اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
حقیقی گناہ – محترم جناب جان ویزلی، ایم.اے. ORIGINAL SIN – ADAPTED FROM A SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ |
میں جان ویزلی کی بہت عزت کرتا ہوں۔ جارج وائٹ فیلڈ کے ساتھ ساتھ وہ بھی اٹھارویں صدی کے عظیم مبلغین میں سے ایک تھے۔ وہ اور جارج وائٹ فیلڈ خُدا کے ذریعے سے اپنی تبلیغ کے ساتھ دُنیا میں آگ لگانے کےلیے استعمال کیے گئے تھے۔ اِن لوگوں کی منادی کے دوران اِس قدر عظیم حیات نو ہوا تھا کہ ہم اب اِسے ’’پہلی عظیم بیداری‘‘ کہتے ہیں۔ تاریخ کے اِس شاندار دور کے دوران جو واقعات رونما ہوئے میں اُن سے متعلقہ تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ یہ کہہ دینا ہی کافی ہو گا کہ وائٹ فیلڈ اور ویزلی نے دُنیا کا رُخ بدل دیا تھا۔ وائٹ فیلڈ کیلوِن Calvin کے پیروکار تھے۔ ویزلی ایک آرمینئین Arminianتھے۔ اِس کے باوجود دونوں آدمیوں نے مسیح میں تبدیلی کے لیے تبلیغ کی، اور ہزاروں اُن کی منادی کے تحت نجات پا گئے تھے۔ جب وائٹ فیلڈ کا انتقال ہوا تو یہ پتہ چلا کہ اُن کی خواہش تھی کہ جان ویزلی اُن کے جنازے میں تبلیغ کریں، جو اُنہوں نے کی، اور اِس مبشرِ انجیل کی شدید تعریف کی۔
میں نے کبھی بھی مکمل اخلاقی زوال یا بدکاری سے تعلق رکھتے ہوئے اِس واعظ سے واضح کچھ نہیں پایا۔ اور اِس دور میں ہمارے منبروں پر اُس نظریے کو بار بار تاکیدی انداز میں دُہرانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، مجھے ڈر ہے کہ بہت سے مبلغین آج ویزلی کے لیے دروازے بند کریں گے اگر اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ یہ والا واعظ اُن کے گرجہ گھروں میں دیں گے۔ یہی اٹھارویں صدی میں انگلستان میں ہوا تھا۔ دوبارہ اور دوبارہ، ویزلی اپنے مراسلے میں درج کرتے ہیں، ’’مجھے وہاں مذید تبلیغ نہیں کرنی چاہیے‘‘ کیونکہ ایک کے بعد ایک پادری اُن کے یہ پیغام دینے کے لیے بہت خوفزدہ ہے۔ اور میں اُن پادریوں سے پوچھتا ہوں جو یہ واعظ انٹر نیٹ پر پڑھتے ہیں، ’’آپ کے گرجہ گھر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ویزلی اپنا واعظ وہاں دیں سکیں گے؟‘‘ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اِس قسم کے واعظ خود پینتیکوست یااصلاح کے زمانے سے لے کر عظیم حیات نو کو منور کرنے کے لیے خُدا کے ذریعے سے استعمال کیے گئے تھے!
میں اب آپ کو محترم جناب جان ویزلی، ایم۔اے۔ آکسفورڈ کا لکھا ہوا ’’حقیقی گناہ‘‘ اپنی جدید زبان کے ترجمے کے ساتھ پیش کرتا ہوں:
’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائیش 6:5).
نوع اِنسانی کا یہ بیان انسانی قدرت کے بُلند نظریے سے جو لوگوں نے تمام ادوار میں تھامے رکھا انتہائی مختلف ہے۔ بہت سے قدیم مصنفین نے نسلِ انسانی کی عظمت کی اچھی تفصیل پیش کی تھی۔ اُن میں سے کچھ نے انسان کے بارے میں بتایا کہ خود اُس میں خوشی اور اچھائی کی نیکی ہوتی ہے،یا کم از کم اُس کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ انسان خود اپنی قوت سے رہنے کے قابل ہے، اور کہ انسان خود خُدا سے صرف ذرا سا کمتر ہے۔
یہ کافرانہ فلسفی اکیلے نہیں تھے۔ بہت سے جو مسیحی مبلغین کہلاتے تھے اُنہوں نے شدت کے ساتھ انسان کی نیکیوں کے بارے میں بات کی ہے، جیسے کہ نوع انسانی معصوم اور کامل تھی۔ اِس قسم کے واعظ اِس صدی میں [اٹھارویں صدی میں] بہت عام ہو چکے تھے، اور غالباً دُنیا کی کسی حصے کے مقابلے میں خود ہمارے اپنے مُلک انگلستان میں زیادہ تھے۔ یہاں بہت سے مبلغین تھے جنہوں نے یہ ظاہر کرنے کی اپنی پوری کوشش کی جسے وہ ’’انسانی قدرت کا اچھا رُخ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر وہ درست ہیں، تو پھر انسان ابھی تک ’’فرشتوں کے مقابلےمیں تھوڑا کم ہے‘‘، یا شاید جیسا کہ الفاظ زیادہ لفظی طور پر ’’خُدا سے تھوڑے سے کم‘‘ ادا کیے گئے۔
کیا یہ کوئی حیرانگی ہو گی کہ اِن واعظوں کو انتہائی شدت کے ساتھ بہت سے لوگ قبول کرتے ہیں؟ کیونکہ جو آسانی سے یہ سوچنے کے لیے کہ وہ اچھا ہے قائل نہیں ہوتا ہے؟ اِس کے نتیجے میں، اِس قسم کے مصنفین اور مبلغین کو بہت بڑی تعداد میں پڑھا جاتا ہے، تعریف کی جاتی ہے اور سراہا جاتا ہے۔ بہت سوں نے انسان کے بارے میں اُن کی ’’مثبت سوچ‘‘ کے پیغام کا یقین کیا ہے، اور نوع انسانی کے بارے میں’’سوچنے کے اِمکان‘‘ کو بطورِ ’’مثبت‘‘ پیغام کے، کہ اب انسانی قدرت کے بارے میں کوئی بُری بات کہنا بہت زیادہ فیشن کے خلاف ہے کا یقین کیا ہے [ڈاکٹرہائیمرز کا خیال: مسٹرویزلی کے خیالات بِلاشُبہ ہمارے دور پر لاگو ہوتے ہیں!] انسان کو اب بہت کم کمزوریوں کےساتھ دیکھا جاتا ہے، لیکن عموماً معصوم، اور دانا، اور نیکیوں سے بھرا ہوا مانا جاتا ہے [جوئیل اُوسٹین اِسی طرح سے ہر اِتوار کو ٹیلی وژن پر تبلیغ کرتا ہے۔ اور بہت سے دوسرے بھی ایسا ہی کرتے ہیں]۔
لیکن، اِس دوران میں،ہم اپنی بائبلوں کے ساتھ کیا کریں؟ بائبل کبھی بھی اِس کے ساتھ متفق نہیں ہے! یہ واعظ اور کتابیں کلام پاک کے ساتھ مکمل طور پر قابلِ مفاہمت نہیں ہیں! یہ بائبل جو انسان کے بارے میں تعلیم دیتی ہے نہیں ہیں۔ کلامِ پاک کہتا ہے، ’’ایک انسان کی نافرمانی کی وجہ سے [تمام انسان] گنہگار [ٹھہرائے] گئے،‘‘ اور کہ ’’آدم میں تمام مر گئے،‘‘ روحانی طور پر مر گئے، زندگی کھو دی اور خُدا کا عکس کھو دیا؛ کہ گِرے ہوئے، گنہگار آدم نے پھر ’’اپنی مانند ایک بیٹے کا باپ بنا،‘‘ کیونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی اور شکل مٰیں ایک بیٹے کا باپ بن پاتا! کیونکہ ’’کون ناپاک چیز میں سے پاک چیز لا سکتا ہے؟‘‘ جس کے نتیجے میں، قدرتی طور پر تمام انسان اپنے ’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ ہیں، بغیر کسی اُمید کے، دُنیا میں خُدا کے بغیر،‘‘ اور اِس لیے ’’قہر کے بچے‘‘ ہیں، تاکہ ہر کوئی کہہ سکے، ’’میں بدکاری میں تشکیل ہوا، اور گناہ میں مجھے میری ماں نے کوکھ میں پالا۔‘‘ اِس لیے ہم تمام کہہ سکتے ہیں، ’’یہاں کوئی فرق نہیں ہے،‘‘ اُس میں ’’تمام نے گناہ کیا ہے اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں،‘‘ خُدا کے اُس جلالی عکس سے، جس میں انسان اصل میں تخلیق ہوا تھا۔ اِسی لیے جب ’’خُداوند نے آسمانوں سےنیچے انسانوں کے بچوں پر نظر ڈالی، اُس نے دیکھا کہ وہ سب راہ سے بھٹک گئے ہیں؛ وہ تمام کے تمام قابلِ نفرت ہو گئے تھے،کوئی بھی راستباز نہ تھا، نہیں، ایک بھی نہیں۔‘‘ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی سچے طور پر خود کو نہیں ڈھونڈ رہا تھا۔
اِسی لیے ہماری تلاوت کہتی ہے،
’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
یہ ہے جس طرح خُدا نسل انسانی کو دیکھتا ہے۔ اور میں تین باتیں بتاؤں گا: اول، سیلاب سے پہلے نسلِ انسانی کیسی تھی؛ دوئم، یہ پوچھنا کہ آیا وہ اب بھی ایسے ہی ہیں؛ اور سوئم، اپنے مشاہدات سے کچھ پوشیدہ معنوں اور سابقہ نتائج اور ثبوتوں کی بنیاد پر کچھ منطقی فیصلوں کا اضافہ کرناہے۔
I۔ اوّل، میں ظاہر کروں گا کہ سیلاب سے پہلے نسلِ انسانی کیسی تھی۔
خُدا نے نسلِ انسانی کے بارے میں جو کہا ہم اِس پر مکمل بھروسہ کر سکتے ہیں،
’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
خُدا نے دیکھا ’’زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘ یہ وہ یا یہ والا انسان نہیں تھا۔ یہ صرف چند ایک لوگ نہیں تھے۔ حتٰی کہ یہ زیادہ تر وہ نہیں تھے جو بدکار تھے۔ یہ عموماً نسلِ تھی۔ خُدا نے دیکھا کہ لوگ ہر جگہ پر بدکار تھے۔ ہر کوئی بدکار تھا! پیدائش 6:5 میں تمام نسلِ انسانی شامل ہے! وہاں پر وہ لاکھوں میں تھے – اور اُن میں سے تمام بدکار تھے! صرف نوح، لوگوں کے اُس عفیر ہجوم کے درمیان میں، صرف ’’نوح نے خُداوند کی نظر میں مقبولیت پائی‘‘ (پیدائش 6:8)۔ صرف نوح، اور پھر اُس کا خاندان، ہر جگہ موجود بدکاری سے مستثنٰی تھے، جس نے کچھ عرصے بعد ہر جگہ تباہی پھیلا دی تھی۔ وہی اکیلے فضل کے ذریعے سے بچائے گئے تھے۔ باقی تمام قصور وار پائے گئے اور اپنے گناہوں کے لیے سزایاب ہوئے تھے۔
اور ’’خُدا نے دیکھا... اُس کے [انسان کے] دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5 )۔ ’’اُس کے دِل کے خیالات... ’’اِس سےمذید زیادہ اہم الفاظ دھونڈنا ممکن نہیں ہے۔ اُن الفاظ میں ہر رغبت،ہر دیوانگی، ہر خواہش، ہر مقصد، ہر خیال شامل ہے۔ نسلِ انسانی کے بارے میں ہر بات ’’ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتی تھی۔‘‘
خُدا نے دیکھا کہ تمام نسلِ انسانی شیطانی تھی، خُدا کی قدرت کے خلاف۔ خُدا نے دیکھا کہ تمام نسلِ انسانی اُس کے خلاف تھی! تمام لوگوں کے دِل خُدا کے خلاف تھے!
لیکن کیا بُرائی کے ساتھ کچھ اچھائی شامل نہیں تھی؟ جی نہیں، بالکل بھی نہیں۔ تلاوت کہتی ہے، کہ نسلِ انسانی کا دِل ’’ہمیشہ صرف بدی کی طرف مائل تھا۔‘‘ ہم اِس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاک روح لوگوں کے ساتھ مزاحمت کر رہی تھی (حوالہ دیکھیے پیدائش 6:3)۔ 120 سالوں کےلیے، جب تک کشتی بنائی جاتی، پاک روح لوگوں کو توبہ کے لیے بلانے کی کوشش کرتی رہی۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے تمام اچھے خیالات جو خُدا کی روح اُن کے دِلوں میں ڈالتی تھی اُن کے خلاف مزاحمت کی۔ اُنہوں نے پاک روح کے کاموں کو مسترد کیا اپنی گنہگار حالت میں زندگی بسر کرتے رہے۔
لیکن، شاید ہم پوچھیں، ’’کیا اِس بدی کا کوئی وقفہ نہیں تھا؟ کیا کوئی ایسا وقت نہیں تھا جب کوئی اچھی بات کسی کے دِل میں پائی گئی ہو؟‘‘ جی نہیں، ہمارے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ کبھی ایسا وقت آیا کہ جب اُن کے دِل اچھے ہوئے۔ کیونکہ خُدا نے ’’ اُس کے[انسان کے] دِل کے خیالات ہمیشہ صرف بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5 )۔ ہر سال، ہر دِن، ہر گھنٹہ، ہر لمحہ۔ انسان کبھی اچھا نہیں تھا۔ اُس نے کبھی بھی بدکاری سے منہ نہیں موڑا۔
II۔ دوئم، میں پوچھوں گا کہ آیا اب بھی لوگ ایسے ہی ہیں۔
یہ یقینی ہے: کلامِ پاک ہمیں سوچنے کے لیے کوئی وجہ پیش نہیں کرتا کہ نسلِ انسانی کسی طرح بھی اب مختلف ہے۔ یہ ہزار سال گزرنے کے بعد تھا کہ خُدا نے داؤد کو بتایا، ’’وہ تمام کے تمام گمراہ ہوگئے، اور باہم نجس ہو گئے؛ اُن میں کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں‘‘ (زبور 14:3)۔ اور تمام انبیاء یہی بات کہتے ہیں، ایک نسل سے لیکر دوسری نسل تک۔ اشعیا نے کہا، ’’تمہارا پورا سر زخمی ہے، تمہارا سارا دِل مریض ہو چکا ہے۔ پاؤں کے تلوے سے لیکر سر کی چوٹی تک تمہارا کوئی حصہ بھی سالم نہیں ہے؛ صرف زخم اور چوٹیں، اور سڑے ہوئے گھاؤ ہیں‘‘ (اشعیا 1:5۔6)۔ نئے عہد نامے میں تمام رسولوں نے نسلِ انسانی کے اِسی نظریے کو پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر، پولوس رسول لکھتا ہے، ’’ہم تو پہلے ہی ثابت کرچُکے ہیں کہ یہودی اور غیر یہودی سب گناہ کے قابو میں ہیں؛ جیسا کہ کلامِ پاک میں لکھا ہوا ہے کہ، کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں 3:9۔10)۔ دونوں پرانے اور نئے عہد نامے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ آج انسان ایک غیرتبدیل شُدہ حالت میں اتنا ہے کھویا ہوا اور تباہ حال ہے جتنا وہ سیلاب سے پہلے کے دِنوں میں تھا۔ ’’کہ اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ صرف بدی کی طرف مائل رہتے [ہیں]‘‘ (پیدائش 6:5).
نسلِ انسانی کا یہ کمتر نظریہ روزانہ کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بغیر مسیح میں نجات پائے ہوئے لوگ اِسے اِس طرح سے نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ حیران کُن نہیں ہے۔ ایک آدمی جو پیدائشی اندھا ہے اندھا ہی رہتا ہے! وہ اپنے اندھے پن سے بیگانہ ہے کیونکہ وہ اندھا رہنے کا عادی بن چکا ہے۔ اِسی طرح سے، ایک شخص جو غیر تبدیل شُدہ ہے ہمیشہ سے روحانی اندھا ہوتا ہے، اور، اِسی لیے، اندھے پن کا عادی ہوتا ہے، اور اپنی کسی اور طرح سے ہونے کی ضرورت کو نہیں دیکھ پاتا ہے۔ لیکن جب خُدا ایک کھوئے ہوئے انسان کی روحانی آنکھیں کھولتا ہے، وہ قائل ہو جاتا ہے کہ ہر زندہ شخص خاص کر کہ وہ خود، جس میں آپ بھی شامل ہیں، جہالت، گناہ اور بدکاری سے بھرپور ہیں۔
جب خُدا آپ کی آنکھیں کھولتا ہے آپ دیکھ پائیں گے کہ آپ ’’دُنیا میں خُدا کے بغیر ‘‘ہو چکے ہیں (افسیوں 2:12)۔ اصلی یونانی میں، ’’دُنیا میں خُدا کے بغیر‘‘ کا لفظی مطلب ’’دُنیا میں دہریے‘‘ ہوتا ہے۔ خود اپنی قدرت سے، آپ کے پاس خُدا کی کوئی آگاہی نہیں ہے، اُس کے ساتھ کوئی شناسائی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاید آپ یقین کرتے ہیں کہ خُدا وجود رکھتا ہے، لیکن خُدا کی موجودگی آپ کے مسیح میں نجات پانے سے پہلے آپ کےلیے محض صرف ایک نظریہ ہے – بالکل ایسے جیسے شاید آپ یقین کرتے ہیں کہ چین میں کیمونسٹ پارٹی کا چیئرمین ہے، حالانکہ آپ اُسے کبھی نہیں ملے ہیں [مسٹر ویزلی نے چین کے شہنشاہ کی بات کی تھی، جن میں سے سب سے آخری کو 1911 میں عہدے سے سُبکدوش کر دیا گیا]۔ لہٰذا، اِسی طرح، آپ جانتے ہیں کہ خُدا موجود ہے، لیکن آپ اُسے ذاتی طور پر نہیں جانتے ہیں۔ آپ مسیح میں نجات پائے بغیر خُدا کو ذاتی طور پر جان ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ بائبل ہمیں بتاتی ہے، ’’کوئی اور شخص بیٹے کو نہیں جانتا سوائے باپ کے؛ اور نہ ہی کوئی باپ کو جانتا ہے [سوائے] بیٹے کے یا پھر اُس شخص کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے‘‘ (متی 11:27)۔
ہم ایک قدیم بادشاہ کے بارے میں پڑھتے ہیں جو انسان کی قدرتی زبان جاننا چاہتا تھا۔ تجربے کے طور پر ، اُس نے دو بچوں کے لیے حکم دیا، کہ جیسے ہی وہ پیدا ہوں اُنہیں تن تنہا جگہ پر لے جایا جائے اور بغیر انسان کی آواز سُنائے اُس کی پرورش کی جائے۔ اُس کا نتیجہ کیا تھا؟ کیوں، جب وہ اپنی قید سے باہر لائے گئے، اُنہوں نے کوئی زبان نہ بولی؛ اُنہوں نے صرف آوازیں نکالیں، جیسے جانوروں کی ہوتی ہیں۔
اگر دو بچوں کو ایسے ہی کسی مذہب کی تعلیم کے بغیر پالا جائے تو نتیجہ بالکل یہی ہوگا۔ اُن کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوگا۔ اُن کے پاس جنگل سے جانور کے مقابلے میں خُدا کی کوئی آگاہی نہیں ہوگی۔ ایسا ہی قدرتی مذہب ہے، خُدا کی روح کے اثر سے جُدا!
اور خُدا کی کوئی آگاہی نہ رکھنے سے ہم خُدا کے لیے کوئی پیار نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ہم کسی ایسے کو پیار نہیں کر سکتے جسے ہم جانتے ہی نہیں۔ زیادہ تر لوگ خُدا سے پیار کرنے کی بات کرتے ہیں، اور شاید وہ سوچتے ہیں کہ وہ واقعی اُسے پیار کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت مسترد کرنے کےلیے انتہائی واضح ہے: کوئی بھی خُدا کو قدرتی طور پر پیار نہیں کرتا ہے، اتنا ہی پیار نہیں کرتا جتنا کہ وہ ایک پتھر یا مٹی کو جس پر وہ چلتا ہے پیار نہیں کرتا ہے۔ جسے ہم پیار کرتے ہیں اُس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کے پاس بھی خُدا کی قدرتی لطف اندوزی نہیں ہے۔ مسیح میں نجات نہ پائی ہوئی حالت میں آپ تو یہاں تک کہ سمجھ بھی نہیں سکتے کہ کوئی کیسے خُدا سے لطف اندوز ہوتا ہوگا۔ آپ تو اُسے بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ آپ اُس کے بارے میں بالکل بھی سوچتے ہی نہیں ہیں۔ خُدا سے پیار کرنا! آپ کی نظر کی پہنچ سے بھی دور کی بات ہے۔ آپ خُدا سے پیار کرنے کی جگہ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔
اِس کے علاوہ، غیر تبدیل شُدہ لوگوں میں خُدا کا خوف نہیں ہوتا ہے۔ میں اقرار کروں گا کہ کچھ لوگ خلاف عقل،توہماتی خوف اُجاگر کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو تبدیلی کے ذریعے سے یا مثال سے سیکھا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر ’’خُدا ہمارے تمام خیالوں میں ہے ہی نہیں۔‘‘ مسیح میں نجات نہ پائے ہوئے لوگوں میں خُدا کا پیار ہونے کے مقابلے میں خُدا کا کوئی خوف ہے ہی نہیں۔ وہ زیادہ تر خُدا کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں۔ اور جب وہ اُس کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ بہت غیر واضح اور غیر حقیقی ہوتا ہے، اور اُن سے بہت دور ہوتا ہے۔
یوں کیا تمام لوگ سچے طور پر ’’دُنیا میں دہریے‘‘ ہیں، دُنیا میں خُدا کے بغیر۔ مسیح میں نجات نہ پائی ہوئی حالت میں، ہر کوئی بے دین ہے۔قدرتاً آپ ایک بُت پرست ہیں۔ آپ خُدا کے بجائے اپنی پرستش کرتے ہیں – کسی بھی کافر بُت پرست کی مانند۔
تمام تکبر بُت پرستی ہے۔ یہ خُدا کے مقابلے میں خود اپنی ذات کے بارے میں زیادہ سوچنا ہے۔ اپنے تکبر کی وجہ سے آپ کہتے ہیں، ’’وہ ایسا نہیں ہے جیسے میں سوچتا ہوں۔ یہ ایسا نہیں ہے جیسا میں یقین کرتا ہوں۔‘‘ یہ کیا ہے؟ یہ تکبر ہے۔
لیکن تکبر ہی بُت پرستی کی واحد قسم نہیں ہے جس کے آپ قصور وار ہیں۔ لوسیفر کی مانند، آپ کہتے ہیں، ’’میں وہی کروں گا جو میں چاہتا ہوں۔‘‘ آپ وہ کرتے ہیں جس سے آپ کو خوشی ہوتی ہے۔ اگر کوئی آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ نے یقینی طور پر یہ کام کیا ہے، تو آپ کہتے ہیں، ’’کیونکہ میں اِسے کرنا چاہتا تھا۔‘‘ آپ کے پاس کوئی خیال ہے ہی نہیں کہ آپ کے کرنے کے لیے خُدا کیا چاہتا ہے! آپ کی خود کی مرضی اتنی ہی بُری ہے جتنی کہ لوسیفر کی مرضی۔
اِس کے بعد، آپ اِس دُنیا اور اِس میں موجود چیزوں سے پیار کرتے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ آپ کسی بکری سے بھی بہتر ہیں۔ جی نہیں، میرے خیال میں ایک بکری آپ سے بہتر ہے! جن غلیظ باتوں کے بارے میں آپ ہر گھنٹہ سوچتے ہیں وہ بتاتی ہیں کہ آپ کے خیالات تباہ ہیں۔ غلیظ چیزوں کے لیے آپ کی چاہت جاری رہتی ہے، اور ہر روز بڑھتی جاتی ہے۔ ’’ اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ صرف بدی کی طرف مائل رہتے [ہیں]‘‘ (پیدائش 6:5).
اِس مُہلک بیماری کی تیسری نشانی ’’زندگی کا غرور‘‘ ہے، دوسرے انسانوں سے تعریف کروائے جانے اور ’’قبولیت‘‘ کی چاہت۔ یہاں تک کہ بہت سے مبلغین سوچتے ہیں کہ لوگوں کی منظوری حاصل کرنا درست ہے۔ یہ آپ کو حیرت زدہ کرتا ہے اگر اِن لوگوں نے کبھی مسیح یا رسولوں کے بارے میں سُنا ہو۔ یہ آپ کو حیرانگی میں مبتلا کردے گا اگر اُنہیں نے کبھی مسیح کا کلام پڑھا ہو، ’’تم کیسے ایمان لا سکتے ہو، تم ایک دوسرے سے عزت پانا چاہتے ہو اور جو عزت خُدائے واحد سے ملتی ہے اُسے حاصل کرنا نہیں چاہتے؟‘‘ (یوحنا 5:44)۔ اگر یہ سچ ہے، اگر یہ یقین کرنا ناممکن ہے اُس وقت تک جب تک کہ ہم ایک دوسرے سے عزت پانا چاہتے ہیں، اور اُس عزت کو جو خُدا سے ملتی ہے پانا نہیں چاہتے ہیں، تو پھر سوچیئے کہ باقی کی نسل انسانی کتنی ہولناک حالت میں ہے! ایک شخص جسے خُدا کیا سوچتا ہے کے مقابلے میں اِس بات کا زیادہ احساس ہے کہ کھوئے ہوئے دوست یا رشتہ دار کیا سوچتے ہیں، وہ خُدا کے مقابلے میں پھر لوگوں کی منظوری کی تلاش کرتا ہے۔ مسیح نے کہا، ’’تم کیسے ایمان لا سکتے ہو، تم ایک دوسرے سے عزت پانا چاہتے ہو اور جو عزت خُدائے واحد سے ملتی ہے اُسے حاصل کرنا نہیں چاہتے؟‘‘ چونکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ خُدا کے مقابلے میں دوسرے اُسے قبول کریں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ نسل انسانی کس قدر ہولناک حالت میں ہے۔
’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).
III۔ سوئم، جو کچھ کہا جا چُکا ہے اُس میں سے مَیں سابقہ نتائج اور ثبوتوں کی بنیاد پر کچھ منطقی فیصلے نکالوں گا۔
سب سے پہلے، ہم بائبل کی مسیحیت اور باقی تمام مذاہب کے درمیان بہت بڑے فرق کو دیکھتے ہیں۔ قدیم کافر فلسفیوں نے مخصوص گناہوں کے بارے میں بتایا،جیسا کہ حرص و طمع، ظلمت، عیاشی، یا فضول خرچی۔ کچھ نے تو یہاں تک کہنے کی جرأت کی کہ ’’کوئی انسان بھی ایک جنس یا دوسری کی اخلاقی بدکاری کے بغیر پیدا نہیں ہوا تھا‘‘۔ لیکن کسی نے بھی حقیقت کی سچائی کو نہیں دیکھا کہ تمام نسلِ انسانی مکمل طور پر مسخ شُدہ ہے، مکمل طور پر بدچلن ہے، اور تمام اقسام کی بدیوں سے بھری پڑی ہے۔ اِس لیے،سچی مسیحیت اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان سب سے بڑا فرق انسان کی مکمل تباہی اور بدچلنی ہے۔ بائبل کی مسیحیت کے لیے انسان کا پیدائشی بُری قدرت میں ہونا ایک بے نظیر سوچ ہے۔ صرف بائبل تعلیم دیتی ہے کہ ’’ اُس کے [انسان کے] دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں۔‘‘
دوئم، وہ تمام جو اصلی گناہ کو مسترد کرتے ہیں کھوئے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ ابھی تک کافر ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ نسل انسانی قدرتاً بُری ہے؟ کیا انسان مکمل طور پر گِرے ہوئے اور تباہ حال ہیں؟ یا تلاوت کی طرف واپس آتے ہوئے، کیا ’’اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘؟ اگر آپ متفق ہیں،تو آپ مسیحیت کے ساتھ متفق ہیں۔ اگر آپ اِس کا انکار کرتے ہیں، تو آپ ایک کھوئے ہوئے انسان ہیں۔ اگر آپ اِس تعلیم کو مسترد کرتے ہیں تو آپ مسیحی نہیں ہیں، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے آپ کچھ بھی کہیں، آپ ابھی بھی ایک کافر ہی ہیں۔
تیسری جگہ پر، ہم مکمل اخلاقی زوال (اصلی گناہ) سے سیکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کا سچا مذہب کُلی طور پر کس کے بارے میں ہے۔ یہ تھیراپیا سچزس therapeia psuches ہے، خُدا کا بشروں کو شفا دینے کا طریقہ، جو قدرتی گناہ کے ذریعے سے تباہ ہوا ہے۔ تھیراپیا سچزس therapeia psuches میں یسوع مسیح، بشروں کا عظیم طبیب اِس مُہلک بیماری کو شفا دینے کے لیے مرہم استعمال کرتا ہے، انسانی قدرت کو بحال کرنے کے لیے، جو اپنے تمام اعضا میں مکمل طور پر بدچلن ہے۔ مسیح ہماری دہریت کو ہمیں ایمان دینے کے ذریعے سے اپنی ذات کی آگاہی کےذریعے سے شفا دیتا ہے، جو ایک سچے خُدا کا الہٰی ثبوت ہے اور خُدا ہی کے کام ہیں۔ اِس سچائی کی بات کرتے ہوئے، یہ کہا گیا ہے، ’’مسیح نے مجھ سے پیار کیا اور میرے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔‘‘ کفارے اور دِل کی پستی سے تکبر کی مُہلک بیماری کو شفا ہوتی ہے۔ خود غرضی اپنے آپ کو مسیح کے حضور میں ایک منکسرانہ تشکر آمیز ی کے ساتھ تسلیم کرنے اور اُس کی مرضی کے لیے پیش کرنے سے شفا پاتی ہے۔ دُنیا کے پیار کے لیے، خُدا سے ایک نیا پیار خُود مختار علاج ہے۔ مسیح میں نجات پانا انسان کا کُلی ظاہر اور باطن خُدا کے موافق ہونے اور خُدا کے کلام کے لیے تبدیل کر دیتا ہے۔ مسیح کو صلیب پر کیوں مرنا پڑتا اگر انسان اخلاقی زوال اور مایوس کُن گناہ میں کھویا ہوا نا ہوتا؟ یوحنا 3:16 بے معنی ہوتی اگر انسان مایوس کُن حد تک تباہ نہ ہوا ہوتا۔ ہمیں مسیح کے خون کی ضرورت کیوں ہوتی اگر ہم اِس کے بغیر نااُمیدی کے ساتھ کھوئے ہوئے نہ ہوتے؟
اگر نسلِ انسانی گِری ہوئی اور تباہ حال نہ ہوتی، تو پھر مسیح کے خون کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ تو پھر انسانی دِل میں مسیح میں نجات پانے کے کام کی ضرورت ہی نہ ہوتی، ہمارے ذہنوں کو بدلنے اور دوبارہ نیا کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ کیونکہ ایک ظاہری مذہب کے لیے، خُدا کی روح کے باطنی کاموں کے بغیر بھی کافی ہوتا۔ ایک ظاہری مذہب اُن کے لیے کافی ہے جو انسان کی قدرت کے اخلاقی زوال سے انکاری ہیں۔ وہ درست ہیں اگر انسان پامال نہ ہوتا اور بدکاری سے بھرپور نہ ہوتا – اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ بیرونی زندگی کو پاک صاف کرنے کی ہے۔ آپ جس طرح سے رہتے ہیں اُس کی اصلاح کرنا ہی سب کچھ ہے جس کی ضرورت ہے اگر اُن کا نظریہ دُرست ہے۔ بے شک، جس طرح سے آپ ظاہری طور پر رہتے ہیں ایک بات ہے جس کی اصلاح کرنے کی آپ کو ضرورت ہے – اگر وہ دُرست ہیں اور آپ ایک مکمل نااُمید، پامال نہیں ہوئے ہیں۔
لیکن ہم نے یہ بائبل سے نہیں سیکھا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ خُدا انسان کا باطن دیکھتا ہے، اور اُس کی دونوں مسیح میں نجات پانے اور ہماری پامالی کی حالت کی، اور اِس سے کیسے سنبھلنا ہے کے بارے میں انتہائی مختلف رائے ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مسیحیت کے لیے سب سے بڑی وجہ مسیح میں نجات پانے کے ذریعے سے خُدا کے عکس میں دِل کو دوبارہ نیا کرناہے، اُس تمام راستبازی اور سچی پاکیزگی کے مکمل نقصان کو جو ہم اپنے پہلے والدین سے وراثت میں پاتے ہیں بحال کرنا اور صحت یاب کرنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسی کہلائی جانے والی مسیحیت جو دِل کو سچی تبدیلی میں دوبارہ نیا نہیں کرتی ہے ایک شخص کو جہنم سے بچانے میں ناکام رہتی ہے۔ تمام مذہب جو انسان کو نسلِ انسانی کے گناہ میں گرنے سے پہلے اُس کی اصلی حالت میں تبدیل ہونےسے محروم کرتے ہیں ایک لاچار مزاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، اور خُدا کی ہنسی اُڑانا ہیں۔
اوہ جھوٹ سے بھرے تمام اِساتذہ اور مبلغین سے خبردار ہوں، جو آپ کو ظاہری مذہب دیں گے، لیکن حقیقی تبدیلی نہیں دیں گے۔ ایسے مبلغین پر کوئی توجہ مت دیں، حالانکہ وہ آپ کے پاس جھوٹی تسلی کے الفاظ کے ساتھ آتے ہیں۔
اِن جھوٹے مبلغین کو سُننے کے بجائے، پرانے ایمان پر یقین رکھنا جاری رکھیں، ’’جو کبھی مقدسین کو عطا کیا گیا تھا‘‘ (یہودہ 3)، اور اب آپ کے دِلوں کو خُدا کی روح کے ذریعےسے دیا جاتا ہے۔
آپ گناہ میں پیدا ہوئے تھے: اِس لیے ’’آپ کو دوبارہ نئے سرے سے جنم لینا ہے‘‘ (یوحنا 3:7)۔ آپ کو خُدا سے، خُدا کے ذریعے سے اور خُدا کی طرف سے پیدا ہونا چاہیے۔ واحد خُدا ہی آپ کی گنہگار قدرت کو شفا بخش سکتا ہے اور آپ کو نئی زندگی دے سکتا ہے! آدم کے ذریعے سے سب مرتے ہیں۔ مسیح کے ذریعے سے آپ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، آپ، جو قصوروں اور گناہوں میں مُردہ تھے‘‘ – وہ دوبارہ زندہ کرے گا (افسیوں 2:1، توضیح کی گئی)۔ اُس نے پہلے ہی آپ کو یہ واعظ سُننے کے لیے کافی زندگی دے دی۔ اب ’’ایمان سے ایمان میں جائیں‘‘ جب تک کہ آپ کی تمام مُہلک بیماری مسیح کے ذریعے شفا نہیں پاتی ہے!
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ رومیوں 3:9۔19
.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’اِن ہاتھوں نے جو نہیں کیا Not What These Hands Have Done ‘‘
(شاعر حورے ٹئیس بونر Horatius Bonar، 1808۔ 1889)۔
لُبِ لُباب حقیقی گناہ – محترم جناب جان ویزلی، ایم.اے. ORIGINAL SIN – ADAPTED FROM A SERMON ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے ’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5). I. اوّل، سوچیے کہ سیلاب سے پہلے نسلِ انسانی کیسی تھی، پیدائش 6:5، 8، 3 . II. دوئم، سوچیے کہ آیا لوگ اب بھی ایسے ہی ہیں، III. سوئم، سابقہ نتائج اور ثبوتوں کی بنیاد پر کچھ منطقی نتائج جو اخذ کیے گئے اُن |