اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
پاک روح مسیح کو کیسے جلال بخشتا ہےHOW THE HOLY SPIRIT GLORIFIES CHRIST ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ ’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا کیونکہ وہ میری باتیں میری زبانی سُن کر تُم تک پہنچائے گا‘‘ (یوحنا 16:14). |
اگر آپ مسیحیت کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ احساس کرنا شروع کر دیں گے کہ ہم، جسے ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones ’’حوصلہ شکنی کے دِنdiscouraging days‘‘ کہتے ہیں، اِن میں زندگی بسر کر رہے ہیں (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، تبلیغ اور مبلغین Preaching and Preachers، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤسZondervan Publishing House، 1971، صفحہ 117)۔ یہ بات خصوصی طور پر یہاں مغربی دُنیا میں سچی ہے، حالانکہ خُداوند تیسری دُنیا میں کچھ انتہائی حوصلہ افزا طریقے سے تحریک کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، خاص طور پر چین، جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور انڈیا کے حصوں میں۔
مگر یہاں مغرب کی عظیم جمہوریتوں میں، خصوصی طور پر مبلغین کے لیے یہ بِلاشُبہ ’’حوصلہ شکنی کے دِن‘‘ ہیں۔ روشن خیالی کی عقلیت پسندی عام آدمی تک چھن کر پہنچ چکی ہے، اور بڑے بڑے فرقوں کا دِل نکال کر کھا چکی ہے، اُنہیں اُن کے سابقہ جلال کا محض ایک سایہ بنا کر چھوڑ چکی ہے۔
اُن میں سے جو اب بھی بائبل پر یقین رکھتے ہیں، بیسویں صدی میں، وہاں پر ایک تقسیم تھی۔ آدھے لوگ بائبل کی تفسیر میں پڑ گئے اور باقی آدھے پاک روح سے تعلق رکھتی ہوئی دیوانگی کے بدل پزیر درجوں میں پڑ گئے۔ مگر دونوں ہی لوگوں نے انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے طریقوں سے تعلق رکھتے ہوئے ایک ہی نظریے کو برقرار رکھا۔
خود اپنی ہی زندگی میں ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer کو ’’بیسویں صدی کا ایک نبی‘‘ کہا گیا تھا، اور اُن کی وفات کے چالیس سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد تک اُس خطاب سے پکارا جانا جاری رکھا گیا تھا۔ اپنے مضامین میں سے ایک میں ڈاکٹر ٹوزر نے یہ زودفہم بیان دیا اور میرے خیال میں یہ ایک دانشمندانہ اور دُرست بیان ہے۔ اُنہوں نے کہا،
دورِ حاضرہ کی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیمات میں سنجیدہ کمزوریوں میں سے ایک اِس کے سوچنے کی میکینکی صفت ہے۔ افادیت پسند مسیح دوسرے اور خوشگوار زمانوں کے درخشاں مُنّجی کی جگہ لے چکا ہے۔ یہ مسیح نجات دلانے کے قابل ہے، یہ سچ ہے، مگر وہ انسداد بھرے عملی انداز میں ایسا کرنے کے لیے سوچا جاتا ہے، ہمارا قرض ادا کرتے ہوئے اور رسید کو یوں پھاڑتے ہوئے جیسے عدالت کا ایک کلرک ادا کیے گئے جرمانے کو منظور کرتا ہے۔ بینک میں معلومات فراہم کرنے والے کی نفسیات ہماری مذہبی سوچ کی زیادہ خصوصیت رکھتی ہے… اِس کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سب سچ ہوئے بغیر ہی سچ ہوتا ہے (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ A. W. Tozer, D. D.، ہم ایک مقررکردہ راہ پر سفر کرتے ہیں We Travel an Appointed Way، کرسچن اشاعتی ادارے Christian Publications، دوبارہ اشاعت 1988، صفحات63۔64)۔
ڈاکٹر ٹوزر نے کہا کہ مسیحی تاریخ میں ’’افادیت پسند مسیح‘‘ دوسرے اور خوشگوار زمانوں کے ’’درخشاں مُنّجی‘‘ کی جگہ لے چکا ہے۔ لفظ ’’افادیت پسند utilitarian‘‘ سہولت یا فائدہ مندی کی نشاندہی کرتا ہے، ’’باقی تمام دوسرے امور سے زیادہ افادیت پر زور‘‘ (ویبسٹر کی بیسویں صدی کی نئی لُغت Webster’s New Twentieth Century Dictionary)۔ ٹوزر ہمیں بتا رہے تھے کہ آج مسیحیوں کا مسیح کے بارے میں سوچنے کا رُجحان نجات پانے کے صرف ایک فائدہ مند ذریعے کی حیثیت سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم رُجحان رکھتے ہیں ’’اپنی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم میں ایک میکینکی صفت کا … [اور] مسیح کا ایک افادیت پسند نظریہ رکھتے ہیں،‘‘ ایک مسیح کا جس کو نجات پانے کے لیے میکینکی طور پر ’’استعمال‘‘ کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہم سوچتے ہیں مسیح ایک شخص کو ایک عدالت کے کلرک کی مانند ’’نجات دلاتا‘‘ ہے، یا بینک میں معلومات فراہم کرنے والے کی مانند جو ’’رسید کو پھاڑتا ہے… ایک ادا شُدہ جرمانے کو منظور کرتا ہے۔‘‘ یہاں پر ڈاکٹر ٹوزر جس بات تک پہنچ رہے ہیں وہ میکینکی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم ہے، جہاں پر ایک شخص دو یا تین مسیحی عقائد کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے، محض ایک خودکار ’’فیصلہ‘‘ لیتا ہے اور فرضی طور پر نجات پا لیتا ہے، جیسے آپ کو ایک رسید ملتی ہے جب آپ ایک بینک میں جاتے ہیں۔ میں انتہائی زیادہ خوفزدہ ہوں کہ وہ دُرست ہیں۔ اور یہ افادیت پسند نظریہ ہمیں ایک میکینکی نجات دیتا ہے۔ آپ ’’سامنےآتے‘‘ ہیں، یا ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ میں سے مخصوص الفاظ ادا کرتے ہیں، اور منتقلی مکمل ہو جاتی ہے، اور آپ چلے جاتے ہیں، واپس دُنیا میں، مسیح اور اُس کی کلیسیا کے بارے میں بھولتے ہوئے۔ آخرکو، آپ مذھبی رسومات میں سے گزر چکے تھے اور دُرست الفاظ ادا کر چکے تھے۔ اِس سے بڑھ کر نجات کے لیے یہاں اور کیا ہے؟
پھر، ایک شخص کے ’’فیصلہ‘‘ کرنے کی تکنیکی پہلو میں سے گزر چکنے کے بعد جلدی سے بپتسمہ دے دیا جاتا ہے، مبلغ تعجب کرتا ہے اِس کے ساتھ کیا کِیا جائے۔ انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے لوگوں کا پہلا گروہ جس کے بارے میں مَیں نے بات کی تکنیکی پہلو میں سے گزر کر فیصلہ کیے ہوئے، نئے نئے ’’مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے شخص‘‘ کو اپناتا ہے اور اُسے بائبل کی تعلیمات دینے کے ذریعے سے اُس کی تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرا گروہ پاک روح کے ’’دوسرے کام‘‘ میں اُس کو لانے کی کوشش کرتا ہے۔ دُکھ بھری سچائی تو یہ ہے کہ، زیادہ تر معاملات میں، کوئی بھی ’’پہلا کام‘‘ کیا ہی نہیں گیا ہوتا ہے – اور، یوں، بائبل کے مطالعے کی کوئی بھی مقدار یا ’’گہرے تجربات‘‘ اُس کو بالکل بھی کوئی فائدہ پہنچاتے ہوں، کیونکہ اُس کی اب بھی
’’… عقل تاریک ہو گئی اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خدا کی دی ہُوئی زندگی میں اُن کا کوئی حصہ نہیں‘‘ (افسیوں4:18).
ایک ’’تکنیکی پہلو‘‘ کے سے انداز میں ’’افادیت پسند مسیح‘‘ کو پیش کرنے کے نتیجے میں، کوئی بھی مسیح میں ایمان لانے کی نئی تبدیلی نہیں ہوتی – اور، اِس طرح سے، بائبل کی تعلیمات کی کوئی مقدار یا ’’گہرے تجربات‘‘ کسی بھی طور سے کسی طرح کی مدد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضرہ کے ہمارے ’’مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے لوگوں‘‘ میں سے 90 % سے بجا طور پر زیادہ لوگ جلدی برگشتہ ہو جاتے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر کبھی بھی گرجہ گھر میں واپس آتے ہی نہیں۔
مگر یسوع نے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کا ایک سچا اور زیادہ بائبلی طریقہ پیش کیا جب اُس نے کہا، پاک روح سے تعلق رکھتے ہوئے،
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا کیونکہ وہ میری باتیں میری زبانی سُن کر تُم تک پہنچائے گا‘‘ (یوحنا 16:14).
یہ آیت ایک سچی تبدیلی میں پاک روح کے سب سے زیادہ اہم کام کا انکشاف کرتی ہے۔ آئیے ہماری تلاوت کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سوچتے ہیں۔
I۔ پہلی بات، پاک روح کس کو جلال نہیں بخشتا ہے۔
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14)
.ہماری تلاوت کے مطابق، پاک روح جلال نہیں بخشتا ہے، پر تبصرہ کرنے کے ذریعے سے ہم اِس پر ایک منفی انداز میں حکمت عملی اپناتے ہیں۔
مجھے یہاں پر واضح کرنے کے لیے رُک جانا چاہیے کہ لفظ ’’جلال بخشناglorify‘‘ کا اِس تلاوت میں مطلب کیا ہوتا ہے۔ یونانی لفظ میں ’’جلال بخشنےglorify‘‘ کے ترجمے کا مطلب ہوتا ہے ’’تعظیم بخشنا، بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، عظیم بنانا‘‘ (Strong’s Exhaustive Concordance)۔ پاک روح کا مقصد مسیح کو عزت بخشنا، تعظیم بخشنا اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہوتا ہے، گنہگار کی نظروں میں اُس [یسوع] کو بڑا بنانا ہوتا ہے۔
اب اِس کا، بِلاشُبہ، ایک منفی رُخ ہوتا ہے۔ اگر پاک روح کا مقصد مسیح کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اُس کو عزت بخشنا ہے تو پھر کم از کم تین باتیں ہیں جن کو وہ جلال نہیں بخشتا یا عزت نہیں بخشتا، کم از کم اُسی درجے پر۔
پہلی عقیدہ ہے۔ اِس سے میری مُراد درجہ بہ درجہ علم الہٰیات ہے۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں علم الہٰیات کی ضرورت کو اصل سے کم بیان کر رہا ہوں، جو کہ ٹھوس نظامِ عقائد کہلاتا ہے۔ بالکل بھی نہیں۔ میں اپنی مطالعہ گاہ میں جب میں اِس واعظ پر کام کر رہا تھا تو ایک شیلف پر ڈال رہا ہوں۔ میں نے ڈبلیو۔ جی۔ ٹی۔ شیڈ W. G. T. Shedd کی تحریر کردہ کتاب عقیدیاتی علم الہٰیات Dogmatic Theology ، ڈاکٹر ھنری سی۔ تھائیسن Dr. Henry C. Thiessen کی لکھی ہوئی کتاب درجہ بہ درجہ علم الہٰیات میں لیکچرز Lectures in Systematic Theology، سٹرانگ کا علم الہٰیات Strong’s Theology، اور نظام عقائد کی بے شمار دوسری کُتب پر نظر ڈالی۔ سپرجیئن کے واعظ نظام عقائد سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ اُن باتوں میں سے ایک ہے جو اُنکو اِس قدر زیادہ اشد قوت بخشتی ہے۔ سپرجیئن کے واعظ نظریاتی [عقائدی] واعظ ہوتے ہیں، اور یہ بات اچھی ہے – جس حد تک یہ جاتی ہے۔ کیونکہ نظام عقائد تنہا نجات کو نہیں لاتے ہیں۔
نظام عقائد ہمیں بدعتوں اور مختلف انواع کے انتہائی تعصبوں [جنونیتوں] میں بھٹکنے نہیں دیتے۔ لیکن دُرست نظامِ عقائد، بذات خود، مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے شخص میں زندگی کو نہیں لاتے ہیں۔ مسیح یہ بات جانتا تھا، اور اِسی لیے پاک روح کے بارے میں کہا،
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14)
.اگلی دوسری بات جس کو پاک روح جلال نہیں بخشتا اور بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا، انسانی تجربہ ہے۔ یہ ہی ہے جہاں پر بے شمار دوسری صورتوں میں اچھے کرشماتی مشن والے اور پینتکوست مشن والے مبلغین اکثر غلطی پر ہوتے ہیں۔ وہ نظام عقائد کو نیچا دکھانے اور انسانی تجربے کو عزت بخشنے کا رُجحان رکھتے ہیں۔ یہ ایک غلطی ہے جس نے ہمارے زمانے میں بے شمار غیرکلامی [غیر بائبلی] اور یہاں تک کہ بدعتی عادات و اطوار اور اعتقادوں کو جنم دیا ہے۔ میں یہاں پر اُن کی فہرست میں نہیں جاؤں گا، لیکن میرے خیال میں اُن میں سے بے شمار سے آپ آگاہ ہو جائیں گے اگر آپ ٹیلی ویژن پر چند ایک منٹوں کے لیے گاہے بگاہے زیادہ مشہور و معروف ’’پاک روح‘‘ کے مبلغین کو دیکھیں۔
تیسری بات جس کا مسیح وعدہ نہیں کرتا وہ ہے کہ پاک روح شریعت کو جلال بخشے گا۔ میں بالکل بھی شریعت کی تبلیغ کے خلاف نہیں ہوں، کیونکہ یہ وہ ہو سکتا ہے جس کو پیوریٹنزPuritans ’’دِل کا کام heart work‘‘ کہتے ہیں، جو گنہگار کو اُس کی مسیح کے لیے ضرورت کو دکھاتے ہیں۔ یہ ٹھیک اور اچھا ہے۔ مگر شریعت کی تعلیم کو خود اپنے میں ایک اختتام کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہو تو واعظ ایک پُرجوش تقریر کی مانند بن جاتا ہے، جو لوگوں کو بتاتا ہے اُنہیں کیا کرنا چاہیے، اُنہیں زیادہ سے زیادہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ یہاں تک کہ بِگڑ کر چڑچڑا پن بن سکتا ہے، اور مبلغ مخصوص سنڈے سکول کے اُستاد کی مانند بن جاتا ہے جو اپنے طُلبہ میں اچھا روئیہ لانے کے لیے دھونس جمانے کی کوشش کرتا ہے، بائبل کی آیات کے حوالے دینے کے ذریعے سے جو اُنہیں بتاتے ہیں کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے، اُنہیں زیادہ سے زیادہ اچھا بننے کے لیے مجبور کرتے ہیں، جیسے اچھا روئیہ اُنہیں کسی نہ کسی طرح خُدا کی بادشاہی میں لے آئے گا۔ بکثرت نہیں، یہ سادہ طور پر طالب علموں میں سنڈے سکول سے نفرت کرواتا ہے، اور یہاں تک کہ اُن کے دلوں میں اُن مسیحی سکول کے لیے بھی نفرت کرواتا ہے جن میں وہ پڑھتے ہیں۔ ایسے طالب علم کلام پاک کے طویل پلندوں کو حفظ کر لیتے ہیں جو اُنہیں اچھا لڑکا اور لڑکی ہونے کے لیے بتاتے ہیں، اُن کے دِلوں میں پہنچے بغیر اور اُنہیں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل کیے بغیر۔ جیسا کہ لوتھر نے اِس کو لکھا، ہم شریعت کی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوتے ہیں، بلکہ مسیح یسوع میں خُدا کی محبت کے وسیلے سے! میرے خیال میں وہ اُس مخصوص نکتے پر دُرست تھے۔ شریعت کو ہمیں صرف غلط اور صحیح کی تعلیم دینے کے لیے ہی استعمال نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ ظاہر کرنے کے لیے بھی کہ ہم نے اِس کو توڑا ہے، اور نجات دہندہ کی معافی اور رحم کی ضرورت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ باتوں میں سے چند ایک ہیں جن کو پاک روح بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، تعظیم بخشنے اور جلال بخشنے کے لیے نہیں آیا ہوتا ہے۔
II۔ دوسری بات، پاک روح کس کو جلال نہیں بخشتا ہے۔
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14)
.مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے ایک شخص میں یہ کس طرح سے رونما ہوتا ہے؟ ٹھیک ہے، پاک روح مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے ایک شخص کو اُس کی نا اہلیت اور گناہ دکھانے کے ذریعے سے مسیح کی تعظیم اور بڑھائی کروانی شروع کرتا ہے۔ مسیح ایک غیر نجات یافتہ شخص کی نظروں میں مقبولیت نہیں پائے گا جب تک کہ وہ شخص اپنی ضرورت کو نہیں دیکھتا، ایک تباہ حال گنہگار کی حیثیت سے۔ جب تک وہ غیرنجات یافتہ شخص دیکھ نہیں لیتا کہ وہ کھو چکا یا گمراہ ہو چکا ہے وہ نجات دہندہ کے لیے اپنی ضرورت کو محسوس نہیں کرے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر جے۔ گریشام میکحن Dr. J. Gresham Machen اِس کو اِس قدر موزوں انداز میں تحریر کرتے ہیں، ’’گناہ کی آگاہی کے بغیر، ساری کی ساری خوشخبری ایک بے بنیاد کہانی کی طرح دکھائی دے گا‘‘ (جے۔ گریشام میکحن، پی ایچ۔ ڈی۔ J. Gresham Machen, Ph.D.، مسیحیت اور آزاد خیالی Christianity and Liberalism، عئیرڈمینز Eerdmans، 1923، دوبارہ اشاعت 1983، صفحہ66)۔
اِسی لیے، پاک روح کا پہلا کام ایک غیرنجات یافتہ شخص کو اُس کے گناہ کے لیے قائل کرنا ہوتا ہے۔ کلام پاک کے اِسی حوالے میں، یوحنا16:8 میں، یسوع نے کہا،
’’اور جب وہ مددگار [سکون پہنچانے والا، یعنی کہ پاک روح] آجائے گا تو جہاں تک گناہ، راستبازی اور اِنصاف کا تعلق ہے، وہ دنیا کو [سزایافتہ، قائل کرنا، غلطی بتانا،‘‘ Strong] مجرم قرار دے گا‘‘ (یوحنا 16:8).
مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے میں پاک روح کا یہ پہلا کام ہوتا ہے، یہ ابتدائی کام ہوتا ہے۔ وہ گنہگار کو مجرم قرار دیتا ہے۔ وہ گنہگار کو اُس کی حالت کے بارے میں قائل کرتا ہے۔ وہ گنہگار کو بتاتا ہے کہ وہ [گنہگار] غلطی پر ہے۔ وہ یہ اِس لیے نہیں کرتا ہے کہ اُس گنہگار کو ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے تنگ کرے، بلکہ اُس کو اُس کی نااُمیدی کی حد تک گمراہ حالت کے بارے میں قائل کرے۔
کیا میں آپ کو مشورہ دے سکتا ہوں کہ آپ کو خُدا کے روح کے اُس مجرم قرار دینے والے کام کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا میں آپ کو تجویز دے سکتا ہوں کہ آپ کو خود اپنے ضمیر میں خُدا کے روح کے کام پر توجہ دینی چاہیے؟ جیسا کہ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones اِس کو تحریر کرتے ہیں،
کیا ہمارا اپنا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا؟ جب میں اپنے نظریاتی اور حکمتی دلائل پیش کرتا ہوں تو خود مجھ میں ایک آواز مجھے ملامت کرتی ہے… مجھے بتاتی ہے یہ سچ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص بالاآخر خود کو مطمئن نہیں کر سکتا، اِس سے بھی کم تر وہ خُدا کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ جب ایک شخص کامل طور پر خود سے ایمانداری برتتا ہے، تو وہ جانتا ہے کہ اُس کے بارے میں کچھ بھی کافی اچھا نہیں ہوتا۔ چالاکی کے بجائے مباحثے میں اپنا نکتہ نظر پانے کی کوشش اور بحث کرنے کے لیے یہ ایک بات ہوتی ہے، لیکن جب ایک شخص کو خود پر چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جب ایک شخص خود پر نظر ڈالتا ہے اور خود کا معائنہ کرتا ہے، تو وہ جانتا ہے کہ وہ دو کوڑی کا اور ناکافی ہوتا ہے۔ خود میرا اپنا مُنہ مجھے ملامت کرے گا اگر میں خُدا کی حضوری میں دعویٰ کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں کامل ہوں (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ D. Martyn Lloyd-Jones, M.D.، پرانے عہد نامے پر انجیلی بشارت کے پرچار کے واعظ Old Testament Evengelistic Sermons، بینر آف ٹرُٹھ ٹرسٹ Banner of Truth Trust، 1995، صفحہ165)۔
کیا آپ اب بھی سوچتے ہیں آپ خود اپنے ضمیر میں ایک ایماندارانہ طریقے سے دیکھ سکتے ہیں، اور کہہ سکتے ہیں، ’’میں خُدا کی نظر میں کافی اچھا ہوں‘‘؟ یہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ خود اپنے ضمیر کے ساتھ ایماندار ہونا اور دیانتدار ہونا شروع کرتے ہیں کہ آپ خُدا کی حضوری میں اپنی گمراہ گناہ کی فطرت اور جرم کے بارے میں قائل ہونا شروع کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کے ساتھ اِس قسم کی ایمانداری خُدا کے روح کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے، گمراہ شخص کو اُس جگہ پر لاتی ہے جہاں پر پھر مسیح کو جلال بخشا جاتا ہے، بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اور گنہگار کی نگاہوں میں عظیم بنایا جاتا ہے۔
کیا آپ جس طرح کے ہیں کافی ٹھیک ہیں؟ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں، تو پھر خوشخبری میں آپ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک ’’بےبنیاد کہانی‘‘ ہے جو آپ گرجہ گھر میں بار بار سُنتے ہیں۔ مسیح کی خوشخبری کبھی بھی آپ کو گرفت میں نہیں لے گی جب تک پہلے خُدا کے روح کے وسیلے سے آپ کے دِل میں ایک چُبھن والا گھاؤ نہیں بن جاتا۔
سزایابی نازک ہوتی ہے۔ یہ شاید جلدی آ سکتی ہے، مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے محض چند سیکنڈ یا منٹ پہلے۔ یا یہ شاید آہستہ آہستہ آ سکتی ہے، دِنوں کے ایک دورانیے میں۔ کبھی کبھار سزایابی کا کام ایک طویل مدت تک کے لیے جاری رہتا ہے، جیسا کہ جان بعنئین John Bunyan کے معاملے میں تھا، جو کہ سزایابی کی حالت میں، میرا یقین ہے 18 مہینے تک رہے۔ لوتھر اُس کے مقابلے میں اِس سے بھی طویل مدت کے لیے سزایابی کی حالت میں رہے تھے۔ ایسا ہی سپرجیئن کے ساتھ تھا۔
سزایابی میں، گنہگار کی روح میں ایک ہولناک جنگ جاری رہتی ہے۔ کیا آپ اب اُس حالت میں ہیں؟ اگر آپ ہیں، تو پھر آپ کے باطن میں ایک جدوجہد جاری ہے۔ یہ خود آپ کی اپنی مسخ شُدہ فطرت اور خُدا کے روح کے درمیان ایک جدوجہد ہوتی ہے۔ آپ کی بدکارشُدہ فطرت خود اپنی شرائط پر نجات چاہتی ہے، ناکہ خُدا کی شرائط پر۔ خُدا آپ کو آپ کا اندرونی گناہ دکھا رہا ہوتا ہے، اور آپ مزاحمت کر رہے ہوتے ہیں، روح کے ساتھ متفق نہیں ہو رہے ہوتے، روح کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں، خُدا کے فیصلے کو آپ کے خلاف ایک ناقابلِ اصلاح مسخ شُدہ گمراہ مرد یا عورت کی حیثیت سے منظور کیے بغیر نجات پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
آپ شاید سوچتے ہوں کہ آپ نے ابھی سزایابی میں آنا شروع نہیں کیا ہے جب کہ، در حقیقت، سزایابی کا کام پہلے ہی سے آپ میں شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر آپ افسردہ، مضطرب اور پریشانی محسوس کرتے ہیں، تو آپ کیا سوچتے ہیں آپ کو وہ افسردہ، مضطرب اور پریشانی والے خیالات کس نے دیے ہیں؟ اور کون ماسوائے خُدا کے روح کے!
لفظ ’’پریشان confused‘‘ اکثر سزایابی کے پہلے حصے کے بارے میں وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ ’’پریشان‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’بدحواسdisturbed،‘‘ ’’مخمسے میں پڑا ہواperplexed،‘‘ ’’مُذبذب uncertain،‘‘ یہاں تک کہ ’’سمجھ سے بالا ترmystified۔‘‘ سزایابی کے آغاز میں، گنہگار شاید تسلسل کے ساتھ کہتا ہے، ’’لیکن میں کیسے نجات پا سکتا ہوں؟‘‘ بالکل یہی تھا جو فلپی نگران نے کہا جب وہ سزایابی میں آیا تھا۔ لیکن اگر آپ کی سزایابی گہری نہیں ہے جب آپ وہ سوال پوچھتے، ’’نجات پانے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اِس سے کچھ بھی نہیں ہوگا، اور آپ بدحواس اور سمجھ سے بالاتر حالت میں چھوڑ دیے جائیں گے کیونکہ آپ کا دِل ابھی تک خدا کے روح کے خلاف لڑ رہا ہوتا ہے۔ ایک شخص کچھ عرصے کے لیے بدحواس حالت میں گزار کر سکتا ہے، کیونکہ وہ مکمل مذمت و ملامت کے فیصلے کے تابع ہونے سے انکار کرتا ہے جس کا کہ وہ بہت زیادہ مستحق ہوتا ہے۔ اُس کی روح میں جاری لڑائی خُدا کے روح کے ساتھ ہوتی ہے، جو اُس کو گناہ کی سزایابی میں لاتی ہے اور وہ اُس کے تابع ہونے سے انکار کرتا رہتا ہے اور اپنے شکوک اور دلائل کے اختتام تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، یہ بہت تیزی سے ہو سکتا ہے، یا یہ خُدا کے ساتھ ایک طویل اندرونی کشمکش کا کھچاؤ ہو سکتا ہے۔ کتنے عرصے تک آپ کے گناہ کے بارے میں خُدا کے نظریے کی مزاحمت کا یہ ناخوشگوار وقت جاری رہے گا؟ یہ منحصر ہوتا ہے کہ آیا آپ خُدا کی شریعت کے تابع ہو جائیں گے اور مکمل طور سے اتفاق کریں گے کہ آپ کسی بھی کام کے نہیں ہیں بلکہ عذاب کے مستحق ہیں جیسے کہ آپ ہیں۔
جب بالاآخر گنہگار اپنی جان میں خُدا سے لڑنا روک دیتا ہے اور شکشت تسلیم کر لیتا ہے، اپنے دلائل ہار جاتا ہے، اور سزایابی کے لیے گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ وہ باغی ہے، اور خُدا سے لڑ رہا ہے، اور کہ وہ مکمل طور سے خُدا کے فیصلے کا مستحق ہے، تو خُدا کے روح کا سزایابی کا کام اختتام کے قریب پہنچ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اُس نے آپ کی جان کے لیے جنگ جیت لی ہوتی ہے، جیسا کہ اُس کو جیتنا چاہیے۔ گنہگار اب نااُمیدی اور مایوسی کی قطعی حالت میں ہوتا ہے، خود میں ایسا کچھ نہیں پاتا جو اُس کو پاک خُدا کی حضوری میں دُرست بنا سکے۔ اِس مرحلے پر، خُدا کے شفیق سزایابی کے کام کے وسیلے سے اُس میں سے تمام لڑائی کو نکال باہر کرنے کے ساتھ، وہ خُود کو خُدا کی نظر میں ایک خوفناک حد تک باغی اور قابلِ نفرت ’’کیڑے‘‘ کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ ڈاکٹر واٹس Dr. Watts کے مشہور الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے،
کیا وہ اُس پاک سر کو نچھاور کر دے گا
ایک ایسے کیڑے کے لیے جیسا میں ہوں؟
(’’افسوس! اور کیا میرے نجات دہندہ نے خون بہایا؟
Alas! And Did My Saviour Bleed? ‘‘ شاعر آئزک واٹز،
Isaac Watts, ، 1674۔1748)۔
اب، جب آپ خود کو گناہ سے بھرپور ایک ’’کیڑے‘‘ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، تو آپ شاید خُدا کے روح کے آخری کام کے لیے تیار ہوتے ہیں، جو ہے،
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14)
.آپ کے تمام دلائل کو خاموش کرا دینے کے ساتھ، اور آپ میں گناہ اور بے قدری کی ایک گہری سمجھ کے ساتھ، خدا کا روح جلال بخشنے، عزت دینے اور آپ کی زندگی میں پہلی مرتبہ آپ کی نظروں میں خُدا کے بیٹے کو عظیم بنانے کے لیے تیار ہوگا۔
اگر کبھی بھی آپ پر وہ وقت آ جاتا ہے تو آپ یسوع کی جانب اچانک ایک نئے ہی انداز میں دیکھیں گے۔ وہ اب مذید اور دور ماضی میں سے ایک شخصیت ہی نہیں ہوگا۔ وہ اب آپ کے ذہن میں خُدا کے برّے کی حیثیت سے رونام ہوگا جو آپ کی پریشانی کی حالت کو، اندرونی لڑائی کو، ذہن اور دِل کی غلاظت کو اُٹھا لے جائے گا۔ ایک نور کی شعاع کی مانند یسوع واحد حل کی حیثیت سے نمودار ہوگا، واحد اُمید، آپ جیسے گناہ سے بھرپور ایک ’’کیڑے‘‘ کے لیے۔
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14).
آپ کے دِل میں۔ اور آپ واضح طور پر دیکھ پائیں گے کہ یسوع ہی جلعاد Gilead کا مرہم ہے۔ آپ اُس کو خُدا کے واحد اکلوتے جلالی بیٹے کی حیثیت سے دیکھیں گے، جو فضل اور سچائی سے معمور ہے۔ آپ اُس کو واحد مخلصی بخشنے والے کی حیثیت سے دیکھیں گے جو آپ کے لیے گناہ کے کفارے کی ممکنہ طور پر ادائیگی کر پائے گا، وہ جواز صرف اُس کی راستبازی کے ذریعے سے ہے، صفائی صرف اُس کے خون کے وسیلے سے ہے، اور گناہ کے لیے کفارہ اُس کی صلیب پر صرف قربانی کے وسیلے سے ہے۔ آپ دیکھ پائیں گے کہ تنہا یسوع ہی آپ کو گناہ سے آزاد کر پائے گا، کہ تنہا یسوع ہی آپ کو خود اپنی غیرارضی راستبازی میں لباس پہنا سکتا ہے، غیرارضی اِس لیے کیونکہ یہ اُس سے آتا ہے جو عالم بالا میں رہتا ہے، اور ذرا سے بھی معنوں میں آپ کے باطن میں سے نہیں۔ اور اُس کی غیر ارضی راستبازی کے لیے، جس کے ساتھ وہ آپ کو لباس مہیا کر سکتا ہے، مسیح اپنے سب سے زیادہ قیمتی اور پاک خون کے وسیلے سے آپ کے گناہ کی صفائی میں اضافہ کرتا ہے۔
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14).
یسوع کے بارے میں اِن جلالیت سے بھرپور اور انتہائی تعظیم بھرے خیالات کا ہونا صرف اُنہی لوگوں کے پاس ہوتا ہے جو گناہ کی سزایابی کے ذلیل تجربے سے گزر کر اُنہیں پانے کے لیے خدا کے روح کے ذریعے سے تیار کیے جاتے ہیں
لیکن، اگر آپ تیار ہیں، اگر آپ ’’اپنے گناہ کے بوجھ سے تھک‘‘ چکے ہیں، جیسا کہ حمدوثنا کا ایک پرانا گیت اِس کو لکھتا ہے، کیا تم اب یسوع پر نظر ڈالو گے، تمہارا پیارا ترین دوست، تمہارا سب سے بڑا آزادی بخشنے والا، تمہاری واحد اُمید؟
آپ سزایابی کی مٹی میں سے کھینچ کر نکالے جا چکے ہیں۔ کیا آپ اب یسوع کے صاف اور بہتے ہوئے پانیوں کے لیے آئیں گے، اُس کے خون میں غسل کریں گے، اُس کی پاکیزگی اور راستبازی میں لباس زیب تن کریں گے؟
کیا آپ آئیں گے اور اپنے گھٹنوں پر خُدا کے باوقار و عظیم بیٹے کے سامنے جھکیں گے؟ کیا آپ خود کو اُس کے حوالے کریں گے اور اُس کی محبت میں قائم رہیں گے؟ کیا آپ ایسا آج کی رات کریں گے؟
آپ کہتے ہیں، ’’لیکن، میں تو اِس قدر سزایابی میں نہیں آیا ہوں۔ فضول بات ہے! آپ خُدا کے خلاف کافی دیر سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ آج کی رات اِس سے چھٹکارہ پائیں۔ جب آپ سوال ’’کیا آپ مسیح کے پاس آئیں گے؟‘‘ کے جواب میں کہتے ہیں ’’جی ہاں‘‘ تو جدوجہد شاید ختم ہو چکی ہوتی ہے – اور آپ کی جان شاید مسیح یسوع کے وسیلے سے نجات پا لے گی۔ کیا آپ آج کی رات خُدا کے روح کے خلاف لڑائی کو ختم کریں گے اور مسیح کے تابع اُس کے پاس ابھی آنے کے ذریعے سے ہو جائیں گے؟ اگر آپ کریں گے، تو مسیح بڑھائی پائے گا، عزت پائے اور آپ کی نظروں میں اتنہائی عظیم بن جائے گا۔
’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا‘‘ (یوحنا 16:14).
اور آپ، یوحنا رسول کی مانند، کہنے کے قابل ہوتے ہیں،
’’اور جب میں نے اُسے دیکھا، میں اُس کے پاؤں میں مُردہ سا گر پڑا اور اُس نے اپنا دایاں ہاتھ مجھ پر رکھا اور کہا کہ خوف نہ کر … میں تا ابد زندہ رہوں گا، آمین؛ اور مَوت اور عالمِ ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں‘‘ (مکاشفہ 1:17۔18).
جب ایسا رونما ہوتا ہے، تو آپ کے پاس مذید اور عرصے کے لیے ’’میکینکی، افادیت پسند مسیح‘‘ نہیں ہوتا ہے، جس کے بارے میں ڈاکٹر ٹوزر نے بتایا تھا۔ پاک روح مسیح کو جلالی کر چکا ہوگا اور آپ کی نظروں میں انتہائی عظیم بنا چکا ہوگا۔ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہوگا ماسوائے اُس کے قدموں میں گرنے اور ایمان کے وسیلے سےاُس یسوع میں بھروسہ کرنے کے۔ تب آپ جان پائیں گے کہ آپ کی نجات ایک دل سوز، مسخ شُدہ ’’کیڑے‘‘ کے لیے اُس کا تحفہ تھی، جو کسی طور بھی، بناوٹ یا ساخت میں اِس کا مستحق نہیں تھا، کیونکہ ’’نجات خُدا کی طرف سے آتی ہے‘‘ (یوناہ2:9)۔ آمین۔
اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.
یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔
واعظ سے پہلے کلامِ پاک کی تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعینDr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: یوحنا16:7۔15 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع، صرف یسوع Jesus, Only Jesus‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائسDr. John R. Rice، 1895۔1980)۔
لُبِ لُباب پاک روح مسیح کو کیسے جلال بخشتا ہے HOW THE HOLY SPIRIT GLORIFIES CHRIST ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے ’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا کیونکہ وہ میری باتیں میری زبانی سُن کر تُم تک پہنچائے گا‘‘ (یوحنا 16:14). (افسیوں4:18) I. پاک روح کس کو جلال نہیں بخشتا، یوحنا16:14 . II. پاک روح کس کو جلال بخشتا ہے، یوحنا16:8؛ مکاشفہ1:17۔18؛ یونس2:9 . |