Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


ایلی، ایلی لما شبقتنی؟

ELI, ELI, LAMA SABACHTHANI?
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

خداوند کے دِن کی صبح ایک واعظ کی منادی کی گئی، 5 دسمبر، 2004
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Lord’s Day Morning, December 5, 2004
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’یسوع بڑی اونچی آواز سے چِلّایا، ایلی، ایلی لما شبقتنی؟ جس کا مطلب ہے: اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27: 46)۔

میں سمجھتا ہوں کہ سپرجیئن درست تھے جب انہوں نے کہا کہ ہم واقعی ان الفاظ کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ جو بات اِس آیت کو اِس قدر مشکل بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کے ’’پوشیدہ معنوں‘‘ کو نہیں جان سکتے۔ یہ وہ بات ہے جو انسانی تجربے اور سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہے۔ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ سطحی طور پر اِس کو سمجھیں اور اس کے بارے میں کچھ رائے پیش کریں۔

ہم شاید ان الفاظ پر رائے دیتے ہوئے بات شروع کر سکتے ہیں، ’’ایلی، ایلی، لما شبقتنی؟‘‘ ’’ایلی‘‘ کا لفظ عبرانی زبان میں ’’خدا‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔ ’’لما شبقتنی‘‘ آرامی [زبان کا لفظ] ہے، ’’تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ مسیح نے صلیب سے یہ الفاظ کہے، جب اُس نے اذیتیں برداشت کیں، اور دوپہر کے سورج کی روشنی تاریکی میں تبدیل ہو گئی۔

سورج تاریکی میں چھپ جائے،
     اور اپنی حشمتوں کو چھپا لے،
جب مسیح، عظیم ترین خالق مرا
     انسان کے گناہ کے لیے، جو مخلوق کا گناہ تھا۔
(’’افسوس! اور کیا میرے نجات دہندہ نے خون بہایا؟Alas! And Did My Saviour Bleed? ‘‘ شاعر آئزک واٹز، ڈی۔ڈی۔ Isaac Watts, D.D.، 1674۔1748)۔

جب تاریکی چھا رہی تھی تو یسوع صلیب پر سے چِلّایا،

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

I۔ پہلی بات، یہ گہرے راز کے الفاظ ہیں۔

صلیب پر کیلوں سے جڑے جانے کے بعد یسوع نے بے شمار کلمات ادا کیے جنہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ اُس نے اُن لوگوں کے لیے دعا مانگی جِنہوں نے اُسے مصلوب کیا تھا،

’’اے باپ، اِنہیں معاف کر کیوںکہ یہ جانتے کہ یہ کر کیا کررہے ہیں‘‘ (لوقا 23: 34)۔

ہم وہ بات سمجھ سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یسوع ہر کسی سے محبت کرتا تھا، یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کیوں اُس نے اُن کے لیے بھی دعا مانگی جِنہوں نے اُس مصلوب کیا تھا۔

جب اُن دو ڈاکوؤں میں سے ایک نے جو اُس کے دونوں جانب مصلوب تھے، توبہ کی اور اُس پر ایمان لایا، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کیوں اُس نے اُس شخص کی طرف اپنا سر گھمایا اور کہا،

’’تو آج ہی میرے ساتھ فردوس میں ہوگا‘‘ (لوقا23: 43)۔

ہم جانتے ہیں کہ یسوع دُنیا میں گنہگاروں کو نجات دینے کے لیے آیا – لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کیوں مرتے ہوئے ڈاکو کو بچائے گا، کیونکہ اُس نے کہا،

’’یہ نئے عہد کا میرا وہ خون ہے جو بہتیروں کے گناہوں کے معافی کے لیے بہایا جاتا ہے‘‘ (متی 26: 28)۔

جب یسوع نے صلیب پر سے اپنی ماں سے بات کی تو ہم اُس [ماں] کے لیے یسوع کی محبت کو سمجھ سکتے ہیں

’’اب یسوع کی صلیب کے پاس اُس کی ماں … کھڑی تھی۔ جب یسوع نے اپنی ماں کو اپنے ایک عزیز شاگرد کو نزدیک ہی کھڑے دیکھا تو ماں سے کہا، اے خاتون، اب سے تیرا بیٹا یہ ہے! پھر اُس نے شاگرد سے کہا، دیکھ تیری ماں! اور وہ شاگرد اُسی وقت اُسے اپنے گھر لے گیا‘‘ (یوحنا 19: 25۔27)۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یسوع نے اپنی ماں سے اِس قدر محبت کی تھی کہ وہ چاہتا کہ اُس کا شاگرد یوحنا اُس کے مر جانے کے بعد اُس کی [ماں کی] دیکھ بھال کرے۔

لیکن جب وہ چِلّایا تھا،

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

ہم حیران ہیں. ان الفاظ کے ساتھ ایک گہرا راز جڑا ہوا ہے۔ داؤد نے کہا،

’’میں جوان تھا لیکن اب ضعیف ہو چکا ہوں، تو بھی میں نے راستبازوں کو بے یارومددگار اور اُن کی اولاد کو بھیک مانگتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (زبور 37: 25)۔

جب یوسف کو ایک غلام کی حیثیت سے بیچا گیا تھا، ’’خدا اُس کے ساتھ تھا، اُس نے اُسے ساری مصیبتوں سے بچائے رکھا‘‘ (اعمال 7: 9۔10)۔ جب خدا کے لوگ مصر میں غلام تھے اُس نے کہا، ’’میں نے اُن کی آہ و زاری سُنی ہے اور اُنہیں بچانے کے لیے نیچے اُترا ہوں‘‘ (اعمال 7: 34)۔ جب وہ بحرِ قلزم کے کنارے پر پھنسے ہوئے تھے ’’ساری رات خداوند نے بڑی تیز مشرقی ہوا چلا کر سمندر کو پیچھے ہٹا کر اُسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا… اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے‘‘ (خروج 14: 21۔22)۔ ’’ایمان ہی سے بنی اسرائیل بحر قلزم میں سے اس طرح گزرے جیسے خشک زمین پر سے: لیکن جب مصریوں نے اُسے پار کرنے کی کوشش کی تو وہ ڈوب گئے‘‘ (عبرانیوں 11: 29)۔ ساؤل بادشاہ کے ہاتھوں داؤد کو موت سے چھڑایا گیا تھا۔ یونس نبی کو سمندر میں سمندری عفریت سے بچایا گیا تھا۔ دانی ایل کو شیروں کی ماند سے بچایا گیا تھا، ’’جب دانی ماند سے نکالا گیا تب اُس کے جسم پر کوئی زخم نہ پایا گیا‘‘ (دانی ایل 6: 23)۔ بادشاہ کپکپایا اور کہا، ’’وہی زندہ خدا ہے … وہ ہی چھڑاتا ہے اور وہی بچاتا ہے، اور وہی آسمان اور زمین پر نشانات اور عجیب و غریب کام کرتا ہے اُسی نے دانی ایل کو شیروں کے پنجوں سے چھڑایا‘‘ (دانی 6: 26۔27)۔ شدرک، میشک اور عبدنجو کو آگ کی ایک بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا لیکن خداوند نے اُنہیں بچایا تھا، اِس طرح نبوکدنصر پکار اُٹھا تھا، ’’خدا … جس نے اپنے فرشتہ بھیج کر اپنے اُن بندوں کو چُھڑا لیا جِنہوں نے اُس پر اعتماد کیا تھا‘‘ (دانی ایل 3: 28)۔ تعجب کی کوئی بات نہیں داؤد نے کہا، ’’اِس کے باوجود میں نے راستبازوں کو بے یارومددگار ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (زبور37: 25)۔ لیکن اب خدا کا چہیتا بیٹا پُکارتا ہے،

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

آسمان سے کوئی جواب نہیں ہے۔ مصیبت سے کوئی نجات نہیں، جیسا کہ یوسف کے ساتھ تھا، کوئی غلامی سے نجات نہیں، جیسا کہ عبرانیوں کے ساتھ تھا، کوئی تیز مشرقی ہوا سمندر کو چاک کرنے اور دن کو بچانے کے لیے نہیں، بادشاہ کے ہاتھ سے کوئی نجات نہیں، کوئی نجات نہیں ہے۔ سمندر کی لہریں، مسیح کو شیر کی ماند یا مصیبت کی آگ کی بھٹی سے نکالنے کا کوئی معجزہ نہیں۔ داؤد کہہ سکتا تھا، ’’[میں نے] راستبازوں کو بے یارومددگار ہوتے ہوئے نہیں دیکھا،‘‘ لیکن مسیح یہ نہیں کہہ سکتا تھا! وہ صرف چیخ سکتا تھا

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

یہ اسی لیے اسرار کے کلمات ہیں۔ جیسا کہ چارلس ویزلی اس کو تحریر کرتے ہیں،

یہ سب سے بڑا اسرار ہے! کہ لافانی مر جاتا ہے!
     کون اُس کے حیرت انگیز مقصد کی تحقیق کر سکتا ہے؟
بیکار میں پہلوٹھی فرشتانہ ہستی کوشش کرتی ہے
     کہ الہٰی محبت کی گہرائیوں کو جانچ سکے!
… حیرت انگیز محبت! یہ کیسے ہو سکتا ہے
     کہ تو میرے خداوند، میری خاطر قربان ہو جائے؟
(’’ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ مجھے پانا چاہیے؟ And Can It Be That I Should Gain?‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788)۔

II۔ دوسری بات، یہ شدید اہمیت کے الفاظ ہیں۔

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

مسیح کے یہ الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اہم الفاظ ہیں کیونکہ وہ بالکل منفرد ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے اچھے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ پوری تاریخ میں ہزاروں بار ایسا ہوا ہے۔ ہم نے اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کے سر اس وقت قلم کیے گئے جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کے واقعات سنے ہیں جن کو دہشت گردوں نے اڑا دیا تھا جب وہ اپنے گرجا گھروں میں عبادت کر رہے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کی تصویریں دیکھی ہیں جنہیں ان کے عقیدے کی وجہ سے جھلسا دیا گیا، داغ دیا گیا اور قتل کیا گیا۔ بائبل شہادتوں کی ایک لمبی فہرست دیتی ہے، ہابل کے قتل سے لے کر زکریا کے قتل تک۔

لیکن مسیح کی موت منفرد تھی – ایک قسم کی۔ کیوں؟ کیونکہ یسوع کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ وہ خدا کا بیٹا تھا۔ باقی تمام شہید نامکمل تھے، ’’کیونکہ سب نے گناہ کیا ہے، اور خدا کے جلال سے محروم ہیں‘‘ (رومیوں 3: 23)۔ مسیح دوسروں سے مختلف تھا کیونکہ وہ بے عیب، بے گناہ، بے قصور، بے داغ، تمام گناہوں سے پاک تھا۔ مسیح ’’وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا مگر بے گناہ رہا‘‘ (عبرانیوں 4: 15)۔ مسیح واحد انسان تھا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’پاک، بے ضرر، بے داغ، گنہگاروں سے الگ ہے‘‘ (عبرانیوں 7: 26)۔ یہاں تک کہ مسیح کے جج پینطوس پیلاطس، جو یہودیہ کا رومی گورنر تھا، اُس نے کہا، ’’میں اُس میں کوئی قصور نہیں پاتا‘‘ (یوحنا 18: 38)۔ اور خُدا باپ آسمان سے بولا، ’’یہ میرا اِکلوتا بیٹا ہے، جس سے میں خوش ہوں‘‘ (متی 3: 17)۔ یہ وہی ہے جو کوئی گناہ نہیں جانتا تھا، جس نے خدا کو خوش کیا، جو انسان کے سامنے بے قصور تھا، اور جس نے بے گناہ زندگی گزاری، جسے مصلوب کیا گیا۔ اس کی مصلوبیت انسانی تاریخ کا سب سے قابل ذکر واقعہ تھا۔ اس لیے اس کے مرتے ہوئے الفاظ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

آرتھر ڈبلیو پِنک Arthur W. Pink نے کہا

وہ جو وہاں ملعون درخت پر لٹکا ہوا تھا وہ ہمیشہ سے باپ کی محبت کا مقصد تھا… باپ کی موجودگی اس کا گھر تھی، باپ کا سینہ اس کا ٹھکانہ، باپ کی شان اس نے بنائے عالم سے پہلے بانٹ دی تھی۔ تینتیس سال کے دوران بیٹا زمین پر تھا اس نے باپ کے ساتھ اٹوٹ میل جول کا لطف اٹھایا۔ کبھی کوئی ایسا خیال جو باپ کے ذہن سے ہم آہنگ نہ ہو، کبھی اپنی مرضی سے نہ ہو بلکہ جو باپ کی مرضی سے پیدا ہوا ہو، کبھی ایک لمحہ بھی اس کی باشعور موجودگی سے باہر نہیں گزرا۔ پھر خدا کی طرف سے اب ’’چھوڑ دیے‘‘ جانے کی کیا ضرورت تھی! آہ، خُدا کے چہرے کا اُس سے چھپانا اُس پیالے کا سب سے تلخ جزو تھا جو باپ نے نجات دہندہ کو پینے کے لیے دیا تھا (آرتھر ڈبلیو پنکArthur W. Pink، صلیب پر سے نجات دہندہ کے سات کلمات The Seven Sayings of the Saviour From the Cross، بیکر بک ہاؤس، 2000 دوبارہ اشاعت، صفحہ 65)۔

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

III۔ تیسری بات، یہ ناقابلِ تردید اذیتوں کے الفاظ ہیں۔

مسیح کا دکھ بالکل منفرد، بے نظیر، بے مثال، لاجواب، ناقابلِ مقابلہ، انوکھا تھا۔ کسی بھی انسان نے کبھی تجربہ نہیں کیا جس سے مسیح گزرا جب اُس نے کہا،

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

اس نے اپنی محسوس ہونے والی موجودگی کو باپ کی طرف سے ہٹانے کا تجربہ کیا۔ خدا گناہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جب یسوع نے صلیب سے یہ الفاظ کہے، وہ ہمارا گناہ اٹھانے والا تھا۔

’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی تھی‘‘ (اشعیا53: 6)۔

’’وہ خود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا‘‘ (I پطرس 2: 24)۔

خُدا باپ نے بیٹے سے منہ موڑ لیا جب اُس [یسوع] کے لیے ہماری جگہ، ہمارے بدلے، ہمارے گناہوں کی ادائیگی کے لیے مرنے کا وقت آیا۔ خدا باپ اندھیرے میں چلا گیا، جب کہ خدا بیٹے نے صلیب پر گناہ کا کفارہ ادا کیا۔

تنہا، تنہا، اُس نے تنہا یہ سب کچھ برداشت کیا؛
     اُس نے خود کو پیش کردیا اپنوں کو بچانے کے لیے؛
اُس نے دُکھ اُٹھائے، خون بہایا، اور مرگیا، تنہا، تنہا۔
     (’’تنہا Alone‘‘ شاعر بعن ایچ۔ پرائس Ben H. Price، 1914)۔

لیکن اس سے بڑھ کر، اس نے ہمارے گناہ کے خلاف خُدا کے راستباز قہر کا سامنا کیا۔

’’لیکن وہ ہمارے گناہوں کے سبب سے گھائل کیا گیا، ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا: جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی؛ اور اُس کے کوڑے کھانے سے ہم شفا پاتے ہیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے؛ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی راہ لی؛ اور خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا 53: 5۔6)۔

’’یسوع مسیح: جسے خدا نے مقرر کیا کہ وہ اپنا خون بہائے اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن جائے اور اُس پر ایمان لانے والے فائدہ اُٹھائیں‘‘ (رومیوں3: 24۔25)۔

ہمارے گناہ مسیح پر لادے گئے، اور ان کے خلاف خُدا کا غضب ہمارے گناہ کی قربانی کے طور پر اُس پر نازل ہوا۔

’’پھر بھی یہ خدا کی مرضی تھی کہ اُسے کُچلے اور غمگین کرے اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا53: 10)۔

خدا باپ اپنے بیٹے کو ہماری جگہ سزا دے رہا ہے؟ یہ آج کل شاید ہی سننے کو ملے۔ اور پھر بھی صحیفے واضح طور پر آپ کے گناہوں کے خلاف خُدا کے غضب کی معافی، تسلی دینے، مسیح کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جی ہاں، اس کی تبلیغ کی جانی چاہیے، کیونکہ

’’پھر بھی یہ خدا کی مرضی تھی کہ اُسے کُچلے اور غمگین کرے اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا53: 10)۔

اِسی نے گناہ کی قربانی کو سادہ بنا دیا۔

’’یسوع مسیح: جسے خدا نے مقرر کیا کہ وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن جائے‘‘ (رومیوں3: 24۔25)۔

" سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل The Scofield Study Bible کی رومیوں 3: 25 پر غور طلب بات غلط ہے۔ یہ کفارے کا ’’حکومتی نظریہ‘‘ پیش کرتی ہے، جسے چارلس فنی اور اس کے ’’فیصلہ ساز‘‘ شاگردوں نے قائم کر رکھا ہے۔ یہ، میرے خیال میں، بصورت دیگر عظیم مطالعہ بائبل میں ایک برا نوٹ ہے۔ یہ خالص فنی کی بکواس ہے۔ یہ کہتی ہے کہ لفظ ’’انسان کے گناہ کا کفارہ‘‘ میں، ’’انتقام لینے والے خُدا کی تشفی کی انسان کے گناہ کے کفارے میں کوئی سوچ نہیں ہے، بلکہ اُس کی مقدس شریعت کے مطابق صحیح کرنے اور اُس کے لیے راستی سے رحم کرنا ممکن بنانا ہے‘‘ (سکوفیلڈ اسٹڈی بائبلThe Scofield Study Bible ، رومیوں 3:25 تے غور طلب گل)۔ یہ فنی کا کفارے کا ’’حکومتی نظریہ‘‘ ہے۔ لیکن یہ نہیں ہے جس کی تعلیم بائبل دیتی ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’پھر بھی یہ خدا کی مرضی تھی کہ اُسے کُچلے اور غمگین کرے اور حالانکہ خداوند اُس کی جان کو گناہ کی قربانی قرار دیتا ہے‘‘ (اشعیا53: 10)۔

’’وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا، اور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا‘‘ (اشعیا53: 5)۔

کس نے اُسے گھائل کیا؟ کس نے اُسے کُچلا؟ اِس کا جواب اشعیا 53 باب کی دسویں آیت میں ملتا ہے،

’’پھر بھی یہ خداوند کی مرضی تھی کہ اُسے کُچلے اور غمگین کرے‘‘ (اشعیا 53: 10)۔

زکریاہ نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ خُداوند ’’چرواہے کو مارے گا،‘‘ خُدا کا بیٹا (زکریاہ 13: 7)۔

خدا باپ نے کہا کہ وہ ’’چرواہے کو مارے گا۔‘‘ خُدا باپ نے کہا کہ وہ ’’اسے کچلے گا‘‘ اور ’’اُسے غمگین کرے گا۔‘‘ نئے عہد نامہ میں سب سے زیادہ نقل کی گئی آیت بھی یہی سکھاتی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ ’’اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا‘‘ (یوحنا 3: 16)۔ خُدا نے اُسے اپنے دشمنوں کے ’’حوالے‘‘ کر دیا۔ خُدا نے اُس کی پیٹھ اُن لوگوں کے ’’حوالے‘‘ کر دی جنہوں نے اُسے کوڑے مار مار کر ادھموا کر دیا۔ خُدا نے اُسے اُن سپاہیوں کے ’’حوالے‘‘ کر دیا جنہوں نے اُسے صلیب پر کیلوں سے جڑا تھا۔ خُدا نے اُسے ہمارے گناہوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے ’’حوالے کر دیا‘‘۔ خُدا نے اُسے گناہ کے خلاف الٰہی غضب کی معموری محسوس کرنے کے لیے دیا۔ خُدا نے اُس کو ’’کُچلاا‘‘ اور ’’غمگین کیاا‘‘ اور ’’زخمی‘‘ کیا اور انسانی گناہ کے کفارے کی اُس گھڑی میں ’’مارا‘‘، جب یسوع نے پکارا،

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

پیلاجئین Pelagian بدعتی فنی کے ’’حکومتی نظریہ‘‘ سے دور! اسے سکوفیلڈ کی غور طلب بات کی کالی سیاہی سے نکال دیں! ہمارے بپتسمہ دینے والے اور پروٹسٹنٹ آباؤ اجداد کے پرانے بائبل کے نظریے پر قائم رہیں، بائبل کا نظریہ، کفارہ کا نظریہ! یہ خُدا باپ تھا جس نے اُسے اِس غم میں ڈالا، اور اُسے اپنے غضب سے کچلا!

ڈبلیو جی ٹی شیڈ W. G. T. Shedd، انیسویں صدی کے ماہر الہٰیات، فنی کی بدعتوں سے بے نیاز، اُنہوں نے کہا،

خُدا کے بیٹے کو خُدا باپ کی طرف سے کُچلا گیا، زخمی کیا گیا، اور مارا گیا، بطور افسر اور الہی انصاف کے ایجنٹ کے طور پر؛ اور اس کے اثرات اس غیر معمولی ذہنی پریشانی میں ظاہر ہوتے ہیں جو [مسیح] نے ظاہر کی، خاص طور پر اپنی زمینی زندگی کے آخری لمحات میں… جب خدا نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنی فوری ملامت کو اس کی جان اور روح میں ڈالا، پھر وہ پکارتا ہے، اے میرے خدا، میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا! اس تکلیف کی نوعیت ناقابل بیان ہے، کیونکہ انسانی شعور میں اس کی کوئی مماثلت نہیں ہے (ولیم جی ٹی شیڈ William G. T. Shedd، ڈاگمیٹک تھیولوجیDogmatic Theology، پی اینڈ آر پبلشنگ، 2003 دوبارہ اشاعت، صفحہ 718)۔

’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27: 46)۔

یہ آپ کے گناہوں کا کفارہ دینے کے لیے انوکھی تکلیف کے الفاظ ہیں، صلیب پر مسیح کی تکلیف۔ خدا

’’… نے اپنے بیٹے کو بچائے رکھنے کی بجائے ہم سب کی خاطر قربان کر دیا‘‘ (رومیوں8: 32)۔

لیکن آرتھر ڈبلیو پنک نے کہا کہ ’’خُدا اُس کو نہیں بخشے گا جو نجات دہندہ کو مسترد کرتا ہے۔ مسیح کو تین گھنٹے کے لیے خُدا سے الگ کیا گیا تھا، اور اگر آپ اُسے اپنے نجات دہندہ کے طور پر مسترد کرتے ہیں تو آپ ہمیشہ کے لیے خُدا سے الگ ہو جائیں گے‘‘ (ibid.، صفحات 83۔84)۔ یا تو مسیح آپ کے انسانی گناہوں کے کفارے کے لیے خُدا کے غضب کا کفارہ دیتا ہے، جب آپ حقیقی معنوں میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جاتے ہیں، یا پھر اُنہیں جہنم کے شعلوں میں آپ کے ابدی عذاب سے انسانی گناہوں کا کفارہ ملنا چاہیے۔

مسیح کے پاس آئیں! اُس کے قیمتی خون سے تمام گناہوں سے پاک صاف ہو جائیں!

’’جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا لیکن جو ایمان نہ لائے وہ مجرم قرار دیا جائے گا‘‘ (مرقس16: 16)۔

جب ہم ایک ساتھ کھڑے ہوں تو اپنے گیتوں کے آخری صفحے پر حمدوثنا کے الفاظ آپ صحیح معنوں میں اور پورے دل سے گائیں۔ گانے کے ورق پر اس کا نمبر اٹھارہ ہے۔ اسے یسوع کے لیے اپنے پورے دل سے گائیں۔

میں تیری خوش آمدیدی آواز کو سُنتا ہوں، جو مجھے خُداوندا تیری جانب بُلاتی ہے
کیونکہ تیرے قیمتی خون میں پاک صاف ہونے کے لیے جو کلوری پر بہا تھا۔
خُداوندا! میں آ رہا ہوں، میں ابھی تیرے پاس آ رہا ہوں!
مجھے دُھو ڈال، مجھے خون میں پاک صاف کر ڈال جو کلوری پر بہا تھا۔
     (’’اے خُداوند میں آ رہا ہوں I Am Coming, Lord، شاعر لوئیس ہارٹسو Lewis Hartsough ، 1828۔1919)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

ایلی، ایلی لما شبقتنی؟

ELI, ELI, LAMA SABACHTHANI?

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’یسوع بڑی اونچی آواز سے چِلّایا، ایلی، ایلی لما شبقتنی؟ جس کا مطلب ہے: اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27: 46)۔

I۔   پہلی بات، یہ گہرے راز کے الفاظ ہیں، لوقا 23: 34، 43؛ متی 26: 28؛
یوحنا19: 25۔27؛ زبور 37: 25؛ اعمال 7: 9۔10، 34؛ خروج 14: 21۔22؛
عبرانیوں11: 29؛ دانی ایل 6: 23، 26۔27؛ 3: 28 .

II۔  دوسری بات، یہ شدید اہمیت کے الفاظ ہیں، رومیوں 3: 23؛ عبرانیوں 4: 15؛
عبرانیوں 7: 26؛ یوحنا 18: 38 متی 3: 17 ۔

III۔ تیسری بات، یہ ناقابلِ تردید اذیتوں کے الفاظ ہیں، اشعیا 53: 6؛ I پطرس 2: 24؛
اشعیا53: 5۔6؛ رومیوں 3: 24۔25؛ اشعیا 53: 10؛ زکریا 13: 7؛
یوحنا 3: 16؛ رومیوں 8: 32؛ مرقس 16: 16 .