اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
عدن کا باغ(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 10) ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے A sermon preached on Lord’s Day Morning, August 5, 2007 ’’اور خداوند خدا نے مشرق کی جانب عدن میں ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا‘‘ (پیدائش 2:8). |
یوں ظاہر ہوتا ہے کہ انسان باغ عدن کے ’’اُگائے‘‘ جانے سے پہلے تخیلق کیا گیا تھا، کیونکہ انسان کی تخلیق آیت سات میں پیش کی گئی ہے جس کے بعد ہماری تلاوت آیت آٹھ آتی ہے۔ یوں، یہ دکھائی دیتا ہے کہ عدن جہاں پر آدم کی تخلیق کی گئی تھی اُس سے مشرق کی جانب اُگایا گیا تھا۔ اِس کے علاوہ یہ ایک جگہ کی جانب بھی اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو کہ اُس جگہ سے جہاں موسیٰ نے الہٰی الہٰام کے وسیلے سے تمام الفاظ لکھے تھے مشرق کی جانب تھی۔ خروج24:4 ہمیں بتاتی ہے، ’’اور موسیٰ نے خُداوند کے تمام الفاظ لکھے۔‘‘ موسیٰ جزیرہ نما سمندر کے کنارے سینائی میں تھا، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اُس بیابان کے مشرق میں تھا۔ یا اِس کا مطلب کعنان کا مشرق ہو سکتا ہے، اور عبرانی نقطۂ نظر سے لکھا گیا ہو۔ اُن تینوں واقعات میں سے کسی ایک میں، یہ کوہ اراراط کے قریب واقع لگتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو کہ وہ عام علاقہ ہے جو اب تُرکی اور آرمینیا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر میگی نے کہا،
میں پُریقین ہوں کہ یہ کہیں نہ کہیں دجلہ اور فرات کی وادی میں [تھا]؛ درحقیقت ہو سکتا ہے کہ یہ تمام کی تمام وادی ہی [رہ چکی ہو]۔ اصل میں یہ ایک انتہائی زرخیز جگہ تھی، اور اِس معاملے میں وہ اب بھی زرخیز ہی ہے۔ یہ ’’زرخیز ہلالfertile crescent‘‘ کا حصہ ہے۔ کسی زمانے میں، اُن لوگ نے جنہوں نے اُدھر بسیرا کیا ہوا تھا کبھی بھی وہاں پر گندم کی کاشت نہیں کی تھی؛ اُنہوں نے محض اُس کی کٹائی کی تھی، کیونکہ وہ خودبخود ہی اُگ گئی تھی (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1981، جلد اوّل، صفحہ20؛ پیدائش2:8 پر غور طلب بات)۔
مگر ہمیں بالکل دُرست جگہ کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ موسیٰ نے اُن جگہوں اور چیزوں کے ناموں کا اندراج کیا تھا جو عظیم سیلاب سے پہلے وجود رکھتی تھیں۔ سیلاب کی وجہ سے زمین کا سارا تفصیلی جغرافیہ بدل گیا تھا۔ جیسا کہ پطرس رسول اِس کو لکھتا ہے،
’’پانی ہی سے اُس وقت کی دُنیا ڈوب کر تباہ ہو گئی‘‘ (2۔ پطرس 3:6).
لوتھر نے عدن کی ایک اچھی تفصیل پیش کی تھی جس کا میں طوالت کے ساتھ حوالہ دوں گا:
مجھے یوں دکھائی دیتا ہے کہ اُس جگہ کا نام عدن آدم نے رکھا تھا، یا کم از کم اُس کی زندگی کے دوران رکھا گیا تھا، اُس کی زرخیزی اور خوبصورتی کی وجہ سے۔ وہ نام اُس کی آل اولاد میں بھی جانا گیا یہاں تک کہ اُس کے گم ہو جانے کے [بعد] بھی۔ جب دُنیا طُغیانی سے تباہ ہوئی تھی تب یہ خُوبصورت باغ بھی تباہ ہو گیا تھا اور کھو گیا تھا… چونکہ باغ آدم اور اُس کی تمام آل اولاد کے لیے مقرر کیا گیا تھا، اِس لیے اِس کو ہم کوئی ایسا باغ نہیں کہہ سکتے [جو] محض چند ایک مربع میلوں پر مشتمل تھا۔ یہ [بِلاشُبہ] زمین کا چُنیدہ ترین حصہ تھا۔ میں یقین کرتا ہوں یہ باغ طُغیانی تک رہا تھا، مگر سیلاب سے پہلے اِس کی حفاظت خُدا ایک فرشتے کے ذریعے سے کرتا تھا، جیسا کہ موسیٰ ہمیں بتاتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ انسان کو جانوروں سے مختلف بیان کرتا ہے، حالانکہ وہ خلاف عقل مخلوقات بھی زمین سے ہی آئی تھیں، لہٰذا یہاں وہ احتیاط کے ساتھ انسان کے بسنے کی جگہ کا امتیاز کرتا ہے جسے خُدا نے دُںیا کے تمام دوسرے حصوں کے مقابلے میں نہایت شدید مستقل مزاجی اور خوبصورتی کے ساتھ اُگایا تھا اور اُس کو سراہایا تھا۔ موسیٰ یہ ظاہر کرنے کے لیے شدت سے فکرمند دکھائی دیتا ہے کہ دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے انسان کئی گُںا زیادہ شاندار مخلوق تھی… خُدا نے انسان کو بنانے کے بعد جنت میں رکھا تھا۔ مگر حوّا کو باغ ہی میں تخلیق کیا گیا تھا… بیشک تمام زمین اِس طرح سے تخلیق کی گئی تھی کہ یہ پھل دینے والے درخت اور بیج دینے والی جھاڑیاں اُگاتی تھی، اِس کے باوجود خُداوند نے انعام کے طور پر باغ عدن کو خصوصی توجہ دی تھی… موسیٰ خُدا کو ایک ماہر باغبان کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جو محنت اور مستقل مزاجی سے ایک باغ کو اپنی پسند کے مطابق اُگاتا ہے، کچھ درختوں کو چُنتا ہے جن سے وہ پیار کرتا اور جن کی وہ خصوصی طریقے سے دیکھ بھال کرتا ہے (مارٹن لوتھر، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Martin Luther, Th.D.، پیدائش پر لوتھر کا تبصرہLuther’s Commentary on Genesis ، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، دوبارہ اشاعت1958، جلد اوّل، صفحات45۔46)۔
اب باغ عدن کی شدید خوبصورتی اور دلکشی کو سمجھنے کے لیے ہمیں بے شمار باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلی بات، ساری کی ساری زمین جیسی کہ اب ہے اِس سے مکمل طور پر مختلف تھی۔ پیدائش1:6 کھولیں۔ تخلیق کے دوسرے دِن،
’’خدا نے کہا، پانیوں کے درمیان فِضا ہو تاکہ وہ پانی کو پانی سے جدا کر دے۔ چنانچہ خدا نے فِضا کو قائم کیا اور فِضا کے نیچے کے پانی کو فِضا کے اوپر کے پانی سے جدا کر دیا اور ایسا ہی ہُوا‘‘ (پیدائش 1:6۔7).
میں ڈاکٹر ھنری ایم مورس Dr. Henry M. Morris کی تائید کرتا ہوں کہ زمین پر پانی کی تقسیم زمین کے اوپر پانی کی چھتری سے کی گئی تھی۔ ڈاکٹر مورس نے کہا کہ زمین کے اوپر کے پانیوں کو ’’بھاری مادی اشیاء سے علیحدہ کرنے کے لیے [ایک] بُخارات کی حالت میں بدل دیا گیا تھا اور وہ فضا میں اوپر اُٹھے یا تیرتے رہتے تھے، جہاں پر وہ زمین کے مستقبل کے باشندوں کے لیے ایک گرم [حرارت پہنچانے والے] لحاف کی حیثیت سے خدمت سر انجام دے پائے‘‘ (ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔ دفاع کرنے والوں کا مطالعہ بائبل The Defender’s Study Bible، ورلڈ پبلیشنگ، صفحہ4، پیدائش1:6 پر غور طلب بات)۔ وہ پانی کے وسیع بخارات ایک چھتری یا بیرونی فضا میں ایک لحاف کی مانند تھے جو ساری زمین پر ایک گرین ہاؤس کا اثر ڈالتے تھے۔ یوں، ساری کی ساری زمین کی نقصان پہنچانے والی تابکاری سے حفاظت ہوتی تھی، جیسا کہ ڈاکٹر مورس نے کہا، ’’بہت سارے جانوروں اور پودوں کی زندگی کے لیے ایک آئیڈیل ماحول اور انسانی زندگی میں سکون اور طویل عمر فراہم کرتے تھے‘‘ (ibid.)۔
پانی کی یہ چھتری جو زمین کے اردگرد تھی بادل نہیں تھے، بلکہ آسمان پر بخارات کا ایک انتہائی موٹا وجود تھا، جو زمین کے اِرد گرد خلا میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ اِس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کیوں زمین پر نوح کے زمانے میں عظیم سیلاب کے آنے سے پہلے کوئی بارش نہیں ہوتی تھی۔ پیدائش2:5۔6 کھولیں، پانچویں آیت کو درمیان میں سے شروع کریں،
’’نہ تو کھیت کی کوئی جھاڑی زمین پر نمودار ہوئی تھی اور نہ ہی کھیت کا کوئی پودا اُگا تھا کیونکہ خداوند خدا نے زمین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمین پر کوئی اِنسان ہی تھا جو کاشتکاری کرتا۔ لیکن زمین سے کُہر اُٹھتی تھی جو تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی‘‘ (پیدائش 2:5۔6).
آج بارش کا دارومُدار زمین کی فضا میں گردش کرتی ہوا کی حرکت پر انحصار کرتا ہے۔ مگر سیلاب سے پہلے ہوا کی گردش کم ہوا کرتی تھی۔ یوں، دُںیا کے مختلف حصّوں میں موسم میں تبدیلی کم ہوا کرتی تھی۔ وہ ’’دُھند‘‘ جو اُوپر چلی گئی تھی ’’وہ … بخارات کے عمل اور عمل تکثیف جو رات اور دِن کے درجۂ حرارت کے چکر سے [بنتے تھے]‘‘ کے لیے نشاندہی کرتی ہے (پیدائش2:6)۔ اُس وقت قطب جنوبی اور شمالی میں کوئی برف نہیں جمتی تھی، اور کوئی بنجر ریگستان نہیں ہوا کرتے تھے جو آج ہماری زمین پر ہیں۔ ساری کی ساری دُںیا گرین ہاؤس کے اندر جیسی ہوتی تھی، ایک پیاری سی جنت، جو ایک قطب سے لیکر دوسرے قطب تک سبزہ سے بھری ہوتی تھی۔ میں یقین کرتا ہوں کہ شمالی سائیبیریا میں پائے جانے والے لمبے لمبے بالوں والے زمانہ قدیم کے دیو ہیکل ہاتھی mommoths اور دوسرے جانور جن کے پیٹ میں ابھی تک پھول اور نازک پودے موجود تھے اِس بات کی وضاحت پیش کرتے ہیں، جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ اچانک عظیم سیلاب کے دوران مارے گئے اور منجمد ہو گئے تھے، جب نوح کے زمانے میں صدیوں بعد زمین کے اُوپر سے پانی نیچے زمین پر برسا تھا (پیدائش7:11۔24)۔
’’اوپر بہشت‘‘ میں سے وہ پانی زمین پر سیلاب کے وقت ایک سیلابی بارش میں نیچے آیا تھا۔ سیلاب ختم ہو چکنے کے بعد پہلی مرتبہ بادل موجود تھے اور آج کا بارش اور بخارات بنانے کے عمل کا ہائیڈرولوجیک چکر شروع ہوا تھا۔ پیدائش9:12۔15 کھولیں۔
’’اور خداوند نے کہا، اور جو عہد میں اپنے اور تمہارے اور ہر جاندار کے درمیان جو تمہارے ساتھ ہے کرتا ہوں اور جو عہد آنے والی نسلوں کے لیے ہے اُس کا نشان یہ ہے، میں نے بادلوں میں اپنی قوسِ قُزح کو قائم کیا ہے اور وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نشان ہوگی۔ جب کبھی میں زمین پر بادل لاؤں اور اُن بادلوں میں قوسِ قُزح دکھائی دے تو میں اپنے اِس عہد کو یاد کروں گا جو میرے، تمہارے اور ہر قسم کے جانداروں کے درمیان ہے، پانی پھر کبھی طُوفان کی شکل اختیار نہ کرے گا کہ سب جاندار ہلاک ہو جائیں‘‘ (پیدائش 9:12۔15).
وہ قوسِ قزح یا ’’کمان‘‘، جو خُدا نے سیلاب کے بعد آسمان میں دکھائی تھی ایک علامت تھی کہ خُدا پھر کبھی بھی دوبارہ ایک بہت بڑے عالمگیری سیلاب کے ساتھ زمین کو سزا نہیں دے گا۔ سیلاب کے بعد آسمان میں وہ قوسِ قزح ایک اور دوسرا نشان بھی ہے کہ عظیم سیلاب سے پہلے بارش کبھی بھی نہیں ہوئی تھی، کیونکہ اِس سے پہلے زمین ایک پانیوں والے بخارات کی چھتری کے ذریعے سے محفوظ رکھی گئی تھی۔
مگر شروع میں زمین پر واپس جانے پر، جب یہ تازہ تازہ تخلیق کی گئی تھی تو ساری کی ساری دُنیا جو بخارات کی ایک چھتری سے ڈھکی ہوئی تھی ایک پیاری، نصف کُرّائی بہشت تھی، جس میں کوئی طوفان، کوئی بارش نہیں ہوتی تھی جیسی کہ اب ہوتی ہے، جب زمین سے دُھند تمام دُنیا کو پانی مہیا کرنے کے لیے اوپر اُٹھتی ہے۔
پھر خُدا نے انسان کو بنایا، جیسا کہ ہمیں پیدائش2:7 میں بتایا گیا، ’’زمین کی مٹی‘‘ سے۔ اب پیدائش2:8۔9 کو کھولیں۔ مہربانی سے کھڑیں ہوں اور اُن آیات کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’اور خداوند خدا نے مشرق کی جانب عدن میں ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔ اور خداوند خدا نے زمین سے ہر قسم کا درخت اُگایا جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے میں لذیذ تھا۔ اُس باغ کے بیچ میں زندگی کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی تھا‘‘ (پیدائش 2:8۔9).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے اِس واعظ میں کہا تھا، عدن کے باغ کے بالکل دُرست مقام کا آج بھی پتا معلوم نہیں کیونکہ عظیم سیلاب پر زمین کی تمام کی تمام جغرافیائی ہیّت تبدیل ہو گئی تھی۔ یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ باغ ’’مشرق کی جانب‘‘ تھا، غالباً اُس علاقے میں جو اب تُرکی اور آرمینیا کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو اب ’’زرخیز ہلال fertile crescent‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جیسا کہ لوتھر نے بجا طور سے کہا، باغ یقینی طور سے انتہائی وسیع رہا ہوگا، ’’چونکہ باغ آدم اور اُس کی تمام آل اولاد کے لیے قائم کیا تھا‘‘ (لوتھر، ibid.)۔ یہ تھی، جیسا کہ لوتھر نے کہا، ’’زمین کی چُنیدہ ترین جگہ‘‘ (لوتھر، ibid.)۔
یہ ایک انتہائی خوبصورت اور فراغ دِلانا باغ تھا، ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا،
یہ بات دلچسپ ہے کہ خُدا نے ’’ایک باغ اُگایا۔‘‘ خُدا نے اُس سبزہ کو تیار کرنے میں جو اِنسان کو خوش کرتا ایک مخصوص مُسرت محسوس کی تھی۔ ہر وہ پودہ جس کی ضرورت تھی اور کارآمد تھا، ہر پودا جس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا تھا – وہ بناوٹ، وہ ذائقہ، وہ رنگ، وہ خوشبو – ہر وہ تفصیل جو ایک محبت کرنے والے خُدا نے سوچی اور وہاں باغِ عدن میں انسان کی خوشی کے لیے رکھی… اوہ، ہمارے خالق کے پاس جو تمام چیزوں کو بناتا اور برقرار رکھتا ہے اُس کے پاس خوبصورتی اور توجہ کے لیے کس قدر لامحدود قابلیت ہے۔
عدن میں باغ تھے۔ وہاں پر زندگی کا درخت تھا۔ انسان آزادنہ طور سے اُس کا پھل کھا سکتا تھا۔ میرے خیال میں اِس میں کوئی شاندار خصوصیت تھی جو ہمارے جسم کی ہر ضرورت کے لیے ایک وٹامِن یا انزائم تھا (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔John R. Rice, D.D.، پیدائش: شروع میںGenesis: In the Beginning، خُداوند کی تلوار اشاعت خانےSword of the Lord Publications، 1975، صفحات104۔105)۔
ڈاکٹر رائس نے کہا کہ ہم ’’’زندگی کے پانی کے خالص دریا کے وسیلے سے، جو شفاف شیشے کی طرح واضح، اور برّے کے اور خُدا کے تخت سے اُمڈ رہا ہوگا‘ اُس کے وسیلے سے، عدن کو ایک دِن بحال ہوتا ہوا دیکھیں گے، اور بہشت میں سڑکوں کے درمیان اور ’دریا کے کناروں پر‘ اُس زندگی کے درخت کو بحال ہوتا ہوا دیکھیں گے جس میں ’بارہ اقسام کے پھل‘ ہونگے… اور درخت کے پتے قوموں کی شفا پانے کے لیے ہونگے،‘ مکاشفہ22:1۔2‘‘ (رائس، ibid.، صفحہ105)۔
نا صرف زندگی کا درخت ایسی غذائیتیں مہیا کر رہا تھا کہ جب انسان اُس کے پھل کو کھاتا تو وہ ’’ہمیشہ کی زندگی‘‘ پاتا (پیدائش3:22)، بلکہ نیکی اور بدی کی پہچان کرنے والا درخت بھی عدن کے باغ میں ہی تھا۔ ہمیں نیکی اور بدی کی پہچان کرنے والے درخت کے بارے میں اتنا کچھ معلوم نہیں ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ یہ درخت وہاں پر خُدا سے انسان کی وفاداری کا اِمتحان لینے کے لیے رکھا گیا تھا۔ اِس کا پھل کھانے سے نافرمانی کا عمل گناہ تھا۔ ڈاکٹر رائس نے کہا، ’’انسان نے گناہ کیا جب [کھانے کے لیے] اُس نے وہ چُنا جو اُسے دُنیا کے معاملات میں عقلمند بنا ڈالتا، گناہ سے بھرپور باتوں کے بارے میں، اور اُن باتوں کی آگاہی کے بارے میں جو اُس کو جاننی نہیں تھیں یا جن کے بارے میں اُس کو پرواہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کچھ لوگوں نے سوچا ہوا ہے کہ باغ میں آدم اور حوّا کا گناہ جنسی گناہ تھا۔ یہ احمقانہ بات ہے۔ خُدا اُنہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ اُنہیں بڑھنا پھولنا اور زمین کو معمور و محکوم کرنا تھا۔ میاں بیوی کی حیثیت سے اُن کے مقدس رشتے نے خُدا کو ناراض نہیں کیا تھا۔ مگر منع کیے ہوئے پھل کو کھانے کی وجہ سے اُنہوں نے خُدا کی نافرمانی کی تھی‘‘ (ibid.، صفحات 106۔107)۔
تب، پھر، عدن کے باغ میں، خُدا نے پہلی عورت کو تخلیق کیا۔ پیدائش2:18 کھولیں۔
’’اور خداوند خدا نے کہا، آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں؛ میں ایک مددگار بناؤں گا جو اُس کی مانند ہوگا‘‘ (پیدائش 2:18).
پھر ہم آیات21۔25 میں پڑھتے ہیں،
’’تب خداوند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور جب وہ سورہا تھا تو اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکال لی اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا تب خداوند خدا نے اُس پسلی سے جسے اُس نے آدم میں سے نکالا تھا، ایک عورت بنائی اور وہ اُسے آدم کے پاس لے آیا۔ آدم نے کہا، اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈّی، اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے، وہ ’’ناری‘‘ کہلائے گی، کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی تھی۔ اِس لیے مَرد اپنے باپ اور ماں کو چھوڑ کر اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہونگے۔ اور آدم اور اُس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے‘‘ (پیدائش 2:21۔25).
مجھے کوئی شُبہ نہیں ہے کہ پہلی عورت بالکل اِسی طریقے سے تخلیق کی گئی تھی، کیونکہ یسوع نے ایسا ہی کہا، ہمارے خُداوند یسوع مسیح نے کہا،
’’کیا تُم نے نہیں پڑھا کہ ابتدا میں خالق نے اُنہیں مرد اور عورت بنایا اور کہا، اِس سبب سے مرد اپنے والدین سے جدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے؟‘‘ (متی 19:4۔5).
یسوع نے پیدائش2:24 کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا، متی کے نویں باب میں شادی پر اپنی تعلیمات میں لفظ بہ لفظ اُنہیں وہی الفاظ بتائے۔ اِس لیے، اِن مخلتف حوالوں سے، ہم دیکھتے ہیں کہ آدم اور حوّا کے جنسی ملاپ میں کسی قسم کا بھی کوئی گناہ نہیں تھا۔ اُن کا ملاپ خُدا کی طرف سے تھا۔ خود خُدا نے وہ پہلی شادی کروائی تھی۔ اور خُدا نے آدم کو کہا تھا، ’’پھولو، پھلوں اور تعداد میں بڑھو‘‘ (پیدائش1:28)۔ اُن کی شادی اور جنسی تعلق میں کسی بھی قسم کا کوئی گناہ نہیں تھا۔ نیا عہد نامہ واضح طور پر کہتا ہے،
’’بیاہ کرنا سب لوگوں میں عزت کی بات سمجھا جائے اور بستر زناکاری کے داغ سے پاک رہے‘‘ (عبرانیوں 13:4).
اِس بات کا اِطلاق اُن الفاظ میں بھی ہوتا ہے جو ہم پیدائش2:21۔25 میں پڑھتے ہیں۔ اُس حوالے میں آخری آیت کہتی ہے،
’’اور آدم اور اُس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے‘‘ (پیدائش 2:25).
ڈاکٹر مورس نے کہا، ’’اِس وقت وہ ابھی تک گناہ کے بغیر تھے یوں اخلاق جرم کی آگاہی کے بغیر تھے۔ بعد میں، تاہم، اُن کا گناہ آگہی کو لایا… کہ انسانی زندگی کے چشمے زہر آلود ہو چکے تھے، خود اُن دونوں میں اور اُن کی آل اولاد [بچوں] میں۔ اِس دریافت نے اُنہیں درد کی بھرپوری کے ساتھ اُن کے تولیدی اعضاء سے آگاہ کیا، اور وہ شرمندہ تھے‘‘ (مورس، ibid.، صفحہ11، پیدائش2:25 پر غور طلب بات)۔
اگلے واعظ میں ہم دیکھیں گے کہ وہ شیطان تھا جس نے اُنہیں گناہ کے لیے منع کیے ہوئے پھل کو کھانے کے ذریعے سے جھانسا دیا تھا، اور کیسے خُدا کے خلاف اُن کی بغاوت کے ہولناک اثرات نے ناصرف اُن پر شرمندگی اور رسوائی طاری کی بلکہ اُن پر جسمانی موت بھی آئی اور عدن کے باغ سے اُنہیں باہر بھی نکالا گیا۔ اور وہ لعنت تمام نسل انسانی پر نازل ہوئی ہے۔
مگر عدن کے لیے واپسی کی ایک راہ ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے اُس کے جلال میں ایک دِن بحال ہونے کے لیے ایک راہ ہے۔ مگر وہ ’’راہ‘‘ تنہا خُداوند یسوع مسیح کے ذریعے سے ہے۔ یسوع نے کہا،
’’راہ، حق اور زندگی میں ہوں، میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا 14:6).
یہ بات شاید ’’دورِ حاضرہ‘‘ کے کانوں کے لیے تنگ ہو۔ آج بے شمار لوگ سوچتے ہیں کہ نجات کے لیے بے شمار راستے ہیں۔ لیکن یسوع نے کہا کہ راہ صرف ایک ہی ہے – اُس یسوع کے ذریعے سے۔ یہ بات آپ کو شاید صحیح دکھائی نہ دے مگر سچ یہ ہی ہے۔
جب آپ میرین کاؤنٹی جاتے ہیں تو آپ کو گولڈن گیٹ پُل پار کر کے شمال کی سمت میں جانا چاہیے۔ پھر آپ تیزآمدورفت کے لیے محفوظ گزرگاہ میں سے جو کہ ایک تنگ سے سُرنگ ہے گزرنا پڑتا ہے جس کے داخلے کے دہانے پر ایک قوسِ قزح رنگوں سے بنائی گئی ہے۔ میرین کاؤنٹی میں جانے کے لیے اور کوئی دوسری گزرگاہ نہیں ہے۔ ایک گاڑی میں وہاں جانے کے لیے آپ کے پاس صرف وہی ایک راہ ہے۔ آپ کسی دوسری راہ سے وہاں پر نہیں پہنچ سکتے۔ اور ایسا ہی نجات کے ساتھ بھی ہے۔ آپ وہاں صرف مسیح یسوع کے وسیلے سے ہی جا سکتے ہیں۔ اُس نے کہا، ’’ راہ، حق اور زندگی میں ہوں، میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14:6)۔ باپ کے پاس جانے کے لیے یسوع ہی وہ راہ ہے! عدن میں واپس جانے کے لیے تنہا یسوع ہی وہ راستہ ہے!
آپ کو اپنے گناہ سے بھرپور دِل سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور مسیح کے لیے آنا چاہیے۔ اُس کا خون آپ کے گناہ پاک صاف کر دے گا۔ صلیب پر اُس کی موت آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرے گی۔ مُردوں میں سے اُس کا جی اُٹھنا آپ کو زندگی بخشے گا۔ صرف یسوع کے پاس آنے کے ذریعے سے ہی آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو سکتے ہیں، دوبارہ جنم لے سکتے ہیں تاکہ کسی دِن آپ بھی خُدا کی بادشاہت میں بحال کیے گئے عدن میں داخل ہو پائیں۔ خُدا کرنے آپ یسوع کے پاس جلد ہی آئیں، تاکہ آپ اُس کی بادشاہی میں عدن کی بحال کی گئی بہشت میں ایک دِن داخل ہو پائیں۔
دریا سے پرے ایک سرزمین ہے،
جس کو ہم ہمیشہ کے لیے پیاری کہتے ہیں،
اور ہم اُس ساحل پر صرف ایمان کے فیصلے سے پہنچ سکتے ہیں؛
ایک ایک کر کے ہمیں وہ گزرگاہیں ملتی جائیں گی،
وہاں پر لافانی لوگوں کے ساتھ بسنے کے لیے،
جب وہ آپ کے اور میرے لیے سُنہری گھنٹیاں بجاتے ہیں۔
جب ہمارے دِنوں کو اپنی تعداد معلوم ہو جائے گی،
جب موت میں ہم ایک محبت بھرے انداز میں سو جائیں گے،
جب بادشاہ روح کو آزاد ہونے کے لیے حکم دیتا ہے؛
اِس کے بعد پھر کبھی بھی افسوس کے بوجھ سے نہ لدے ہوئے ہو کر،
ہم اُس پیارے [عدن] میں پہنچ جائیں گے،
جب وہ آپ کے اور میرے لیے سنہری گھنٹیاں بجاتے ہیں۔
(’’جب وہ سنہری گھنٹیاں بجاتے ہیں When They Ring the Golden Bells‘‘
شاعر ڈیئون ڈی ماربیلیے Dion De Marbelle، 1818۔1903)۔
ایمان کے وسیلے سے مسیح کے پاس آئیں۔ وہ آپ کے گناہ کو اُس خون کے ساتھ جو اُس نے صلیب پر بہایا دھو ڈالے گا۔ مُردوں میں سے اُس کا جسمانی طور پر جی اُٹھنا آپ کو نئی اور دائمی زندگی بخشے گا۔ اوہ، مسیح کے پاس آئیں اور نجات پائیں!
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’جب وہ سنہری گھنٹیاں بجاتے ہیں When They Ring the Golden Bells‘‘
(شاعر ڈیئون ڈی ماربیلیے Dion De Marbelle، 1818۔1903)۔
|