Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا اور سپرجیئن

SPURGEON AND CONVERSION
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

سوموار کی شام دیا گیا ایک واعظ، 3 ستمبر، 2007
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Monday Evening, September 3, 2007
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’سچی بات تو یہ ہے کہ ماسوائے اِس کے اگر تم مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہ ہو جاؤ … تم آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گے‘‘ (متی 18: 3)۔

آئعین ایچ میورے Iain H. Murray کی تحریر کردہ [کتاب] قدیم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم The Old Evangelicalism (بینر آف ٹُرتھ Banner of Truth، 2005) کا دوسرا باب ’’مبلغین کے شہزادے‘‘ سی ایچ سپرجیئنC. H. Spurgeon کے لیے وقف ہے۔ سپرجیئن تیسری عظیم بیداری (1857-1861) کی سرکردہ شخصیت تھی اور میری نظر میں، اب تک کے سب سے اہم [بپتسمہ دینے والی مشن کے] بپٹسٹ پادری تھے۔ وہ ماضی کی طرف جھکاؤ رکھنے والی شخصیت بھی تھے۔ فطرت کے لحاظ سے قدامت پسند تھے، اُنہیں ’’پیوریٹنز کا آخری وارث the last of the Puritans‘‘ کہا جاتا ہے۔ میورے اپنی کتاب (’’مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی اور سپرجیئنSpurgeon and True Conversion‘‘) میں ایک پورا باب اُن کے لیے وقف کرنے کے لیے بالکل درست ہیں۔ کتابی جلد کے کور کے اِختتام پر، میورے نے ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونزDr. Martyn Lloyd-Jones کا حوالہ دیا،

دورِ حاضرہ کی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم اٹھارویں صدی اور پیوریٹنز کی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔ خالص انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم وہی قدیم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم ہے۔

سپرجیئن نے اپنی زندگی مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی کے قدیم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے نظریے اور ہمارے زمانے کے درمیان ایک رابطہ سمجھے جانے کے انتہائی قریب ترین گزاری تھی۔ سپرجیئن کے بارے میں اپنے تجزیے میں، میرے مقابلے میں میورے نے مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کی انجمن [تنظیم] کے کیلوِنسٹ نظریے کو زیادہ واضح طور پر اپنایا ہے۔ اس کے باوجود سپرجیئن نے تبدیلی کے بارے میں کیا سوچا اس باب میں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، اور آسانی سے پڑھے جانے والے اس فارمیٹ میں سپرجیئن نے اس سب سے اہم موضوع کے بارے میں کیا سوچا یہ آسانی سے دستیاب کرنے کے ذریعے سے میورے بہت بڑی ایک خدمت ادا کر چکے ہیں۔

سپرجیئن حقیقی تبدیلی پر یقین رکھتے تھے، نہ کہ محض ’’فیصلے‘‘ پر۔ اُن کا ماننا تھا کہ مسیح میں ایمان لا کے حقیقی تبدیلی میں گناہ کے بارے میں مضبوط آگاہی اور یسوع کی طرف ’’دیکھنا‘‘ یا ’’آنا‘‘ – مسیح کے ساتھ اتحاد شمار ہوتا ہے ۔ سپرجیئن نے کہا،

تمام حقیقی تبدیلیوں میں ضروری معاہدے کے نکات ہوتے ہیں: گناہ کا ہر طرح سے توبہ کرنے والا اقرار ہونا چاہیے، اور اس کی معافی کے لیے یسوع کی طرف دیکھنا چاہیے، اور دل کی ایک حقیقی تبدیلی بھی ہونی چاہیے، جو اس کے بعد کی زندگی کو متاثر کرے گی، اور جہاں یہ ضروری نکات نہیں پائے جاتے ہیں وہاں [مسیح میں ایمان لانے والی] کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہوتی ہے (آئعین ایچ میورے Iain H. Murray، انجیلی بشارت کے پرچار کی قدیم تعلیم The Old Evangelicalism، بینر آف ٹروتھ ٹرسٹ Banner of Truth Trust، 2005، صفحہ 41 میں حوالہ دیا گیا ہے)۔

میورے کہتے ہیں کہ مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی کے بارے میں سپرجیئن کا نظریہ شاید سادہ لگ رہا ہے، لیکن ’’جو کچھ شامل ہے وہ اس سب کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرا ہے جو ہم اپنی موجودہ سمجھ میں حاصل کر سکتے ہیں... آج ہمارا خطرہ یہ فرض کر لینا ہوتا ہے کہ مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے بارے میں سچائی صرف مسیحی عقیدے کے لیے ابتدائی ہے۔ جیسا کہ ریاضی کے لیے دو کا پہاڑہ ہوتا ہے، اور اس لیے اسے ہماری توجہ کو زیادہ دیر تک روکے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ (ibid.) وہ کہتے ہیں کہ بائبل کی مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی کے موضوع پر بہت کم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم پر کتابیں ہیں۔ ’’جو بات نئے عہد نامہ میں مرکزی ہے اسے حدود میں منتقل کر دیا گیا ہے، اور یہ ہمارے گرجا گھروں میں ایک عمومی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے‘‘ (ibid.، صفحہ 42)۔ ’’لیکن جب [مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی کا] موضوع سب سے اہم ہونا چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیمی کوشش ناکام ہو جاتی ہے‘‘ (ibid.)۔ ’’اگر ہمارا عمل سپرجیئن کے قریب تھا تو کون شک کر سکتا ہے کہ حقیقی تبدیلیاں ہمارے درمیان زیادہ عام ہوں گی۔ اس کے بعد، میں اس خطاب میں اس عظیم مسئلے پر ہمارے لیے ایک محرک کے طور پر سپرجیئن کی سوچ کو اٹھانے کی تجویز پیش کرتا ہوں‘‘ (ibid.)۔

سپرجیئن انجیلی بشارت کی تبلیغ میں شریعت کے کام کی ضرورت پر یقین رکھتا تھا۔ سپرجیئن خود ’’کئی سالوں سے گناہ کی سزایابی کے تحت تھے ... لیکن اُن کے لیے اہم چیز وقت کی طوالت نہیں تھی، یہ صحیفائی اصول تھا کہ انجیل [خوشخبری] سے پہلے شریعت ضروری ہے‘‘ (ibid.، صفحہ 48)۔ سپرجیئن نے کہا،

مسیحی مذہبی خادم کو گناہ کی برائی کا بہت واضح طور پر اعلان کرنا چاہیے... شریعت کی روحانیت کو کُشادہ کریں جیسا کہ ہمارے خداوند نے کیا تھا اور دکھائیں کہ یہ کس طرح برے خیالات، ارادوں اور رجحانات سے ٹوٹتی ہے۔ اس سے بہت سے گنہگاروں کے دلوں میں چبھن ہو گی۔ رابرٹ فلاک ہارٹ Robert Flockhartکہا کرتے تھے، ’’انجیل [خوشخبری] کے ریشمی دھاگے سے سلائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ ہم شریعت کی تیز سوئی سے اس کے لیے کوئی راستہ نہ چھیدیں۔ شریعت سوئی کی مانند پہلے گھُستی ہے اور اپنے پیچھے خوشخبری کے دھاگے کو کھینچتی ہے (ibid.، صفحہ 48-49)۔

میورے پھر اس بات کا سراغ لگاتے ہیں کہ فنی Finney کے دور کے بعد اخلاقی شریعت کی تبلیغ کو بتدریج انجیلی بشارت سے کس طرح چھوڑ دیا گیا۔ پھر بھی، انجیلی بشارت میں شریعت کی منادی جتنی اہم ہے، اُتنی گناہ کی سزایابی مقصد نہیں ہے۔ مقصد گنہگاروں کا یسوع کے پاس آنا ہے۔ ’’شریعت کی تبلیغ‘‘ نے فِلپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، لیکن وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا۔ گنہگاروں کو سزایابی کی بیداری میں سہولت نہیں اپنانی چاہیے۔ شریعت کی تبلیغ جتنی اہم ہے، اتنی ہی یہ بذات خود ایک اختتام نہیں ہے۔ سپرجیئن نے کہا کہ ’’بیدار گنہگاروں پر لعنت بھیجی جائے گی جب تک کہ وہ یسوع میں ایمان نہیں لاتے۔ آپ کو آنسو بہا بہا کر مسیحی نہیں بنانا چاہیے، آپ کو اپنے تلخ خیالات اور ظالمانہ مایوسی میں سلامتی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ جب تک آپ [یسوع میں] یقین نہیں رکھتے آپ کبھی بھی قائم نہیں ہوں گے‘‘ [ایک حقیقی تبدیل شدہ شخص کے طور پر] (ibid.، p. 51)۔

میورے کہتے ہیں کہ شریعت کی تبلیغ مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے [غیر تبدیل شُدہ] لوگوں کو کی جانی چاہیے، اس لیے نہیں کہ یہ انھیں سکھاتی ہے کہ ’’وہ کیا کر سکتے ہیں، بلکہ انھیں کیا کرنا چاہیے... یہ غیر مسیحی کو گھر میں لے آتی ہے کہ وہ اپنی فطرت کو نہیں بدل سکتا، وہ خود کو نجات نہیں دلا سکتا۔ یہ مسیح میں ایمان لانے سے تبدیلی کی بات تھی کہ یسوع بتا رہا تھا جب اُس نے کہا، ’’لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہے‘‘ (متی 19: 26)‘‘ (ibid.، صفحہ 52-53)۔ مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے [غیر تبدیل شدہ] آدمی کی نااہلی پر تبلیغ کرتے ہوئے، سپرجیئن نے کہا،

کاش کہ ہم خدا تک آپ کو پہنچا سکیں، نہ صرف آپ کی حوصلہ شکنی کو بلکہ آپ کی مایوسی تک کو پہنچا سکیں۔ جب آپ… محسوس کریں گے کہ آپ بے بس ہیں تو ہمیں آپ سے امید ہوگی، کیونکہ تب ہی آپ خود کو اس کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں گے جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ جب خود کی طاقت ختم ہو جائے گی، خدا کی طاقت آ جائے گی… میں آپ کی سرگرمی کو ابھارنا نہیں چاہتا، آپ غیر تبدیل شدہ [مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے] لوگو: میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو اس یقین کے لیے بیدار کریں کہ آپ گمراہ ہو چکے ہیں، اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا روح القدس آپ کو قائل کرے۔ ibid.، صفحہ 53)۔

میورے ظاہر کرتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے مبشر جارج وائٹ فیلڈ کی خواہش تھی کہ گمراہ لوگ ’’آپ کی بے اعتقادی کے قائل ہو جائیں، اور جس کا تحفہ ہے اس سے ایمان مانگنے کے لیے یہ رہنمائی کی جائے‘‘ (ibid.)۔

میورے کا کہنا ہے کہ تخلیق نو (نئی پیدائش) فوری اور ایک بار ہی ہوتی ہے، اسے کبھی دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ’’نئی تخلیق ایک واقعہ ہے، عمل نہیں ہے۔ یہ مسیح کی جی اُٹھنے والی زندگی کا دروازہ ہے‘‘ (صفحہ 55)۔ میرا خیال ہے کہ تخلیق نو تبدیلی کا دوسرا رخ ہے (انسانی پہلو) اور اس لیے میں تعلیم دیتا ہوں کہ دونوں بیک وقت اور فوری ہیں۔ لیکن یہ واقعی ایک معمولی فرق ہے، میری رائے میں مزید تبصرہ کے لائق نہیں ہے۔

میورے بجا طور پر کہتے ہیں کہ انجیلی بشارت کے دورِ حاضرہ کے مبشران ’’مسیح کے فیصلے‘‘ کے ساتھ حیات نو کی شناخت کرنے میں اُتنے ہی غلط ہیں جتنے کیتھولکز اِسے ’’بپتسمہ دینے‘‘ کے ساتھ شناخت کرنا چاہتے تھے (صفحہ 56)۔ وہ کہتے ہیں،

نئے سرے سے جنم دلانے کا وقت خدا کے پاس ہوتا ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے کہ خدا انسانوں کو بُلند مرتبہ کرنے سے پہلے پستی میں گِراتا ہے۔ اس سے پہلے کہ مصرف بیٹا ’’اپنے حواس میں بحال ہوتا‘‘… وہ کسی دور دراز کے مُلک میں ہونے کے درد کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا تھا (ibid.)۔

کچھ لوگ تبدیلی سے پہلے ایک طویل مدت تک گناہ کی سزایابی کے تحت ہو سکتے ہیں، جیسا کہ سپرجیئن تھے۔ دوسروں کو سزایابی کا فوری وار ہو سکتا ہے جس کے بعد اچانک مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی آ جاتی ہے۔ میورے کہتے ہیں، ’’سزایابی کسی کو نجات نہیں دلاتی لیکن سزایابی کے بغیر کوئی نہیں نجات پاتا (صفحہ 57)۔ ایک شخص سزایابی کے تحت آ سکتا ہے اور پھر بھی مسیح میں ایمان لا کرتبدیل نہیں ہوا ہوتا۔ اس کے علاوہ، ایک شخص مسیح کے پاس آئے بغیر نجات کے عقائد پر ’’یقین‘‘ کر سکتا ہے (صفحہ 57-58)۔ فضل کے عقائد پر یقین نے کبھی کسی کو نجات نہیں دلائی۔ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے، کسی کو اپنی خوفناک، گناہ سے بھرپور، گمراہ شُدہ ہوئی حالت کے لیے بیدار ہونا چاہیے اور پھر حقیقتاً مسیح کے ساتھ متحد ہونا چاہیے، ورنہ اس کا ’’عقیدہ‘‘ نجات کے حقائق کے خشک اعتراف کے سوا کچھ نہیں پیدا کرے گا، اور وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں مسیح بخود کے پاس نجات پانے والی فلاح کے لیے جو نجات دہندہ گنہگاروں کو پیش کرتا ہے بخشا نہیں جائے گا۔

سپرجیئن الطار پر آنے کی بُلاہٹ (پیش قدمی کرنے) کو ’’مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے معنی کو الجھانے کے طور پر شمار کرتے ہیں۔‘‘ سپرجیئن ’’جانتے تھے کہ مسیح کو حاصل کرنا فطرت کی تبدیلی (دوبارہ تخلیق) کے بغیر کبھی نہیں ہوتا ہے اور ایسی تبدیلی کسی بھی جسمانی عمل سے متاثر نہیں ہو سکتی جیسے کسی شخص کو سامنے آنے کے لیے کہنا‘‘ (صحفہ 63)۔ ’’سپرجیئن نے اپنی تبلیغ میں اُن افراد کی جانب سے فوری عوامی فیصلے کے لیے جو مسیحی بننے کے خواہشمند تھے کبھی بھی ’اپیل‘ یا ’الطار پر آنے کی بُلاہٹ‘ کا اضافہ نہیں کیا (ibid.)۔ مسیح میں ایمان لائے ہوئے لوگوں کی تعداد بڑھانے کی خاطر ’’عوامی فیصلہ‘‘ کو ایک ذریعے کے طور سپرجیئن نے مکمل طور پر ناقابل اعتبار گردانا تھا (صفحات 63 – 64)۔ اُنہوں نے کہا،

مجھے جاننے والے سب سے زیادہ واضح گنہگاروں میں سے کچھ جو کبھی گرجا گھر کے ایک رُکن تھے؛ اور، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، غیر ضروری دباؤ کے ذریعے مذہب یا عقیدے کا اِقرار کی راہ پر گامزن ہوئے تھے… میں، انڈے میں سے نکلے بغیر والے چوزوں کی اِس تعداد کو بڑھانے والی عوامی شیخی سے تنگ آچکا ہوں (صفحہ 64)۔

’’دوسری جگہوں پر جہاں [سپرجیئن] نے تبلیغ کی، بشمول کھلی فضا میں... ایسی کوئی اپیل کبھی نہیں دی گئی‘‘ (ibid.) یعنی، سپرجیئن نے کبھی بھی آگے آنے، ہاتھ اٹھانے وغیرہ کے لیے ’’دعوت‘‘ نہیں دی تھی۔ استفسار کرنے والوں سے نمٹنا ’’ایک الگ معاملہ تھا، جس کی اُنہوں نے حوصلہ افزائی کی‘‘ (ibid.)۔ لیکن اُنہوں نے یہ کام اکثر پیر کی راتوں اور اپنے کام کے ہفتے کی دوسری شاموں میں اپنے گرجا گھر میں ایک کمرے سے جہاں مقدس برتن اور ملبوسات رکھے جاتے ہیں یا ملاقاتیں ہوتی ہیں کیا، ہر واعظ کے اختتام پر ایک اچانک بات کے طور پر نہیں، جیسا کہ ہم عام طور پر اپنے دور کے انجیلی بشارت کے ’’دورِ حاضرہ کے مکاتِب‘‘ میں ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔

انیسویں صدی کے آخر میں یہ خیال [فنّیFinney اور اس کے پیروکاروں کی طرف سے] بہت مقبول ہوا… کہ اگر مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کو ایک بار کیے جانے والے عمل میں ’آسان‘ بنایا جا سکتا ہے، جو کسی بھی شخص کے ذریعہ [کسی بھی وقت] انجام دیا جاتا ہے، تو انجیلی بشارت زیادہ کامیاب ہوگی۔ ’کامیابی‘ ہر دوسری ترجیح کو ہٹانے کے لیے آئی۔ سپرجیئن، اور [بشارت کے ’’پرانے مکتب‘‘ کے کچھ دوسرے لوگ یہ تنبیہ کرنے میں اقلیت میں تھے کہ غلط طریقے سے پیش کی گئی خوشخبری چوٹ پہنچا رہی ہے اور [مستقبل میں] گرجا گھروں کے لیے آفت لائے گی (صفحہ 65)۔

خاص طور پر، وسیع تر [نئے] انجیلی بشارت کے منظر میں جو چیز [سپرجیئن] کو محسوس ہوئی وہ گناہ کی سزایابی اور خُدا کے خوف کی عدم موجودگی تھی۔ [گناہ کی سزا] گرجا گھروں میں غائب ہو رہی تھی، اور [اس کے ساتھ] تعظیم اور خوف کا نقصان ہوا۔ مسیحیوں کی وضاحت ’خدا سے ڈرنے والے‘ کے طور پر ختم ہوگئی۔ خوشی، نا کہ خوف ایک موضوع [بن گیا]، لیکن سپرجیئن نے دلیل دی کہ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا (صفحہ 66)۔

’’سپرجیئن کو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ [’دورِ حاضرہ کے مکاتب کی] سطحی انجیلی بشارت [سچے] مذہب تبدیل کرنے والوں کی عدم موجودگی کی ایک بڑی وجہ تھی‘‘ (ibid.)۔

میورے نے ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز کا حوالہ دیا، جس نے یہ سب کچھ بالکل واضح کر دیا جب انہوں نے کہا کہ ’’دورِ حاضرہ‘‘ کی انجیلی بشارت میں،

آپ کو اپنے گناہوں کو زیادہ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو اپنے دل کی سیاہی سے آگاہی کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف ’’مسیح کے لیے فیصلہ کرتے ہیں‘‘ اور آپ بھیڑ کے ساتھ دوڑتے ہیں [’’دعوت کے موقع پر‘‘]، اور آپ کا نام دبا دیا جاتا ہے، اور رپورٹ کیے گئے ’’فیصلوں‘‘ کی ایک بڑی تعداد میں سے ایک ہے... یہ مکمل طور پر پیوریٹنز اور جان ویزلی [سے مختلف ہے]، جارج وائٹ فیلڈ اور [اٹھارہویں صدی کے] دیگر لوگوں کی بشارت، جس کی وجہ سے لوگ خُدا کے فیصلے سے گھبراتے تھے، اور بعض اوقات دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک روح کی اذیت میں مبتلا رہتے تھے (صفحہ 69)۔

میورے نے اس باب کو ایک پرانے انجیلی بشارت کے مبشر ڈاکٹر اے ڈبلیو ٹوزرDr. A. W. Tozer کا نظریہ دے کر ختم کیا، جنہوں نے کہا،

مذہب کی تبدیلی کے سارے لین دین کو مشینی اور بے روح بنا دیا گیا ہے۔ ایمان اب بغیر کسی مرتبان کے استعمال کیا جا سکتا ہے… آدم کی انّا پر۔ مسیح وصول کرنے والے کی روح میں اس کے لیے کوئی خاص محبت پیدا کیے بغیر ’’مقبول‘‘ ہو سکتا ہے (صفحہ 70)۔

میورے نے کہا،

تبدیلی کے بارے میں سچائی کی بازیافت کی آج اشد ضرورت ہے۔ اس موضوع پر ایک وسیع تنازعہ ایک ہزار گھٹیا باتوں کو اڑا دینے کے لیے ایک صحت مندانہ ہوا ہو گا۔ خدا کا نیا خوف بہت ساری دنیاوی سوچ کو ختم کر دے گا اور بے شمار بے ہودہ خدمات کو خاموش کر دے گا۔ مزید انجیلی بشارت کے بارے میں بہت زیادہ بات کی گئی ہے، اور حیات نو کی بہت سی امیدیں ہیں، لیکن سپرجیئن ہمیں سکھائیں گے کہ ضرورت پہلی باتوں کی طرف واپس جانے کی ہے [جیسا کہ ان کی پرانی انجیلی بشارت میں تبلیغ کی گئی تھی] (صفحہ 68)۔

میں پورے دل سے آئعین ایچ میورے Iain H. Murray سے اتفاق کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو اُن کی کتاب، قدیم انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم The Old Evangelicalism (بینر آف ٹُرتھ Banner of Truth، 2005) کی ایک نقل حاصل کرنے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہوں اور اسے اس وقت تک بار بار پڑھتا ہوں جب تک کہ ’’آپ کی آنکھوں سے پردہ گر نہ جائے‘‘ اور آپ اس کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش محسوس کریں۔ ہم میں سے وہ لوگ جو حقیقی انجیلی بشارت کے ’’پرانے راستوں‘‘ پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ ایک سوچنے سمجھنے والے جدید قاری کو کم از کم اس حقیقت پر غور کرنے کا چیلنج کیا جائے گا کہ آج کی تقریباً تمام انجیلی بشارت اُس سے گھٹ ہے جس پر پرانے انجیلی بشارت والے لوگ کبھی یقین کیا کرتے تھے اور زمین پر شمال سے جنوب [اوپر سے نیچے] تک تبلیغ کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہم ’’پرانی انجیلی بشارت‘‘ کے عقائد اور اصولوں کی طرف واپس نہیں آتے ہم کبھی بھی کسی بڑے پیمانے پر حقیقی کلاسیکی احیاء کو نہیں دیکھ پائیں گے۔

میورے کی کتاب پڑھنے والے کچھ لوگوں کو ایسا کرنے کا چیلنج دیا جائے! زوال کے ان دنوں میں ایسا کرنا مشکل ہو گا، لیکن نتائج خُدا اور خُداوند یسوع مسیح کو جلال دیں گے۔ اور بہت سے بشر تبدیلی کی طرف لائے جائیں گی بجائے اس کے کہ جدید چالوں اور ہیرا پھیری کا استعمال کرتے ہوئے جدید ایوینجلیکل فیصلہ سازی کے طریقوں سے ’’فوری،‘‘ سطحی نتائج حاصل کیے جائیں۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔