Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


دو حیرت انگیز پیشن گوئیاں

TWO INCREDIBLE PROPHECIES
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

خداوند کے دِن کی شام، 14 ستمبر، 2008 کو تبلیغ کیا گیا ایک واعظ
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Lord’s Day Evening, September 14, 2008
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

مُلحد کی مختصر حوالوں کی کتابThe Atheist's Handbook پہلی بار 1961 میں ماسکو کی اکیڈمی آف سائنس نے شائع کی تھی۔ اس کمیونسٹ کتاب کا بنیادی مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ ملحد کی مختصر حوالوں کی کتاب کہتی ہے، ’’متعدد بائبل کی پیشین گوئیاں صرف پیشین گوئی شدہ واقعات کے ہونے کے بعد کی گئی ہیں۔‘‘ عجیب بات ہے، بالکل وہی ہے جو مجھے 1970 کی دہائی کے اوائل میں ایک مغربی بپتسمہ دینے والی آزاد خیال سیمنری میں پڑھایا گیا تھا۔ ہمیں وہی کچھ سکھایا گیا جو کمیونسٹوں نے مُلحد کی مختصر حوالوں کی کتاب The Atheist's Handbook میں پڑھایا تھا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ بائبل میں پیشین گوئیاں واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد شامل کی گئیں۔ لیکن آج رات ہم دو ناقابلِ یقین پیشین گوئیاں دیکھنے جا رہے ہیں جو یسوع مسیح نے ممکنہ طور پر ہونے سے پہلے کی تھیں۔

I۔ پہلی بات، یہودیوں کا بکھرنا اور واپس لوٹنا، لوقا 21: 20۔24 .

مہربانی سے اپنی بائبل لوقا21: 20۔24 آیات کے لیے کھولیں۔ آئیے خداوند کے کلام کی تلاوت کے لیے کھڑے ہو جائیں۔

’’اور جب یروشلم کو فوجوں کے محاصرے میں دیکھو تو سمجھ لینا اُس کی ویرانی کے دِن قریب آ گئے ہیں۔ اُس وقت جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑ پر بھاگ جائیں گے اور جو یروشلم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں وہ شہر میں داخل نہ ہوں۔ کیوںکہ یہ انتقام کے دِن ہونگے جن میں وہ سب کچھ جو پہلے سے لکھا جا چکا ہے پورا ہو گا۔ اُن عورتوں پر افسوس جو اُن دِنوں حاملہ ہوں اور جو بچوں کو دودھ پلاتی ہوں کیونکہ زمین پر بڑی مصیبت برپا ہو گی اور اِس قوم پر بڑا غضب نازل ہوگا۔ اور وہ تلوار کا لقمہ ہو جائیں گے اور اسیر ہو کر تمام قوموں میں پہنچائے جائیں گے اور غیر قوموں کی معیاد کے پورے ہونے تک یروشلیم غیرقوموں سے پامال ہوتا رہے گا‘‘ (لوقا21: 20۔24)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

اب میں چاہتا ہوں کا کلام مقدس کے اِس حوالے میں سے آپ تین باتوں پر توجہ دیں۔ پہلی بات، مسیح نے اُس بات کی پیش گوئی کی تھی جو مستقبل میں فوری رونما ہو گا۔ اُس نے کہا،

’’تم یروشلیم کو فوجوں کے محاصرے میں دیکھو گے‘‘ (لوقا21: 20-)۔

یہ مستقبل قریب میں ہوا۔ مسیح نے اس پیشین گوئی کے تقریباً چالیس سال بعد رومی جنرل ویسپاسیئن Vespasian نے اپنی فوج کے ساتھ یروشلم کو گھیر لیا۔ لیکن اسے شہنشاہ بننے کے لیے روم واپس بلایا گیا جب نیرو 68 عیسوی میں مر گیا۔ 70 عیسوی میں ویسپاسیئن کا بیٹا ٹائٹس دو سال بعد واپس آیا اور یروشلم کا تختہ الٹ دیا۔ ویسپاسیئن کے محاصرے اور ٹائٹس کے محاصرے کے درمیان کے دو سالوں میں جو مسیح کی وارننگ پر یقین رکھتے تھے [وہ لوگ] یروشلم سے بھاگ کر بیابانی شہر پیلاPella چلے گئے، جہاں وہ محفوظ رہے اور رومیوں کے ہاتھوں جلاوطن ہونے سے بچ گئے۔ لیکن بقیہ شہر کو 70 عیسوی میں ٹائٹس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا ’’تاریخ دان جوزیفس کے مطابق، رومیوں نے 100,000 سے زائد یہودیوں کو مصر میں لے جا کر انہیں دنیا کے تاجروں کو غلام بنا کر بیچ دیا‘‘ (ٹم لاہایے کی بائبل کی پیشن گوئی کا مطالعہThe Tim LaHaye Prophecy Study Bible, اے ایم جی پبلشرز، 2000، لوقا21: 24 پر غور طلب بات)۔

اب، لوقا21: 24 میں غور کرنے والی دوسری بات، یہ کہتی ہے،

’’اور وہ تلوار کا لقمہ ہو جائیں گے اور اسیر ہو کے تمام قوموں میں پہنچائے جائیں گے…‘‘ (لوقا21: 24)۔

ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،

یہودی تتر بتر ہو گئے تھے۔ ٹائٹس نے اُنہیں غلامی میں ڈال دیا تھا۔ اُنہوں نے روم میں عظیم کلوزیم کو تعمیر کیا تھا (جے ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز، 1983، جلد IV، صفحہ 342)۔

اس پیشینگوئی میں یہ دوسری بات ہے جس پر توجہ دی جائے، ’’وہ اسیر ہو کے تمام قوموں میں پہنچائے جائیں گے…‘‘ (لوقا21: 24)۔ یہ لفظی طور پر 70ویں عیسوی میں ہوا تھا کہ یہودی دنیا کی تمام اقوام میں بکھر گئے۔ ڈاکٹر کیگن کے دادا یوکرین سے آئے تھے۔ میلیسا سینڈرز کے آباؤ اجداد روس سے آئے تھے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ڈیوڈ سٹرن کے آباؤ اجداد جرمنی سے آئے تھے۔ یہودی افریقہ، عرب ممالک اور یہاں تک کہ چین، جاپان اور مشرق بعید کے دیگر ممالک میں بھی بکھر گئے۔ آج زمین پر تقریباً ہر قوم میں یہودی لوگ رہتے ہیں۔

لیکن مسیح کی پیشنگوئی کا ایک تیسرا حصہ بھی ہے۔ یہ آیت 24ویں کے آخر میں ہے،

’’…غیر قوموں کی معیاد کے پورا ہونے تک…‘‘ (لوقا21: 24)۔

مبصرین عام طور پر الفاظ ’’غیر قوموں کے زمانے‘‘ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، لیکن وہ اکثر اس پیشنگوئی کے زیادہ اہم پہلو کو نظر انداز کرتے ہیں، جو واقعی ناقابل یقین ہے – کہ یہودی مستقبل بعید میں یروشلم واپس آئیں گے، ’’غیر قوموں کی معیاد کے پورا ہونے‘‘ کے بعد (لوقا21: 24)۔ اس پیشنگوئی میں مسیح نے یہ واضح کیا کہ یہودی لوگ ’’تمام قوموں‘‘ میں بکھر جائیں گے جب تک کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔

14 مئی 1948 کو اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے مطابق ٹیلاویوTel Aviv شہر میں اسرائیل کی قوم کا اعلان کیا گیا۔

اسرائیل کی نئی ریاست کے قیام کے بعد [1948 میں]، تارکین وطن کی تعداد ہر ہفتے کئی ہزار کی شرح سے بڑھ گئی۔ حکومت نے ان تمام یہودیوں کی امیگریشن کی اجازت دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا جو اسرائیل آنا چاہتے ہیں (دی امریکن پیپلز انسائیکلوپیڈیا، دی اسپینسر پریس، 1954، جلد 11، صفحہ 409)۔

پادری رچرڈ ورمبرینڈ، جو خود یہودی تھے اور یسوع میں ایمان رکھتے تھے، اُنہوں نے لکھا،

یہودی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہوتے ہوئے بھی الگ رہے ہیں۔ جہاں کہیں بھی یہودی پایا جاتا ہے وہ یہودی ہے…یہودی یہودی ہی رہتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی توجہ مرکوز کرنے والی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالمی حکومت ہے۔ وہ واحد لوگ ہیں جو منفرد مصائب کے ذریعے تباہ نہیں ہوسکتے۔ مصری فرعونوں، اشوری بادشاہوں، رومی شہنشاہوں، صلیبی جنگیں لڑنے والوں نے، تفتیش کاروں اور نازیوں نے ان کے خلاف ترک وطن، جلاوطنی، اسیری، سرکاری ضبطگی، تشدد، لاکھوں کا قتل عام استعمال کیا ہے – لیکن یہودی باقی ہیں۔ خدا نے وعدہ کیا کہ وہ اسرائیل کے نکالے جانے والوں کو جمع کرے گا اور زمین کے چاروں کونوں سے یہوداہ کے منتشر لوگوں کو جمع کرے گا (رچرڈ ورمبرینڈ، ٹی ایچ۔ ڈی۔، مُلحد کی مختصر حوالوں کی کتاب کا جوابThe Answer to the Atheist's handbook، لِیونگ سیکریفائز بُک کمپنیLiving Sacrifice Book Company، 2002 ایڈیشن، صفحہ 137-138)۔

اور بالکل ایسا ہی ہوا ہے! کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ رومی سلطنت زوال پزیر ہو جائے گی، مگر یہودی واپس آ جائیں گے! کسی کو یہ توقع نہیں ہوگی کہ کیتھولک انکوزیشن کے اذیت دینے والوں کا عروج ہو گا اور زوال پزیر ہو جائیں گے، مگر یہودی واپس آ جائیں گے! کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ہٹلر یورپ کو فتح کر کے منظر سے غائب جائے گا، مگر یہودی واپس لوٹ جائیں گے! یقیناً، کسی نے اندازہ نہیں لگایا ہوگا کہ کمیونزم ایک تہائی دنیا کو فتح کر لے گی اور پھر ’’بناوٹی شیر‘‘ کی طرح زوال پزیر ہو کر بکھرنا شروع کر دے گی، مگر یہودی واپس لوٹ جائیں گے!

’’اور وہ تلوار کا لقمہ ہو جائیں گے اور اسیر ہو کر تمام قوموں میں پہنچائے جائیں گے اور غیر قوموں کی معیاد کے پورے ہونے تک یروشلیم غیرقوموں سے پامال ہوتا رہے گا‘‘(لوقا21: 24)۔

وہ پیشن گوئی بائبل میں ’’پیش گوئی شدہ واقعات کے ہونے کے بعد‘‘ شامل نہیں کی جا سکتی تھی جیسا کہ مُلحد کی مختصر حوالوں کی کتابThe Atheist's Handbook اور لبرل تھیولوجیکل پروفیسرز نے کہا۔ اسرائیل میں یہودیوں کی واپسی 1948 تک شروع نہیں ہوئی تھی، مسیح کی پیشن گوئی کے تقریباً 1,900 سال بعد تک!

II۔ دوسری بات، اِرتداد اور حیاتِ نو کا ایک ہی وقت میں وقوع پزیر ہونا، متی 24: 3، 11 – 12، 14 .

مہربانی سے متی24: 3 آیت کے لیے بائبل کھولیں۔ مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ کوہ زیتوں کی طرف گیا۔ وہ اُس کے ساتھ تنہائی میں تھے جب اُنہوں نے پوچھا،

’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی24: 3)۔

اُس نے اُنہیں ایک نشانی دینے کے بجائے، جو اُنہوں نے مانگا تھا، اُس نے اُنہیں بہت سی نشانیاں دیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ ان میں سے دو پیشن گوئیوں پر توجہ دیں جو موجودہ وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی تھیں، وہ پیشن گوئیاں جو ایک دوسرے سے متصادم معلوم ہوتی ہیں، جو بظاہر ایک تضاد ہے جس کی بہت سے پرانے مصنفین موافقت نہیں کر سکے۔

سب سے پہلے، مسیح نے کہا کہ اِرتداد اُس کے آنے اور دُنیا کے خاتمے کی علامت ہو گی۔ آیات 11 اور 12 پر غور کریں۔ براہ کرم کھڑے ہو کر متی 24: 11-12 کو بلند آواز سے پڑھیں۔

’’اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھے کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔ اور بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث بہت سے لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی24: 11۔12).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جیمز او کومبس Dr. James O. Combs ایک دانشمند آدمی ہیں اور بائبل کی پیشن گوئی کی اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ وہ لوزیانا بیپٹسٹ یونیورسٹی کے صدر ہیں، اور ٹِم لاہایے بائبل کی پیشن گوئی کا مطالعہ The Tim LaHaye Prophecy Study Bible کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔ جب ہمارے گرجا گھر کو 23 سال پہلے منظم کیا گیا تھا تو ڈاکٹر کومبس نے ہمارے گرجا گھر کا آئین لکھا اور پہلے اِجلاس میں بات کی تھی۔ میں نبوی صحیفوں کے بارے میں اُن کے علم کی قدر کرتا ہوں۔ متی24: 12 کے بارے میں، ڈاکٹر کومبس نے کہا،

زیتون کی گفتگو کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: (1) آخری ایام کی نشانیاں… (متی24: 4-14) (ٹم لاہایے کی بائبل کی پیشن گوئی کا مطالعہThe Tim LaHaye Prophecy Study Bible, اے ایم جی پبلشرز، 2000، صفحہ1039)۔

یہ بالکل درست ہے۔ متی 24 باب کی آیات 4 سے 14 تک مسیح کی آمد اور ان واقعات کی پیشن گوئی کی گئی ہے جو اس زمانے کے خاتمے کی طرف لے جائیں گے۔

جو کہ آیات 11 اور 12 کو یورپ اور امریکہ سمیت مغرب کی بڑی کلیسیاؤں میں آج کے ارتداد اور زندگی کی کمی کی پیشن گوئی کرنے کی انتہائی دلچسپ پوزیشن میں رکھتا ہے۔ میں یہاں مغرب میں مسیحیت کی اس سے بہتر وضاحت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ حالانکہ میں مسیح کی پیشن گوئی سے بہت غمگین ہوں، میں 1970 کی ابتدائی دہائی میں ساؤتھرن بپٹسٹ سیمنری میں پڑھائی کے دوران لبرل ازم کا مطالعہ کرنے اور گذشتہ پچاس سالوں میں گرجا گھر کی چار بہت بڑی بڑی تقسیموں میں بے شمار لوگوں کے مُرتد ہونے کا چشم دید گواہ ہونے کے ذریعے سے، ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ یہ بات سچی ہے۔ یسوع واضح طور پر ارتداد کی پیشن گوئی کر رہا ہے، نام نہاد مسیحی بائبل سے منہ موڑ رہے ہیں کیونکہ وہ ’’جھوٹے نبیوں‘‘ پر یقین رکھتے ہیں جو ’’بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیتے ہیں‘‘ (متی24: 11)۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سے زیادہ واضح کیا ہو سکتا ہے۔ مسیح اسے ایک بارہ سالہ لڑکے کے لیے کافی واضح کرتا ہے کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، ’’گرجا گھر خراب ہونے والے ہیں!‘‘ ’’گرجا گھر بائبل میں موجود بہت سی سچائیوں کو رد کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ یہ متی24: 11-12 میں بالکل واضح ہے۔

’’اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھے کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔ اور بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث بہت سے لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی24: 11۔12).

میں ڈاکٹر جیمز او کومبس Dr. James O. Combs کے ساتھ، اِس بات میں یقین کرتا ہوں، کہ یہ دو آیات بڑی حد تک اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ پچھلی کئی نسلوں کے دوران یورپ اور امریکہ کے گرجا گھروں میں کیا ہو چکا ہے۔ جھوٹے، غیر تبدیل شدہ مبلغین اور ماہرینِ الہٰیات نے گرجا گھروں میں گھناؤنی بدعتیں پھیلائی ہیں، جو مقدس صحیفوں کے ذریعے نہیں سکھائی گئی ہیں، خاص طور پر مسیح کی شخصیت کے بارے میں بدعتیں، صحیفوں کے مکمل اختیار کو مسترد کرنے والی بدعتیں، اور خاص طور پر ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر مسیح کے کفارہ سے متعلق بدعتیں، اور بہت سی دوسری بدعتوں کے لیے، جیسے کہ جھوٹی تعلیم (متی28: 19-20) جس کا عظیم کمیشن تمام مسیحیوں کو بشارت کا حکم نہیں دیتا۔ ڈاکٹر ہیرالڈ لنڈسل Dr. Harold Lindsell کی کتاب بعنوان، بائبل کی خاطر ایک جنگ The Battle for the Bible (زونڈروان، 1976) ایک اچھی کتاب ہے جو ان میں سے بہت سی آخر وقتوں کی بدعتوں کو بیان کرتی ہے۔

ماضی میں 1887 میں عظیم سپرجیئن نے دیکھ لیا تھا کہ یہ [پیشنگوئی] پوری ہونے جا رہی ہے، اور اس پر اپنے واعظ ’’بہت سے لوگوں کے لیے خون بہایا‘‘ میں بات کی۔ سپرجیئن نے کہا کہ صلیب پر مسیح کے گناہ کے کفارہ پر پہلے ہی 1887 میں حملہ کیا جا رہا تھا۔ اس نے کفارہ ترک کرنے والوں کے خلاف سخت سرزنش کی۔ سپرجیئن نے کہا،

میں کفارہ کی سچائی کے لئے کھڑا ہوں حالانکہ کلیسیا جدید بدعت کی مٹی کو اُبال ڈالنے والی بارشوں کے نیچے دب رہی ہے۔ (سی ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’بہت سے لوگوں کی لیے خون بہایا The Blood Shed for Many،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، 1974، جلد XXXIII، صفحہ 374)۔

کلیسیا کو جدید بدعت کی مٹی میں اُبال ڈالنے والی بارشوں کے نیچے دفن کیا جا رہا ہے۔‘‘ سپرجیئن نے 1887 میں یہی کہا تھا۔ یہ 25 سال بعد مسیحی بنیاد پرستی کے نام سے مشہور ہونے کی پہلی جنگ تھی۔ اور سپرجین ٹھیک کہہ رہے تھے۔ مذہبی آزاد خیالی کی تعلیم عروج پر تھی۔ عظیم بپتسمہ دینے والے اور پروٹسٹنٹ فرقے یقیناً بیسویں صدی میں ’’جدید بدعت کی مٹی میں اُبال ڈالنے والی بارشوں کے نیچے دب جائیں گے‘‘۔ سپرجیئن کے اس انتباہ کے تقریباً ایک سو سال بعد لیونارڈ ریوین ہل Leonard Ravenhillنے 1983 میں یہ ’’خوفناک اعدادوشمار‘‘ پیش کیے تھے۔

کیا یسوع ایک کنواری سے پیدا ہوا تھا؟
60% میتھوڈسٹ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
49% پریس بائی ٹیرئین نے کہا ’’نہیں۔‘‘
Episcopalians میں سے 44% نے کہا ’’نہیں۔‘‘

کیا یسوع خدا کا بیٹا تھا؟
82% میتھوڈسٹ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
81% پریس بائی ٹیرئین نے کہا ’’نہیں۔‘‘
Episcopalians میں سے 89٪ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
57% امریکی لوتھرین نے کہا ’’نہیں۔‘‘

کیا بائبل خدا کا الہامی کلام ہے؟
% میتھوڈسٹ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
81% پریس بائی ٹیرئین نے کہا ’’نہیں۔‘‘
Episcopalians میں سے 89٪ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
57% امریکی لوتھرین نے کہا ’’نہیں۔‘‘

کیا شیطان موجود ہے؟
82% میتھوڈسٹ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
81% پریس بائی ٹیرئین نے کہا ’’نہیں۔‘‘
Episcopalians میں سے 89٪ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
57% امریکی لوتھرین نے کہا ’’نہیں۔‘‘

کیا یسوع جسمانی طور پر مردوں میں سے جی اُٹھا؟
51% میتھوڈسٹ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
35% پریسبیٹیرین نے کہا ’’نہیں۔‘‘
Episcopalians میں سے 30٪ نے کہا ’’نہیں۔‘‘
تمام بپتسمہ دینے والوں میں سے 33% نے کہا ’’نہیں۔‘‘

(لیونارڈ ریوین ہل Leonard Ravenhill، حیات نو کا خدا کا راستہ: گرجا گھر کے لیے ایک پیغام Revival God’s Way: A Message for the Church ، بیت عنیاہ ہاؤس پبلشرز Bethany House Publishers ، 1983، صفحہ 145-146)۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 1887 کے ماضی میں سپرجیئن بالکل درست تھے، جب اُںہوں نے کہا، ’’کلیسیا جدید بدعت کی مٹی میں اُبال ڈالنے والی بارشوں کے نیچے دفن ہو رہی ہے۔‘‘

مذہبی لبرل ازم کے نتیجے میں، امریکہ اور یورپ میں پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹ گرجا گھر ختم ہونے لگے۔ اگریہ یوں لگتا ہے کہ میرا فیصلہ ضرورت سے زیادہ شدید ہے، تو درج ذیل اعدادوشمار پر غور کریں، جو بیک ٹو دی بائبل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ووڈرو کرول Dr. Woodrow Krollنے اپنی کتاب دی وینشنگ منسٹری The Vanishing Ministry میں دیے ہیں:

     بہت سے امریکی گرجا گھر صحت مند نہیں ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 80-85 فیصد امریکی گرجا گھروں کی نشوونما تھم گئی ہے [بڑھنا بند کر دیا ہے] یا کم ہو رہے ہیں۔
     امریکہ میں گرجا گھروں کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے۔ 1900 میں ہر 10,000 امریکیوں کے لیے 27 گرجا گھر تھے۔ 1985 میں یہ تعداد اتنی تیزی سے گر گئی تھی کہ اس کی اطلاع دینا تکلیف دہ ہے۔ اب ہر 10,000 امریکیوں کے لیے صرف 12 گرجا گھر ہیں۔ سابقہ تعداد کی نصف سے بھی کم…
     اس میں گرجا گھروں کی تعداد میں اضافہ کریں جو اب بند ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں 66,000 سے زیادہ بند گرجا گھر ہیں۔ مزید 62,000 اس وقت پادری کے بغیر ہیں۔ امریکہ میں ہر سال 3,500 اور 4,000 کے درمیان گرجا گھر اپنے دروازے بند کرتے ہیں۔
1900      میں، 66 فیصد امریکی آبادی کا تعلق بائبل کو ماننے والے، بشروں کو جیتنے والے گرجا گھروں سے تھا… پھر بھی یہ پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ 2000 تک امریکی آبادی کا صرف 33 فیصد ایسا ہو گا جو چرچ سے تعلق رکھتے ہوں گے [وہ صحیح تھا۔ اور زیادہ تر گرجا گھر جو اب بھی موجود ہیں بہت کم یا کسی بشر کو نہیں جیتتے، اور یہاں تک کہ قدامت پسند گرجا گھروں میں بھی بہت کم انجیلی بشارت کی تبلیغ ہوتی ہے، جو آج کل انجیل پر مرکوز ہو۔ ان میں سے اکثر ہر عبادت میں ’’مسیحیوں‘‘ کو سکھاتے ہیں۔ انجیل کی تبلیغ تیزی سے ماضی کی چیز بنتی جا رہی ہے!] (ووڈرو کرول، پی ایچ ڈی Woodrow Kroll, Ph.D.، دی وینشنگ منسٹری The Vanishing Ministry ، کریگل پبلیکیشنز Kregel Publications، 1991، صفحہ 31-33)۔

سپرجیئن کا انتباہ ایک ہولناک طریقے سے سچ ثابت ہوا ہے: ’’کلیسیا جدید بدعت کی مٹی میں اُبال ڈالنے والی بارشوں کے نیچے دفن کی جا رہی ہے۔‘‘ اس طرح، مسیح کی پیشن گوئی ہمارے زمانے میں لفظی طور پر پوری ہوئی ہے۔ شاگردوں نے اس سے پوچھا،

’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی24: 3)۔

مسیح نے اُنہیں بہت سی نشانیاں دیں، لیکن اُن میں سے ایک زمانے کے خاتمے پر گرجا گھروں میں اِرتداد کی قطعی پیشن گوئی تھی۔ اس نے کہا

’’اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھے کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔ اور بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث بہت سے لوگوں کی محبت ٹھنڈی [سرد] پڑ جائے گی‘‘ (متی24: 11۔12).

امریکہ اور یورپ میں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ کلیسیاؤں میں ارتداد کی مسیح کی پیشن گوئی لفظی طور پر پوری ہو چکی ہے؟ اور کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ بیسویں صدی میں مسیح کے اس پیشن گوئی کے تقریباً دو ہزار سال بعد ایسا ہولناک واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ اور پھر بھی یہ ہوا، بالکل جیسا کہ اس نے بیسویں صدی میں پیشن گوئی کی تھی۔

لیکن یہاں اسی باب میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز پیشن گوئی ہے۔ براہِ کرم کھڑے ہو جائیں اور متی24: 14 کو پڑھیں۔

’’اور بادشاہی کی خوشخبری ساری دُنیا میں سُنائی جائے گی تاکہ سب قومیں اِس کی گواہ ہوں اور تب خاتمہ ہوگا‘‘ (متی24: 14)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

کبھی کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ انجیل کی دنیا بھر میں یہ تبلیغ اسی وقت ہوگی جب ارتداد نے امریکہ اور یورپ کی کلیسیاؤں کو دِل سے چُبا لیا تھا؟ مسیح کے علاوہ کوئی بھی ایسی ناقابل یقین پیشن گوئی نہیں کر سکتا تھا! مسیح نے کہا کہ بالکل اسی وقت مسیحیوں کا مرکزی ادارہ (یہاں مغرب میں) جھوٹے اساتذہ کے ذریعے گمراہ کیا جا رہا تھا، اور اس کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا – بالکل انتہائی اسی وقت – انجیل کی منادی پوری دنیا میں تمام قوموں کے لیے گواہی کی خاطر کی جائے گی۔ اور پھر خاتمہ ہو گا‘‘ (متی24: 14)۔ صرف مسیح، الہٰی وحی کے ذریعے، ایسی ناقابل یقین پیشن گوئی دے سکتا تھا!

اور ابھی تک یہ ہمارے زمانے میں قطعی طور پر سچ ہوا ہے۔ صرف خُدا کے ہاتھ سے، امریکہ اور یورپ کے مسیحیوں کی مدد کے بغیر، چین کی کلیسیاؤں میں حیاتِ نو پُھوٹ پُھوٹ کے اُبل پڑی ہے، اسقدر کہ عوامی جمہوریہ چین میں بہت سی رپورٹیں بتاتی ہیں رات اور دن میں، ہر گھنٹے میں، اِک دِن میں 24،000 لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتے ہیں!

یہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی ہو رہا ہے، ویتنام اور کمبوڈیا میں ہمونگ لوگوں میں؛ انڈونیشیا کے کچھ حصوں میں، اور اس خطے کی دیگر سرزمینوں میں؛ ہندوستان میں اچھوتوں میں ہزاروں لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو رہے ہیں۔ اور یہی چیز افریقہ کے کئی حصوں میں ہو رہی ہے۔ اس کے بارے میں سوچو! یہ واقعی ایک معجزہ ہے! اور یہ متی24: 14 میں مسیح کی پیشنگوئی کی قطعی تکمیل ہے۔

’’اور بادشاہی کی خوشخبری ساری دُنیا میں سُنائی جائے گی تاکہ سب قومیں اِس کی گواہ ہوں اور تب خاتمہ ہوگا‘‘ (متی24: 14)۔

مسیح کے علاوہ کوئی بھی انجیل کی پوری دنیا میں تبلیغ کی پیشنگوئی نہیں کر سکتا تھا جس وقت امریکہ اور یورپ میں گرجا گھر مر رہے ہیں! لیکن آج کل یہی ہو رہا ہے! یہ پیشن گوئی بعد میں نہیں لکھی گئی اور بائبل میں بعد میں ڈالی گئی، جیسا کہ کمیونسٹ ملحد کی حوالوں کی کتاب Atheist’s Handbook نے کہا۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ پیشن گوئیاں صرف ہمارے زمانے میں پوری ہوئیں، اور انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں!

میرا فیصلہ یہ ہے: زمانے کے خاتمہ پر یہودیوں کے اسرائیل واپس آنے کے بارے میں یسوع درست تھا۔ یسوع درست تھا جب اس نے مغرب میں ارتداد کی پیشن گوئی کی تھی اسی وقت خدا تیسری دنیا کے ممالک کو معجزانہ حیات نو سے نچھاور کرے گا۔ لہٰذا آپ بائبل کی پیشن گوئیوں پر یقین کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کے عطا کردہ الفاظ ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں تاریخ کے آخر میں کیا ہو گا!

لیکن ایک دوسرا اِطلاق بھی ہے، اور وہ یہ ہے. ہمیں، اپنے گرجا گھر میں، اپنے لیے تیسری دنیا کے گرجا گھروں کو مثال کے طور پر لینا چاہیے، جو ظلم و ستم اور مشکلات کے باوجود اپنی قوموں کو بشارت دے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں امریکہ اور یورپ میں، جہاں گرجا گھر مر رہے ہیں، ہمیں تیسری دنیا کو اپنی روحانی مثال کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم یہاں لاس اینجلز میں ایک مضبوط کلیسیا کو بڑھانے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے، نہ کہ امریکی اور یورپی گرجا گھروں اور ان کے رہنماؤں کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے۔ ہمیں تیسری دنیا کے اکثر گرجا گھروں کی قیادت اور مثال کی ضرورت ہے، ورنہ لاس اینجلز میں ہمارا گرجا گھر ناکام ہو جائے گا۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ وہ تیسری دنیا میں دعا کرتے ہیں۔ ہمیں روزہ رکھنا چاہیے جیسا کہ وہ تیسری دنیا میں روزہ رکھتے ہیں۔ ہمیں خدا پر انحصار کرنا چاہئے، خود پر نہیں، جیسا کہ وہ تیسری دنیا میں خدا پر انحصار کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر، ہمیں گمراہ ہوئے لوگوں کو خوشخبری سنانی چاہیے اور انہیں اپنے گرجا گھر میں لانا چاہیے، جس طرح وہ گمراہ ہوئے لوگوں کو خوشخبری سناتے ہیں اور انھیں تیسری دنیا میں اپنے گرجا گھروں میں لاتے ہیں۔ اور یہ بالکل وہی ہے جو ہم لاس اینجلس کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! ہم اپنے تمام دلوں اور جانوں کے ساتھ اس قسم کے بشروں کو جیتنے والے بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم گمراہ ہوئے لوگوں کو بشارت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ گمراہ ہوئے لوگوں کو خوشخبری سناتے ہیں، اور ہم اپنی کوشش اور طاقت کو پورے دل سے انجیلی بشارت میں لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ کرتے ہیں۔ اور ہم اس عظیم مقصد کی تعمیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو مسیح نے ہمیں دیا تھا جیسا کہ وہ کرتے ہیں، اور امریکہ اور یورپ کے گرجا گھروں کی رسمیت اور مردہ پن کی طرف کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مسیح نے کہا،

’’اِس لیے تم جاؤ اور ساری قوموں کو شاگرد بناؤ، اور اُںہیں باپ، بیٹے اور پاک روح کے نام میں بپتسمہ دو، اور اُنہیں یہ تعلیم دو کہ اِن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے اور دیکھو! میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ آمین‘‘ (متی28: 19۔20)۔

خدا، ہمارے گرجا گھر کو اپنے عظیم مقصد کی اطاعت کرنے میں مدد کرے۔ خُدا، ہماری مدد کرے کہ ہم بشارت پرستی اور بشروں کو جیتنے میں اتنے ہی پرجوش رہیں جتنے ہمارے بھائی اور بہنیں تیسری دنیا میں ہیں، جہاں وہ حیات نو میں اپنی روح ڈال رہے ہیں۔ خدا، ہمیں ان کے تخیّل کو حاصل کرنے اور دنیا کے ہمارے حصے میں عظیم مقصد کی اطاعت کرنے میں مدد کرے، جیسا کہ وہ اپنے حصے میں کرتے ہیں۔ خُدا، اپنے بیٹے، خُداوند یسوع مسیح کے نام پر ہماری دعا قبول فرمائے۔ آمین

براہِ کرم کھڑے ہو کر مشنری دل رکھنے والے اُس عظیم پادری، ڈاکٹر اوسوالڈ جے سمتھ کا حمدوثنا کا گیت گائیں۔

ہمیں اُس وقت کے لیے ایک نعرہ پیش کر، ایک جوش بھرا لفظ، قوت کا ایک لفظ،
ایک جنگ کی پکار، ایک شعلہ فشاں سانس جو فتح کرنے یا موت کے لیے پکارتی ہو۔
کلیسیا کو آرام سے جگانے کے لیے ایک لفظ، مالک کی عظیم درخواست پر توجہ دینے کے لیے۔
پکار ڈل چکی ہے، اے میزبان، اُٹھ، ہمارا نعرہ ہے، خوشخبری کی منادی کرنا!

وہ خوش مبشر اب اعلان کرتا ہے، ساری زمین پر یسوع کے نام میں؛
یہ لفظ آسمانوں میں کھنک رہا ہے: خوشخبری کی منادی کرنا! خوشخبری کی منادی کرنا!
مرتے ہوئے لوگوں کے لیے، ایک برگشتہ نسل، خوشخبری کے تحفے کے فضل کو مشہور کرو؛
وہ دُنیا جو اب تاریکی میں پڑی ہے، خوشخبری کی منادی کرنا! خوشخبری کی منادی کرنا!
     (’’ خوشخبری کی منادی کرنا!Evangelize! خوشخبری کی منادی کرنا! Evangelize!‘‘ شاعر ڈاکٹر اُوسولڈ جے۔ سمتھ Dr. Oswald J. Smith، 1889۔1986؛
    بطرز ’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے؟ And Can It Be?‘‘ شاعر چارلس ویزلیCharles Wesley، 1707۔1788)۔

خدا ہماری مدد کرے کہ ہم اس بہت بڑے اور بدکار شہر میں گمراہ ہوئے نوجوانوں کو تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح ہمت اور استقامت کے ساتھ جوش سے انجیل کی بشارت دیں۔ وہ ہماری مدد کرے کہ گمراہ ہوئے لوگوں کو ہمارے گرجا گھر میں لایا جائے تاکہ انسان کے گناہ کی ادائیگی کے لیے مصلوب ہونے والے مسیح کی منادی سنیں۔ مُردوں میں سے اُس کے جلالی جسمانی طور پر جی اُٹھنے کی منادی سننے کے لیے؛ یہ سننے کے لیے کہ وہ واپس آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے اور کسی بھی گنہگار کو بچانے کے لیے تیار ہے جو اس کے پاس آتا ہے، اپنے قیمتی خون میں ان کے گناہوں کو دھونے کے لیے تیار ہے۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

دو حیرت انگیز پیشن گوئیاں

TWO INCREDIBLE PROPHECIES

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

I۔   پہلی بات، یہودیوں کا بکھرنا اور اُن کا واپس لوٹنا، لوقا21: 20۔24 .

II۔  دوسری بات، اِرتداد اور حیاتِ نو کا ایک ہی وقت میں وقوع پزیر ہونا،
متی24: 3، 11۔12، 14؛ 28: 19۔20 .