Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

سیلاب کی روایات

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 18)
TRADITIONS OF THE FLOOD
(SERMON #18 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

خُداوند کے دِن کی صبح دیا گیا ایک واعظ، 26 اگست، 2007
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Lord’s Day Morning, August 26, 2007
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39).

بے شمار نئے انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے لوگ ہمارے زمانے میں عظیم سیلاب کی بے قدری کرتے ہیں۔ وہ بچوں کے لیے ایسی کہانیاں بناتے ہیں جس میں ایک خوبصورت کشتی کی خوش و خرم جانوروں اور پرندوں کے ساتھ شاندار تصاویر ہوتی ہیں۔ وہ بچے جو اِس قسم کی باتیں سنڈے سکول میں پڑھتے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو سیلاب کے بارے میں ایک پریوں کی کہانی کے طور پر سوچتے ہیں، جیسا کہ ہینسل اور گریٹل Hansel and Gretel، گُلیور کے سفر Gulliver’s Travels، یا ھیری پوٹر Harry Potter کی کہانی۔ میرے خیال میں نوح کی کشتی کے بارے میں وہ بیوقوفانہ کہانی کی کتابیں دورِ جدید کے عناصر میں سے ایک ہیں جو سنجیدہ مسیحیت کے خلاف لوگوں میں بدگمانی پیدا کرتی ہیں۔ اِس طرح کی کسی بھی قسم کی احمقانہ ’’ڈیزنی کی طرز Disneyfied‘‘ پر بنی ہوئی کتابوں سے ہمارا دور ہی رہنا بہترہے!

عظیم سیلاب اور نوح کی کشتی کا واقعہ نہایت ہی سنجیدہ اور شدید گھمبیر ہے۔ وہ اخلاقی خرابی جو سیلاب کی ہلاکت کی جانب ہماری رہنمائی کرتی ہے اُس پر گہرائی میں بات کرنا ہمارے لیے نہایت گھنؤنا ہے۔ وہ ناقابلِ تصور دھشت جو خود سیلاب کے ساتھ منسلک ہےاُسے نوجوان بچوں کے ذہنوں میں بھڑکانے والی حقیقت کے ساتھ نہیں لانا چاہیے۔ سیلاب کا واقعہ بڑوں کے سمجھ میں آنے والی بات ہے جس کو صرف بالغ ذہن ہی سمجھ سکتے ہیں اور سراھا سکتے ہیں۔ نہایت نوعمر لوگوں کی مکمل طور پر سمجھ میں آ جانے کے لیے بائبل بے شمار موضوعات پر نہایت سنجیدگی سے بات کرتی ہے سیلاب اورکشتی اُن موضوعات میں سے ایک ہیں۔

جی ہاں، میں یقین کرتا ہوں کہ واقعی میں ایک کشتی تھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے نسل انسانی کی ہر شاخ کے پاس سیلاب کا واقعہ ہے۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ یہ قدیم واقعات خود نوح کے زمانے سے، نہایت قدیم زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر جان واروِک مونٹگمری Dr. John Warwick Montgomery نے کہا:

ساری نسل انسانی کی اچھی طرح قریبی تباہی… اُن کے بچوں کے سپرد کی جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، نتیجے میں، اِس قدر زیادہ ہولناکی سے بھرپور اثرانگیزی کے ساتھ کہ اُن کی بعد میں آنے والی موجودہ زمانے کی نسلیں اِسے ابھی تک بُھلا ہی نہیں پائی ہیں۔ یہ دکھائی دیتی ہے… نہایت دور دراز کے ممالک میں اور سب سے زیادہ بربریت والے قبیلوں میں (جان واروِک مونٹگمری، پی ایچ۔ ڈی۔ John Warwick Montgomery, Ph. D.، نوح کی کشتی کے لیے مہم The Quest of Noah’s Ark، بیت عنیاہ گھر Bethany House، 1974، صفحہ25)۔

ڈاکٹر ھنری ایچ۔ ہالے Dr. Henry H. Halley، اپنی کتاب ہالے کی بائبل ہینڈبُک Halley’s Bible Handbook میں ہمیں بتاتے ہیں کہ قدیم زمانے کی لگ بھگ ہر تہذیب کے پاس اُس کی قدیم روایات میں سیلاب کی یاداشتیں ہیں۔ اِن میں شامل ہیں،

بابلیوں کی، اُسوریوں کی، مصریوں کی، فارسیوں کی، ہندوؤں کی، یونانیوں کی، چینیوں کی، فرائگیئینز Phrygians کی، فجّی جزیروں کی، ایسکوئیماکس Esquimaux کی، امریکہ کے اصلی باشندوں کی، برازیلیوں کی، پیرو کے لوگوں کی Peruvians، [ہندوستان سے] ہندوؤں کی، اور بلاشبہ ساری نسل انسانی کی ہر شاخ کی، سامیوں کی، آریائی لوگوں کی، ٹیوریوں Turanian کی – سب کے پاس ایک بہت شدید طُغیانی کی روایات ہیں جس نے ساری نوع انسانی کو [پانی میں] تباہ کر دیا، ماسوائے ایک خاندان کے، اور جس نے اِن تمام نسلوں کے آباؤاِجداد کی یاداشت پر اِس سے پہلے کہ وہ جُدا جُدا ہوتے خود اَن مٹ نقش تحریر کر دیا (ھنری ایچ۔ ہالےHenry H. Halley، ہالے کی بائبل کی ہینڈبُک Halley’s Bible Handbook، ریجنسی Regency، دوبارہ اشاعت1989، صفحات75۔76)۔

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان نے اِن بے شمار قدیم سیلاب کی روایات کی ایک باآسانی پڑھی جانے والی فہرست پیش کی:

     سیلاب کے بارے میں ایک مصری طلسماتی کہانی کہتی ہے کہ بہت عرصہ پہلے خُداؤں نے زمین کو ایک بہت بڑے سیلاب سے مقدس یعنی پاک کیا تھا جس سے چند ایک چرواہے ایک بُلند پہاڑ پر چڑھنے سے بچ نکلے تھے۔
     مشرقی انڈین روایت بتاتی ہے کہ ایک عظیم اُستاد منوManu کو آنے والے سیلاب کے بارے میں ایک مچھلی کے ذریعے سے خبردار کیا گیا تھا اور اُس کو ایک پانی کا جہاز تعمیر کرنے کا جس میں وہ محفوظ رہ سکے حکم دیا گیا تھا۔ منو نے پھر اپنے جہاز پر سے ایک رسّے کو مچھلی کے سر پر سینگ کے ساتھ باندھا اور یوں وہ کھینچ کر انڈیا کے ایک پہاڑ تک لے گئی جہاں پر رسّے کو ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا۔
     چینی تہذیب سیلاب کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتی ہے، ’’اور اب آسمان کے ستون ٹوٹ گئے تھے، زمین کی بنیادیں لرز اُٹھیں، سورج اور ستارے غائب ہوگئے، زمین پھٹ گئی اور اِسی میں سے پانی نے نکل کر زمین کو ڈھانپ لیا اور سیلاب آ گیا۔ یہ تمام بُرائیاں ایک شخص کے آسمان کے خلاف بغاوت کرنے سے آئیں تھی، کائنات کی اعلٰی ترین درجے کی قوت کی توھین کرنے سے آئیں تھی۔‘‘
     یونانیوں نے [کہا] کہ زیوس Zeus خُدا ناراض ہوا تھا اور زمین کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پرومیتھیئس Prometheus، جس کو انبیانہ پیش بینی کا تحفہ بخشا گیا تھا اُس نے آنے والے سیلاب کے بارے میں اپنے بیٹے ڈیوکیلئین Deucalion کو خبردار کیا تھا۔ ڈیوکیلئین نے پھر ایک کشتی تعمیر کی تھی جو بالاآخر تھیسلے میں ساحل پر جا اُتری تھی۔ وہاں پر اُس نے اور اُس کی بیوی پائیرا Pyrrah (جو واحد بچنے والے تھے) نے زمین پر دوبارہ آبادی بڑھائی…
     برطانیہ میں ایک قدیم کاہن جو مسیحیت کے زمانے سے پہلے کا تھا اُس کی کہانی ہے کہ انسان کی بدکاری کی وجہ سے اُس حاکم اعلٰی نے سیلاب بھیجا، جب سمندر کی لہروں نے خود کو برطانیہ کے جزیرے کی تمام اطراف میں بُلند کر لیا تھا۔ مگر منتخب کمپنی کے ساتھ ایک بزرگ نے ایک مضبوط بحری جہاز میں پناہ ڈھونڈ لی، سیلاب سے بچ نکلا اور زمین پر دوبارہ آبادی کو بڑھایا۔
     امریکی انڈینز کے درمیان، سیلاب کی روایات ہر قبیلے میں پائی جاتی ہے۔ شمالی، وسطی اور مغربی امریکہ میں 120 قبائل کے درمیان کوئی ایک قبیلہ بھی ایسا نہیں ہے جس کے پاس ایک بہت بڑی طُغیانی کی کہانی نہ ہو جس میں تین سے آٹھ تک لوگ بچ نکلے تھے اور ایک بُلند پہاڑ پر پڑاؤ ڈالا تھا…
     بابل کے لوگوں کی روایت جو چوتھی صدی قبل از مسیح کی تاریخوں میں پائی جاتی ہے، بیان کرتی ہے کہ کسی زمانے میں زمین کو ایک بہت بڑے سیلاب نے ڈھانپ لیا تھا۔ بادشاہ آرڈیٹز Ardates کو کرونوس Cronos خُدا نے خبردار کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ ایک 3,000 فٹ لمبا اور 1,200 فٹ چوڑا بحری جہاز تعمیر کرے، جس میں بادشاہ، کچھ دوست اور جانوروں کی ایک بہت بڑی تعداد، تمام ضروری خوراک کے ساتھ سیلاب میں سے بچ نکلے۔ یہ روایت پرندوں کے بھیجے جانے جو اُس کے پاس دوبارہ واپس آئے تھے کو بھی بیان کرتی ہے؛ مگر تیسری مرتبہ وہ نہیں آئے تھے۔ وہ بحری جہاز آرمینیا کے پہاڑوں پر آ کر ٹھہرا تھا۔ تاہم، اُنہیں واپس بابل جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر کشتی کے باقیات (ایسا کہانی کہتی ہے) اب بھی کورسائیرینعئین Corcyrenian کے پہاڑوں پر موجود ہیں۔ بابل کے لوگوں کی روایت وسعت، فرشوں، کمروں، اور منزلوں سے تعلق رکھتے ہوئے بہت زیادہ تفصیل بیان کرتی ہے، جو رائے دیتی ہے کہ یہ شاید بائبل میں بیان کی گئی تفصیل کی بدنُما اور بگڑی ہوئی ذرا سے تبدیل شُدہ نقل ہو (ایم۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، نوح کا زمانہ The Days of Noah، ژونڈروان Zondervan، 1963، صفحات 152۔154)۔

یہ روایات ’’ثابت‘‘ نہیں کرتی کہ بائبل کا واقعہ سچا ہے۔ ہمیں بائبل کے واقعے کے لیے کسی بیرونی ثبوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ پیدائش کی کتاب الٰہی طور پر نازل کیا گیا خُدا کا کلام ہے۔ پھر بھی وہ روایات یہ ضرور ظاہر کرتی ہیں کہ قدیم زمانے کی تاریخ میں وہ عظیم سیلاب شدت کے ساتھ جڑیں پھیلائے ہوئے تھا۔

اب، اِس صبح، میں چاہتا ہوں کہ ہم کشتی کے بارے میں سوچیں – نوح کی کشتی۔ وہ کوئی چھوٹی کشتی نہیں تھی۔ وہ ایک بہت بڑی کشتیark تھی۔ عبرانی لفظ نے ’’بہت بڑی کشتی ark‘‘ کا ترجمہ ’’تیباہ tebah‘‘ کیا۔ اِس کا مطلب ایک صندوق یا ڈبا ہوتا ہے۔ یہ تارکول pitch سے ڈھکی ہوئی تھی جو گہرے سیاہ رنگ کا تھا۔ وہ بہت بڑی کشتی ایک کالا رنگ کیے ہوئے بہت بڑے ڈبے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔ وہ سمندری سفر کرنے کے لیے تعمیر نہیں کی گئی تھی، بلکہ محض طوفان میں تیرتے رہنے کے بنائی گئی تھی۔ وہ بہت بڑی کشتی ایک تشبیہہ یا ایک مثال ہے۔ ہم نوح کی کشتی کا مطالعہ کرنے سے بے شمار بائبل کی سچائیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

I۔ پہلی بات، وہ کشتی بچائے جانے کے بارے میں بات کرتی ہے۔

مہربانی سے اپنی بائبل 1پطرس، تین باب، آیت بیس کے لیے کھولیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ آیت کے دوسرے آدھے حصے پر غور کریں:

’’… نُوح کے زمانہ میں خدا نے صبر کرکے اُنہیں توبہ کرنے کا موقع بخشا تھا۔ اُس وقت نُوح کشتی تیار کر رہا تھا [جب کشتی تعمیر کی جا رہی تھی] جس میں صرف آٹھ اشخاص سوار ہو کر پانی سے صحیح سلامت بچ نکلے تھے‘‘ (1۔ پطرس 3:20).

اِس آیت سے ہم دو بہت بڑی سچائیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

(1) ’’نوح کے زمانہ میں خُدا نے صبر کر کے اُنہیں توبہ کرنے کا موقع بخشا تھا۔‘‘ زمین پر اپنا فیصلہ نازل کرنے سے پہلے خُدا نے نہایت صبر سے نوح کے کشتی تعمیر کرنے کا انتظار کیا تھا۔ خُدا نے کہا تھا کہ انسان کی ’’عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی‘‘ (پیدائش6:3)۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ نوح کو کشتی تعمیر کرنے میں 120 سال لگے تھے۔ اِس عرصے کے دوران نوح نے بے دینوں کی دُنیا کو منادی کی تھی (حوالہ دیکھیں 2پطرس2:5)۔ غالباً کئی ہزار لوگ اِس بہت بڑی کشتی کو تعمیر ہوتا ہوا دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ نوح نے اُنہیں آنے والے سیلاب اور نجات کے لیے اُن کی ضرورت کے بارے میں منادی کی تھی۔ ماسوائے اُس کے اپنے خاندان کے کسی نے بھی اُس کی منادی پر توجہ نہیں دی تھی، مگر خُدا نے اپنا فیصلہ نازل کرنے سے پہلے صبر سے انتظار کیا تھا۔ یسوع نے کہا، ’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا، ایسے ہی ابنِ آدم کی آمد بھی ہوگی‘‘ (متی24:37)۔ آج زیادہ تر لوگ نجات کے پیغام سے اتنے ہی لاتعلق ہیں جتنے کہ وہ نوح کے دِنوں میں تھے۔

(2) جبکہ کچھ [چند ایک] ہی، یعنی کہ، پانی [میں] سے آٹھ جانیں ہی بچ پائی تھیں۔‘‘ صرف چند ایک لوگ ہی بچ پائے تھے۔ یسوع نے ہمیں متی 24:37 میں بتایا کہ زمانے کا آخر بھی نوح کے دِنوں جیسا ہوگا۔ تب صرف چند ایک لوگ ہی نجات پائیں گے اور چند ایک ہی اب سچے طور پر نجات پاتے ہیں۔ نجات پائے جانے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ دوسری باتوں کے درمیان، اِس کا مطلب ہلاکت سے بچنا ہوتا ہے۔ حالانکہ مستقبل میں دُنیا کی ہلاکت پانی سے نہیں ہوگی، اِس کا فیصلہ کیا جائے گا اور اُس آنے والے فیصلے سے چند ایک ہی بچ پائیں گے، بالکل جیسے صرف چند ایک ہی نوح کے دِنوں میں بچ پائے تھے۔ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اُن میں سے ایک ہوں جو نجات پاتے ہیں جب خُدا ہماری دُنیا کا فیصلہ کرتا ہے۔

جی ہاں، وہ کشتی نجات کے بارے میں بات کرتی ہے۔ وہ جو کشتی میں تھے نجات پا گئے تھے۔ وہ جو کشتی میں نہیں تھے کھو گئے تھے۔ 2پطرس، باب دو، آیت پانچ کھولیں:

’’اور[خدا نے] پُرانے زمانے کے لوگوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نُوح کو جو آٹھواں شخص تھا اور سات دیگر اشخاص کو بچا لیا‘‘ (2۔ پطرس 2:5).

وہ کشتی یسوع کی ایک تصویر ہے۔ لوگوں کے بچائے جانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اُنہیں کشتی میں سوار ہونا تھا۔ یسوع نے کہا، ’’میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14:6)۔ آج بچائے جانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے – اور وہ یسوع مسیح، خُدا کے بیٹے کے وسیلہ سے ہے۔

لوگ بلاشک وشبہ سوچتے تھے کہ نوح کے زمانے میں بچائے جانے کے لیے بے شمار راستے تھے، مگر وہ غلط تھے۔ بچائے جانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ تھا، اور وہ کشتی میں سوار ہونے کے وسیلہ سے تھا۔ یہ نجات کے لیے یسوع کے پاس آنے کی تصویر ہے۔

اپنی بائبل پیدائش، چھے باب، آیت سولہ کے لیے کھولیں:

’’تُو اُس کی چھت سے لے کر ہاتھ بھر نیچے تک روشندان بنانا۔ کشتی کے اندر تین درجے بنانا … اور کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا‘‘ (پیدائش 6:16).

خُدا نے کہا، ’’کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا۔‘‘ کشتی کے لیے صرف ایک ہی دروازہ تھا۔

’’چنانچہ یسُوع نے اُن سے پھر کہا، میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ بھیڑوں کا دروازہ میں ہُوں…‘‘ (یوحنا 10:7).

نجات کے لیے دروازہ یسوع مسیح ہی ہے۔ یسوع نے دوبارہ کہا:

’’دروازہ میں ہوں: اگر کوئی میرے وسیلہ سے داخل ہو تو نجات پائے گا‘‘ (یوحنا 10:9).

اگر آپ بچایا جانا چاہتے ہیں تو نجات کے لیے وہ واحد دروازہ یسوع مسیح ہے۔ آپ کو اُسی کے ذریعے سے نجات میں داخل ہونا چاہیے۔ وہاں کشتی میں صرف ایک ہی دروازہ تھا۔ اُنہیں اُسی ایک دروازے میں سے گزر کر آنا تھا یا ہلاکت میں ختم ہو جانا تھا۔ اور آپ کو یسوع خُدا کے بیٹے میں آنا چاہیے ورنہ آپ ختم ہو جائیں گے۔ جی ہاں، کشتی نجات کے بارے میں بات کرتی ہے – یسوع مسیح کے ذریعے سے۔

II۔ دوسری بات، وہ کشتی خُدائی خوف کے بارے میں بات کرتی ہے۔

عبرانیوں، گیارہ باب، آیت سات میں ہم پڑھتے ہیں،

’’ایمان ہی سے نُوح نے خوف سے ڈر کر اُن باتوں کے بارے میں جو مُستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی … اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا‘‘ (عبرانیوں 11:7).

سادہ سی انگریزی میں، نوح خوفزدہ تھا جب اُس نے کشتی بنائی۔ اور اُس کے خوف نے اُس کو تحریک دی تھی کہ وہ احتیاط کے ساتھ کشتی کی تعمیر کرے۔ وہ غلطی کرنے، اور بچانے نہ جانے اور اپنے خاندان کو بچا نہ پانے سے خوفزدہ تھا۔ رات میں اُس کے ذہن پر گناہ کی سزا اور نجات کے لیے ضرورت بہت بھاری وزن ڈالتی تھی۔ ہر صبح وہ اُٹھتا تھا اور ’’خوف سے ڈر جاتا‘‘ تھا جب وہ کشتی پر کام کرنے کے لیے جاتا۔ وہ کشتی، آنے والی ہلاکت کے پیغام، اپنے خاندان کو بچانے کی ذمہ داری، وہ منادی جو اُس نے کی – اِس تمام نے اُس کو خوف سے بھر دیا تھا جب وہ اُس بڑی کشتی پر نگاہ ڈالتا جو وہ تعمیر کر رہا تھا۔

اب سارے کلام پاک میں خُدائی خوف سے تعلق رکھتے ہوئے ایک پیغام ہے۔

1. آدم سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’میں نے باغ میں تیری آواز سُنی اور میں ڈر گیا‘‘ (پیدائش3:10).

2. ابراھام سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’جب سورج ڈوبنے لگا تو ابرام پر گہری نیند طاری ہوگئی اور دیکھو، بڑی ہولناک تاریکی اُس پر چھا گئی‘‘ (پیدائش 15:12).

3. سارہ سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’تب سارہ نے جھوٹ بولا اور انکار کیا کہ میں تو نہیں ہنسی؛ کیونکہ وہ خوفزدہ تھی‘‘ (پیدائش 18:15).

4. موسیٰ سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’اور پھر اُس نے کہا کہ میں تیرے باپ کا خدا ابرہام کا خدا اِضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہُوں۔ اِس پر مُوسٰی نے اپنا منہ چھپا لیا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا۔‘‘ (خروج 3:6).

5. داؤد سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’اور اُس دِن داؤد خداوند سے ڈر گیا‘‘ (2۔ سموئیل 6:9).

6. کورنیلئیس Cornelius سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’کرنیلیس نے خوفزدہ ہوکر اُس کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا، اَے خداوند! کیا بات ہے؟‘‘ (اعمال 10:4).

7. پولوس سے تعلق رکھتے ہوئے،

’’ہم خداوند کے خوف کو سامنے رکھ کر دُوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:11).

اُن آیات میں سے ہر ایک کا ترجمہ نئی امریکی معیاری بائبل NASV میں اتنی ہی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے جتنا کہ کنگ جیمس بائبل میں کیا گیا ہے۔ اِس کے باوجود جب دور حاضرہ کے ترجمان عبرانیوں11:7 جیسی آیات پر پہنچتے ہیں، وہ ترجمہ پر ’’پانی ڈال‘‘ دیتے ہیں اور اُنہیں جتنا ممکن ہو سکتا ہے کمزور کرتے دکھائی دیتے ہیں! مگر بائبل کہتی ہے کہ آدم خوفزدہ تھا۔ بائبل کہتی ہے کہ ابراہام پر ’’بہت بڑی تاریکی کی ایک دھشت‘‘ چھا گئی تھی۔ سارہ، موسیٰ، داؤد اور کورنیلیئس خوفزدہ تھے جب وہ خدا کی حضوری میں تھے۔ اور پولوس نے ’’خُدا کے خوف‘‘ کے بارے میں بتایا۔

یہ شاید اُن کا بخوبی سچی تبدیلی کی فطرت کو نا سمجھنے کا نتیجہ رہا ہو۔ اپنے مشہور حمد و ثنا کے گیت ’’حیرت انگیز فضل Amazing Grace‘‘ میں جان نیوٹن John Newton نے لکھا:

یہ فضل ہی تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا،
اور فضل نے ہی میرے تمام خوف ختم کیے۔
      (’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

وہ شخص جس کے پاس ہلاکت کا کوئی خوف نہیں اور خُدا کا کوئی خوف نہیں کبھی بھی مسیح میں داخل نہیں ہو پائے گا – جو ہماری نجات کی کشتی ہے۔ نوح کے دِنوں میں لوگ کشتی میں داخل نہیں ہوئے تھے کیونکہ اُنہیں خوف نہیں تھا۔ نوح کشتی میں داخل ہوا تھا کیونکہ اُسے خوف محسوس ہوتا تھا۔ بائبل واضح طور پر کہتی ہے،

’’نُوح نے خوف سے ڈر کر اُن باتوں کے بارے میں جو مُستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا‘‘ (عبرانیوں 11:7).

کیا آپ آنیوالے فیصلے سے خوفزدہ ہیں؟ کیا آپ خُدا سے ڈرتے ہیں؟ وہ کشتی خُدائی خوف کے بارے میں بتاتی ہے۔

III۔ تیسری بات، وہ کشتی آنے والی ہلاکت کے بارے میں بتاتی ہے۔

دوسرا پطرس، تیسرا باب، تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں،

’’سب سے پہلے تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آخری دِنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے اور تمہاری ہنسی اُڑائیں گے اور کہیں گے کہ مسیح کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ ہمارے آباواجداد مَر چُکے اور تب سے اب تک سب کچھ ویسا ہی چلا آرہا ہے جیسا کہ دُنیا کے پیدا ہونے کے وقت تھا۔ وہ جان بوجھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ آسمان خدا کے حکم کے مطابق زمانہ قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے پانی ہی سے اُس وقت کی دُنیا ڈوب کر تباہ ہوگئی‘‘ (2۔ پطرس 3:3۔6).

کلام پاک کا یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے زمانے کی بے دین دُنیا ’’جان بوجھ کر بھول جاتی‘‘ ہے اُس تباہی کے بارے میں جو اُس وقت رونما ہوئی تھی جب نوح کے دِنوں میں دُنیا پانی سے بھر گئی تھی۔ ’’پانی ہی سے اُس وقت کی دُنیا ڈوب کر تباہ ہو گئی‘‘ (2پطرس3:6)۔

ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا، ’’اِس بات کا بے انتہا ثبوت ہے کہ کچھ نہ کچھ بہت بڑی آفت وقوع پزیر ہوئی تھی اور کہ تمام کی تمام باتیں ویسے ہی جاری نہیں رہی تھیں جیسے کہ وہ تخلیق کے شروع سے تھیں‘‘ (جے۔ ورنن میگی J. Vernon McGee، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن، 1983، جلد پنجم، صفحہ747)۔

پھر، کلام پاک کا یہ حوالہ آیت سات میں ہمیں بتاتے ہوئے جاری رہتا ہے:

’’لیکن وہ آسمان اور زمین جو اب ہیں اُسی خُدا کے حکم سے محفوظ ہیں [محفوظ کیے گئے ہیں] جو آگ میں جلائے جانے کے لیے بیدینوں کی عدالت اور ہلاکت کے دِن تک باقی رہیں گے‘‘ (2۔ پطرس 3:7).

بالکل جیسے نوح کے زمانے میں دُنیا پانی سے تباہ کی گئی تھی ویسے ہی مستقبل میں خُدا کے فیصلے کی آگ سے تباہ ہو جائے گی۔

بے شمار لوگ ایٹمی جنگ کی آگ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اتنے ہی فکر مند جتنے کہ ہم کسی ایسی ممکن بات کے لیے فکرمند ہیں، ہمیں تو مستقبل میں خُدا کے فیصلے کی آگ کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونا چاہیے جس کے بارے میں بائبل 2 پطرس کے تیسرے باب میں پیشن گوئی کرتی ہے۔

نوح کے زمانے میں لوگوں نے اپنے زندگیوں کو بسر کرتے رہنا جاری رکھا تھا جیسے کہ اُن پر کوئی ہلاکت نازل ہونے نہیں جا رہی۔ اور یسوع نے کہا:

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39).

آج آپ کا خاندان اور آپ کے دوست جو حقیقی مسیحی نہیں ہیں اپنی زندگی ایسے ہی بسر کرتے رہنا جاری رکھتے ہیں جیسے ہلاکت کبھی آئے گی ہی نہیں۔ اِس کے باوجود ہمارا شہر اُس ہولناک ہلاکت سے صرف ایک زلزلے جتنا دور ہے! ہماری دُنیا ایک جیتی جاگتی جہنم بننے کے لیے صرف ایک انتہائی خوفناک نیوکلیائی تباہی والی جنگ کے فاصلے پر ہے! بائبل میں بتائی گئی خوفناک ہلاکت سے تہذیب صرف ایک یا دو قدم دور ہے۔

میں کہتا ہوں، عاموس نبی کے ساتھ مل کر، ’’اپنے خُدا سے ملنے کے لیے تیار رہ‘‘ (عاموس4:12)۔ اگر آپ حفاظت کی کشتی میں سوار نہیں ہیں، یسوع مسیح کی بانہوں میں نہیں ہیں تو آپ ہماری اِس پریشان حال دُنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اُس کے لیے تیار نہیں ہیں!

مسیح آپ کے گناہوں کے کفارے کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مرا تھا۔ اُس نے اپنا قیمتی خون بہایا تاکہ آپ کے گناہ دُھل جائیں۔ وہ تیسرے آسمان میں چلا گیا جہاں پر وہ ’’آسمان میں [خُدا باپ کے] داہنے ہاتھ پر‘‘ بیٹھا ہے (عبرانیوں1:3؛ 8:1)۔ مسیح کے پاس آئیں! حفاظت کی کشتی میں آئیں۔ مسیح میں آئیں اور خُدائے قادر مطلق کے قہر و غضب کے آنے والے خوفناک فیصلے سے بچ جائیں! مسیح ’’زمانوں کی چٹان‘‘ ہے۔ اُگستُس ایم۔ ٹاپلیڈی Augustus M. Toplady نے لکھا،

زمانوں کی چٹان، جو میرے لیے پیوستہ ہوا،
   مجھے خود کو تجھ میں سما لینے دے؛
اِس پانی اور خون کو،
   جو تیرے دریا کے کناروں سے بہا،
جو گناہ کے لیے دُگنی شفا ہے،
   مجھے اِس کے جرم اور قوت سے پاک صاف کردے۔
(’’زمانوں کی چٹان Rock of Ages‘‘ شاعر اگستس ایم۔ ٹاپلیڈی
      Augustus M. Toplady، 1740۔1778)۔

آئیے اُس پرانے حمد و ثنا کے گیت کو آپ کو مسیح میں آنے اور اُسی میں مکمل نجات میں داخل ہونے کے لیے تحریک دے لینے دیجیے۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: پیدائش6:13۔18.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
          (’’زمانوں کی چٹان Rock of Ages‘‘ شاعر اگستس ایم۔ ٹاپلیڈی Augustus M. Toplady، 1740۔1778)۔

لُبِ لُباب

سیلاب کی روایات

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 18)
TRADITIONS OF THE FLOOD
(SERMON #18 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39).

I.    وہ کشتی بچائے جانے کے بارے میں بات کرتی ہے، 2پطرس3:20؛ پیدائش6:3؛
2پطرس2:5؛ متی24:37؛ یوحنا14:6؛ پیدائش6:16؛ یوحنا10:7، 9۔

II.   وہ کشتی خُدائی خوف کے بارے میں بات کرتی ہے، عبرانیوں11:7؛ پیدائش3:10؛
پیدائش15:12؛ پیدائش18:15؛ خروج3:6؛ 2سیموئیل6:9؛
اعمال10:4؛ 2کرنتھیوں5:11۔

III.  وہ کشتی آنے والی ہلاکت کے بارے میں بات کرتی ہے، 2پطرس3:3۔7؛
عاموس4:12؛ عبرانیوں1:3؛ عبرانیوں8:1۔