اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
دُکھوں بھرا نجات دہندہ – وقت اور دائمیت میںTHE SUFFERING SAVIOUR – IN ETERNITY AND TIME ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے ’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر ہم نے اُسے خدا کا مارا، کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا۔ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی اور اُس کے کوڑے کھانے کے سبب سے ہم شفایاب ہوئے‘‘ (اشعیا53:4۔5)۔ |
اشعیا53 باب میں مسیح کے دُکھوں سے تعلق رکھتے ہوئے، عظیم پروٹسٹنٹ اصلاح کار مارٹن لوتھر نے کہا،
اِن معاملات کو اِس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ [نئے عہدنامے میں] ماسوائے یوحنا کے کسی بھی انجیل نویس نے بہتر اِظہار نہیں کیا۔ پہلے تین انجیل نویسوں نے [اُس کی مصلوبیت سے تعلق رکھتے ہوئے] صرف متعلقہ واقعات کو ہی پیش کیا۔ اشعیا حقیقتوں، اسباب، نتائج اور استعمال کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ ’’وہ گھائل تھا۔‘‘ اِس بات کو متی بھی درج کرتا ہے لیکن اشعیا وجہ کو ظاہر کرتا ہے کیوں اُس نے دُکھ اُٹھائے: کیوں کہ ہم نے گناہ کیا تھا اور خود کو گناہ، موت اور ابلیس کی قوت سے نجات دلانے کے قابل نہیں تھے… یہ واقعی میں شاندار بات ہے کہ اشعیا کے پاس اِس قدر نور تھا کہ وہ اِس قدر واضح طور پر اور پوری اُترنے والی مسیح کے [دکھوں] کے بارے میں پیشن گوئی کر پایا، درحقیقت، ایک پولوس کو مُستثنیٰ کرتے ہوئے، انجیل نویسوں کے مقابلے میں کہیں بہتر طور سے پوری اُترنے والی پیشن گوئی … بصورتِ دیگر، سارے کلام پاک میں اشعیا کے اِس 53 باب کے مقابلے میں شاید ہی مشکلوں سے ایک حوالہ ہو (مارٹن لوتھر، لوتھر کیا کہتا ہےWhat Luther Says، کونکورڈیا پبلیشنگ ہاؤسConcordia Publishing House، دوبارہ شاعت1994، صفحہ 1147)۔
میں لوتھر کے ساتھ اور ڈاکٹر ھنری ایم مورس کے ساتھ متفق ہوں، جنہوں نے کہا کہ ’’بائبل میں مسیح کی متبادلیاتی موت کی مکمل ترین اور واضح ترین تشریح‘‘ اشعیا کا 53 واں باب ہے (ھنری ایم مورس، پی ایچ۔ ڈی۔، بائبل کا دفاع کرنے والوں کا مطالعہ The Defender’s Study Bible، ورڈ پبلیشنگ Word Publishing، 1995، اشعیا53:13 پر غور طلب بات)۔ ہمارے گناہوں کے لیے مسیح کے متبادلیاتی دُکھوں پر بائبل میں یہ اکیلا عظیم تر باب ہے۔ اِس واعظ میں، میں مسیح کے دُکھوں کے بارے میں تین سوالات پوچھوں گا اور اِس باب میں سے اُن کا جواب دوں گا۔
I۔ پہلی بات، اشعیا نے کیوں فعل ماضی میں لکھا جب اُس نے مسیح کے دُکھوں کے بارے میں مستقبل میں بات کی؟
ہمارے گناہوں کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے لیے مسیح کے آنے سے سات سو سال پہلے اشعیا کا 53 واں باب لکھا گیا تھا۔ اور اِس کے باوجود وہ باب فعل ماضی میں لکھا گیا ہے، ’’یقیناً اُس نے ہمارے غم اُٹھا لیے… وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا، وہ ہماری بداعمالیوں کے باعث کُچلا گیا تھا؛ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی۔‘‘
اِس بات کو سمجھنے کے لیے راہ مکاشفہ13:8 میں پیش کی گئی ہے، جہاں ہم ’’اُس بنائے عالم سے ذبح کیے ہوئے برّہ‘‘ کے بارے میں پڑھتے ہیں (مکاشفہ13:8)۔ ڈاکٹر گِل نے کہا کہ ’’اپنے خون کے وسیلے سے اپنے لوگوں کی مخلصی کے لیے مسیح کو ہمارے گناہوں کا کفارہ بننے کے لیے قبل ازیں مقرر کیا گیا، اور قبل ازیں ہی مسح کیا گیا، بنائے عالم سے قبل‘‘ (جان گلJohn Gill، ڈی ڈی۔، نئے عہد نامے کی ایک تفسیرAn Exposition of the New Testament، دی بپٹسٹ سٹینڈرڈ بیئرر The Baptist Standar Bearer، دوبارہ اشاعت1989، جلد سوئم، صفحہ 793)۔ خدا کے مقصد میں، مسیح کو قبل ازیں مسح کیا گیا تھا، وقت سے بہت پہلے مقرر کر دیا گیا تھا، انسان کے گناہ کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے لیے اور یوں خدا کے فیصلے اور مقصد میں ’’بنائے عالم سے ہی ذبح کیا‘‘ تھا۔ بائبل اِس کے بارے میں بات کرتی ہے جب کہتی یہ کہتی ہے،
’’خدا کو ازل سے ہی اپنی کاریگری کا علم ہے‘‘ (اعمال15:18)۔
دُنیا کی ابتداء سے ہی خدا نے انسان کے گناہ کی خاطر قربان ہونے کے لیے مسیح کو مسح کیا تھا۔ اِس ہی لیے بائبل اِس بارے میں بتاتی ہے
’’ایک بے عیب اور بے داغ برّہ یعنی مسیح کے خون سے، جو دُنیا کے وجود میں آنے سے بیشتر ہی چُن لیا گیا تھا لیکن تمہارے لیے اِس کا ظہور اِن آخری ایام میں کیا گیا‘‘ (1پطرس1:19۔20)۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا فرمان اُس مکمل ہوئے عمل کے برابر تھا۔ جب خدا نے ہمارے گناہ کی خاطر مسیح کے دُکھوں کا فیصلہ کیا تو وہ اِتنا ہی بہتر تھا جتنا کہ وہ پورا ہوا۔ مسیح کو دُنیا کے وجود میں آنے سے بیشتر ہی خدا کے فیصلے پر ذبح کیا گیا، لیکن ’’اُس کا ظہور اِن آخری ایام میں کیا گیا‘‘ (1پطرس1:20)۔ خدا زمان و مکاں سے باہر رہتا ہے۔ وہ اِختتام کو ابتداء سے ہی دیکھتا ہے۔ اِس لیے، اشعیا مکمل طور پر یہ کہنے میں حق بجانب تھا،
’’یقیناً اُس نے ہمارے غم اُٹھا لیے اور ہماری بیماریاں برداشت کیں وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا، وہ ہماری بداعمالیوں کے باعث کُچلا گیا تھا؛ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی‘‘ (اشعیا53:4۔5)۔
II۔ دوسری بات، مسیح نے زمان و مکاں میں ہمارے گناہوں کو کب برداشت کرنا شروع کیا تھا؟
خدا نے جو ’’دُںیا کے وجود میں آنے سے بیشتر قبل ازیں مسح کیا… ظہور ہوا تھا‘‘ زمان و مکاں پر، زمین پر مسیح کی زندگی میں ہوا تھا (1پطرس1:20)۔ اشعیا نے کہا،
’’یقیناً اُس نے ہمارے غم اُٹھا لیے اور ہماری بیماریاں برداشت کیں‘‘ (اشعیا53:4)۔
’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا53:6)۔
زمان و مکاں میں، ’’آخری ایام میں ظہور کیا گیا،‘‘ اُس کی مصلوبیت سے ایک رات پہلے، گتسمنی کے باغ میں مسیح پر ہمارے گناہوں کو ’’لاد دیا گیا‘‘ تھا (1پطرس1:20؛ اشعیا53:6)۔
وہاں گتسمنی کے باغ کی تاریکی میں نسل انسانی کے گناہوں کو مسیح پر لاد دیا گیا تھا۔ ’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا53:6)۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ’’خود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا‘‘ (1پطرس2:24)۔ لیکن اُن گناہوں کو ’’خود اُس کے اپنے بدن میں‘‘ ایک رات پہلے رکھا جا چکا تھا۔ گتسمنی کے باغ میں، اُس رات کے آخری پہر، اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں مسیح نے کہا، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے‘‘ (متی26:38)۔
’’وہ سخت درد و کرب میں مبتلا ہو کر اور بھی دِلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا22:44)۔
پس، گتسمنی کے باغ میں، اُن لوگوں کے اُسے گرفتار کرنے سے پہلے ہی مسیح آپ کے گناہ کو اُٹھانے والا بن گیا۔
مسیح کے دُکھوں پر نظر ڈالنا ہمارے لیے اہم ہے دونوں انبیانہ طور پر، دُنیا کے انتہائی وجود میں آنے سے بیشتر اور تجرباتی طور پر اُس کی مصلوبیت سے پہلے گتسمنی کے باغ میں۔ میرے خیال میں اُس بات کو دیکھنا انتہائی ہی اہم ہے ورنہ آپ شاید اگلے دِن اُس کے مار کھانے اور مصلوبیت میں اِس قدر مگن ہو جائیں گے کہ آپ اِس کے اصل معنوں کی بصیرت کو کھو دیں گے۔ آپ کو شاید گھِن یا ترس محسوس ہو، یا دونوں کا ہی مکسچر، اور اُس کے دُکھوں کے نظارے کے معنوں کو کھو دیں گے اور اُس کی شدید چاہت یا محبت کے بدترین حصہ کو بھول جائیں گے۔
لہٰذا ہم اِس کو اشعیا53 باب میں انبیانہ طور پر دیکھتے ہیں۔ زمان و مکان سے باہر نکل ہم دیکھتے ہیں کہ ’’اُس نے ہمارے غم اُٹھا لیے… اور خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا53:4، 6)۔ پھر ہم اُس پر نظر ڈالتے ہیں جب وہ گتسمنی میں دعا مانگتا ہے، اُن کے اُسے گرفتار کرنے، اُسے مارنے اور صلیب پر کیلوں سے اُسے جڑنے سے پہلے۔ اور یہاں گتسمنی میں، اِس سب سے ایک رات پہلے، ہم اُسے خونی پسینہ بہاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اُسے دعا مانگتے ہوئے سُنتے ہیں، ’’غم کی شدت سے میری جان نکلی جا رہی ہے‘‘ (متی26:38)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں باغ میں، لوگوں کے ذریعے سے گرفتار کیے جانے اور اذیتیں دینے سے پہلے، وہ پہلے ہی سے ہمارے گناہ کو اُٹھانے والے کی حیثیت سے پہلے ہی سے دُکھ اُٹھا رہا ہے۔ اِس بات سے آپ کو گِھن اور ترس کھانے، تعجب کرنے اور حیران ہونے سے دور ہونے میں تحریک ملنی چاہیے۔ میں کوئی ’’نئی‘‘ تھیالوجی پیش نہیں کر رہا ہوں۔ مکمل کفارہ صلیب پر دیا گیا تھا۔ میں محض اِس بات کی نشان دہی کر رہا ہوں کہ ایک رات پہلے ہی مسیح گناہ کو اُٹھانے والا بن گیا تھا۔ ڈاکٹر جان آر رائس نے کہا، ’’گتسمنی کے باغ میں کوئی بھی مسیح کے لامحدود دُکھوں کو نہیں جان سکتا…‘‘ (جان آر رائس، ڈی ڈی۔ John R. Rice, D.D.، متی کی انجیل کے مطابقThe Gospel According to Mathew، خداوند کے تلوارSword of the Lord، 1980، صفحہ 443)۔
کیا آپ نے کبھی بھی سوچا کہ مسیح کی شدید چاہت یا محبت کے لیے یہاں پر کیوں دو انتہائی واضح ترین ردعمل ہیں؟ کچھ لوگ تو خون خرابے کی وجہ سے بغاوت پر اُتر آتے ہیں۔ دوسرے لوگ سوچتے ہیں یہ ایک آئل پینٹنگ کی مانند بہت خوبصورت ہے۔ کچھ بدصورتی دیکھتے ہیں۔ کچھ دوسرے خوبصورتی دیکھتے ہیں۔ کیوں ردعمل اِس قدر مختلف ہیں؟ میرے خیال میں اِس کا جواب محسوس کرنے والے شخص کے دِل میں پِنہاں ہے۔ اگر دِل کو مسیح کے دُکھوں کی وجہ کے بارے میں آگاہی نہیں ہے تو پھر یہ ایک بدصورت اور ظالم بات ظاہر ہوتی ہے۔ سب سے بہترین جس بات کی توقع ہم کر سکتے ہیں وہ ہے کہ اِس قسم کا شخص مسیح کے لیے ترس محسوس کرے گا جیسے وہ ایک زخمی اور مرتے ہوئے جانور کے لیے شاید ترس محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہاں تو ترس کھانا بھی غلط ردعمل ہے۔ خصوصی طور پر بغاوت پر اُتر آنا تو غلط ہی ہے – لیکن ایسے ہی ترس کھانا بھی ہے۔ درست ردعمل تعجب، محبت، اور متاثر ہونا ہے۔ لیکن یہ ایک ہستی کے پاس صرف خدا کی غیبی ہدایت سے ہی آ سکتا ہے۔
جب ہم دُںیا کے وجود میں آنے سے بیشتر، اور گتسمنی کے باغ میں، مسیح کی دُکھوں پر انبیانہ طور سے نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے دُکھوں کی وجہ گناہ اور اُس کے نتائج سے ہماری مخلصی کے لیے تھی۔ اُس رات، اُس کے گرفتار ہونے سے پہلے، گتسمنی کے باغ میں مسیح کے دُکھوں کے بارے میں جوزف ہارٹ نے اپنے مشہور حمدوثنا کے گیت میں کہا،
خُدا کے تکلیف زدہ بیٹے کو دیکھو،
ہانپتا، کراہتا، خون پسینے کی مانند بہاتا ہوا!
الٰہی پیار کی لا محدود گہرائیاں!
یسوع، تیرا وہ پیار کیسا تھا!
(’’تیرے انجانے مصائب Thine Unknown Sufferings‘‘ شاعر
جوزف ہارٹJoseph Hart، 1712۔1768)۔
III۔ تیسری بات، ہمیں نجات دلانے کے لیے مسیح نے کیا کِیا تھا؟
مہربانی سے اشعیا53:5 پر نظر ڈالیں۔ آئیے کھڑے ہوں اور اِس آیت کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سےگھائل کیا گیا اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا۔ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی اور اُس کے کوڑے کھانے سے ہم شفایاب ہوئے‘‘ (اشعیا53:5)۔
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ ’’اُس کے کوڑے کھانے سے [واقعی میں ’کوڑے کھانے‘] سے ہم شفایاب ہوتے ہیں۔‘‘ کس چیز سے شفایاب ہوتے ہیں؟ گناہ کی اور موت کی بیماری سے، گناہ کی بیماری کے نتائج سے شفایاب ہوتے ہیں۔ آپ باطنی طور پر شفایاب ہوتے ہیں جب آپ نیا جنم لیتے ہیں اور خدا کا تصور آپ کے دِلوں میں بحال ہو جاتا ہے۔ آپ ظاہری طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں جب مسیح کا خون آپ کے گناہوں کو خدا کے ریکارڈ میں سے پاک صاف کر دیتا ہے۔ آپ رُتباتی طور پر شفایاب ہوتے ہیں جب آپ تاریکی سے باہر نکل کر نور میں آ جاتے ہیں۔ آپ تجرباتی طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں جب آپ زندگی کے نئے پن میں چلنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ساری کی ساری شفایابیاں – باطنی، ظاہری، رُتباتی اور تجرباتی – یہ ساری کی ساری عظیم روحانی شفایابیاں مسیح کے دُکھوں اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے جاری ہوتی ہیں۔
اگر آپ گناہ کی جانب خدا کے پاک غصے کو سمجھ پائیں تو آپ دیکھ پائیں گے کیوں مسیح کو آپ کی جگہ پر دُکھ اُٹھانے پڑے۔ اگر پاک روح آپ کو گناہ کے بارے میں قائل کرتا ہے تو تب پھر آپ اپنے گناہ کی جانب خدا کے راستباز غصے کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اگر آپ کہہ پائیں، ’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے،‘‘ تب آپ مسیح کی شدید چاہت کی اہمیت کو سمجھنا شروع کر جائیں گے (زبور51:3)۔ لیکن آپ جیسے ہیں ایسے ہی جینا جاری رکھیں گے تو مسیح کے دُکھ اور موت ایک خوفناک کہانی کے مقابلے میں آپ کو کوئی زیادہ اہم دکھائی نہیں دیں گے۔
دیکھیں، ایک بہت بڑی سونامی نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، جنوب مشرقی ایشیا کے دوسرے حصوں اور انڈیا کے ساحل کو زیرِ آب کر دیا۔ یہ بات خبروں میں ہفتوں تک آتی رہی۔ ہزاروں لوگ مرے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اُن کے مُردہ جسموں کی تصویریں دکھائی دیتی رہیں۔ لیکن اِس سے آپ پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اِس نے آپ کو ذاتی طور پر نہیں چھوا۔
لیکن کیا ہوتا اگر آپ وہاں پر رہے ہوتے، انڈونیشیا کے ساحل سے پرے جزائر میں سے کسی ایک [جزیرے] پر؟ کیا ہوتا اگر آپ نے اپنی جانب ساٹھ فٹ اونچی بپھرتی ہوئی ایک بہت بڑی سمندری لہر [سونامی] آتی ہوئی دیکھی ہوتی؟ میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ اُس کا آپ پر اثر ہوا ہونا تھا! اور اگر کسی نے آپ کو اُس عفریتی [سونامی کی] لہر سے معجزاتی طور پر بچا لیا ہوتا، تو آپ اُس شخص کے بارے میں بہت عزت سے سوچتے اور جب تک زندہ رہتے اُسے کبھی بھی نہ بھول پاتے۔
اور ایسا ہی مسیح کے ساتھ بھی ہے۔ اگر آپ سزا کی عفریتی لہر کو آتا ہوا دیکھتے اور اپنے گناہ کے ہولناک خطرے کو بھانپ جاتے تو آپ مسیح کے بارے میں بہت زیادہ حمایتی طور پر سوچتے۔ پھر آپ اُس کے دُکھوں کے لیے بہت زیادہ احترام رکھ پاتے، جن سے آپ نے نجات پائی، اور اُس کا خون، جس نے آپ کو پاک صاف کیا۔ تب آپ اشعیا کے ساتھ کہتے،
’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر ہم نے اُسے خدا کا مارا، کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا۔ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی اور اُس کے کوڑے کھانے کے سبب سے ہم شفایاب ہوئے‘‘ (اشعیا53:4۔5)۔
اگر آپ مسیح میں نجات کے بارے میں مجھ سے بات کرنا پسند کرتے ہوں تو مہربانی سے ابھی کمرے کے پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن آپ کو میرے آفس میں لے جائیں گے جہاں پر آپ یسوع مسیح میں نجات کے بارے میں تنہائی میں بات کر سکتے ہیں۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لُبِ لُباب دُکھوں بھرا نجات دہندہ – وقت اور دائمیت میں THE SUFFERING SAVIOUR – IN ETERNITY AND TIME ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے ’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر ہم نے اُسے خدا کا مارا، کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا۔ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی اور اُس کے کوڑے کھانے کے سبب سے ہم شفایاب ہوئے‘‘ (اشعیا53:4۔5)۔ I۔ پہلی بات، اشعیا نے کیوں فعل ماضی میں لکھا جب اُس نے مسیح کے دُکھوں کے بارے میں مستقبل میں بات کی؟ مکاشفہ13:8؛ اعمال15:18؛ 1پطرس19۔20 . II۔ دوسری بات، مسیح نے زمان و مکاں میں ہمارے گناہوں کو کب برداشت کرنا شروع کیا تھا؟ 1پطرس1:20؛ اشعیا53:4، 6؛ 1پطرس2:24؛ متی26:38؛ لوقا22:44 . III۔ تیسری بات، ہمیں نجات دلانے کے لیے مسیح نے کیا کِیا تھا؟ اشعیا53:5؛ زبور51:3 . |