اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
ںوح نے فضل پایا! (پیدائش کی کتاب پر واعظ # 19) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اور خداوند نے نوح سے کہا، تُو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا کیونکہ میں نے اِس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے‘‘ (پیدائش7:1). |
نوح اِس لیے نہیں بچایا گیا تھا کیونکہ وہ نیک تھا۔ وہ اِس لیے بچایا گیا تھا کیونکہ خُداوند نے کہا، ’’میں نے تجھ میں راستبازی دیکھی‘‘ (پیدائش7:1)۔ خُداوند نے اُس کو ایک راستباز شخص کی حیثیت سے دیکھا تھا۔ کیوں؟ اِس کا جواب سادہ سا ہے۔ یہ پیدائش چھ باب، آیت آٹھ میں پیش کیا گیا ہے۔ مہربانی سے وہاں سے اپنی بائبل کھولیں۔
’’لیکن نوح خداوند کی نظر میں مقبول ہوا‘‘ (پیدائش 6:8).
نوح نے خداوند کی نظر میں مقبولیت پائی تھی۔ اور خُداوند نے کہا، ’’میں نے اِس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے‘‘ (پیدائش7:1)۔
یہ منسوب کی گئی راستبازی کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ عبرانیوں11:7 ہمیں واضح طور پر بتاتی ہے کہ نوح ایمان کے وسیلے سے بچایا گیا تھا:
’’ایمان ہی سے نوح … ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا‘‘ (عبرانیوں 11:7).
مجھے دہرا دینا چاہیے، نوح اِس لیے نہیں بچایا گیا تھا کیونکہ وہ نیک تھا، حالانکہ وہ بے شمار طریقوں میں ایک اچھا انسان تھا۔ لیکن وہ ایک کامل انسان نہیں تھا، جیسا کہ بائبل ہمیں واضح طور پر بتاتی ہے سیلاب کے بعد جب اُس نے شراب نوشی کی تھی (حوالہ دیکھیں پیدائش9:20۔21)۔ ہم نوح کو معاف کر سکتے ہیں۔ وہ ایک دھشت ناک آزمائش میں سے گزرا تھا، اور شاید اُس نے سیلاب سے تعلق رکھتے ہوئے اپنے دھلا دینے والے خوف اور ڈراؤنے خوابوں کو شراب نوشی میں ڈبونے کی کوشش کی تھی۔ یا شاید یہ صرف ایک غلطی تھی، اور وہ نہیں جانتا تھا کہ شراب اُس پر کیا اثر ڈالے گی کیونکہ زمین کے اردگرد پانی کی چھتری کے سیلاب میں نیچے آ جانے سے پہلے کسی قسم کا کوئی انتشار نہیں تھا۔
دونوں ہی معاملوں میں، بائبل نوح کی ایک کامل انسان کی حیثیت سے عکاسی پیش نہیں کرتی۔ لیکن وہ تھا، جیسا کہ پیوریٹنز نے کہا، ’’گناہ میں ہونے کے باوجود راستباز ٹھہرایا گیا۔‘‘ وہ کامل نہیں تھا، لیکن وہ خُداوند کی نظروں قبل ازیں متجسم مسیح میں ایمان کے ذریعے سے راستباز ٹھہرایا گیا تھا۔ نوح کا مسیح میں ایمان تھا، جو کہ اُس کو خُدا کے فضل کے وسیلے سے بخشا گیا (حوالہ دیکھیں پیدائش6:8)۔ جب نوح نے مسیح میں ایمان کا مظاہرہ کیا تھا تو خُدا نے اُس کے ریکارڈ میں مسیح کی راستبازی کو شمار کر دیا یا اُس سے راستبازی منسوب کر دی۔ نئے عہد نامے میں بائبل اِس موضوع پر کچھ انتہائی شاندار بات کہتی ہے۔ مہربانی سے رومیوں چار باب، آیت پانچ کھولیں۔ مہربانی سے اِن آیات کو ذرا دھیان سے سُنیے۔
’’مگر جو شخص اپنے کام پر نہیں بلکہ بے دینوں کو راستباز ٹھہرانے والے خدا پر ایمان رکھتا ہے، اُس کا ایمان اُس کے لیے راستبازی گنا جاتا ہے۔ پس جس شخص کو خدا اُس کے کاموں کا لحاظ کیے بغیر راستباز ٹھہراتا ہے، داؤد بھی اُس کی نیک بختی کا ذکر اِس طرح کرتا ہے‘‘ (رومیوں 4:5۔6).
جب خُداوند نے نوح سے کہا، ’’میں نے اِس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے‘‘ (پیدائش7:1)، تو وہ کہہ رہا تھا اُس نے نوح کے گناہ نہیں دیکھے، کیونکہ اُس کے ریکارڈ میں ایمان کے وسیلے سے مسیح کی راستبازی ڈالی جا چکی تھی۔ یہ مذھبی سُدھار کا انتہائی نعرہ ہے – ’’سولا فائیڈ‘‘ – تنہا مسیح میں ایمان کے وسیلے سے نجات! نوح نیک ہونے کی وجہ سے بچایا نہیں گیا تھا۔ وہ قبل ازیں متجسم مسیح میں ایمان کے وسیلے سے بچایا گیا تھا!
اب خود کشتی ہی پر غور فرمائیں۔ جیسا کہ میں نے اِس صبح کہا تھا، وہ کشتی کوئی کشتی نہیں تھی۔ وہ بحری سفر کرنے کے لیے تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ وہ تو محض ایک لمبا سا کالا ڈبہ تھی جس کے دونوں سرے نوکدار تھے۔ وہ مکمل طورپر کالے تارکول سے چُھپی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر میگی Dr. McGee نے اُس کشتی پر یہ تبصرے پیش کیے:
وہ تاثر جو کشتی کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا ہوتا ہے وہ اِس قسم کا تاثر ہے جو چھوٹے بچوں کو سنڈے سکول کی تصویروں کے ذریعے سے اُنہیں پیش کیا جاتا ہے جو اِس کو ایک بادبانی بھاری کشتی جس میں گھر بسایا جا سکتا ہے کی طرح سے دیکھاتی ہیں۔ یہ تھا، میرے لیے، ایک انتہائی مضحکہ خیز قسم کا پہروپ۔ جو اُس کشتی کی جیسی کہ وہ تھی ویسی تصویر کے بجائے اُس کی مضحکہ خیزی تھی۔
آغاز کرنے کے لیے، کشتی کی تعمیر کے لیے ہدایات آشکارہ کرتی ہیں کہ وہ کافی بڑے سائز میں تھی۔ ’’کشتی کی لمبائی تین سو گز ہونی چاہیے۔‘‘ اگر ایک گز اٹھارہ انچوں کا ہے، تو یہ آپ کو کچھ نہ کچھ اندازہ دِلا دے گا کہ یہ کشتی کتنی لمبی تھی۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وہ کیسے اِس کو اُس زمانے میں معیاری کر پاتے۔ میرے دوست، ہم غار کے زمانے کے انسان کے ساتھ تو نہیں نمٹ رہے۔ ہم ایک انتہائی ذہین انسان کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں، کہ وہ ذہانت جو آج کی نسل کے پاس ہے وہ براہ راست نوح ہی سے آئی ہے، اور وہ ایک انتہائی ذہین شخص واقع ہوا تھا۔
نوح کوئی سمندر میں جانے والے جہاز بنانے نہیں جا رہا تھا جو پچاس فٹ بُلند لہروں کا مقابلہ کر پائے۔ وہ زندگی، جانوروں اور انسانوں کی زندگیوں کے لیے ایک جگہ تعمیر کر رہا تھا جس میں وہ وقت کی ایک بڑی مدت تک کے لیے ٹھہر پائیں – طوفان میں سے گزرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف سیلاب کے ختم ہو جانے تک انتظار کرنے کے لیے۔ اس وجہ کے لیے، کشتی میں بے شمار باتوں کی کمی لگے گی جو کہ آپ کو سمندر میں جانے والے ایک جہاز میں نظر آتی ہیں، اور یہ بات اِس کشتی میں بہت زیادہ جگہ پیدا کر دیتی ہے (جے ورنن میگی J. Vernon McGee، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن Thomas Nelson، 1983، جلد اوّل، صفحہ39)۔
وھٹکومب Whitcomb اور مورسMorris نے نشاندہی کی کہ بابل کے لوگوں کا ایک گز 19.8 انچ کا تھا اور مصری لوگوں کا ایک گز 20.65 انچ کا تھا۔ وھٹکومب Whitcomb اور مورسMorris ہمیں بتاتے ہیں کہ عبرانیوں کا ایک گز 20.4 انچ کا تھا (جان سی وھٹکومب John C. Whitcomb اور ھنری ایم۔ مورس Henry M. Morris، پیدائش کا سیلاب The Genesis Flood، پریسبائی ٹیرئین اور اصلاح شُدہ اشاعتی کمپنی Presbyterian and Reformed Publishing Company، 1993، صفحہ10)۔ یہ بات کشتی کو پانچ سو ایک فٹ لمبی بنا دیتی ہے۔ کوئین میری Queen Mary جو کہ لاس اینجلز کے قریب لانگ کے ساحلLong Beach پر لنگرانداز ہے، 1018 فٹ لمبی ہے، جو کہ نوح کی کشتی سے تقریبا دو گُنّا لمبی ہے۔ لیکن کوئین میری پر زیادہ تر جگہ انجنوں اور دوسری مشینوں نے گھیری ہوئی ہے۔ نوح کی کشتی پر کسی بھی قسم کا کوئی میکینکی آلہ نہیں تھا۔ وہ ساری کی ساری اندر سے کھوکھلی تھی جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کشتی پر لوگوں اور جانوروں کے لیے اصل جگہ غالباً موازنے کے قابل تھی، یا شاید کوئین میری سے بھی بہت بڑی¬ – جو کہ ایک انتہائی بڑا بحری جہاز ہے۔
ڈاکٹر وھٹکومب Whitcomb اور ڈاکٹر مورسMorris یہ بات کہنے میں حق بجانب تھے کہ کشتی کا شدید بڑا سائز عالمگیری سیلاب کی نشاندہی کرتا ہے:
نا صرف اِس قسم کی دیوقامتی وسعت والی کشتی ایک مقامی سیلاب کے لیے غیرضروری رہی ہوگی، بلکہ سرے سے ہی کسی کشتی کی ضرورت بھی نہیں رہی ہوگی! محض ایک مقامی سیلاب کے لیے، اِس قسم کا ایک جہاز بنانے کا تمام کا تمام طریقہ کار، جس میں ایک صدی سے زیادہ عرصہ کی منصوبہ بندی اور مشقت شامل ہے، ماسوائے قطعی طور پر کسی بیوقوفانہ اور غیرضروری بات کی حیثیت سے بمشکل ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ خُدا کے لیے یہ کس قدر زیادہ سمجھ داری والی بات رہی ہو گی کہ آنے والی تباہی کے بارے میں نوح کو خبردار کر دیتا تاکہ وہ ایک ایسے علاقے کی جانب نکل جاتا جو سیلاب سے متاثر نہیں ہونا ہوتا، بالکل جیسے لوط کو آسمان سے آگ برسنے سے پہلے صدوم میں سے نکالا گیا تھا۔ نا صرف یہی، بلکہ کشتی میں ایک سال تک کے لیے جمع رکھنے اور دیکھ بھال کیے جانے کے بغیر ہر قسم کے جانوروں کی ایک بہت بڑی تعداد اور یقینی طور پر پرندے، باآسانی وہاں سے باہر بھی نکالے جا سکتے تھے! تمام کی تمام کہانی مذاق پر مشتمل ہوتی اگر سیلاب مشرق قریب کے کسی حصے تک محدود ہوتا (جان سی۔ وھٹکومب John C. Whitcomb اور ھنری ایم۔ مورس Henry M. Morris، پیدائش کا سیلاب The Genesis Flood، پریسبائی ٹیرئین اور اصلاح شُدہ Presbyterian and Reformed، 1993، صفحہ 11)۔
کشتی کے بارے میں بے شمار باتیں ہیں جو آج ہمارے لیے شدید دلچسپی کا باعث ہونی چاہئیں۔ آج کی صبح ہم اُن باتوں میں سے تین پر غور کریں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم آج کی رات تین اور باتوں کے بارے میں سوچیں۔
I۔ پہلی بات، کشتی ہمیں کہتی ہے کہ بچائے جانے کے لیے آپ کو مسیح میں ہونا چاہیے۔
ہماری ابتدائی تلاوت ہمیں بتاتی ہے کہ
’’خداوند نے نوح سے کہا، تُو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا‘‘ (پیدائش 7:1).
اب پیدائش سات باب، آیت سولہ پر نظر ڈالیں:
’’خدا کے نُوح کو دیئے ہُوئے حکم کے مطابق جو جاندار اندر آئے وہ نر اور مادہ اندر آئے تھے۔ اور خداوند نے اُس کے لیے کشتی کا دروازہ بند کر دیا‘‘ (پیدائش 7:16).
ساتویں آیت پر بھی غور کریں:
’’اور نوح اور اُس کے بیٹے اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں طُوفان کے پانی سے بچنے کے لیے کشتی میں اندر داخل ہو گئے‘‘ (پیدائش 7:7).
نوح اور اُس کے خاندان نے وہ کیا جو خُدا نے اُنہیں کرنے کے لیے کہا تھا (پیدائش7:1)۔ وہ کشتی میں اندر چلے آئے تھے۔ اور آپ کو مسیح میں آنا چاہیے۔ بائبل کہتی ہے،
’’جو بیٹے [یسوع] پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا…‘‘ (یوحنا3:18)۔
جس لفظ نے ’’پرon‘‘ کا ترجمہ کیا وہ ’’اییس eis‘‘ ہے۔ ڈاکٹر ژوڈھیاٹیس Dr. Zodhiates کے مطابق، اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’ایک جگہ یا چیز میں حرکت کا بنیادی خیال۔‘‘ آپ کو ایمان کے وسیلے سے یسوع میں آنا چاہیے – اوپر آسمان میں، خُداوند کے داھنے ہاتھ پر۔ بالکل جیسے نوح کشتی میں اندر داخل ہوا تھا آپ کو مسیح میں آ جانا چاہیے۔ ’’جو اُس [پر] ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا…‘‘ (یوحنا3:18)۔ بے شمار مرتبہ بائبل اُن کے بارے میں بات کرتی ہے جو ’’مسیح میں‘‘ ہیں۔ یہاں پر بارہ مشہور و معروف آیات ہیں:
’’اِس لیے اب جو مسیح یسوع میں ہیں اب اُن پر سزا کا حکم نہیں…‘‘ (رومیوں8:1)
’’اِس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے…‘‘ (2کرنتھیوں5:17)۔
پولوس اُن کے بارے میں بات کرتا ہے جو ’’مسیح میں تھے‘‘ (رومیوں16:7)۔
کیا آپ مسیح میں ہیں؟ آپ کو ایمان کے وسیلے سے اُس [یسوع] میں آنا چاہیے بالکل جیسے نوح کشتی میں اندر چلا آیا تھا۔ یسوع نے کہا،
دروازہ میں ہوں: اگر کوئی میرے ذریعے اندر داخل ہو تو نجات پائے گا‘‘ (یوحنا10:9)۔
اِس بات کو کیسے واضح کروں میں بالکل دُرست طریقے سے تو نہیں جانتا، لیکن مذھبی خدمت میں سب سے زیادہ دشوار گزار باتوں میں سے ایک لوگوں کو بظاہر اِس سادہ سے خیال پر گرفت دلانا ہوتا ہے: مسیح کے پاس آئیں۔ مسیح میں آئیں!
آئیے مجھے اِس کو اِس طریقے سے بتانے دیجیے۔ فرض کریں آپ نوح کے زمانے میں زندہ تھے اور اُس کو منادی کرتے ہوئے سُنا تھا کہ سیلاب آ رہا تھا۔ اور آپ نے اُس کو کہتے ہوئے سُنا تھا کہ بچائے جانے کے لیے آپ کا کشتی میں اندر داخل ہونا ضروری تھا۔ ’’جی ہاں،‘‘ آپ کہتے ہیں، ’’یہ سچ ہے۔ انصاف ہونے والا ہے۔ جی ہاں، یہ سچ ہے، صرف کشتی ہی مجھے بچا سکتی ہے۔ میں اُس میں یقین کرتا ہوں۔‘‘ کیا آپ سیلاب سے بچا لیے گئے ہوتے؟ بِلاشُبہ نہیں! آپ کو اصل میں اُٹھنا ہوگا اور بچائے جانے کے لیے کشتی میں اندر داخل ہونا ہوگا – صرف یقین نہیں کرنا ہوگا کہ یہ آپ کو بچا لے گی – بلکہ اِس میں داخل ہونا ہوگا! اور یہ ہے جو میں آپ کو کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں! وہاں پر بیٹھے مت رہیے اور یقین کریں کہ مسیح آپ کو بچا سکتا ہے! ایمان کے وسیلے سے مسیح میں آئیں! یسوع نے کہا:
’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔
جی ہاں، کشتی کہتی ہے کہ آپ کو مسیح میں آنا چاہیے۔
II۔ دوسری بات، کشتی کہتی ہے کہ آپ کو گرجہ گھر، اُس مسیح کے بدن میں ضرور آنا چاہیے۔
مجھے احساس ہے کہ بے شمار لوگ مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے۔ بے شمار لوگ آج مقامی گرجہ گھر کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا اصل سے کم سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ غلطی پر ہیں۔ کشتی ناصرف مسیح کی ایک شبیہہ ہے۔ یہ ایک تشبیہہ بھی ہے یا نئے عہد نامے کی ایک مقامی کلیسیا کی تصویر بھی ہے۔
اب، آپ گرجہ گھر میں کیسے آئیں ہیں؟ 1کرنتھیوں، بارہ باب، ستائیسویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں،
’’پس تم مل کر اُس [مسیح] کا بدن ہو فرداً فرداً اُس کے عضا ہو۔ اور خُدا نے کلیسیا میں بعض اشخاص کو الگ الگ رُتبہ دیا ہے… ‘‘ (1کرنتھیوں12:27۔28)۔
ہم یہیں پر رُک جائیں گے۔ میں صرف اِس حقیقت کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ اصطلاح ’’ اُس [مسیح] کا بدن‘‘ کلیسیا کی جانب حوالہ دیتا ہے، یسوع میں ایمان رکھنے والوں کا مقامی گروہ۔ اب آیت تیرہ کو سُنیں:
’’سب نے ایک ہی روح کےوسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ پایا…‘‘ (1کرنتھیوں12:13)۔
آپ مقامی کلیسیا میں پاک روح کے وسیلے سے بپتسمہ پاتے ہیں۔ اِس طرح سے ہی آپ گرجہ گھر کے ایک حقیقی جیتے جاگتے رُکن بنتے ہیں!
اب، یہ آپ کا کام نہیں ہے کہ اِس بارے میں فکر کریں وہ ہوگا کیسے۔ آپ کا کام ہے یسوع کے پاس آنا۔ جب آپ یسوع کے پاس آتے ہیں، تو پاک روح خودبخود آپ کو کلیسیا میں شامل کر دیتا ہے!
مہربانی سے پیدائش، سات باب، آیت سولہ کھولیں۔ جب نوح کشتی میں اندر داخل ہوا تو بائبل کہتی ہے، ’’خُداوند نے اُس کے لیے کشتی کا دروازہ اندر سے بند کر دیا‘‘ (پیدائش7:16)۔ یہ خُدا کے پاک روح کے بارے میں بات کرتی ہے جو آپ کو کلیسیا میں روحانی طور پر بدن میں بپتسمہ کے ذریعے سے بند کرتا ہے! جی ہاں، کشتی مسیح کے ساتھ ملاپ اور مقامی کلیسیا کے ساتھ ملاپ کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اگر آپ کو خُداوند کے ذریعے سے مسیح کے ساتھ اور مقامی کلیسیا کے ساتھ ’’اندر بند‘‘ نہیں کیا جاتا تو آپ فیصلے میں فنا ہو جائیں گے۔ اگر آپ کو ’’اندر بند‘‘ کر دیا جاتا ہے تو آپ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یہ اُن کے دائمی تحفظ کے بارے میں بات کرتی ہے جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ جو مسیح کی سُنتے ہیں کبھی بھی فنا نہیں ہونگے!
III۔ تیسری بات، کشتی کہتی ہے کہ آپ کو تنگ دروازے سے اندر داخل ہونا چاہیے۔
نوح کشتی میں کیسے داخل ہوا تھا؟ پیدائش چھ باب، آیت سولہ کھولیں:
’’… تو کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا…‘‘ (پیدائش6:16)۔
’’دروازہ میں ہوں: اگر کوئی میرے ذریعے سے اندر داخل ہو تو نجات پائے گا…‘‘ (یوحنا10:9)۔ نوح دروازہ کے ذریعے سے کشتی میں داخل ہوا تھا۔ آپ کو مسیح کے ذریعے سے نجات میں داخل ہونا چاہیے۔ یسوع نے کہا، ’’تو تنگ [پتلے] دروازے سے داخل ہو‘‘ (متی7:13)۔
دوبارہ، مسیح نے کہا:
’’تنگ دروازے سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو: کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا13:24)۔
بالکل ایسا ہی نوح کے زمانے میں ہوا تھا۔ پیدائش سات باب، آیت چار پر نظر ڈالیں۔ خُداوند نے کہا:
’’میں سات دِن کے بعد زمین پر پانی برساؤں گا…‘‘ (پیدائش7:4)۔
دسویں آیت پر بھی غور کریں:
’’اور سات دِن کے بعد طوفان کا پانی زمین پر آ گیا‘‘ (پیدائش7:10)۔
نوح کشتی میں داخل ہوا تھا۔ خُدا نے اُس کے لیے کشتی کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ دروازہ بند تھا۔ سات دِن گزر گئے اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر انصاف شروع ہوا۔ کوئی بھی کشتی میں نہیں داخل ہوا تھا! اب نہایت تاخیر ہو چکی تھی!
میں تقریباً لوگوں کو چیختے ہوئے سُن سکتا ہوں، ’’ہمیں اندر آنے دے! ہمیں اندر آنے دے!‘‘ لیکن اب نہایت تاخیر ہو چکی تھی!
’’تنگ دروازے سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو: کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا13:24)۔
یسوع مسیح کے پاس ابھی آئیں – اِس سے پہلے کہ ہمیشہ کے لیے نہایت تاخیر ہو جائے!
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: پیدائش6:5۔8 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’اگر آپ نےزیادہ دیر سُستی دکھائی If You Linger Too Long‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1985)۔
لُبِ لُباب ںوح نے فضل پایا! (پیدائش کی کتاب پر واعظ # 19) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اور خداوند نے نوح سے کہا، تُو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا کیونکہ میں نے اِس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے‘‘ (پیدائش7:1) . (پیدائش6:8؛ عبرانیوں11:7؛ یدائش9:20۔21؛ رومیوں4:5۔6) I. کشتی ہمیں کہتی ہے کہ بچائے جانے کے لیے آپ کو مسیح میں ہونا چاہیے، II. کشتی ہمیں کہتی ہے کہ آپ کو گرجہ گھر، اُس مسیح کے بدن میں ضرور آنا چاہیے۔ 1کرنتھیوں12:27۔28، 13؛ پیدائش7:16 . III. کشتی کہتی ہے کہ آپ کو تنگ دروازے سے اندر داخل ہونا چاہیے، |