اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
مسیح کا جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھنا –
|
یہ واعظ ڈاکٹر آر۔ اے۔ ٹورے کے مشہور و معروف پیغام ’’یسوع مسیح کے جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی اہمیت اور یقین دھانی The Certainty and Importance of Bodily Resurrection of Jesus Christ from the Dead‘‘ پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر ٹورے کی جانب سے وہ پیغام اُن کے تسلسل کے ساتھ چھپنے والے کتابچے دی فنڈامینٹلز The Fundamentals (Testimony Publishing Company, n.d.) کی جلد 5 میں 3 نمبر پر ہے۔ یہ کتابچوں کا وہ سلسلہ تھا جس نے اصطلاح ’’بنیاد پرست Fundamentalist‘‘ کی تشہیر کی۔ ڈاکٹر ٹورے نے مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے تین ثبوت فراہم کیے۔ میں ڈاکٹر ٹورے کے دوسرے ثبوت کا مختصر اور ترمیم کیا ہوا حصّہ پیش کر رہا ہوں۔
یسوع مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا مسیحی عقیدے کا کونے کا پتھر ہے۔ یہ نئے عہد نامے میں ایک سو سے بھی زائد مرتبہ براہ راست بیان کیا گیا ہے۔ جب رسول یہوداہ کی جگہ پر ایک شخص کا چناؤ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے تو اُنہوں نے ایسا اِس لیے کیا تھا کہ وہ شخص ’’اُن کے ساتھ اُس یسوع کے جی اُٹھنے کا گواہ بنے‘‘ (اعمال1:22)۔ پینتیکوست کے روز پطرس رسول کے عظیم واعظ کا اہم موضوع مسیح کا جی اُٹھنا تھا۔ واعظ کا موضوع تھا، ’’اُسی یسوع کا خُدا نے زندہ کیا جس کے ہم سب گواہ ہیں‘‘ (اعمال2:32؛ حوالہ دیکھیں آیات 24۔31)۔ جب کئی دِنوں کے بعد رسول دوبارہ پاک روح سے معمور ہوئے، اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’رسول بڑی قدرت کے ساتھ خُداوند یسوع کی مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی گواہی دیتے تھے‘‘ (اعمال4:33)۔ پولوس رسول کا مرکزی فلسفہ یسوع کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا تھا (اعمال 17:18؛ اعمال 23:6؛ 1 کرنتھیوں15:15)۔ مسیح کا جی اُٹھنا انجیل کی دو بنیادی سچائیوں میں سے ایک ہے، دوسری اُس کی کفاراتی موت کا ہونا ہے۔ پولوس رسول نے اِن دونوں عقائد کو مسیحیت کی اہم ترین خوشخبری کے طور پر پیش کیا،
’’اِس کے علاوہ اب اَے بھائیو! میں تمہیں وہ خُوشخبری یاد دلانا چاہتا ہُوں جو میں پہلے تمہیں دے چُکا ہُوں، جسے تُم نے قبول کر لیا تھا اور جس پر تُم مضبوطی سے قائم ہو… کیونکہ ایک بڑی اہم بات جو مجھ تک پہنچی اور میں نے تمہیں سُنائی یہ ہے کہ کتابِ مُقدّس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قُربان ہُوا، دفن ہُوا اور کتابِ مقدّس کے مطابق تیسرے دِن زندہ ہوگیا‘‘ (1۔کرنھیوں 15:1،3۔4).
بنیادی پیغام یہ تھا: پہلی بات، کہ مسیح ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا؛ اور دوسری بات، کہ وہ مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھا تھا۔ مصلوبیت جی اُٹھنے کے بغیر اپنے معنی کھو دیتی ہے۔ جی اُٹھنے کے بغیر، مسیح کی موت صرف ایک پُروقار شہید کی عالیشان موت ہوگی۔ جی اُٹھنے کے ساتھ، یہ خُدا کے بیٹے کی کفاراتی موت ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اُس کی موت ہمیں گناہ سے بچانے کے لیے گراں قدر قیمت رکھتی تھی، کیونکہ یہ خُدا کے بیٹے کی قربانی تھی۔ یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کو مسترد کر دیں تو مسیحیت بے فائدہ اور بیکار ہے۔ پولوس رسول نے کہا،
’’اگر مسیح زندہ نہیں ہُوا تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے اور تُم ابھی تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو‘‘ (1۔ کرنتھیوں 15:17).
جیسا کہ متن واضح طور پر ظاہر کرتا ہے، رسول یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کے بارے میں بات کر رہا ہے۔
یہ ایک سچی جبلت تھی جس نے ایک ذھین ترین بے اعتقادے کو انگلستان میں یہ کہنے کے لیے مجبور کر دیا، کہ دوسرے معجزوں پر بحث کرنے میں وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اہم ترین سوال یہ ہے، کیا یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہوا تھا؟ اِس اگنوسٹک نے کہا، اگر وہ مُردوں میں سے زندہ ہوا تھا تو دوسرے معجزوں پر یقین کرنا کافی آسان ہوتا ہے؛ لیکن، اگر وہ مُردوں میں سے زندہ نہیں ہوا تو دوسرے معجزوں کو بھول جائیں۔
کیا مسیح کے جی اُٹھنے سے تعلق رکھنے والے چاروں اناجیل میں بیانات حقائق کے بیانات ہیں یا وہ محض افسانوی، مجازی قصے اور روایتی کہانیاں ہیں؟ میں ثبوتوں میں سے ایک پیش کروں گا کہ یسوع مسیح سے تعلق رکھتے ہوئے نئے عہد نامے میں چاروں اناجیل میں بیانات، تاریخی حقائق کے بالکل دُرست بیانات ہے۔
ہم قطعی طور پر کچھ بھی فرض نہیں کریں گے۔ ہم ایک حقیقت سے شروع کریں گے جس کو ہمیں ایک حقیقت کے طور پر ہی جاننا چاہیے۔ یعنی، کہ ہم ہمارے پاس چار اناجیل (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا ہیں)۔ ہمیں اِن چاروں اناجیل کو ساتھ ساتھ رکھنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم اِن میں سچائی کی نشانیاں یا افسانوی ہونے کے بارے میں پہچان کر سکتے ہیں۔
1. پہلی بات جو ہمیں کھٹکتی ہے جب ہم چاروں اناجیل کا موازنہ کرتے ہیں یہ ہے کہ وہ چار علیحدہ اور خودمختیار واقعات ہیں۔ اِن واقعات کو یا تو حقائق کے ریکارڈ ہونا چاہیے جو واقعی میں وقوع پزیر ہوئے تھے ورنہ افسانوی ہونا چاہیے۔ اگر وہ افسانوی ہیں تو اںہیں دو میں سے ایک کی طرح بنا ہوا ہونا چاہیے – یا تو ایک دوسرے سے بالکل آزادنہ یا ایک دوسرے کی ملی بھگت کے ساتھ۔ وہ آزادنہ طور پر بنائے ہی نہیں جا سکتے ہیں؛ اِن میں ہم آہنگیاں بے شمار ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ چار لوگ ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ بیٹھ جائیں اور کسی بات کا واقعہ لکھیں جو کبھی ہوا ہی نہیں تھا اور اِس کے باوجود بھی اُن کی کہانیاں اِس قدر مطابقت رکھتی ہوں جیسی کہ یہ رکھتی ہیں۔ یوں، یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے آزادنہ طور پر نہیں بنائے گئے تھے؛ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی ملی بھگت سے نہیں بنائے گئے تھے۔ لہٰذا، ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ بالکل بھی خود سے نہیں بنائے گئے، کہ وہ حقائق کے سچے ریکارڈ ہیں جو کہ واقعی میں وقوع پزیر ہوئے تھے۔
2. دوسری بات جس پر ہم غور کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ چاروں اناجیل میں سے ہر ایک حیرت انگیز اشارے دیتی ہے کہ وہ عینی شاہدین کی جانب سے پیش کی گئیں ہیں۔ ایک عینی شاہد کا واقعہ اُس واقعے سے مختلف ہوتا ہے جو محض وہی بتا رہا ہوتا ہے جو اُس کو دوسروں نے بتایا ہوتا ہے۔ وکلاء ایک عینی شاہد کی رپورٹ اور اُس شخص کی رپورٹ جو محض وہی دھرا رہا ہوتا ہے جو اُس نے سُنا ہوتا ہے کے درمیان فرق بتانا جلد ہی سیکھ جاتے ہیں۔ مسیح کے جی اُٹھنے کے چاروں اناجیل کے واقعات کا ایک محتاط طالب علم ایک عینی شاہد کی کئی نشانیوں کا سُراغ لگا لے گا۔ جب کئی سال پہلے میں ایک امریکی یونیورسٹی میں لیکچر دے رہا تھا تو میرا تعارف ایک شخص سے کروایا گیا جو ایک کافر تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا وہ کیا پڑھا رہا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ تاریخ میں پی ایچ۔ ڈی پر کام کر رہا ہے۔ میں نے کہا، ’’تب تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک عینی شاہد کا بیان کیا ہوا واقعہ کسی ایسے شخص سے مختلف ہوتا ہے جو محض وہی بتا رہا ہوتا ہے جو اُس نے دوسروں سے سُنا ہوتا ہے۔‘‘ اُس نے کہا، ’’جی میں مجھے معلوم ہے۔‘‘ تب میں نے پوچھا، ’’کیا تم نے مسیح کے جی اُٹھنے کے چاروں اناجیل کے واقعات کا احتیاط سے مطالعہ کیا ہے؟‘‘ اُس نے کہا، ’’میں کر چکا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا تم نے غور کیا کہ وہ عینی شاہدین کی جانب سے لکھے گئے تھے؟‘‘ اُس نے کہا، ’’جی ہاں، میں مسیح کے جی اُٹھنے کے واقعات کے مطالعے میں شدت سے متاثر ہوا ہوں۔‘‘ کوئی بھی جو احتیاط کے ساتھ اُنہیں پڑھتا ہے وہ بھی اِس حقیقت سے متاثر ہوتا ہے۔
3. مسیح کے جی اُٹھنے کے اِن اِنجیلی واقعات کے بارے میں جس تیسری بات پر ہم غور کرتے ہیں وہ اُن کا قدرتی پن اور سادگی ہے۔ وہ مافوق الفطرت واقعات کے بیانات ہیں، لیکن بیانات خود میں نہایت قدرتی ہے۔ یہ مصنوعی تاثر کی ایک شاندار غیرموجودگی ہے۔ وہاں ماسوائے سادگی سے بتائے گئے حقائق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جو جس طرح سے پیش آئے تھے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کو عدالت میں گواہوں کے کٹہرے سُن رہے ہوں جو اِس قدر واضح اور سادہ ہے کہ آپ خود ہی سے کہتے ہیں، ’’یہ شخص سچ بول رہا ہے۔‘‘ اِس قسم کے ثبوت کا وزن مذید اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب بے شمار عینی شاہد سب کے سب اہم حقائق کے بارے میں ایک ہی بات کہتے ہیں، مگر تفصیلات میں تنوع [طرح طرح کی باتوں] کے ساتھ۔، ایک وہ بات چھوڑ جاتا ہے جو دوسرا بتا دیتا ہے، اور تیسرا پہلے دونوں کے مابین واضح تضادات کو ہم آہنگی میں لاتا ہے۔ بالکل یہی ہے جو ہم یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کے بائبل کے واقعات میں پڑھتے ہیں۔ اگر ہم منصف اور ایماندار ہیں، اگر ہم تاریخی تنقیدنگاری کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور قانون کی عدالت میں ثبوتوں کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تو ہم کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ’’یہاں یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا سچا واقعہ ہے۔‘‘
4. اگلی بات جس پر ہم غور کرتے ہیں وہ الفاظ، جملوں اور حادثاتی تفصیلات کے بارے میں غیرارادی ثبوت ہیں۔
جب عدالت میں ایک عینی شاہد کٹہرے میں ہوتا ہے تو وہ الفاظ اور جملے جو وہ استعمال کرتا ہے اور جو حادثاتی تفصیلات وہ پیش کرتا ہے وہ اکثر اُس کی براہ راست گواہی کے مقابلے میں زیادہ قائل کر دینے والے ہوتے ہیں۔ انجیل کے واقعات میں اِس قسم کے ثبوت کی نہایت شدید موجودگی پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، اِس حقیقیت کو لے لیں کہ چاروں اناجیل میں یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد جب وہ پہلی مرتبہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا تو اُس کو پہچانا نہیں گیا تھا۔ اگر کہانیاں جھوٹی تھیں، تو یہ انتہائی مشتبہ ہے کہ اُنہیں اِس طرح سے بنایا گیا ہوگا۔ مصنف دیکھ چکا ہوگا کہ وہ جو اُس کے جی اُٹھنے پر یقین نہیں کرنا چاہتے تھے کہہ چکے ہونگے کہ یہ بات ظاہر کرتی تھی کہ یہ واقعی میں یسوع نہیں تھا جس کو اُنہوں نے دیکھا تھا۔ کیوں، پھر، کہانی اِس طرح سے بتائی گئی تھی؟ سادہ سی وجہ کے لیے کہ چاروں اناجیل کے مصنفین کہانی کو اپنی طرف سے نہیں بنا رہے تھے، بلکہ سادگی سے جو کچھ اصل میں رونما ہوا تھا اُس کا اندراج کر رہے تھے۔ یہ واضح طور پر ایک تصوراتی واقعہ نہیں ہے، بلکہ حقائق کا بالکل دُرست اندراج ہے جو واقعی میں وقوع پزیر ہوئے تھے جب یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔
ایک اور مثال کو لے لیجیے۔ چاروں اناجیل میں یسوع کبھی بھی کسی دشمن یا مخالف کے سامنے اپنے جی اُٹھنے کے بعد ظاہر نہیں ہوا تھا۔ اُس کے تمام کے تمام ظہور اُن پر تھے جو پہلے سے ہی ایمان رکھتے تھے۔ تھوڑا سا سوچنے پر ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں ایسا کیوں تھا۔ اگر کسی نے یہ کہانیاں بنائی تھیں تو یہ منطقی دیکھائی دے گا کہ وہ یسوع کو سردار کاہن، اور پیلاطُوس اور ہیرودیس کے سامنے ظاہر کرتے اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے اُنہیں متذبذب کرتے۔ مگر چاروں اناجیل میں اِس قسم کی کسی بھی بات کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ ہر ظہور اُنہی پر ہوا تھا جو پہلے سے ہی اُس کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ ایسا کیوں تھا؟ سادہ سی وجہ کے لیے کہ یوں ہی تھا جو اصل میں رونما ہوا تھا۔ چاروں اناجیل ہمیں سادگی سے وہی بتاتی ہیں جو رونما ہوا تھا۔
ایک اور مثال یہ حقیقت ہے کہ یسوع اُن پر صرف کبھی کبھار ظاہر ہوا تھا۔ وہ اُن پر ظاہر ہوتا اور پھر غائب ہو جاتا اور پھر شاید کئی دِنوں تک دوبارہ دکھائی نہ دیتا۔ ہم اِس کے لیے وجہ اخذ کر سکتے ہیں – وہ واضح طور پر اُنہیں اُس وقت کے لیے تیار کر رہا تھا جب وہ مذید اور اُن کے ساتھ نہیں ہوگا۔ تاہم، ہمیں چاروں اناجیل میں یہ بتایا نہیں گیا۔ ہمیں وجہ کو خود ہی دریافت کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ اِس وجہ سے اور بھی زیادہ اہم بات ہے۔ مجھے شک ہے کہ خود شاگردوں کو وجہ معلوم تھی۔ اگر وہ کوئی تاثر پیدا کرنے کے لیے کہانی بنا رہے تھے، تو اُنہوں نے کہا ہوتا کہ یسوع مسلسل اُن کے ساتھ ہر روز تھا۔ پھر کیوں کہانی کو اِس طرح سے بتایا گیا جیسے یہ اناجیل میں تھی؟ کیونکہ اِسی طرح سے یہ رونما ہوا تھا۔ اناجیل کے مصنفین نے جو کچھ ہوا محض اُسی کا اندراج کیا۔
ایک اور مثال یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد مریم کو اُن کی پہلی ملاقات پر یسوع کے الفاظ ہیں۔ اُس نے مریم سے کہا، ’’مجھے چُھو مت؛ کیونکہ میں ابھی اپنے باپ کے پاس اوپر نہیں گیا‘‘ (یوحنا20:17)۔ اُس کا کیا مطلب تھا یہ بات ہم پر چھوڑ دی گئی ہے۔ یہ سمجھائی نہیں گئی۔ کیوں یسوع کے یہ الفاظ اناجیل کے ریکارڈ میں بغیر کسی تشریح کے لکھے گئے؟ یقینی طور پر کوئی بھی جو کہانی بنا رہا ہوتا اِس قسم کی تھوڑی سی تفصیل وضاحت کے ایک بھی لفظ کے بغیر نہ لکھتا۔ کیوں، پھر، یہ الفاظ لکھے گئے؟ صرف اِس لیے کیونکہ یہ ہے جو یسوع نے مریم سے کہا تھا۔
اِ سکے علاوہ بھی ایک اور مثال یوحنا20:27۔29 میں دیکھ لیں،
’’پھر اُس نے توما سے کہا، اپنی اُنگلی لا اور میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ بڑھا اور میری پسلی کو چھو، شک مت کر بلکہ اعتقاد رکھ ۔ توما نے اُس سے کہا، اَے میرے خداوند! اَے میرے خدا! یسوع نے اُس سے کہا، تُو تو مجھے دیکھا کر مجھ پر ایمان لایا، مبارک وہ ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں پھر بھی ایمان لے آئے‘‘ (یوحنا 20:27۔29).
دو باتوں پر غور کریں – توما کا عمل اور یسوع کی جانب سے سرزش۔ توما رسولوں کے ساتھ نہیں رہتا رہا تھا جب یسوع پہلے اُن پر ظاہر ہوا تھا۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اِس مرتبہ توما نے یقینی بنایا کہ وہ وہیں پر تھا۔ حالانکہ وہ ایک شکی تھی، وہ ایک ایماندار شکی تھا اور سچائی جاننا چاہتا تھا۔ اچانک یسوع وہاں پر ہے۔ وہ توما سے کہتا ہے، ’’اپنی اُنگلی لا اور میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ بڑھا اور میری پسلی کو چھو، شک مت کر بلکہ اعتقاد رکھ۔‘‘ بالاآخر توما کی آنکھیں کُھل گئیں۔ اُس کا ایمان پھوٹ پڑا۔ وہ پُکار اُٹھا، ’’اے میرے خُداوند اے میرے خُدا!‘‘ پھر یسوع نرمی سے اُس کی سرزش کرتا ہے۔ کیا یہ من گھڑت ہے، یا کیا یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے؟ کیا یہ افسانہ ہے، یا یہ جو اصل میں ہوا اُس کا ریکارڈ ہے؟
ایک اور مثال کو لے لیجیے۔ یوحنا20:16 میں ہم پڑھتے ہیں،
’’یسوع نے اُس سے کہا، مریم! وہ اُس کی طرف مُڑی اور عِبرانی زبان میں بولی، ربّونی (جس کا مطلب ہے ’’اَے میرے اُستاد)!‘‘ (یوحنا 20:16).
یہاں پر کیسا قدرت کا ایک نازک احساس ہے! مریم قبر کے باہر غم سے بھرپور حالت میں کھڑی ہوئی ہے۔ اُس نے یسوع کو پہچانا نہیں ہے، حالانکہ اُس نے اُس سے بات کی تھی۔ اُس نے اُس کو مالی سمجھ لیا تھا۔ اُس نے کہا،
’’میاں، اگر تُو نے اُسے یہاں سے اُٹھایا ہے تو مجھے بتا کہ اُسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اُسے لے جاؤں‘‘ (یوحںا 20:15).
پھر یسوع صرف ایک لفظ ادا کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’مریم۔‘‘ جب وہ یسوع کو اُس کا نام لیتے ہوئے سُنتی ہے جو اِس طرح سے کہا گیا تھا جیسے پہلے کبھی بھی کسی نے نہیں کہا تھا، ایک ہی لمحے میں اُس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ وہ اُس کی طرف مُڑتی ہے اور کہتی ہے، ’’ربونی!‘‘ کیا یہ من گھڑت ہے؟ ناممکن! یہ زندگی ہے! یہ یسوع ہے، اور یہ وہ عورت ہے جس نے اُس سے محبت کی! جھوٹ بولنے والا کوئی بھی جعلساز اِس جیسا شاہکار پیدا نہیں کر سکا ہے۔ ہم یہاں پر حقیقت کے ساتھ، زندگی کے ساتھ، یسوع کے ساتھ اور مریم کے ساتھ جب اُنہوں نے اصل میں زندگی بسر کی تھی اور عید پاشکا کی اُس پہلی صبح جب وہ ایک دوسرے سے ہمکلام ہوئے آمنے سامنے بِلاشبہ کھڑے ہیں!
آئیے مجھے اِس جیسی دو اور مثالیں آپ کو پیش کر لینے دیجیے۔ یوحنا20:1۔4 میں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ مریم مگدلینی خالی قبر سے بھاگ کر گئی اور شمعون پطرس اور یوحنا (’’دوسرا والا شاگرد‘‘) کو بتایا کہ یسوع کو قبر میں سے وہ لوگ نکال کر لے گئے ہیں اور وہ نہیں جانتی کہ اُن لوگوں نے اُس کو کہاں پر رکھا۔ پطرس پہلے باہر بھاگتا ہے، اُس کے پیچھے یوحنا (آیت3)۔ کوئی بھی جو اناجیل کو جانتا ہے احساس کر سکتا ہے کہ پطرس جلد باز شخص تھا، اور قدرتی طور پر پہلے ہی باہر بھاگے گا۔ اِس کے باوجود آیت 4 ہمیں بتاتی ہے کہ یوحنا پطرس سے آگے نکل گیا اور اُس سے پہلے قبر پر جا پہنچا۔ یہ ایک تفصیل ہے۔ لیکن، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اِس جیسی تفصیلات سچائی کو آشکارہ کرتی ہیں، جیسا کہ یہ اکثر عدالت کے مقدمے میں کرتی ہیں۔ ہمیں بتایا نہیں گیا کیوں یوحنا پطرس سے آگے نکل گیا تھا۔ ہمیں صرف اتنی سی معلومات بِنا کسی بھی قسم کی وضاحت کے فراہم کی گئی۔ ہمیں یہ جاننے کے لیے بائبل میں کہیں اور پڑھنا پڑتا ہے کہ پطرس یوحنا سے کافی بوڑھا تھا۔ یوحنا صرف تقریباً اٹھارہ برس کا تھا، جبکہ اُس وقت پطرس کو ایک اوسط عمر کا شخص مانا گیا ہے۔ یوں، نوجوان یوحنا باآسانی پطرس سے آگے نکل جاتا ہے، جو اُس کے پیچھے لڑکھڑاتا ہوا آیا۔ اگر کہانی من گھڑت تھی تو مصنف نے بلاشک و شُبہ وجہ پیش کرتا۔ لیکن اِس حوالے میں کوئی بھی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ صرف اِس لیے کیوںکہ یوحنا کی انجیل حقائق کو بیان کر رہی ہے جیسے وہ اصل میں رونما ہوئے تھے۔
ایک اور بات، حالانکہ میں دوسری بے شمار باتیں پیش کر سکتا ہوں: جب شاگرد خالی قبر پر پہنچے تھے تو پطرس نے جھانکا اور دیکھا ’’وہاں سوتی کپڑے پڑے ہوئے ہیں اور کفن کا وہ رومال بھی جو یسوع کے سر پر لپیٹا گیا تھا سوتی کپڑوں سے الگ ایک جگہ تہہ کیا ہوا پڑا تھا‘‘ (یوحنا20:6۔7)۔ تفصیل پر غور کریں۔ کیوں وہ ’’رومال‘‘ جو اُس کے سر پر لپیٹا گیا تھا اُن سوتی کپڑوں سے جُدا پڑا تھا جنہوں نے یسوع کے بدن کو ڈھانپا تھا؟ ہمیں بتایا نہیں گیا۔ وضاحت کا ایک لفظ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ اگر کوئی لوگ افسانہ بنا رہے تھے تو وہ بلا شک و شُبہ ہمیں بتاتے کہ کیوں رومال سوتی کپڑوں سے الگ رکھا ہوا تھا۔ مگر انجیل میں وضاحت کا ایک لفظ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ صرف اِس لیے کیوںکہ انجیل حقائق کا اندراج کرتی ہے۔ جیسا کہ سُراغ رساں فلم ’’ڈریگنٹ Dragnet‘‘ میں کہا کرتا ہے، ’’صرف حقائق محترمہ۔ صرف حقائق۔‘‘ اِس قسم کی تفصیلات انجیل کی تحریر میں بیان کے عمل کی سچائی کی تصدیق کے اہم ترین طریقوں میں سے ایک ہیں۔ اِس قسم کے نہایت چھوٹے حقائق وضاحت کے بغیر رپورٹ نہیں کیے جاتے جب تک کہ یہ ایک عینی شاہد کا واقعہ نہ ہو جو اصل میں رونما ہوا تھا۔
لیکن کوئی نہ کوئی کہے گا، یہ سب باتیں معمولی باتیں ہیں۔ سچ، لیکن یہ اِنہی چھوٹی چھوٹی تفصیلات سے ہی ہے کہ ہم بتا سکتے ہیں یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ جس قدر زیادہ ہم مسیح کے جی اُٹھنے کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں، اُس ہی قدر زیادہ ہم اُن کی سچائیوں سے متاثر ہوتے جاتے ہیں۔ انجیل کی تحریر کے بیان کے عمل میں ایک قدرتی پن اور مَسلّم سچائی کی بھرپوری ہے، چھوٹی چھوٹی تفصیلات تک، جو افسانے کی مصنوعیت پر سبقت لے جاتی ہے۔
اور یوں، ہم آپ سے وہ کہتے ہیں جو فرشتوں نے اُس پاشکا کے پہلے اِتوار کی صبح کہا،
’’میں جانتا ہُوں کہ تُم یسوع کو ڈھونڈ رہی ہو جو مصلوب ہُوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے بلکہ جیسا اُس نے کہا تھا، جی اُٹھا ہے‘‘ (متی 28:5۔6).
جب آپ یسوع کے پاس ایمان کے ساتھ آتے ہیں، تو وہ آپ کو اپنے خون کے ساتھ تمام گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے۔ کاش آپ اُس کے پاس آئیں۔ کاش آپ اُس کو حاصل کر لیں۔ کاش آپ اُس کے وسیلے سے بچا لیے جائیں۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظ www.realconversion.com یا
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: لوقا24:34۔43.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’دوبارہ جی اُٹھا Alive Again‘‘ (شاعر پال ریڈر Paul Rader، 1878۔1938)۔