Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

روح کا تباہ کُن کام

THE WITHERING WORK OF THE SPIRIT
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے .by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
14 مارچ، 2010، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, March 14, 2010

’’ایک آواز آئی کہ منادی کر اور میں نے کہا: میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں، اور اُن کی ساری رونق میدان کے پھولوں کی مانند ہے۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول جھڑ جاتے ہیں، لیکن ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے‘‘ (اشعیا 40:6۔8).

’’ایک آواز آئی کہ منادی کر۔‘‘ وہ کیا آواز تھی جو نبی کے ساتھ بولی تھی؟ وہ خُداوند کا منہ تھا،‘‘ آیت پانچ میں جس کی بات کی گئی۔ خُداوند کی آواز اشعیا کے ساتھ ہمکلام ہوئی اور کہا، ’’منادی کر۔‘‘ ڈاکٹر گِل نے اُس پر تبصرہ کیا، ’’یہ نبی کو خُداوند کی آواز تھی، یا یوں کہیں کہ کسی بھی اور ہر خوشخبری پھیلانے والے مذہبی شخص کو، جو اُنہیں منادی کرنے اور تبلیغ کرنے کے لیے حکم دے رہی ہے‘‘ (جان گِل، ڈی۔ڈی۔، John Gill, D.D.، چھ جلدوں میں پرانے عہد نامے کی تفسیر An Exposition of the Old Testament in Six Volumes، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد 5، صفحہ222)۔

پھر اشعیا نے کہا، ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ یہ وہ سوال ہے جو ایک منادی کرنے والے کے دماغ میں آتا ہے جب وہ ہر اتوار کے لیے اپنا دیا جانے والا واعظ تیار کرتا ہے – ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ ’’منادی‘‘ کے لیے عبرانی لفظ qârâ ہے۔ اِس میں ’’بُلانے کے لیے‘‘ ’’کسی ملنے والے ایک شخص سے بات کرنے [سامنا کرنے]‘‘ کا تصور اُمڈتا ہے، (سٹرانگ Strong # 7121 )۔ یہ وہی عبرانی لفظ ہے جو اشعیا58:1 میں استعمال ہوا ہے،

’’زور سے منادی کر ، بالکل نہ جھِجک۔ نرسنگے کی مانند اپنی آواز بلند کر میرے لوگوں پر اُن کی خطا اور یعقوب کے گھرانے پر اُن کے گناہ ظاہر کردے‘‘ (اشعیا 58:1).

خوشخبری دینے والے ہر مبلغ کو یوں ہی ایک مخصوص طریقۂ کار اور انداز کو اپنا کر اپنی منادی کرنے کے لیے حکم دیا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ، یہ وہ طریقۂ کار اور انداز نہیں ہے جو ہمارے وقتوں میں استعمال ہوتا تھا۔ لیکن یہ طریقۂ کار اور انداز اشعیا کا تھا، اور پرانے عہد نامے کے تمام انبیاء کا تھا۔ یہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا طریقۂ کار اور انداز تھا، جو مسیح کا عظیم پیشرو تھا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے بالکل انہی اِن آیات کا ماضی میں حوالہ دیا تھا جب اُس نے کہا، ’’میں بیابان میں پکارنے والے کی ایک آواز ہوں (یوحنا1:23)۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا خُداوند کا ترجمان تھا، اور یہ خُداوند تھا جو اِس طرح اُس کے ذریعےسے پکار رہا تھا، جیسے خداوند نے اشعیا نبی کے ذریعے سے کیا تھا، جب یوحنا نے حوالہ دیا،

’’[یُوحنا] نے کہا، میں بیابان میں پُکارنے والے کی آواز ہُوں... جیسا کہ اشعیا نبی نے کہا تھا‘‘ (یوحنا 1:23).

یوحنا1:23 میں یونانی لفظ میں ’’پکارنے‘‘ کا ترجمہ bǒaō ہے۔ اِس کا مطلب ’’متوجہ کرنے کے لیے پکارنا؛ [یعنی کہ] چیخنا ... زور سے پکارنا‘‘ (سٹرانگ Strong # 994)۔ اِس طرح، پکارنے کے لیے عبرانی کے لفظ سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہ ’’بُلند آواز میں پکارنے‘‘ کے لیے ہوتا ہے (اشعیا58:1)۔ اِس کا مطلب ہے کہ مبلغ کو خُداکے ترجمان کے طور پر بُلند آواز سے بولنا چاہیے۔ یونانی لفظ مذید اور بتاتا ہے، مبلغ کو زور سے پکارنے کے لیے بتا رہا ہے جیسے ایک پکارنے والا اِس دُنیا کے بیابان میں کھوئے ہوئے گنہگاروں کو ’’متوجہ کرنے کے لیے زور سے پکارتا ہے،‘‘ چیختا اور بُلند آواز سے منادی کرتا ہے‘‘!

بُلند آواز سے منادی کرنے کا وہ طریقۂ نبیوں نے استعمال کیا تھا، جنہوں نے خُدا کا پیغام زور زور سے چیخ کر دیا تھا، جیسا کہ اشعیا اور یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کیا تھا، اُن کے لیے ’’بُلند آواز سے پکارتے‘‘ تھے، ’’اپنے سُننے والوں سے بات کرنے [سامنا کرنے] کے لیے‘‘ اُس کلام کے ساتھ جو خُدا نے اُن کے دِلوں میں آشکارہ کیا تھا ۔ لیکن، جیسا کہ میں نے کہا، وہ ہمارے دِنوں میں منادی کرنے کا مشہور انداز نہیں تھا۔ اب یہاں منادی کے انداز اور اسُلوب میں بائبل کے لیے ایک بنیادی نافرمانی ہے، کیونکہ ہمیں انبیانہ طور پر بتایا گیا تھا،

’’کلام کی منادی کر… کیونکہ ایسا وقت آرہا ہے کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہیں کریں گے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق بہت سے اُستاد بنالیں گے تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا معلوم ہو‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:2۔3).

میں بائبل میں ایک انبیانہ آیت کا نہیں سوچ سکتا جو زیادہ تر جدید واعظوں کی بہتر طور پر تشریح کرتی ہوں۔ ہمارے دِنوں میں وہاں مسلسل ’’تعلیم دی جاتی‘‘ تھی، لیکن بہت کم ’’منادی‘‘ ہوتی تھی – آگ اور فوری ضرورت کے بغیر ’’تعلیم‘‘ – کیونکہ جدید واعظوں میں نمونے کے طور پر وہ ایک نہیں ہے جس نے اشعیا سے کہا، ’’زور سے منادی کر، بالکل مت جھجھک،‘‘ نہ ہی جدید واعظوں کا منبع خُداکی وہ آواز ہے جس نے اشعیا سے کہا، ’’منادی کر‘‘ نہ ہی یہ خُدا کی اُس آواز کی مانند ہے جو یسوع کے ذریعے یوحنا کے ساتویں باب میں بات کرتی ہے، جب خُداوند نے ’’پکار کر کہا ... ہیکل میں‘‘ (یوحنا7:28)؛ نہ ہی یہ اُسی باب میں مسیح کی مانند ہے، جب وہ ’’کھڑا ہوا اور پکار پکار کر کہنے لگا‘‘ (یوحنا7:37)۔ نہ ہی یہ پینتیکوست کے دِن پطرس کی منادی کا انداز ہے، جس نے اپنے سُننے والوں سے وہ الفاظ جو خُدا نے اُسے عطا کیے تھے زور زور سے چلا کر’’بات کی [سامنا کیا]‘‘، جیسا کہ ہمیں اعمال2:14 میں بتایا گیا ہے،

’’اِس پر پطرس باقی گیارہ رسولوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اپنی آواز بُلند کر کے لوگوں سے یوں گویا ہُوا…‘‘ (اعمال 2:14).

ڈاکٹر گِل نےکہا، ’’ ’اور اپنی آواز بُلند کرکے،‘ کہ اُس کی آواز تمام ہجوم کو سُنائی دی جائے ... اِس کے ساتھ ساتھ اپنی روح کا جوش اور جنون ظاہر کرنے کے لیے، اور اپنے ذہن کے حوصلے کی قوت ظاہر کرنے کے لیے؛ کیونکہ عالم بالا سے روح کے ساتھ بخشا گیا، وہ لوگوں سے بےخوف تھا‘‘ (جان گِل، ڈی۔ڈی۔، John Gill, D.D.، نئے عہد نامے کی ایک تفسیرAn Exposition of the New Testament ، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد II ، صفحات 153۔154؛ اعمال2:14 پر ایک غور طلب بات)۔ اِس لیے، مجھے دھرانا چاہیے، آج ہمارے بہت سے واعظ گاہوں میں خُدا کے لیے بنیادی نافرمانی ہے، منادی کے انداز اور انتہائی اسُلوب میں ایک ہولناک نافرمانی ہے!

ہمیں اِس بات پر غور کرنے کے لیے ناکام نہیں ہونا چاہیے کہ اِن جدید مقرر کردہ پادریوں (خصوصی طور پر امریکہ اور یورپ میں) نے اِس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ یہاں سُننے والوں کے لیے حقیقی، بائبل کی منادی میں خُدا کی ’’اُس آواز‘‘ کے پیغام کے ساتھ ’’زور زور سے پکارنے‘‘ اور ’’بات کرنے [سامنا کرنے]‘‘ کا ایک احساس ہے۔ ’’اُس آواز نے کہا، کلام کی منادی کر۔‘‘ یہ انجیل کی حقیقی خوشخبری کی منادی کرنے کا انداز ہے! اِس سے کم میں مردہ دِلوں اور اونگھتے ذہنوں کو تحریک دینے کے لیے خُدا کا استعمال نہیں کیا جا سکتا! اِس سے کم کچھ اور کر ہی نہیں سکتا! اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں مغربی دُنیا میں اِس قدر کم لوگوں کی حقیقی مسیح میں تبدیلیاں ہوتی ہیں! برائین ایچ ایڈورڈز نے کہا، حیات نو لانے کی منادی میں ایک قوت اور اختیار ہوتا ہے جو خُدا کے کلام کو ایک ہتھوڑے کی مانند دِل اور ضمیر پر مارتا ہے۔ بالکل یہی ہے جو آج ہماری زیادہ تر منادی میں موجود نہیں ہے۔ وہ لوگ جو حیات نو میں تبلیغ کرتے ہیں ہمیشہ بے خوف اور فوری عمل کرنے والے ہوتے ہیں‘‘ (برائین ایچ۔ ایڈورڈزBrian H. Edwards، حیات نو! لوگ جوخُدا کے ساتھ لبریز ہیں Revival! A Saturated with God، انجیلی بشارت کا اشاعت خانہ Evangelical Press، اشاعت 1997، صفحہ 103)۔

پھر اشعیا نے پوچھا، ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ جیسا کہ میں نے کہا، یہ مبلغ کا تذبذب ہے جب وہ اتوار کو دیے جانے والے واعظوں پر کام کرتا ہے: ’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ ایک نوجوان آدمی نے ایک سیمنری کے پروفیسر کو کہتے ہوئے سُنا کہ واعظوں کا ایک ششماہی منصوبہ پہلے سے ہی تیار کر کے رکھ لینا چاہیے۔ ایک آدمی کی اِس قسم کی حرکت کرنے کے تصور سے میں قطعی طور پر گھن کرتا ہوں! ایک آدمی جو ایسا کرتا ہے اُس کے پاس خُدا کے بخشے ہوئے حقیقی واعظ نہیں ہوتے ہیں! یہ ممکن ہی نہیں ہے! سپرجئین جو تمام بپتسمہ دینے والے مبلغین میں سے عظیم تر ہیں، اُنہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ وہ خُدا کے بھروسے پر انتظار کرتے تھے کہ اُن کو ہر ہفتے پیغامات ملیں۔ یوں، ایک مبلغ کو خُدا سے اپنے واعظوں کے لیے پوچھنا چاہیے، اور خُدا کا اُس کو دینے کے لیے انتظار کرنا چاہیے!

’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا

پیغام کیا ہے؟ وہ یہ ہے ’’جو میرے پاس ہے‘‘ [اعمال3:6]، اِس تک کے لیے محدود ہے۔ یہ ہے جو میں نے پایا ہے ... میں نے یہی پایا ہے، یہ میرے حوالے کیا گیا ہے۔ میں اپنے خود کے خیالات اور تصورات نہیں لاتا ہوں ... میں اُنہیں وہی پیش کرتا ہوں جو مجھے عطا کیا گیاہے۔ یہ مجھے دیا گیا ہے، اور میں یہ اُنہیں دے دیتا ہوں۔ میں ایک سواری ہوں، میں ایک ذریعہ ہوں، میں ایک آلہ ہوں، میں ایک نمائندہ ہوں (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ڈی۔ D. Martyn Lloyd-Jones, M.D.، مبلغ اور منادی Preaching and Preachers، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1971، صفحہ61)۔

میرے دیرینہ پادری، اُستاد اور گرو ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin (1911۔2009) نے کہا،

تمام پادرانہ ذمہ داریوں کے ساتھ، سب سے زیادہ مشکل اور سب سے زیادہ اہم کام یہ جاننا ہے، بغیر کسی شک کے، ہر خُداوند کے دِن اُس پیغام کی منادی کرنا جس کا خُدا نے اُس کے لیے اِرادہ کیا ہے (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، کلیسیا کے پروان کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992،صفحہ23)۔

یہ ہے جو یہاں ہمارے پاس اشعیا چالیس باب، چھٹی آیت میں ہے: ’’ایک آوازآئی کہ منادی کر اور میں نے کہا، میں کیا منادی کروں؟‘‘ یہ طریقہ ہے کہ ایک پادری کو واعظ موصول کرنے اور پیش کرنے چاہیے۔ تلاوت کو شاید تین اہم موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

I۔ اوّل، ہمیں زندگی کے اختصار پر پکار پکار کرمنادی کر۔

’’ایک آواز آئی کہ منادی کر اور میں نے کہا: میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں، اور اُن کی ساری رونق میدان کے پھولوں کی مانند ہے‘‘ (اشعیا 40:6).

تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں، اور اُن کی ساری رونق [تمام پیارا پن اور جلال] میدان کے پھول کی مانند ہے۔‘‘ یہ منادی کرنے کے لیے ایک اہم بات ہے! ہمیں آپ کو بتانا چاہیے کہ آپ گھاس کی مانند ہیں، یا اُن پھولوں کی مانند ہیں جو میدان میں موسم بہار میں بارش کے بعد کھل اُٹھتے ہیں۔ جلد ہی زندگی گزر جاتی ہے۔ کس قدر جلد یہ ہو جاتا ہے! یوں لگتا ہے جیسے آپ کی جوانی ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی، لیکن یہ اِس قدر جلدی سے گزر جاتی ہے۔ میں خود اپنی زندگی میں جھانکتا ہوں، ستر سالوں میں سے ایک سال کم، اور یہ یوں لگتا ہے جیسے سات مہینوں میں گزر گئی! اور ایسا ہی آپ کے ساتھ بھی ہوگا۔ گرمیوں کا سورج نکلے گا۔ گھاس بھوری ہوتی ہے۔ پھول مرجھاتے اور مر جاتے ہیں۔ زندگی عارضی، لمحاتی، غیرمستقل، مختصر اور جینے کے لیے چھوٹی ہے۔ یعقوب رسول نے کسی کی زندگی کی توجہ کے مرکز کو محض روزگار کی پیش قدمی اور مادہ اشیا کی ذخیرہ اندوزی کی بیوقوفی کو ظاہر کرنے کے لیے اشعیا میں اِس پیراگراف کی طرف اشارہ کیا۔

’’مگر دولتمند بھائی کو ادنیٰ مرتبہ پر، کیونکہ دولتمند جنگلی پھول کی طرح مُرجھا کر رہ جائے گا۔ جوں ہی سورج طلوع ہوتا ہے دھوپ تیز ہونے لگتی ہے اور وہ پودے کو سُکھا دیتی ہے۔ اُس کا پھول جھڑ جاتا ہے اور اُس کی خُوبصورتی جاتی رہتی ہے۔ اِسی طرح دولتمند کی زندگی بھی جاتی رہے گی اور اُس کا کاروبار دھرا رہ جائے گا‘‘ (یعقوب 1:10۔11).

بہت کم لوگوں میں کبھی یہ بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اِس دُنیا میں ترقی کو گرفت میں کرنے اور پکڑنے کے لیے لگے رہتے ہیں، اِس بات کو جانے بغیر جو ایک واضح حقیقت کی مانند لگتی ہے – یہ آپ کی سوچ سے بھی پہلے ختم ہو جائے گی! سی۔ ٹی۔ سٹد C. T. Studd (1860۔1931) اپنے دور کے چند امیر لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے یہ دیکھ لیا تھا۔ اُنہیں وراثت میں بہت مال و دولت ملی تھی، لیکن اُنہوں نے یہ سب بانٹ دی اور ایک مشنری کے طور پر چلے گئے – پہلے چین کے لیے اور پھر افریقہ کے لیے۔ اور یہ سی۔ ٹی۔ سٹد تھے جنہوں نے کہا،

صرف ایک زندگی،
   یہ بھی جلد گزر جائے گی؛
صرف جو مسیح کے لیے کیا
   رہ جائے گا۔

میں کس قدر خواہش کرتا ہوں کہ ہر نوجوان شخص جو سی۔ ٹی۔ سٹد کے بارے میں پڑھے، اور اُس کی زندگی نقل کرنے کی کوشش کرے! اور آخر کیوں نہیں، جبکہ ’’تمام لوگ گھاس ہیں، اور اُن کی ساری رونق میدان کے پھولوں کی مانند ہے‘‘؟ ہائے، کاش صرف آپ ہی اُس کی سچائی کو دیکھ سکیں!

صرف ایک زندگی،
   یہ بھی جلد گزر جائے گی؛
صرف جو مسیح کے لیے کیا
   رہ جائے گا۔

جلد ہی آپ اِس زمین سے گزر جائیں گے اور آپ کی روح خُدا کے فیصلے کی عدالت میں کھڑی ہوگی۔ آپ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے کر جائیں گے ماسوائے اپنی روح کے۔ لیکن آپ کے پاس وہ بھی نہیں رہے گی اگر آپ مسیح میں تبدیل نہیں ہوتے ہیں! سادہ ترین ممکن الفاظ میں، یسوع نے کہا،

’’جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو، وہ خدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا 3:3).

یہ آپ کے لیے قطعی طور پر ضروری ہے کہ آپ کو نئے سرے سے پیدا ہونا ہے۔ ورنہ آپ اپنی یہی روح کھو بیٹھیں گے – تمام زمانوں کے لیے، اور تمام دائمیت کے لیے۔ ’’لیکن،‘‘ کوئی کہتا ہے، ’’یہاں بہت سے اہم کام ہیں جو مجھے ضرور کرنے چاہیے۔‘‘ جیسا کہ ایک لڑکی نے اِس کو لکھا، ’’زندگی بُلا رہی تھی۔‘‘ آپ کے لیے مجھے مسیح کے دو عظیم سوالوں کا ضرور حوالہ دینا چاہیے:

’’آدمی اگر ساری دنیا حاصل کرلے مگر اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے میں کیا دے گا؟‘‘ (مرقس 8:36۔37).

’’تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں، اور اُن کی ساری رونق میدان کے پھولوں کی مانند ہے‘‘ (اشعیا 40:6).

اِسی لیے ہمیں زور سے پکار اُٹھنا چاہیے اور زندگی کے اختصار پر مسلسل منادی کرنی چاہیے!

II۔ دوئم، ہمیں خُدا کی روح کے تباہ کُن کام پر پکار پکار کر منادی کرنی چاہیے۔

مہربانی سےآیت سات با آوازِ بُلند پڑھیں۔

’’ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا 40:7).

ڈاکٹر گِل نے کہا،

مسیح میں تبدیلی پر خُداوند کی روح انسان کی تمام رونق پرایک آندھی چلا دیتی ہے ... اور یہ لوگوں [کی] بھلائی کے مرجھانے کا سبب ہے؛ خُداوند کی روح [اُن پر] ثابت کرتی ہے کہ اُن کی پاکیزگی سچی پاکیزگی نہیں ہے؛ کہ اُن کی راستبازی صرف ظاہری ہے... لوگوں کے سامنے؛ اور اُن کا مذہب اور رونق محض ایک قسم [ہیں]؛ اور اُن کے نیک اعمال اُن کا انصاف کرنے کے لیے اور بچانے کے لیے اور [اُنہیں] جنت میں لانے کے لیے ناکافی ہیں؛ جس پر وہ مرجھا جاتے ہیں اور اپنی [خود] پرستی میں مر جاتے ہیں، وہ [جب مسیح میں تبدیل ہو جاتے ہیں] فرض کرتے ہیں مگر نقصان اور گوبر ہوتا ہے (گِل، ibid.، صفحہ 223)۔

یہ ہے جس کو سپرجیئن نے ’’روح کا تباہ کُن کام‘‘ کہا (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1971، جلد XVII، صفحات 373۔384)۔ جیسا کہ اُن سے پہلے ڈاکٹر گِل، سپرجیئن نےکہا کہ اشعیا40:7 پاک روح سے آپ کے مرجھانے کی بات کرتی ہے، تاکہ آپ کی روح خشک ہو جائے اور اپنی لاچارگی، گناہ اور نااُمیدی کو نجات دہندہ کے بغیر دیکھے۔

’’ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا 40:7).

سپرجیئن نے کہا،

ہوا کی مانند، خُدا کی روح کو آپ کی روحوں کے میدان پر سے گزرنا چاہیے، اور خوبصورتی کو ایک مرجھاتے ہوئے پھول کی مانند دکھانا [آپ کے لیے سبب] ہونا چاہیے۔ اُسے [آپ کو] گناہ کے بارے میں اِس قدر قائل کرنا چاہیے ... کہ [آپ کو] [اپنی] گناہ میں گری ہوئی فطرت کو دیکھنا چاہیے جو خود بدکاری ہے (سپرجیئن، ibid.، صفحہ375)۔

یہی پاک روح کا تباہ کُن کام ہے! یہ خُدا کی روح کا وہ کام ہے، جو آپ کی جھوٹی اُمیدوں کو پورا ہونے نہیں دیتا، جو آپ کو آپ کی اپنی فطرت کی بدکاری اور دھشت ناک مُردگی دکھاتا ہے، جو آپ کے ذہن سے تمام اُمید کو کملا دیتا ہے، جو آپ کو دکھاتا ہے کہ آپ کی واحد حقیقی اُمید مسیح میں پنہاں ہے، جو آپ کا خون بہانے والا متبادل ہے۔

جب پاک روح آپ کی جان کو ’’مرجھاتی‘‘ ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی کہلائی جانے والی ’’بھلائی‘‘ کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے غلیظ چیتھڑوں کے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ جو بھی تمام باتیں کر رہے ہیں محض منافقت ہے؛ کہ کوئی بھی ’’نیک‘‘ کام جو آپ کرتے ہیں پاک خُدا کی حضوری میں آپ کی بے گناہی کا ثبوت نہیں ہو سکتے ہیں؛ کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ اب تک کر چکے ہیں خُدا کی حضوری میں آپ کو قبولیت دے سکتا ہے؛ کہ آپ کا ایمان کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے بائبل کے الفاظ کے ساتھ آپ کے ذہنی معاہدے کے؛ کہ اِن میں سے کوئی بھی چیز آپ کو خُدا کی حضوری میں راستباز نہیں ٹھہرا سکتی؛ کہ وہ تمام جو آپ کر چکے ہیں، اور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خُدا کے غیض و غضب کے دِن، فیصلے کی آگ سے نہیں بچا سکتے ہیں!

یہ باتیں آپ پر واضح ہو جائیں گی جب آپ پاک روح کے تباہ کُن کام میں سے گزریں گے۔ ایک لڑکی نے کہا، ’’میں نے خود سے اِس قدر کراہت محسوس کی۔‘‘ اُس کے کچھ ہی دیر بعد وہ مسیح میں تبدیل ہو گئی تھی۔ ایک اور لڑکی نے کہا، ’’میں خود سے ناراض ہوں۔‘‘ وہ کہیں بھی نہ پہنچی۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan اور میں نے اُس کی مشاورت کی کہ اُسے ’’ناراض‘‘ ہونے سے زیادہ محسوس کرنا چاہیے۔ اُس لڑکی کی مانند جو مسیح میں تبدیل ہو گئی تھی، اُس کو بھی ’’کراہت‘‘ محسوس کرنی چاہیے۔ جب تک کہ وہ اندر گہرائی میں محسوس نہیں کہ وہ مکمل طور پر خود کے ساتھ کراہت محسوس کرتی ہے، اُسے کبھی بھی اُس مرجھا دینے والی اور اندرونی افراتفری کا تجربہ نہیں ہوگا جو کہ اُن میں بہت عام ہے جوسچ مچ مسیح میں تبدیل ہوتے ہیں۔

یہ لفظ ’’مرجھانا‘‘ انتہائی اہم ہے۔ آپ کو اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے جاننا چاہیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اِس بات کو سمجھ پائیں کہ آپ میں سے کچھ کے ساتھ رونما ہونے کے لیے کیا شروع ہونے جا رہا ہے۔ اشعیا 40:7 میں لفظ جس لفظ نے ’’مرجھانے‘‘ کا ترجمہ کیا عبرانی زبان سے آتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے، ’’شرمندہ ہونا... (پانی کی مانند) خشک ہونا یا (چراہ گاہ کی مانند) کملا جانا ... شرمندہ ہوں ... مذبذب ہوں... مرجھا جائیں‘‘ (سٹرانگ کی کانکورڈینس Strong’s Concordance # 3001# )۔

’’ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں‘‘ (اشعیا 40:7).

یہ آپ کے دِل میں ہونا چاہیے۔ خُدا کی پاک روح کو آپ کی جھوٹی اُمیدوں کو اُس اعتماد کو جو خود آپ میں موجود ہے مُرجھا دینا چاہیے۔ خُدا کی روح کو آپ کی خود اعتمادی کو سُکیڑ دینا چاہیے، جُھلسا دینا چاہیے، خُشک کر دینا چاہیے، جب تک کہ آپ کا دِل ایک مرتے ہوئے پھول کی مانند مُرجھا نہیں جاتا – جب تک آپ خود اپنی مسخ فطرت کی’’اضطرابیت میں مبتلا‘‘ نہیں ہوتے، دم بخود نہیں ہوتے، شرمسار اور ’’شرمندہ‘‘ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اُس لڑکی نے اپنے مسیح میں تبدیل ہونے سے بالکل پہلے کہا تھا، ’’میں نے خود کے ساتھ اِس قدر کراہت محسوس کی۔‘‘ یہی پاک روح کا تباہ کُن کام ہے، ناکہ وہ خود کے ساتھ ’’ناراض‘‘ تھی، بلکہ وہ خود کے ساتھ ’’کراہت‘‘ کرتی تھی۔ یہی ہے جو ایک حقیقی تبدیلی میں، سچی بیداری میں رونما ہوتا ہے۔

’’ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے...‘‘ (اشعیا 40:7).

آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray نے کہا

ضمیر کے ساتھ معاملات اوّل نمبر پر ہونے چاہیے، ’کہ ہر منہ بند ہو جائےاور ساری دُنیا خُدا کے سامنے سزا کی مستحق ٹھہرے‘ (رومیوں3:19)۔ اِس کی سچائی کے لیے، جے۔ ایچ۔ تھورنویل J. H. Thornwell کے فیصلے کی پیروی کرنی پڑتی ہے، ’منادی کرنے کا سب سے زیادہ کامیاب ترین طریقہ وہ ہے جس کا ہدف گناہ کے تحت جامع اور انتہائی شدید سزایابی میں لانا ہوتا ہے‘ (آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray، پرانی انجیلی بشارت: نئی بیداری کے لیے پرانی سچائیاں The Old Evangelicalism: Old Truths for a New Awakening، سچائی پر بھروسے کا عَلم The Banner of Truth Trust، 2005، صفحہ7)۔

’’میں کیا منادی کروں؟‘‘ میں کیا تبلیغ کروں؟ مجھے زندگی کے اختصار پر تبلیغ کرنی چاہیے۔ مجھے خُدا کی پاک روح کے تباہ کُن کام پر بات کرنی چاہیے۔ یہی ایک مبشر انجیل کا کام ہے!یہی ایک مبلغ کا کام ہے! لیکن یہاں پر ایک اور موضوع مذید ہے، جس کو میں صرف مختصراً چھو سکتا ہوں۔

III۔ سوئم، ہمیں مسیح کی خوشخبری کی پکار پکار کر منادی کرنی چاہیے۔

کھڑے ہو جائیں اور اشعیا40:8 ہماری تلاوت کی آخری آیت کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔

’’ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول جھڑ جاتے ہیں، لیکن ہمارے خدا کا کلام ابدتک قائم ہے‘‘ (اشعیا 40:8).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

پطرس رسول نے اُس آیت میں سے حوالہ دیا۔ اُس نے کہا،

’’لیکن خدا کا کلام ابدتک قائم رہتا ہے۔ اور یہ وہی کلام ہے جس کی خُوشخبری تمہین سُنائی گئی تھیٰ‘‘ (1۔ پطرس 1:25).

وہ دائمی، ہمیشہ تک رہنے والا خُدا کا کلام، وہ الٰہیاتی متاثرکُن پاک کلام، مرجھاتے ہوئے گنہگار کوخوشخبری کے ذریعے اشارہ دیتا ہے – ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی طرف۔ یسوع آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا۔ وہ مرُدوں میں سے آپ کو زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا۔ اُس کا خون آپ کے ہر گناہ کو دھو سکتا ہے!

جب آپ اپنے آپ سے کراہت کرنے لگتے ہیں، تب ہمیں آپ کو نجات دہندہ کی جانب راغب کرنا چاہیے! تب شاید آپ مسیح میں تبدیل ہوئیں۔ تب شاید آپ اُس کے بازوؤں میں سما جائیں اور اپنے گناہ سے اُٹھ کر اُس [یسوع] میں آ جائیں۔ جب یہ رونما ہوتا ہے، یسوع آپ سے کہتا ہے،

’’میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دیتا ہُوں؛ وہ کبھی ہلاک نہ ہوں گی‘‘ (یوحنا 10:28).

یسوع کی طرف منہ موڑیں! آپ اُسی کے وسیلے سے تمام زمانوں اور تمام ابدیت کے لیے، بغیر خاتمے کی دُنیا کے لیے بچائے جاتے ہیں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے دُعّا ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ نے کی تھی: 1۔پطرس1:18۔25 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’آؤ، پاک روح، بہشتی فاختہCome, Holy Spirit, Heavenly Dove ‘‘ (شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748؛
بطرزِ ’’اے خُدا تو مجھ پر آشکارہ ہو جا O Set Ye Open Unto Me‘‘)۔

لُبِ لُباب

روح کا تباہ کُن کام

THE WITHERING WORK OF THE SPIRIT

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’ایک آواز آئی کہ منادی کر اور میں نے کہا: میں کیا منادی کروں؟ تمام لوگ گھاس کی مانند ہیں، اور اُن کی ساری رونق میدان کے پھولوں کی مانند ہے۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول کُملا جاتے ہیں، کیونکہ خداوند کی ہوا اُن پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں۔ گھاس مُرجھا جاتی ہے اور پھول جھڑ جاتے ہیں، لیکن ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے‘‘ (اشعیا 40:6۔8).

(اشعیا40:5؛ 58:1؛ یوحنا1:23؛ 2۔تیموتاؤس4:2۔3؛
یوحنا7:28، 37؛ اعمال2:14؛ 3:6)

I. اوّل، ہمیں زندگی کے اختصار پر پکار پکار کرمنادی کر، اشعیا40:6؛
یعقوب1:10۔11؛ یوحنا3:3؛ مرقس8:36۔37 .

II. دوئم، ہمیں خُدا کی پاک روح کے تباہ کُن کام پر پکار پکار کر منادی کرنی چاہیے،
اشعیا40:7؛ رومیوں3:19 .

III. سوئم، ہمیں مسیح کی خوشخبری کی پکار پکار کر منادی کرنی چاہیے، اشعیا40:8؛
1۔پطرس1:25؛ یوحنا10:28 .