اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
گناہ میں گِری ہوئی دُنیا میں گواہان (پیدائش کی کتاب پر واعظ # 40) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اور آدم پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اُس کا نام سیت رکھا اور کہا: خُدا نے مجھے ہابل کی جگہ جسے قائن نے قتل کیا، دوسرا فرزند عطا فرمایا۔ سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام انُوس رکھا: اُس وقت سے لوگ خُداوند کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ (پیدائش4:25۔26)۔ |
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ خُدا نے آدم اور حوا کو ہابل کی جگہ ’’جسے قائن نے قتل کیا‘‘ ایک اور بیٹا دیا تھا (’’فرزند seed،‘‘ پیدائش4:25)۔
’’سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام انُوس رکھا: اُس وقت سے لوگ خُداوند کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ (پیدائش4:26)۔
الفاظ پر یہاں کچھ گڑبڑ ہے، ’’اُس وقت سے لوگ خُداوند کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ پیدائش4:26)۔ کچھ الفاظ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے پاس کنگ جیمس بائبل میں ہیں، جو کہ میں یقین کرتا ہوں کہ دُرست ترجمہ ہے۔ لیکن دوسرے اِس کا یوں ترجمہ کرتے ہیں، ’’اُس وقت سے لوگ یہوواہ کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ ( دیکھیں سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل Scofield Study Bible مرکزی غور طلب بات دیکھیں)۔ ڈاکٹر جان گِلDr. John Gill نے دونوں ہی کے استعمال میں لانے کے عمل کی نشاندہی کی، جیسا کہ دوسرے مشہور تبصرہ نگاروں نے بھی کی تھی۔ میرا نقطۂ نظر یہ ظاہر کرنا ہے کہ شاید اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے اِس سے تعلق رکھتے ہوئے کچھ ابہام ہو۔ بہرحال میں کنگ جیمس بائبل کو ہی درست تسلیم کرتا ہوں۔ پیدائش کے چوتھے اور پانچویں باب میں بعض باتیں انتہائی واضح ہیں، وہ باتیں جو کنگ جیمس بائبل کے ترجمے کی تائید اور وضاحت کرتی ہیں۔
I۔ اوّل، سیت کی جانب سے کوئی خُدائی گروہ، یا ’’نسل‘‘ نہیں تھی۔
’’خُداوند کا نام لے کر‘‘ دعا کرنا یا بُلانا مذہبی اشتیاق کی جانب واپسی کی تفصیل نہیں ہے جس کا معنی کچھ تبصرہ نگار لیتے ہیں۔ اِس کا مطلب اِس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، میں یقین کرتا ہوں کہ یہ سیتیوں Sethites کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، جو ’’خُداوند کا نام لے کر‘‘ دعا کرتے یا بُلاتے تھے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سیت کی ’’نسل‘‘ میں تمام زندہ لوگ ماسوائے نوح اور اُس کے خاندان کے سب کے سب سیلاب میں مر گئے تھے! میرے خیال میں ہمیں اِس کو دوبارہ ایک نئے طریقے سے دیکھنا چاہیے۔ اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہم دیکھیں گے کہ تمام وہ جو قائین کی نسل سے تھے اور وہ جو سیت کی نسل سے تھے، جو کہ اُس زمانے میں زندہ تھے، سیلاب میں غرق ہو گئے تھے۔ یوں، میرے خیال میں ڈاکٹر بی۔ ایچ۔ کیرول Dr. B. H. Carroll کے بیان میں ایک غلطی ہے کہ سیت کے بچے ’’نیک نسل کے تھے‘‘ (بی۔ ایچ۔ کیرول ڈی۔ ڈی۔ B. H. Carroll, D.D.، انگریزی بائبل کی ایک تاویل An Interpretation of the English Bible، بیکر بُکس ہاؤس، اشاعت1976، جلد اوّل، صفحہ137)۔ دونوں نسلوں میں سے سیت کی آل اولاد بِلاشک و شُبہ ظاہری طور پر زیادہ مذھبی تھی، لیکن مجھے شُبہ ہے کہ وہ تمام کے تمام ’’نیک نسل کی پود‘‘ تھے جیسا کہ ڈاکٹر کیرول نے کہا۔ ڈاکٹر کیرول ایک عمدہ انسان تھے اور ایک عظیم مبلغ تھے، لیکن میرے خیال میں وہ اِس نقطے پر غلط تھے۔
جی نہیں، مجھے یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ ’’نیک‘‘ یا ’’دیندار‘‘ کہلائی جانے والی سیت کی نام نہاد نسل، ماسوائے چند مُشتثنٰی قرار دی جانے والی باتوں کے، محض ظاہر طور پر مذھبی تھے اور کبھی بھی اِس کا تجربہ نہیں کیا ہوگا جو کہ ہم اب ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں۔ سیت کی نسل کی ایک بڑی اکثریت مسیح کے زمانے میں فریسیوں کے مقابلے میں تھوڑی بہتر دکھائی دیتی ہے۔ میں یہ دلیل پیدائش 6:5 کے سادہ الفاظ پر قائم کرتا ہوں،
’’اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش6:5)۔
خُدا کی نظر میں، دونوں ہی قائین اور سیت کی ’’نسلوں‘‘ میں انسان کی یہ حالت تھی۔ وہ تمام کے تمام جو سیلاب کے زمانے میں تھے باقی زندہ بچے تھے، دونوں قائین کی نسل اور سیت کی نسل کے لوگ، ’’صرف بدی کی طرف مائل رہتے‘‘ تھے۔ درحقیقت، میں انتہائی حد تک شک کرتا ہوں کہ ’’سیت کی دیندار نسل‘‘ کچھ انتہائی چند لوگوں سے زیادہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ ’’نسل‘‘ صرف دس لوگوں کے لیے نشاندہی کرتی دکھائی دیتی ہے، جن کا 5 باب میں نام لیا گیا، اور شاید کچھ دوسروں کے لیے بھی۔ اِس کو پہچاننے کی ناکامی نے اِس غلطی کو جنم دیا کہ سیت کی تمام کی تمام آل اولاد تبدیل شُدہ لوگ تھے۔ یہی ہے جو ڈاکٹر بی۔ ایچ۔ کیرول لاگو کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب اُنہوں نے کہا، ’’اِس درجہ بندی میں آدم کی نسل سیت کی نسل تک محدود ہے۔ یہ اِس لیے ہے کہ قائین کی تمام کی تمام آل اولاد سیلاب میں غرق ہو گئی تھی‘‘ (ibid.، صفحات136۔137)
میں خود بائبل میں یہ دیکھنے میں ناکام رہا ہوں۔ ڈاکٹر کیرول نے کہا، ’’اِس درجہ بندی میں آدم کی نسل سیت کی نسل تک محدود ہے۔ یہ اِس لیے ہے کہ قائین کی تمام کی تمام آل اولاد سیلاب میں غرق ہو گئی تھی‘‘ (ibid.)۔ ذرا ایک منٹ رُکیئے گا! دُنیا میں ہر کوئی (نوح اور اُس کے خاندان کو مُستثنٰی قرار دینے کے ساتھ) سیلاب میں غرق ہو گیا تھا! کوئی سیت کی نسل سے نہیں بچا تھا ماسوائے نوح اور اُس کے خاندان کے! نیا عہد نامہ اِس کو انتہائی واضح کرتا ہے جب وہ کہتا ہے،
’’اور پرانے زمانے کے لوگوں [برابری سے قائین کی نسل اور سیت ک نسل] کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر [برابری سے قائین کی نسل اور سیت کی نسل] سیلاب بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نوح کو اور دیگر سات اشخاص کو بچا لیا‘‘ (2پطرس2:5)۔
اِس طرح، جب ہم پانچویں باب میں سیت کی آل اولاد پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہ نہیں ملتا ہے جس کو ڈاکٹر کیرول نے ’’نیک نسل کی پود‘‘ کہا ہے، بلکہ اِس کے بجائے ہمیں دس دیندار لوگوں کی فہرست ملتی ہے جو آدم اور سیت کی فریسیانہ نسل سے اُبھر کرباہر نکلتے ہیں۔ اِن لوگوں کی پرورش خُداوند نے روحانی اِرتداد کے بیچوں بیچ کی تھی۔ اور میرا نہیں خیال کہ ہمارے پاس کوئی وجہ یا وارنٹ ہو جو بائبل میں پیش کی گئی ہو یہ فرض کرنے کے لیے کہ سیت کی تمام کی تمام ’’نسل‘‘ یا تو نیک اور دیندار یا تبدیل شُدہ تھی، کیونکہ وہ تمام کے تمام جو رہ گئے تھے اپنی کم مذھبی کے لیے سیلاب سے مارے گئے تھے، جو کہ ایک سچی تبدیلی کی طرف رہنمائی نہیں کرتا اور اُنہیں سیلاب کی عالمگیری سزا سے نہیں بچاتا،
’’بے دینوں کی زمین پر سیلاب بھیج کر‘‘ (2 پطرس2:5)،
جو کہ، جیسا میں نے کہا، اُن تمام کے تمام سیت کے لوگوں پر جو بچ گئے تھے اور اُن کے ساتھ ساتھ قائین کے لوگوں پر بھی ایک سزا تھی۔
II۔ دوئم، سیلاب سے پہلے کے بزرگان مخصوص لوگ تھے جن کو خُدا نے گناہ میں گِری ہوئی دُنیا کے لیے بطور گواہان بُلایا تھا۔
اِن دس اشخاص کی فہرست پیدائش5 میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ھنری ایم۔ مورس Dr. Henry M. Morris کے وسیلے سے اُن کے نام اور تواریخ پیش کی گئی ہیں:
بُزرگ |
پیدائش کا سال |
اگلے بزرگ کی پیدائش پر عمر |
مرنے کا سال |
آدم |
1 |
130 |
930
|
سیت |
130 |
105 |
1042
|
انُوس |
235 |
90 |
1140
|
قینان |
325 |
70 |
1235
|
محلل ایل |
395 |
65 |
1290
|
یارد |
460 |
162 |
1422
|
حنوک |
622 |
65 |
987
|
متوسلح |
687 |
187 |
1656
|
لمک |
874 |
182 |
1651
|
نوح |
1056 |
500 |
2006
|
(ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔ Henry M. Morris, Ph. D.، پیدائش کا ریکارڈ The Genesis Record، بیکر بُک ہاؤس، 1986 ایڈیشن، صفحہ154)
۔ہم پیدائش کے پانچ باب میں جو دیکھتے وہ ’’ایک نیک نسل کی پود‘‘ نہیں ہے، بلکہ اِس کے بجائے، دس آدمیوں کی ایک فہرست ہے جنہوں نے خُدا پر یقین کیا اور ایک مرتی ہوئی زوال پزیر دُنیا کے وسط میں گواہان کے طور پر کھڑے رہے۔ لوتھر نے کہا،
یہ (پانچواں) باب (پیدائش کا) ہمیں کُل بُزرگان کی دُنیا کی ایک تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ دس بزرگان کے ساتھ اُن کی دس نسلوں کو ایک ایک کر کے بتاتا ہے... موسیٰ [پیدائش کا پہلا انسانی مصنف] ہم سے چاہتا ہے کہ اِس پہلی دُنیا کے جلال پر غور کریں (کیونکہ وہ بزرگان کے دور کا ذکر کرتا ہے)۔ آدم نوح کی پیدائش سے کچھ ہی عرصہ قبل [مرا] تھا۔ سیت نوح کے پیدا ہونے سے صرف چودہ سال پہلے مرا تھا۔ انُوس اور دوسرے بزرگان، ماسوائے حنوک کے، نوح کے ہم عصر تھے۔ اِس لیے بہت سے بزرگان ... نے ایک ہی دور میں زندگی گزاری... یہ پہلی دُنیا کے پہلے قابل احترام بزرگان کا جلال تھا کہ اِس قدر زیادہ پرہیزگار اور دانا مقدسین اکٹھے زندہ تھے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ لوگ عام انسان تھے۔ اِس کے بجائے وہ (ایمان کے) اِس دُنیا میں عظیم ترین ہیروز تھے، ماسوائے مسیح اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کے۔ قیامت کے روز ہم اُن کا جلال دیکھیں گے اور اُس کو سَراہیں گے۔ تب ہمیں اُن کی شاندار زندگیوں اور نیک کاموں کے بارے میں بتایا جائے گا۔ اُس دِن ہم (مکمل طور پر) جان جائیں گے کہ آدم، سیت، متوسلح اور [اُن] دوسروں نے کیا تکمیل کیا تھا، اور کیسے اُنہوں نے وعدہ کیے گئے نجات دہندہ میں ایمان کے لیے مصائب برداشت کیے تھے... اُن خطرات اور ایذاؤں میں جن کا اُنہوں نے جرأت مندی سے سامنا کیا (مارٹن لوتھر، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Martin Luther, Th.D.، پیدائش پر لوتھر کا تبصرہ Luther’s Commentary on Genesis، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، دوبارہ اشاعت1958، جلد اوّل، صفحہ119)۔
پھر بھی، یہاں تک کہ حنوک، نوح اور دوسرے بزرگان کی عظیم گواہی کے ساتھ، صرف آٹھ لوگ بچائے گئے تھے جب سیلاب آیا تھا، کیونکہ خُدا نے
’’...پرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر سیلاب بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نوح کو اور دیگر سات اشخاص کو بچا لیا‘‘ (2پطرس2:5)۔
اور ’’بے دینوں کی دُنیا‘‘ میں دونوں قائین کی نسل کے لوگ اور سیت کی نسل کے لوگ شامل تھے، ماسوائے نوح اور اُس کے خاندان کے۔ دونوں ’’نسلیں‘‘ سیلاب کے ذریعے سے تباہ کر دی گئیں تھی، اور دونوں نسلوں کو ہی 2۔پطرس2:5 میں ’’بے دین‘‘ کہا گیا۔
یہ ’’خُداوند کا نام لینے‘‘ یا ’’خود کو یہوواہ کے نام سے بلوانے‘‘ کی کُل ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیلاب سے پہلے ’’انجیلی بشارت‘‘ کی تحریک ایک ہولناک ناکامی تھی۔ لوتھر نے کہا،
لیکن اگر پہلی دُنیا، جو کہ بہترین تھی… اُس میں صرف آٹھ لوگ تھے جو سیلاب سے محفوظ رہے، تو قیامت کے روز کیا ہوگا جب کہ خوشخبری، جو کہ نور پھیلانے کے لیے [اصلاح کے ذریعے سے] تازہ تازہ ہی بحال ہوئی ہے اُس کی اِس قدر شدت کے ساتھ تحقیر کی گئی؟ ہمیں ڈر ہے کہ کچھ ہی مدت میں بدکار بالادستی اختیار کر لیں گے اور دُنیا کو خطا کے ساتھ اِس قدر لبریز کر دیں گے کہ (الہٰی) دُنیا مکمل طور پر نیست و نابود ہو جائے گی۔ لوقا18:8 میں، مسیح ہمیں یہ ھولناک تنبیہہ پیش کرتا ہے، ’’جب ابنِ آدم آئے گا تو کیا وہ زمین پر ایمان پائے گا؟‘‘ دوبارہ متی24:37۔42 میں، وہ (آخری) نسل کا موازنہ نوح کے زمانے کے ساتھ کرتا ہے، اور جو وہ کہتا ہے اُس پر غور کرنا ہولناک ہے (لوتھر Luther، ibid.، صفحہ120)۔
میں لوتھر کے ساتھ اِس نقطے پر متفق ہوں۔ مونرجیسٹک monergistic نجات ( تنہا خُدا کے فضل کے وسیلے سے نجات) سے تعلق رکھتے ہوئے اصلاح کی روشنی تمام کی تمام اُکھاڑ پھینکی جا چکی ہے، اور چارلس جی فنّی Charles G. Finney اور ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ جس نے ہمارے زمانے میں گرجہ گھروں کو ڈھانپ رکھا ہے اِس کے ذریعے سے بدلی جا چکی ہے، جو انسان کو تنہا فضل کے وسیلے سے نجات کے بجائے خُدا کے فضل کے ساتھ ’’تعاون‘‘ کروا رہی ہے۔ اِس حقیقت کو تاریخ میں آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray اپنی عظیم کتاب حیات نو اور حیات نوسازی: امریکی انجیلی بشارت سازی کا بننا اور بگڑنا 1750۔1858 Revival and Revivalism: the Making and Marring of American Evangelicalism 1750-1858 (دی بینر اور ٹرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 2005) میں واضح طور پر ظاہر کر چکے ہیں۔ اِن کُتب کو انٹر نیٹ پر ایمزان ڈاٹ کام Amazon.com سے خریدا جا سکتا ہے۔
III. ۔سوئم، پیدائش چار سے لیکر چھ باب تک انسان کے مکمل اخلاقی زوال کو ظاہر کرتے ہیں، دونوں قائین کی نسل کے لوگ اور سیت کی نسل کے لوگ، اور ہمارے زمانے کے مرکزی موضوع کے طور پر تنہا فضل کے وسیلے سے نجات اور انسان کے اخلاقی زوال کو دوبارہ زیر غور لانے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
آدم کے گناہ کی اِس تہمت کو ہر بزرگ کی موت کے ذریعے سے ظاہر کیا گیا ہے۔ بائبل کہتی ہے،
’’پس جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی ویسے ہی موت سب انسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 5:12).
یوں بزرگان کے لحاظ سے ’’گناہ کے ذریعے‘‘ سے تہمت کو ہم پر بار بار نقش کیا گیا ہے
’’اور آدم پورے نو سو تیس برس تک زندہ رہا اور پھر وہ مرگیا‘‘ (پیدائش5:5).
’’ اور سیت پورے نو سو بارہ برس زندہ رہنے کے بعد مر گیا‘‘ (پیدائش5:8).
’’اور انُوس کی کُل عُمر نو سو پانچ کی ہوئی اور وہ مرگیا‘‘ (پیدائش 5:11).
’’اور قینان کی کُل عُمر نوسو دس برس کی ہوئی اور وہ مر گیا‘‘ (پیدائش5:14).
’’اور محلل ایل کی کُل عُمر آٹھ سو پچانوے برس کی ہوئی اور وہ مر گیا‘‘ (پیدائش 5:17).
’’اور یارد کی کُل عُمر نو سو باسٹھ برس کی ہوئی اور وہ مر گیا‘‘ (پیدائش5:20).
’’اور متوسلح کی کُل عُمر نو سو اُنہتر کی ہوئی اور وہ مر گیا‘‘ (پیدائش5:27).
’’اور لمک کی عمر سات سو ستہتر کی ہوئی اور وہ مرگیا‘‘ (پیدائش 5:31).
تنہا حنوک نے موت سے فرار حاصل کی تھی۔ آیت 24 پر نظر ڈالیں۔
’’اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور پھر خدا نے اُسے اُٹھا لیا اور وہ نظروں سے غائب ہوگیا‘‘ (پیدائش 5:24).
خُدا نے حنوک کو ’’اُٹھا لیا‘‘، اور وہ سچے مسیحیوں کی ایک تشبیہہ بن گیا، جنہیں اِس زمانے کے خاتمے پر ’’اُٹھا لیا‘‘ جائے گا۔
’’ایمان ہی سے حنوک اپنی موت سے پہلے ہی اُٹھا لیا گیا اور اُس کا پتا نہ چلا کیونکہ خدا نے اُسے اُٹھا لیا تھا۔ کیونکہ اُس کے اُٹھائے جانے سے پہلے اُس کے حق میں گواہی دی گئی کہ وہ خداوند کو پسند تھا‘‘ (عبرانیوں 11:5).
’’کیونکہ خداوند خُود بڑی للکار اور مُقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے پھونکے جانے کے ساتھ آسمان سے اُترے گا اور وہ سب جو مسیح میں مر چُکے ہیں پہلے زندہ ہوجائیں گے۔ پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھالیے جائیں گے تاکہ ہم ہوا میں خداوند کا استقبال کریں اور یوں ہمیشہ اُس کے ساتھ رہیں‘‘ (1۔ تھسلنیکیوں 4:16۔17).
اِس لیے، موت کا رنج، یہاں تک کہ سچے ایمانداروں کی موت، اِس پورے پانچویں باب میں پھیلی ہوئی ہے، جو ظاہر کر رہی ہے کہ گناہ میں گرنے کے نتیجے کے طور پر تمام نسل انسانی کے لیے ’’گناہ کے ذریعے سے موت‘‘ منسوب کی گئی تھی۔
تب، بھی، سیلاب سے پہلے کے زمانے میں تبدیل شُدہ لوگوں کی قلت میں انسان کے اخلاقی زوال کو آشکارہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ نوع انسانی کے پاس اِن بزرگان کی بہت بڑی گواہی موجود تھی، چند ایک ہی سیت کی نسل سے بچائے گئے تھے۔ ہمارے پاس یہودہ14۔15 میں، اور 2۔پطرس2:5 میں دونوں حنوک اور نوح کی تبلیغ کے حوالے ہیں۔ اِس کے باوجود انتہائی چند سیت کی نسل کے لوگ تبدیل ہوئے تھے اور خُدا نے
’’... پرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر سیلاب بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نوح کو اور دیگر سات اشخاص کو بچا لیا‘‘ (2پطرس2:5)۔
تصویر کا دوسرا رُخ فضل کے وسیلے سے نجات ہے، اور انسان کے اخلاقی زوال کا واحد جواب ہے۔ پیدائش6:8 پر نظر ڈالیں۔ نوح تنہا فضل کے وسیلے سے بچایا گیا تھا، تنہا ایمان کے ذریعے سے۔
’’لیکن نُوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).
ہمیں عبرانیوں11:2 میں بتایا گیا کہ تمام بزرگان تنہا ایمان کے وسیلے سے بچائے گئے تھے،
’’اُسی [ایمان] کی وجہ سے ہمارے بزرگوں کے حق میں گواہی دی گئی‘‘ (عبرانیوں 11:2).
لیکن لوتھر نے خبردار کیا تھا کہ تنہا ایمان کے ذریعے سے تنہا فضل کے وسیلے سے نجات کو مسترد کیا جائے گا، اور سینرجیسٹک synergistic ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ بالا دستی قائم کر لے گی اور ’’دُنیا کو خطا‘‘ سے لبریز کر دے گی۔ آج لوگ سوچتے ہیں کہ وہ بچائے گئے ہیں کیونکہ اُنہوں نے ’’خُداوند کا نام لے کر دعا‘‘ کی تھی (پیدائش4:26)، کیونکہ اُنہوں نے ایک ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا اور ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ پڑھی تھی۔ اور یوں یہی غمگین اِرتداد جو سیلاب سے پہلے آیا تھا واپس گرجہ گھروں میں فنّیFinney کے ذریعے سے اور ’’فیصلہ ساز decisionist‘‘ انجیلی بشارت والوں کے ذریعے سے اور اُن پادریوں کے ذریعے سے جنہوں نے اُس کی پیروی کی، لائی جا چکی ہے۔ یوں ہمارے گرجہ گھر کاتھولک اِزم کی اصلاح سے پہلے کی سینرجیسٹک synergistic غلطی کے لیے ماضی میں جا چکے ہیں، اور لوتھر کا ڈر سچا ثابت ہو چکا ہے۔ بہت سے رومیوں10:13 کی آڑ میں چُھپیں گے، لیکن وہ رومیوں10:14 پر غور نہیں کرتے ہیں، جو کہ سادگی سے ظاہر کرتی ہے کہ یہ دعا نہیں ہے جو بچاتی ہے۔ کوئی بھی دعا پڑھنے سے کبھی بھی بچایا نہیں گیا ہے۔ یہ وہ لعنتی بدعت ہے جو فنّی Finney اور ’’فیصلہ ساز decisionist‘‘ مبلغین جنہوں نے انجیلی بشارت کی تعلیم کو تباہ کیا اُن کے ذریعے سے لائی گئی۔
’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی24:37۔39).
ہم یقینی طور پر آج اُسی حالت میں زندگی گزارتے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں۔ آنے والے فیصلے سے بچنے کا صرف واحد ایک ہی راستہ ہے۔
’’سچی بات تو یہ ہے کہ اگر تُم تبدیل ہوکر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تُم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے‘‘ (متی 18:3).
آپ کو خود اپنے گناہ، اور اپنے پیدائشی اخلاقی زوال اور نری نااہلیت سے قائل ہونا چاہیے۔ آپ کو عاجز ہونا چاہیے اور اپنی مزاحمت اور تکبر سے ٹوٹٓا ہوا ہونا چاہیے۔ آپ کو تنہا خُدا کے فضل کے وسیلے سے مسیح کی طرف کھینچے چلے آنا چاہیے، کیونکہ یسوع نے کہا،
’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لائے اور میں اُسے آخری دِن پھر سے زندہ کر دوں گا‘‘ (یوحنا 6:44).
پس، نجات تنہا فضل کے وسیلے، صرف مسیح میں ایمان کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ باقی سب کچھ لکڑی،سوکھی گھاس اور بھوسہ ہے۔ پیدائش کے چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کے مقابلے میں یہ کہیں اور پر اِس قدر واضح نہیں کیا گیا ہے۔
ایسے وقتوں کے دوران، تمہیں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہوتی ہے،
ایسے وقتوں کے دوران، تمہیں ایک رابطہ کار کی ضرورت ہوتی ہے؛
انتہائی یقین کرو، انتہائی یقین کرو
تمہارا رابطہ کار مضبوط چٹان کو گرفت میں کیے اور اُٹھائے ہوئے ہے!
(’’ایسے وقتوں کے دوران In Times Like These‘‘ شاعر رُوتھ کائی جونز
Ruth Caye Jones، 1944)۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan
نے کی تھی: پیدائش4:25۔ 5:32 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’ایسے وقتوں کے دوران In Times Like These‘‘ (شاعر رُوتھ کائی جونز
Ruth Caye Jones، 1944)۔
لُبِ لُباب گناہ میں گِری ہوئی دُنیا میں گواہان (پیدائش کی کتاب پر واعظ # 40) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اور آدم پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اُس کا نام سیت رکھا اور کہا: خُدا نے مجھے ہابل کی جگہ جسے قائن نے قتل کیا، دوسرا فرزند عطا فرمایا۔ سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام انُوس رکھا: اُس وقت سے لوگ خُداوند کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ (پیدائش4:25۔26)۔ I. ۔اوّل، سیت کی جانب سے کوئی خُدائی گروہ، یا ’’نسل‘‘ نہیں تھی، پیدائش6:5؛ 2۔پطرس2:5 . II. ۔ دوئم، سیلاب سے پہلے کے بزرگان مخصوص لوگ تھے جن کو خُدا نے III. ۔ سوئم، پیدائش چار سے لیکر چھ باب تک انسان کے مکمل اخلاقی زوال کو ظاہر |