Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


صرف دعا مانگنے اور روزہ رکھنے کے وسیلے سے

ONLY BY PRAYER AND FASTING
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 14 جون، 2009
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, June 14, 2009

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

سپرجیئن Spurgeon نے سوچا تھا کہ کم سنی کی آسیبیت کے اِس واقعے کی متی17 باب میں اور مرقس 9 باب میں اِس قدر اہمیت تھی کہ اُنہوں نے اِن حوالوں پر بار بار بارہا منادی کی۔ سپرجیئن نے متی 17 باب میں اِس حوالے پر تین واعظوں کو شائع کیا، اور مرقس9 باب میں حوالے پر 6 اور واعظوں کو شائع کیا۔ اِس کے باوجود میرے خیال میں اُن آیات پر دورِ حاضرہ کا کوئی واعظ تلاش کرنا دشوار ہوگا۔ کیونکہ سپرجیئن کی منادی کے آخری حصہ کے بعد سے دورِ حاضرہ کی تلاوتی تنقید نے بائبل میں سے اِن آیات کو حذف کر ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل میں متی17:21 پر مرکزی کالم میں غور طلب بات ’’i‘‘ میں کہا گیا ہے، ’’دو بہترین MMS۔ آیت 21 کو نکالا گیا۔‘‘ اور مرقس9:29 پر غور طلب بات ’’u‘‘ کہتی ہے، ’’دو بہترین MMS۔ ’اور روزہ رکھنا‘ کو مٹا دیا گیا۔‘‘

اب، میں اِس بارے میں تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ میں صرف اِتنا کہوں گا کہ وہ دونوں قدیم مسوّدے، جن میں سے اِن آیات کو حذف کیا گیا تھا، 19ویں صدی کے آخر میں دریافت ہوئے۔ اِس نے تقریبا ہر کسی کی رہنمائی ’’اور روزہ رکھنے‘‘ کے الفاظ کو تلفظ کرنے میں کی۔ اس کے بِالواسطہ نتیجے کے طور پر گنہگاروں کے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے روزہ رکھنے کی اہمیت کو بُھلایا جا چکا ہے۔ میں اِس سے تعلق رکھتے ہوئے بے شمار نکات کی جانب آپ کی توجہ مرکوز کرتا ہوں۔

I۔ پہلی بات، تلاوتی تنقید، جس نے اس تلاوت کو حذف کروایا، آخری ایام کی کلیسیاؤں کو کمزور کر چکی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ لوگ ہیں جو متفق نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت زیادہ علمی نور اُن باتوں پر نچھاور کیا جا چکا ہے جو پہلے معلوم نہیں تھیں۔ لیکن میرے سابقہ پادری صاحب ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے اتِفاق نہیں کیا۔ اُنہوں نے سامی لوگوں سے متعلق اور سامی زبان میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے باب جونز یونیورسٹی Bob Jones University کے گریجوایٹ سکول میں بائبلی عبرانی میں تعلیم دی تھی، اور تائیوان کے شہر، تیپی Taipei میں چینی ایونجیلیکل سیمنری کے صدر تھے۔ اِس کے باوجود ڈاکٹر لِن نے ہمیشہ کہا کہ جدید دور سے پہلے، پرانے تبصرے زیادہ قابلِ بھروسہ تھے۔ اُنہوں نے کہا حتّیٰ کہ دورِ حاضرہ کے قدامت پسند عالمین بھی عام طور پر بائبل کے روحانی معنوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں، جیتی جاگتی مسیحیت کے بجائے عِلمیت میں کھو جاتے ہیں۔ میں اُن کے ساتھ اِس سے زیادہ متفق نہیں ہو سکتا! ’’آخری ایام‘‘ میں مسیحیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، بائبل اُن کے بارے میں یوں بات کرتی ہے

’’وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:5).

پیشن گوئی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ

’’وہ سچائی کی طرف سے کان بند کر لیں گے اور کہانیوں کی طرف توجہ دینے لگیں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:4).

’’آخری ایام‘‘ کے جھوٹے مسیحیوں کو خُدا عدالتی فیصلہ سُنانے کے ذریعے سے سزا دے گا۔

’’اِس سبب سے خدا اُن پر گمراہی کا ایسا اثر ڈالے گا کہ وہ جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے لگیں گے‘‘ (2۔ تھسلنیکیوں 2:11).

’’آخری ایام‘‘ کے لودیکیہ کی مسیحیت سے تعلق رکھتے ہوئے، مسیح کہتا ہے،

’’میں تجھے اپنے مُنہ سے نکال پھینکنے کو ہُوں‘‘ (مکاشفہ 3:16).

لیکن اِس سے پہلے کہ وہ اُنہیں اپنے مُنہ سے نکال پھینکے، وہ ’’شدید تصوراتی دھوکہ نازل کرتا ہے کہ وہ ایک جھوٹ کو یقین کر لیں‘‘ (2 تسالونیکیوں2:11)۔ جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے کا ایک حصہ ’’اعلیٰ‘‘ اور ’’کمتر‘‘ تنقید میں عموماً قبول کیے جانے والا اعتقاد ہوتا ہے، جو ہماری تلاوت کو کلامِ پاک میں سے حذف کردیتا ہے۔

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

دوسرے جبکہ بھول چکے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم تلاوتوں کی کثیر تعداد میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ صرف دو اسکندریAlexandrian تلاوتوں میں یہ نہیں پائے جاتے۔ کیوں؟ اسکندریہ، گنوسٹک اِزم کے ذریعے سے محکومیت میں تھا، جس نے آسیبیت کو اور انسانی جسم کی اہمیت کو اصل سے کم بیان کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اِن دو گنوسٹک طور پر متاثرہ تلاوتوں نے اُن الفاظ ’’دعا اور روزہ‘‘ کو حذف کر دیا۔ اِن مسخ شُدہ تلاوتوں کا استعمال ’’آخری ایام‘‘ کی کلیسیاؤں کو کمزور کر چکا ہے۔ آخری ایام کے گنوسٹک ازم سے متاثرہ ’’بائبلوں‘‘ نے انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم میں قوت پانے کے عظیم ذرائع میں سے ایک کے تمام حوالوں کو مٹا ڈالا ہے – روزہ رکھنا اور دعا مانگنا۔

میں کہتا ہوں کہ اُس تلاوتی تنقید نے اپنی تمام قسموں میں مضبوط کرنے کے بجائے ہمارے زمانے میں کلیسیاؤں کو کمزور کیا ہے۔ کیا میں صحیح ہوں؟ تھوڑی سی مسیحی تاریخ پڑھیں۔ کیا مسیحیت تلاوتی تنقید سے پہلے مضبوط تھی یا یہ کمزور تھی؟ ٹھیک ہے، بیشک، کوئی بھی جس نے مسیحی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا ہے جانتا ہے کہ آج یہ انتہائی زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ لہٰذا میری پوزیشن ہے کہ دونوں اعلیٰ اور کمتر تلاوتی تنقیدیں مسیحیت کو کمزور کر چکی ہیں – اور بہتر طور سے کہا جائے تو مسیحیوں کو روحانیت سے ہٹا کر مغربی عقلیت پسندی کی مختلف اقسام کی جانب سے موڑ دیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چین میں کلیسیائیں مغربی کلیسیاؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ترین ہیں۔ وہ مغربی عقلیت پسندی سے اشتراکیت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی ایذا رسانیوں کی وجہ سے محفوظ رہے ہیں۔ چین میں وہ اب بھی جانتے ہیں،

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

اِسی لیے چین میں اُن کے ہاں حیاتِ نو آ چکا ہے – جبکہ مغربی کلیسیائیں اراکین کو کھو دیتی ہیں اور ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ پہلی سوچ ہے جو میں ہماری تلاوت کے بارے میں سامنے لاؤں گا۔

II۔ دوسری بات، اس تلاوت کی اہمیت کو پہنچاننے کی کمی نے مغربی کلیسیاؤں کو خود اپنے بچوں کو انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے سے دور کیا ہوا ہے۔

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

صورتحال کیا تھی؟ کیوں مسیح نے یہ نصحیت اپنے شاگردوں کو دی تھی؟ ٹھیک، یہ واضح طور پر ہے کیونکہ وہ اُس نوجوان شخص کی مدد نہیں کر پائے تھے جس کو اُن کے پاس اُس کا باپ لایا تھا۔ شاگردوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی، لیکن وہ اِس نوجوان شخص کو نجات نہیں دلا پائے تھے۔ اُس کے باپ نے اِس بارے میں یسوع سے شکایت کی تھی۔

’’میں اُسے تیرے شاگردوں کے پاس لایا تھا لیکن وہ اُسے شفا نہ دے سکے‘‘ (متی 17:16).

آج مغربی کلیسیائیں اِسی قابلِ رحم حالت میں ہیں۔ میں خوفزدہ ہوں کہ بہت سی ایشیائی کلیسیائیں جو یہاں مغرب میں وقوع پزیر ہیں وہ بھی اِس ہی افسوسناک حالت میں ہیں۔ بارنا Barna کی رائے شماری ہمیں بتاتی ہے کہ امریکہ میں گرجا گھر اپنے نوجوان لوگوں میں سے 88 % سے زیادہ کو کھو دیتے ہیں۔ وہ بس خود اپنی کلیسیاؤں میں پروان چڑھے نوجوان لوگوں کی مسیحی نشوونما اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کو محسوس کرنے کے لیے نا اہل ہیں۔ جس کے نتیجے میں اُن کے نوجوان لوگوں میں سے تقریباً 90 % گرجا گھر کو چھوڑ دیتے ہیں اور دُنیا میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ وہ کبھی بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہی نہیں ہوئے ہوتے، جیسا کہ یوحنا رسول نے نشاندہی کی،

’’اگر یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے۔ اب جب کہ یہ لوگ ہم میں سے نکل گئے ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ دل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے‘‘ (1۔یوحنا2:19).

میں جان میک آرتھرJohn MacArthur کے ساتھ مسیح کے خون پر متفق نہیں ہوں، لیکن وہ سچے تھے جب اُنہوں نے کہا کہ،

وہ کلیسا ہی میں سے ابھرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں… سچی مسیحیت کا حتمی امتحان برداشت ہوتا ہے۔ کلیسیا سے… لوگوں کا چلے جانا اُن کے چہروں کو بے نقاب کرتا ہے (جان میک آرتھر، ڈی۔ ڈی۔ John MacArthur, D.D.، میکر آرتھر کا مطالعۂ بائبل The MacArthur Study Bible، ورڈ پبلیشنگ Word Publishing، 1997، صفحہ1967؛ 1یوحنا2:19 پر غور طلب بات)۔

مغربی گرجا گھر اپنے ’’گرجا گھروں میں پرورش پائے بچوں‘‘ کی چھوٹے بچے ہونے کی حیثیت سے ایک بے پرواہ ’’فیصلہ‘‘ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہیں، اور پھر جب وہ نوعمر بالغ ہو جاتے ہیں تو اُنہیں گرجا گھر میں لاتے رہنا جاری رکھنے کے لیے تقریباً ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں! لیکن اِس کے باوجود وہ اپنی کوششوں میں 88 % ناکام رہتے ہیں۔ اُن کی نام نہاد کہلانے والی ’’ترقی یافتہ‘‘ ترکیبیں کام نہیں آتیں، کیونکہ وہ انسان کے بنائے ہوئے خیالات ہوتے ہیں، جن کی بنیاد کلام پاک پر ہونے کے بجائے عقلیت پسندی پر ہوتی ہیں۔ وہ سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ: ’’گرجا گھر میں پروان چڑھے وہ بچے‘‘ شروع ہی سے مسیح میں ایمان لا کر کبھی تبدیل ہوئے ہی نہیں تھے! یوں، جب وہ ایسا کرنے کے لیے مالی طور پر اہل ہوتے ہیں تو گرجا گھر کو چھوڑنے کے ذریعے سے وہ گناہ کرتے ہیں۔ بائبل کہتی ہے،

’’جو گناہ کرتا رہتا ہے وہ اِبلیس کا ہے‘‘ (1۔ یوحنا 3:8).

وہ اب بھی ’’ابلیس کے‘‘ بچے ہوتے ہیں۔

’’تُم اپنے باپ یعنی اِبلیس کے ہو اور اپنے باپ کی آرزوؤں پر چلنا چاہتے ہو‘‘ (یوحنا 8:44).

’’گرجا گھر میں پرورش پائے اِن بچوں‘‘ کے لیے گرجا گھر کے مضبوط رُکن بننے کی واحد راہ شیطان سے چُھٹکارہ پانے میں ہے۔ وہ صرف مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے میں ایک نیا ذہن پا کر ہی آ سکتے ہیں!

’’اِس جہاں کے ہمشکل نہ بنو: بلکہ خدا کو موقع دو کہ وہ تمہاری عقل کو نیا بنا کر تمہیں سراسر بدل ڈالے‘‘ (رومیوں 12:2).

عقل کا ’’سراسر نیا ہو جانا‘‘ مسیح میں ایمان لانے کی حقیقی تبدیلی کے دوران رونما ہوتا ہے۔

’’اِس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

’’گرجا گھر میں پروان چڑھے بچوں‘‘ کی عقل کو ’’سراسر نیا ہونا‘‘ چاہیے، اور نئی مخلوق بننا چاہیے۔ یہ صرف مسیح میں ایمان لانے کی حقیقی تبدیلی میں رونما ہو سکتا ہے۔ یہ خُدا کو مافوق الفطرت عمل ہوتا ہے۔ وہ نیا جنم محض ’’مسیح کے لیے فیصلہ‘‘ کرنے کے ذریعے سے رونما نہیں ہو سکتا۔

III۔ تیسری بات، اس تلاوت کی اہمیت کا احساس کیا جانا چاہیے اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل کرنے کے لیے گرجا گھر میں نوجوان لوگوں کے لیے اِس کو دہرایا جانا چاہیے۔

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

سپرجیئن Spurgeon نے کہا،

اِس بات سے اُس کا مطلب کیا تھا؟ میں یقین کرتا ہوں کہ اِن میں اُس کا مطلب تھا… اِن معاملات میں دُنیا کی عام تبلیغ پنپ نہیں پائے گی، اور عام سی دعا کافی نہیں رہے گی۔ ایک غیر معمولی ایمان ہونا چاہیے، اور اِس کو پانے کے لیے دعا کا ایک غیرمعمولی درجہ ہونا چاہیے؛ اور اُس دعا کو دُرست مقام تک پہنچانے کے لیے، بے شمار معاملوں میں، روزے کا رکھا جانا بھی ضروری ہونا چاہیے (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’ایک مایوس کُن معاملہ – اسے کیسے نبھایا جائے A Desperate Case – How to Meet It،‘‘ میٹرو پولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگِرم پبلیکیشنز Pilgrim Publications، 1991، جلد دہم، صفحہ 35)۔

یعقوب رسول نے کہا،

’’راستباز کی دعا بڑی پُر اثر ہوتی ہے‘‘ (یعقوب 5:16).

سپرجیئن نے کہا،

دعا کا ایک غیرمعمولی درجہ ہونا چاہیے؛ اور اُس دعا کو دُرست مقام تک پہنچانے کے لیے، بے شمار معاملوں میں، روزے کا رکھا جانا بھی ضروری ہونا چاہیے (ibid.)۔

ایک معاملے میں، شاگرد شدید حیران ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا،

’’پھر کون نجات پا سکتا ہے؟‘‘ (مرقس 10:26).

یسوع نے اُن پر نظر ڈالی اور جواب دیا،

’’یہ اِنسانوں کے لیے تو ناممکن ہے، لیکن خدا کے لیے نہیں: کیونکہ خدا سے سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘ (مرقس 10:27).

لہٰذا، جب ہم روزہ رکھتے اور دعا مانگتے ہیں، تو ہم خُدا پر توکل رکھ رہے ہوتے ہیں وہ کرنے کے لیے جو ہم خود نہیں کر سکتے۔ آئیے دعا مانگیں اور روزہ رکھیں، جیسے کہ ہم اہل ہیں، اُن لوگوں کے لیے جو گرجا گھر میں غیرنجات یافتہ ہیں۔ ہمیں اُن کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ گناہ کی حقیقی سزایابی کے تحت آئیں۔ ہمیں اُن کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ اپنے گناہ کو محسوس کریں۔ ہمیں اُن کے لیے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ توبہ کریں اور مصلوب ہوئے اور جی اُٹھے نجات دہندہ کے ساتھ حقیقی ملاقات کریں، اور اپنے گناہ سے اُس کے خون کے وسیلے سے دُھل کر پاک صاف ہو جائیں۔ آئیے روزہ رکھیں اور دعا مانگیں کہ وہ توبہ کریں اور اپنے دِلوں میں سچے طور پر کہیں،

خُداوند یسوع، تجھے دیکھتے ہوئے میں بے صبری سے انتظار کرتا ہوں،
   ابھی آ، اور مجھ میں ایک نئے دِل کی تخلیق کر دے؛
اُن کے لیے جنہوں نے تیری تلاش کی، تو نے کبھی بھی ’’نا‘‘ نہیں کہا،
   مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
برف سے زیادہ سفید، جی ہاں، برف سے زیادہ سفید؛
   مجھے ابھی دھو ڈال، اور میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں گا۔
(’’برف سے زیادہ سفید Whiter Than Snow‘‘ شاعر جیمس نکلسن
      James Nicholson، 1828۔1896)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت ڈاکٹرکرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: متی17:14۔21 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’پھر یسوع آتا ہےThen Jesus Came‘‘
( شاعر ہومر روڈیہور Homer Rodeheaver ، 1880۔1955)۔

لُبِ لُباب

صرف دعا مانگنے اور روزہ رکھنے کے وسیلے سے

ONLY BY PRAYER AND FASTING

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29).

I۔ پہلی بات، تلاوتی تنقید، جس نے اِ س تلاوت کو حذف کروایا، آخری ایام کی
کلیسیاؤں کو کمزور کر چکی ہے، تیموتاؤس3:5؛ 4:4؛ 3:1؛ 2
تسالونیکیوں2:11؛ مکاشفہ3:16 .

II۔ دوسری بات، اِس تلاوت کی اہمیت کو پہچاننے کی کمی نے مغربی کلیسیاؤں
کو خود اپنے بچوں کو انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے سے دور
کیا ہوا ہے، متی17:16؛ 1یوحنا2:19؛ 3:8؛ یوحنا8:44؛ رومیوں12:2؛
2 کرنتھیوں5:17 .

III۔ تیسری بات، اس تلاوت کی اہمیت کا احساس کیا جانا چاہیے اور مسیح میں ایمان
لا کر تبدیل کرنے کے لیے گرجا گھر میں نوجوان لوگوں کے لیے اِس کو
دہرایا جانا چاہیے، یعقوب5:16؛ مرقس10:26، 27 .