی قرار دیتا ہے،
’’کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اِس قدر محبت کی کہ اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا3:16)۔
یسوع مسیح جو آخری آدم ہے، اُنھیں بحال کرنے کے لیے آیا جو پہلے آدم کے ذریعے سے تباہ اور مردہ کر دیے گئے تھے! پہلا آدم نسل انسانی کے لیے موت اور فیصلہ لایا تھا۔ یسوع جو آخری آدم ہے، پہلے آدم کے گناہ اور ہمارے گناہ کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مرا۔ یسوع، جو آخری آدم ہے، پہلے آدم کی نااُمید گناہ سے بھرپور اولاد کو زندگی بخشنے کے لیے قبر میں سے جی اُٹھا۔ جب آپ یسوع کے پاس آتے ہیں تو خُدا کے انصاف کو اطمینان ملتا ہے کیونکہ،
’’مسیح… یعنی راستباز نے ناراستوں کے گناہوں کے بدلہ میں ایک ہی بار دُکھ اُٹھایا تاکہ وہ تمہیں خدا تک پہنچائے‘‘ (1۔ پطرس 3:18).
یہ خود خُدا ہی تھا جس نے اپنے بیٹے کو دُکھ اُٹھانے اور ہماری جگہ پر مرنے کے لیے بھیجا۔
’’خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا 53:10).
خُدا باپ اُس قربانی کو جو اُس نے خود مصلوب ہونے کے لیے بھیجی مسترد نہیں کر سکتا! گناہ کے لیے مکمل جرمانہ ادا کر دیا گیا تھا جب مرتا ہوا نجات دہندہ صلیب پر چلایا تھا ’’یہ تمام ہوا‘‘! یسوع نے اِس قدر اطمینان بخشا، ایسی ادائیگی کی، گناہ کے لیے ایسا متبادل بنا کہ اُس کو پھر کبھی بھی دوبارہ دُکھ اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ صلیب پر ہی ختم ہو گیا تھا۔ خُدا نے ’’اُس کی جان کو گناہ کی قربانی قرار دیا۔‘‘
اب میں آپ کو یسوع کے پاس آنے کے لیے بُلاتا ہوں۔ گنہگار، میں آپ سے التجا کرتا ہوں، یسوع کے پاس آئیں!
آپ کہتے ہیں، ’’میں ایک بہت بڑا گنہگار ہوں۔‘‘ ٹھیک ہے، بِلاشُبہ آپ ہیں! یہ ہی وجہ ہے کہ یسوع آیا اور صلیب پر دُکھ اُٹھائے – آپ جیسے ایک گنہگار کو بچانے کے لیے! اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ گناہ میں کس قدر دور نکل چکے ہیں، یسوع آپ کو چاہتا ہے! اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے اُس کو کتنے طویل عرصے سے ناکام کیا، اور اُس کو زبردستی خود سے دور کیا، وہ آج کی رات آپ کو دوبارہ بُلاتا ہے۔ خود کو مسیح کی بانہوں میں جھونک دیں، اور آپ بچا لیے جاتے ہیں! دعا مانگیں کہ آج کی رات یہاں پر گنہگار اُس پر توجہ دیں گے جس کی منادی کی جا چکی ہے، یسوع کی بانہوں میں گریں گے اور بچا لیے جائیں گے۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: اشعیا53:3۔11.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’ہائے، کیسا ایک چشمہ! Oh, What a Fountain!‘‘
(شاعر ڈٓاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1985۔1980)۔
لُبِ لُباب انصاف اور متبادل JUSTICE AND SUBSTITUTION ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قُربانی قرار دیتا ہے‘‘ (2۔تیموتاؤس3:1۔4؛ 1۔تیموتاؤس4:1۔2) I. پہلی بات، گناہ سزا کا مستحق ہوتا ہے، پیدائش6:5؛ قضاۃ21:25؛ II. دوسری بات، خُدا گنہگاروں کے لیے ایک متبادل کو مہیا کر چکا ہے، اشعیا53:6؛ |