اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
دو بیٹوں کی تمثیلTHE PARABLE OF THE TWO SONS ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’اُس نے جواب دیا میں نہیں جاؤں گا: لیکن بعد میں وہ پشیمان ہو کر چلا گیا۔ اور وہ باپ نے دوسرے بیٹے کے پاس آ کر بھی یہی بات کی۔ اور اُس نے جواب دیا اور کہا، اچھا جناب میں جاتا ہوں لیکن گیا نہیں‘‘ (متی21:29۔30)۔ |
دو بیٹوں کی تمثیل مسیح میں ایمان لانے کی جھوٹی اور سچی تبدیلی کی ایک نہایت نمایاں مثال پیش کرتی ہے۔ تمثیل میں دونوں بیٹے بجا طور پر مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی کے درمیان اور سطحی ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے درمیان فرق ظاہر کرتے ہیں۔
یہ تلاوت مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے لوگوں کی بہت بڑے پیمانے پر صورتحال کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے لوگوں کو دو جماعتوں، دو انتہائی واضح جماعتوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اور اِس طرح سے ہم مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے لوگوں کی دو قسموں کے درمیان فرق ظاہر کرنے میں اور اُن دو واضح طریقوں کو جن سے اُنہوں نے ردعمل ظاہر کیا جب اُنہوں نے مسیح کی خوشخبری کو سُنا ظاہر کرنے میں واعظ میں بالکل ہی ڈوب جاتے ہیں۔
ہم اِن دونوں ہی بیٹوں پر اور اُن کے ردعملوں پر نظر ڈالیں گے۔ یاد رکھیں کہ یہ دو ردعمل دراصل ہر ایک کو جو خوشخبری سُنتا ہے تقسیم کرتے ہیں۔ وہ دونوں بیٹے خوشخبری کی بُلاہٹ کے لیے اُن دو واحد ممکنہ ردعملوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
I۔ پہلا ردعمل، وہ شخص جو کہتا ہے میں نہیں کروں گا، لیکن بعد میں پشیمان ہوتا ہے اور فرمانبرداری کرتا ہے۔
یاد رکھیں یہ ایک تمثیل ہے، ایک کہانی ہے جو یسوع نے ایک مخصوص روحانی سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے بتائی۔ تمثیل میں ’’باپ‘‘ مسیح کے بجائے، خُدا باپ کی جانب نشاندہی کرتا ہے، جیسا کہ ڈاکٹر گِل نے واضح کیا۔ وہ ’’انگوروں کا باغ‘‘ خُدا کی بادشاہت، ’’انجیلی کلیسیا‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ (جان گِل ڈی۔ ڈی۔ John Gill, D.D.، نئے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the New Testament، دی بپٹسٹ سٹینڈرڈ بیئرر The Baptist Standard Bearer، 1989 دوبارہ اشاعت، جلد اوّل، صفحہ 247)۔ ’’لوگوں کو [اِس] میں داخل ہونے اور سینے سے لگانے کے لیے بُلایا گیا‘‘ (ibid.)۔ ’’اِس میں کام کرنا منادی کیے ہوئے کلام کو سُننے کے معنی دیتا ہے، مسیح میں یقین کرنے کے لیے… اُس کے عقیدے کو قبول کرنا، اور اُس کے فرمانوں کے تابع ہونا، خصوصی طور پر بپتسمہ کے فرمان کے تابع ہونا، جو اُس زمانے میں مرکزی [اہم] فرمان تھا… کام کرنے کا وقت آج کا زمانہ ہے۔‘‘
’’بیٹا، میرے انگور کے باغ میں آج کام کرنے کے لیے جا‘‘ (متی21:28)۔ وہ ’’انگوروں کا باغ‘‘ دُنیا میں اُس جگہ کی نمائندگی کرتا ہے جہاں پر خُداوند اپنا کام کرتا ہے، مقامی کلیسیا میں اور مقامی کلیسیا کے ذریعے سے۔ پہلے بیٹے نے بے رخُی سے جواب دیا تھا۔ اُس نے محض کہا تھا، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ کچھ لوگ ایسے کہتے ہیں ’’میں نہیں کروں گا‘‘ کیونکہ وہ سُست ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گئے تو اُنہیں خُداوند کے لیے کام کرنا پڑے گا، اور وہ ایسا کرنے کے لیے نہایت ہی سُست ہوتے ہیں۔ دوسروں کے دِل خود اپنی تمناؤں کو پورا کرنے پر ٹکے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ مسیح کے بجائے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کو خُدا کے انگوروں کے باغ میں، جو مقامی کلیسیا ہے، کام کرنے پر لگانے کے لیے رضا مند نہیں ہوتے۔ وہ کلیسیا کے کاروبار کے مقابلے میں دُنیا کے کاروبار سے بہتر محبت کرتے ہیں۔ وہ مسیح کی خاطر کام کرنے کے لیے اپنے ذاتی منصوبوں اور مقاصد کو ایک جانب رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ، اگر وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گئے تو اُنہیں اپنی زندگیوں میں خُدا کی بادشاہت کو پہلے لانا پڑے گا، اور وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ لہٰذا، جب یسوع اُنہیں آنے کے لیے بُلاتا ہے، تو وہ محض کہہ دیتے ہیں، ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘
مجھے تعجب ہوگا اگر آج کی رات آپ کا معاملہ شاید ایسا ہی ہو؟ مجھے حیرت ہوگی اگر آپ مسیح کی فرمانبرداری کرنے سے باز رہتے ہیں کیوں کہ آپ مسیح کی خاطر کلیسیا میں کام کرنے کے لیے خود اپنی مادی خواہشات میں جکڑے ہوئے ہیں، اور اپنے دُنیاوی مقاصد اور تفریحات سے پرے کھینچے جانا نہیں چاہتے؟ اگر آپ کا معاملہ یہی ہے، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی، جب خوشخبری پیش کی جاتی ہے، تو آپ کہتے ہیں، ’’میں نہیں کروں گا،‘‘ یا کم از کم یہی ہے جو آپ سوچتے ہیں۔ آپ شاید یہ سوچ سکتے ہیں، لیکن اِس کو باآوازِ بُلند کہنے کے لیے نہایت زیادہ مؤدب ہوں۔ مسیح اور اُس کے کام میں اپنی تمام زندگی اور اپنا تمام دِل ڈالنا آپ کو خود اپنی زندگی کے آپ کے اپنے منصوبوں کے لیے شاید ایک رکاوٹ لگے، اور یوں آپ کہتے ہیں، یا تو لفظوں میں یا خیالوں میں، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ آپ شاید اونچی آواز میں لفظوں کو ادا کیے بغیر اپنے دِل میں کہیں ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ یا شاید آپ اِس کو باآوازِ بُلند کہہ ڈالیں۔ یہی تھا جو تمثیل میں پہلے آدمی نے کیا تھا۔ جب اُس نے اپنے باپ کا بُلاوا سُنا تو اُس نے کہا، ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘
خُداوند لوگوں کو اپنے کلام کے ذریعے بُلاتا ہے۔ پاک کلام کے الفاظ کے ذریعے سے، اور کلام کی منادی کے ذریعے سے، خُداوند گناہ سے بھرپور انسان کو مسیح کی جانب بُلاتا ہے۔ لیکن انسان اپنی فطری حالت میں کہتا ہے، ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘ یہ بیان، ’’میں نہیں آؤں گا،‘‘ خُدا کے لیے انسانی دِل کی بغاوت اور مُخاصمت [تلخی] کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمیں قائین کی یاد دلاتا ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اُسے خُدا کے لیے خون کا ہدیہ گزراننا چاہیے، اُس نے اصل میں کہا، ’’میں نہیں لاؤں گا۔‘‘ قائین کی فطرت آدم کی برگشتگی سے مسخ ہو چکی تھی۔ اُس کی مسخ شُدہ، تباہ حال فطرت اُس کے باپ سے وراثت میں اُسے ملی تھی۔ خُدا نے آدم کو منع کیے ہوئے پھل کو کھانے سے منع کیا تھا، بلکہ اِس کے بجائے زندگی کے درخت سے کھانے اور ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن آدم نے اصل میں کہا، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ بغاوت کے اِس عمل نے خُدا کے ساتھ اُس کے تعلق کو تباہ کر دیا تھا، آدم کی جانب سے کی گئی دِلی بغاوت نسل انسانی کے اوپر لعنت لے کر آئی۔ قائین نے بھی اپنے دِل میں کہا تھا، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ میں خون کی قربانی نہیں لاؤں گا۔‘‘
نسلوں سے نوع انسانی کے پاس خُدا کے خلاف اُس کے دِل میں ایک موروثی بغاوت ہے۔
اعمال کے ساتویں باب میں، اِسٹیفنس نے ایک واعظ پیش کیا جو تمام تاریخ میں خُدا کی جانب اسرائیل کی بغاوت میں گِنا جاتا ہے۔ اِسٹیفنس کے واعظ کی اختتام میں، اُس نے کہا،
’’اے گردن کشو! تمہارے دِل اور کان دونوں نامختون ہیں، تم پاک روح کی ہمیشہ مخالفت کرتے ہو جیسے تمہارے آباؤاِجداد کرتے آئے ہیں، تم بھی کرتے ہو‘‘ (اعمال7:51)۔
اُس زمانے میں زیادہ تر یہودی قوم وراثت میں ملے ہوئے اپنے اِخلاقی زوال پر عمل کر رہی تھی۔ جب اِسٹیفنس نے تمام تاریخ میں اُن کی خُداوند کے خلاف بغاوت کی نشاندہی کی، تو اُنہوں نے اُسے سنگسار کر کے قتل کر دیا۔ اپنے اعمال کے ذریعے سے، وہ کہہ رہے تھے، ’’ہم نہیں کریں گے! ہم خُداوند یسوع مسیح پر ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ ’’میں نہیں کروں گا‘‘ کے بارے میں اُن کے روئیے نے نتیجتاً اُنہیں اِسٹیفنس کو سنگسار کر کے مارنے پر مجبور کر دیا۔ خُدا کی جانب وہ بغاوت، جو آدم سے وراثت میں ملی، ظاہر کرتی ہے کہ وہ اُس اخلاقی زوال کے ذریعے سے جو اُن میں پہلے آدم کی نافرمانی سے منتقل ہو چکی تھی اپنے دِلوں میں خُدا کے دشمن تھے۔ پولوس رسول نے، جو خود ایک یہودی تھا، یہودی لوگوں کی مرکزی مجلس کے بارے کہا،
’’انجیل کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے وہ تمہارے نزدیک خدا کے دشمن ٹھہرے‘‘ (رومیوں 11:28).
لیکن وہ یہودی جنہوں نے یسوع کو مسترد کیا تھا واحد وہی نہیں تھے جنہوں نے کہا، جیسا کہ تمثیل میں نوجوان نے کہا، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ خُدا کے خلاف آدم کی باطنی بغاوت غیریہودیوں کے دِلوں میں بھی گہری جڑیں پکڑ چکی تھی۔
پولوس نے مارس کی پہاڑی پر سُننے والی ایک بہت بڑی غیریہودیوں کی تعداد کو ایک مشہور منادی کی تھی۔ جب اِن غیر یہودیوں نے پولوس کو خوشخبری کی منادی کرتے ہوئے سُنا، بائبل کہتی ہے،
’’بعض نے اِس بات کو ہنسی میں اُڑا دیا‘‘ (اعمال 17:32).
اُنہوں نے پولوس کی بات کو ہنسی میں اُڑایا اور مسیح کی خوشخبری کو مسترد کیا، کیونکہ اِن غیر یہودیوں کے پاس بھی آدم کی جانب سے وراثت میں ملی ہوئی وہی باغی، مسخ شُدہ فطرتیں تھی۔ جب پولوس نے اِن یونانی غیریہودیوں سے بات کرنا ختم کی، تو اُنہوں نے اُس کی بات کو ہنسی میں اُڑایا، کیونکہ اُن کے پاس بھی آدم کی جانب سے منتقل کی ہوئی وہی باغی، مسخ شُدہ فطرت تھی۔ لہٰذا اُنہوں نے بات کو ہنسی میں اُڑایا، اور اپنے تمسخر پن میں کہا، ’’ہم نہیں آئیں گے۔ ہم یسوع کے پاس نہیں آئیں گے اور اُس پر یقین نہیں کریں گے۔‘‘ اُن میں سے تمسخر اُڑاتے ہوئے ہر ایک غیر یہودی نے اپنے اعمال کے ذریعے سے کہا، ’’میں نہیں کروں گا! میں مسیح پر ایمان نہیں لاؤں گا!‘‘
لہٰذا، حقیقت میں، زیادہ تر یہودیوں اور غیر یہودیوں نے کہا، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘
اِسی لیے تمثیل میں وہ نوجوان شخص زمین پر ہر مرد اور عورت کی ایک تصویر ہے – کیونکہ خُداوند کا تمام نسل انسانی کو خصوصی اِختیار عطا کرنے سے ہٹ کر، جب وہ مسیح کی خوشخبری سُنتے ہیں، تو اِس نوجوان شخص کے ساتھ کہتے ہیں، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ وہ مسیح کو مسترد کرتے ہیں، اور اُس کے پاس اِنکساری کے ساتھ نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دُنیا کے لیے وقف ہو چکے ہوتے ہیں، اپنی زندگی اور کوششوں کو خوراک، اور پیسے اور دُنیاوی چیزوں پر خرچ کرنے کے لیے وقف ہو چکے ہوتے ہیں۔ پولوس رسول نے کہا،
’’اُن کا انجام ہلاکت ہے۔ اُن کا پیٹ ہی اُن کا خدا ہے۔ وہ اپنی اُن باتوں پر جو شرم کا باعث ہیں فخر کرتے ہیں اور دُنیاوی چیزوں کے خیال میں لگے رہتے ہیں‘‘ (فلپیوں 3:19).
اُن کے مقاصد اور اِنتخاب نے اُن کے ذہنوں کو دُنیاوی چیزوں پر قائم کر دیا ہوتا ہے، اور فلپیوں3:19 کا پہلا حصّہ ایسا کرنے کا نتیجہ ہمیں پیش کرتا ہے،
’’اُن کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (فلپیوں 3:19).
اُن مردوں اور عورتوں کے لیے ’’جن کا انجام ہلاکت ہے‘‘ واحد اہم بات، اچھی خوراک پانا ہوتی ہے، دُنیاوی جلال پانا ہوتا ہے، اپنے ذہنوں کو دُنیاوی چیزوں پر ٹِکانا ہوتا ہے۔ اُن کا انجام جہنم میں ہلاکت ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے دِلوں میں کہتے ہیں، ’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ وہ یسوع کے پاس نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے ذہن دُنیا پر ٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اور اُنہیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اُنہیں کیوں یسوع کے لیے دوزانو ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، یسوع کے پاس ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘ ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘
کلام پاک کا ایک اور حوالہ، جو مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے لوگوں کی مسیح کی جانب باطنی بغاوت کی تعلیم دیتا ہے، رومیوں8:6 ۔ 7 میں پایا جاتا ہے۔
’’جسمانی نیت کا ہونا مَوت ہے لیکن رُوحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔ اِس لیے کہ جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے …‘‘ (رومیوں 8:6۔7).
مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے ایک شخص کا ذہن مُردہ ہوتا ہے۔ لیکن مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے شخص کا ذہن خُدا کے ساتھ صلح اور زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔ گناہ سے بھرپور، غیرتبدیل شُدہ ذہن خُدا کے مُخالف ہوتا ہے۔ وہ خُدا کی شریعت کے فرمانبردار نہیں ہوتا، کیونکہ اپنی فطری حالت میں وہ خُدا کی شریعت کے تابع ہو ہی نہیں سکتا۔ دراصل غیر تبدیل شُدہ ذہن سچے طور پر خُدا سے محبت نہیں کر سکتا۔ مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے ایک مرد یا عورت کا دِل کم یا زیادہ خُدا کے مُخالف ہی ہوتا ہے۔
جب خُدا پہلی مرتبہ ایک شخص کو اپنی [خُدا کی] مرضی کے لیے بُلاتا ہے، تو ہر گمراہ شخص اپنے دِل میں خُدا سے کہتا ہے، ’’میں نہیں آؤں گا۔‘‘ میں بائبل یا خُدا کے کلام کی منادی کے لیے زیادہ توجہ نہیں دوں گا۔‘‘ میں خود اپنے دِل کا معائنہ اِس میں بدکاری اور بغاوت کو دیکھنے کے لیے نہیں کروں گا۔‘‘ ’’خُدا کے خلاف اِس قدر شدید باغی ہونے کی وجہ سے سزایابی کے احساس کے تحت لانے کے لیے میں پاک روح کی تلاش نہیں کروں گا۔‘‘ اور، سب سے زیادہ، ’’میں سارے دِل کے ساتھ یسوع کے پاس نہیں آؤں گا اور اپنی روح کے لیے سکون نہیں تلاش کروں گا۔‘‘
’’اُس نے جواب دیا، میں نہیں جاؤں گا: لیکن بعد میں پشیمان ہو کر چلا گیا‘‘ (متی 21:29).
II۔ دوسرا ردعمل، وہ شخص جو کہتا ہے وہ کرے گا، لیکن وہ یہ کرتا نہیں ہے۔
مہربانی سے آیت 30 پر نظر ڈالیں۔
’’اور باپ نے دوسرے بیٹے کے پاس جا کر بھی یہی بات کہی۔ اُس نے جواب دیا، اچھا جناب میں جاتا ہُوں لیکن گیا نہیں‘‘ (متی 21:30).
محصول لینے والوں اور فاحشہ عورتوں نے کہا وہ نہیں جائیں گے، مگر اُنہوں نے اپنے ذہن تبدیل کیے اور مسیح میں ایمان لانے کے لیے گئے۔
تاھم، فریسیوں اور سردار کاہنوں نے کہا وہ خُدا کی فرمانبرداری کریں گے، لیکن اُنہوں نے نہیں کی۔ غور کریں کیسی ڈنگ مار ڈالنے والے ملامت یسوع اُنہیں اکتیسویں آیت میں پیش کرتا ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اُس آیت کو اچھی طرح سے اور باآوازِ بُلند پڑھیں۔
’’اِن دونوں میں سے کس نے اپنے باپ کا حکم مانا؟ اُنہوں نے جواب دیا، بڑے نے۔ یسوع نے اُن سے کہا، میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ محصول لینے والے اور فاحشہ عورتیں تُم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں‘‘ (متی21:31).
آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔
اب، حوالے کے بارے مذید کسی اور وضاحت میں جائے بغیر یا تنقیدی تاویل دیے بغیر، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں – کونسا گروہ بہترین طور سے آپ کی تشریح کرتا ہے؟ کیا آپ خُدا کے سوال کو سنجیدگی سے اپناتے ہیں، اور اِس پر گہرائی کے ساتھ غور کرنے کے بعد، کہتے ہیں، ’’جی ہاں، میں کروں گا‘‘؟ یا آپ بے دِلی کے ساتھ جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے تو ’’ہاں‘‘ کہہ دیتے ہیں؟ میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوں، اگر آپ دوسرے گروہ میں ہوتے ہیں، تو آپ اپنی جان کو گنوانے کے شدید خطرے میں ہوتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی سنجیدہ سوال ہے – ساری زندگی میں سب سے زیادہ سنجیدہ۔ میں اُمید کرتا ہوں آپ اِس پر نہایت گہرائی سے سوچیں گے، اور سچے طور پر توبہ کریں گے، سچے طور پر خُدا کی جانب سے پیش کی گئی ذہن کی تبدیلی کو پائیں، اور پھر پوری قوت کے ساتھ خُداوند یسوع مسیح کی جانب چلے آئیں گے۔ وہ آپ کو ویسے ہی بچا لے گا جیسے اُس نے محصول لینے والوں کو اور فاحشہ عورتوں کو بچایا تھا۔ لیکن وہ جنہوں نے بے دلی سے جواب دیا تھا اتنے ہی گمراہ رہیں گے جتنے کہ فریسی اور سردار کاہن تھے۔ آمین۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan
نے کی تھی: متی21:28۔32 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’میرے پاس آؤCome Unto Me‘‘
شاعر چارلس پی۔ جونز Charles P. Jones، 1865۔1949)۔
لُبِ لُباب دو بیٹوں کے تمثیل THE PARABLE OF THE TWO SONS ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’اُس نے جواب دیا میں نہیں جاؤں گا: لیکن بعد میں وہ پشیمان ہو کر چلا گیا۔ اور وہ باپ نے دوسرے بیٹے کے پاس آ کر بھی یہی بات کی۔ اور اُس نے جواب دیا اور کہا، اچھا جناب میں جاتا ہوں لیکن گیا نہیں‘‘ (متی21:29۔30)۔ I. پہلا ردعمل، وہ شخص کو کہتا ہے میں نہیں کروں گا، لیکن بعد میں پشیمان ہوتا ہے اور فرمانبرداری کرتا ہے، متی21:28؛ اعمال7:51؛ رومیوں11:28؛ اعمال17:32؛ فلپیوں3:19؛ رومیوں8:6۔7 . II. دوسرا ردعمل، وہ شخص جو کہتا ہے وہ کرے گا لیکن وہ یہ کرتا نہیں، |