Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


وہ جو اُسے سُنیں گے زندہ رہیں گے

THEY THAT HEAR SHALL LIVE
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

خداوند کے دن کی شام کو تبلیغ کیا گیا ایک واعظ، 14 نومبر، 2004
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Lord’s Day Evening, November 14, 2004
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں، وہ وقت آ رہا ہے بلکہ آ چکا ہے جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

یہ آیت مستقبل میں قیامت کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے۔ جس کے بارے میں 28 ویں اور 29 آیت میں کہا گیا ہے۔ جی نہیں، ہماری تلاوت نشاندہی کرتی ہے ایک دوسرے [طریقے سے] جی اُٹھنے کے بارے میں، ایک ایسا عمل جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا جب یسوع نے بات کی تھی –خدا کے تحفے کے ذریعے سے گنہگاروں کا نئے جنم میں دوبارہ زندہ ہونا۔ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آئیے تلاوت کا انتہائی احتیاط کےساتھ معائنہ کریں:

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں، وہ وقت آ رہا ہے بلکہ آ چکا ہے جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

I۔ پہلا طریقہ، اِس سے مُراد وہ باتیں جو پہلے سے ہی ہو رہی تھیں جب مسیح نے بات کی تھی۔

ہم عام طور پر اس جملے کی عادت سے اپنے دماغ کو ٹھیک کرتے ہیں، ’’وقت آنے والا ہے۔‘‘ ہمارا رُجحان اگلے چند الفاظ پر دمکنے کا ہوتا ہے، ’’اور اب ہے۔‘‘ ایسا کرتے ہوئے ہم لاشعوری طور پر پوری آیت کو مستقبل کی طرف دھکیل دیتے ہیں، اسے مستقبل میں ہونے والی قیامت کی پیشین گوئی بنا دیتے ہیں۔ لیکن یہ وہ نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں مسیح کہہ رہا تھا – کیونکہ اُس نے کہا ’’اور اب ہے‘‘۔ وہ تین الفاظ ہمیں دکھاتے ہیں کہ وہ کسی ایسی بات کے بارے میں بات کر رہا تھا جو پہلے ہی سے ہو رہی تھی جس وقت کہ وہ بول رہا تھا۔

نئے عہد نامہ میں تین طریقے ہیں جن سے مسیح نے زندگی دی۔ سب سے پہلے، مسیح نے کچھ لوگوں کو جسمانی موت سے زندہ کیا جب وہ زمین پر تھا۔ اس نے لعزر کو جسمانی موت سے زندہ کیا۔ اس نے ایک جوان لڑکی اور ایک بیوہ کے بیٹے کو جسمانی موت سے زندہ کیا۔ دوسرا طریقہ، عالمگیر قیامت ہے، جب مسیح تمام بنی نوع انسان کو زندہ کرے گا۔ اس کا ذکر آیات 28 اور 29 میں کیا گیا ہے۔ ’’زندگی کے جی اٹھنے‘‘ سے مراد ریپچر یعنی مسیح کی آمد ثانی پر ایمانداروں کا اُس کے استقبال کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھنا اور آسمان میں بادلوں پر اُٹھایا جانا ہے۔ ’’عذاب نازل کرنے کی قیامت‘‘ سے مراد آخری عدالت سے پہلے کھوئے ہوئے لوگوں کا جی اٹھنا ہے۔ مسیح مستقبل میں ان تمام لوگوں کو زندہ کرے گا جو جسمانی طور پر مر چکے ہیں۔ یہ دوسرا طریقہ ہے کہ مسیح مُردوں کو، جسمانی طور پر، مستقبل میں زندہ کرتا ہے۔ لیکن ہماری تلاوت ایک اور [طرح سے] مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور وہ آج شام کا میرا موضوع ہے۔

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں، وہ وقت آ رہا ہے ’’بلکہ آ چکا ہے‘‘ جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

’’وہ وقت آ رہا ہے بلکہ آ چکا ہے۔‘‘ بالکل اُسی وقت یعنی اُسی دور میں مسیح مُردوں کو زندہ کر رہا تھا۔ وہ اُنہیں جو مُردہ تھے روحانی زندگی بخش رہا تھا۔

24 ویں آیت پر نظر ڈالیں۔ غور کریں کہ زندگی کا بخشا جانا فعل حال میں ہے۔

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں، وہ جو کوئی میرا کلام سُن کر میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے بچ کر زندگی سے جا مِلتا ہے۔‘‘

وہ لمحہ جب ایک شخص مسیح کا کلام سنتا ہے اور اُس پر بھروسہ کرتا ہے، اُس کے پاس ہمیشہ کی زندگی آ چکی ہوتی ہے، اور ’’موت سے زندگی میں منتقل ہو جاتا ہے۔‘‘ پس آیت 24 میں واضح ہے کہ مسیح ان لوگوں کو روحانی زندگی دیتا ہے جو روحانی طور پر مر چکے ہیں۔

’’وقت آ رہا ہے، بلکہ آ چکا ہے.‘‘ وہ وقت پینتیکوست کے موقع پر اور اعمال کی ساری کتاب میں جلد ہی حیات نو کی عظیم لہروں میں آئے گا جب مسیح اُن لوگوں کو روحانی زندگی بخشے گا جو روحانی طور پر مر چکے تھے۔ لیکن وہ پہلے ہی ان لوگوں کی زندگیوں میں ایسا کر رہا تھا جو اس پر بھروسہ کرتے تھے – ’’بلکہ ابھی کر رہا ہے‘‘۔ وہ پہلے ہی ان لوگوں کو زندگی دے رہا تھا جنہوں نے اس کی آواز سنی تھی۔

II۔ دوسرا طریقہ، اس سے مُراد مُردوں کا روحانی طور پر مسیح کی آواز کو سُننا ہے۔

تلاوت کہتی ہے،

’’… جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

ڈاکٹر جان آر رائس Dr. John R. Rice نے کہا کہ ایس سے ’’مُراد وقت کے وہ تمام ادوار ہیں جس وقت سے یسوع نے [اِس بات کو] کہا ہے، جب گنہگار مسیح کی آواز کو سُنتے تھے، اُس پر بھروسہ کرتے اور ہمیشہ کی زندگی پاتے تھے‘‘ (جان آر رائس John R. Rice, D.D., Litt.D.,، یوحنا کے مطابق انجیل پر تبصرہ Commentary on the Gospel According to John، سورڈ آف دی لارڈSword of the Lord، 1976، صفحہ 122)۔ یوحنا 5: 25 اُس وقت کے مذہبی نظام کے دوران لوگوں کے لیے نجات پانے کی راہ کی جانب نشاندہی کرتی ہے۔

لیکن غور کریں کہ یہ کہتی ہے، ’’جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے۔‘‘

’’اور تم، اپنے گناہوں میں مُردہ ہو کر‘‘ (کُلسیوں 2: 13)۔

اُس نے یہ بھی کہا،

’’تم گناہوں میں مُردہ تھے‘‘ (افسیوں2: 5)۔

’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ (افسیوں 2: 1)۔

’’قصوروں میں مُردہ‘‘ ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ ہماری تلاوت سے تعلق رکھتے ہوئے، بہت عظیم بپٹسٹ تبصرہ نگار ڈاکٹر جان گل Dr. John Gill نے کہا،

مُردوں سے مراد ایسے لوگ ہیں جو قصوروں اور گناہوں میں مردہ ہیں؛ جو خُدا سے جُدا ہو چکے ہیں، خُدا کی زندگی سے لاتعلقی کر چکے ہیں، اور جن میں خُدا کی شبیہ مسخ ہو گئی ہے: جو اپنی روح کی تمام طاقتوں اور صلاحیتوں میں مر چکے ہیں، اُن کے لیے جو روحانی طور پر اچھے ہیں؛ پر روحانی سانس، احساس، فہم اور حرکت کے بغیر ہیں (جان گل، ڈی ڈی، نئے عہد نامہ کی ایک تاویل و تفیسرAn Exposition of the New Testament، دی بیپٹسٹ اسٹینڈرڈ بیئررThe Baptist Standard Bearer، 1989 دوبارہ پرنٹ، جلد اول، صفحہ 303)۔

ڈاکٹر جان میک آرتھر Dr. John MacArthur بے شک دائمی خون پر غلط ہیں، لیکن یہاں پر دُرست ہے جب وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ گمراہ ہوئے لوگ ’’اپنے گناہ سے بھرپور اعمال کی وجہ سے جو اُن سے ہو چکے ہیں مُردہ نہیں ہیں بلکہ اپنی گناہ سے بھرپور فطرت کی وجہ سے مُردہ ہیں، حوالہ دیکھیں متی12: 35؛ 15: 18، 19‘‘ (میک آرتھر مطالعۂ بائبل The MacArthur Study Bible، افسیوں2: 1 پر غور طلب بات)۔

’’ فطرت میں قہر کے بچے‘‘ (افسیوں2: 3)۔

یہ ہی گمراہ ہوئے ہر شخص کی ہولناک حالت ہے۔ آپ گناہ میں مردہ ہیں۔ آپ اپنی انتہائی فطرت میں قہر کے بچے ہیں۔

میں نے کبھی کسی کو کہتے ہوئے سُنا تھا، ’’وہ یقین رکھتے ہیں کہ گمراہ ہوئے لوگ مُردہ ہوتے ہیں! حقیقت میں مُردہ – جیویں لعزر تھا۔‘‘ وہ پانچ نکاتی کیلوِنسٹوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے کیلوِنسٹ اِزم کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے نکتے سے شدت کے ساتھ اختلاف تھا، لہٰذا اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’وہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ واقعی میں مُردہ ہیں – لعزر کی مانند۔‘‘ میں نے کچھ نہیں کہا، کیوں کہ نامناسب لگتا۔ لیکن مجھے یہ بات کہنی چاہیے کہ میں پہلے نکتے سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں کہ گمراہ ہوئے لوگ گناہ میں مکمل طور سے مر چکے ہیں اور فطرت میں قہر کے بچے ہیں۔ یہ ہی وہ بات ہے جس کی تعلیم بائبل واضح طور پر دیتی ہے۔

ہماری تلاوت میں سے منادی کرتے ہوئے، سپرجیئنSpurgeon نے نشاندہی کی کہ روحانی طور پر مردہ لوگ پھولوں کے باغ میں سے گزر سکتے ہیں یا پہاڑ پر چڑھ سکتے ہیں اور فطرت کے شاندار عجائبات کو دیکھ سکتے ہیں، پر خدا کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ روحانی طور پر مردہ لوگ گرجا گھر میں آ سکتے ہیں – سالوں تک – اور واعظوں کا ان پر کوئی اثر ہوئے بغیر خوشخبری کی منادی سن سکتے ہیں۔ سپرجیئن نے کہا،

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیوں کیونکہ وہ شخص مردہ ہے… وہ شخص مُردہ ہے، حضرات – مُردہ۔ اِس کے علاوہ، فطری انسان تو دائمی باتوں کے لیے مُردہ ہوتا ہے۔ وہ زمانے کی باتوں کے بارے میں کس قدر ہوشیار ہے – اُن کی اقدار کو سمجھنے میں کس قدر تیز ہے اور اگر وہ اُنہیں گرفت میں کرنے کی جلدی میں ہے تو کر سکتا ہے! لیکن افسوس! صحائف میں خدا جو دائمی حقائق آشکارہ کر چکا ہے انسان نہ ہی تو اُن کے بارے میں سُننے کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اُنہیں سُنتا ہے، کیا وہ اُس کی روح میں کوئی خواہش اُبھارتی ہیں… ہمیں آپ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ ایک ہولناک جہنم ہیں جس میں بدکاروں، مرتے ہوئے پشیمان لوگوں کو جھونکا جانا چاہیے؛ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ لوگ سچائی سے اِس قدر بھرپور اور اِس قدر بھیانک موضوع کے ذریعے سے جھنجھوڑے نہیں گئے ہیں؟ کیونکہ وہ مُردہ ہیں۔ وہ اِس حد تک تو جاگ ہوئے تھے کہ اگر اُن کے گھروں میں آگ لگ جائے تو وہ ڈرتے تھے کہ کہیں خود شاید اُس فطری عنصر کے ساتھ نہ جل جائیں؛ اِس کے باوجود وہ روحانی خطرہ، جِسے قدرے کہیں زیادہ سمجھا گیا ہے اُنہیں بیدار نہیں کرتا – کیونکہ وہ اِس کے لیے مُردہ ہیں۔ کئی دوسرے موقعوں پر جنت کے بارے میں باتیں کرنا، اپنی تمام تر جگمگاتی چمکاہٹ کے ساتھ شہر کے جواہراتی پھاٹک کی عکاسی کرنا اور اُس میں رہنے والے تمام بابرکت لوگوں کے بارے میں باتیں کرنا جو اُس جلالی بادشاہ کے نور میں چلتے ہیں اور پُریقین ہیں کہ یہ کافی ہے… سرد سنگِ مرمر کو حدت سے گرما دینے کے لیے۔ لیکن جی نہیں، کوئی بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ زمین کی کوئی چھوٹی سی خوشی اُن کی بھوک کو کہیں جلد مٹا دے گی۔ صحائف میں آشکارہ کی گئی روحانی جنت کے لیے اِس ہی وجہ سے یہ لوگ سرے سے ہی مُردہ ہیں، اور اِس بات کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ ہائے! حضرات، یہ افسوس کی بات ہے، یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے سایوں کے لیے ہمیں چاک و چوبند ہونا چاہیے، جبکہ ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی ٹھوس جمالیاتی حقیقتوں کے لیے ہمیں چین کی نیند سونا چاہیے؛ کہ بیچاری دو کوڑی کی چیزوں اور بچوں کی سی اِس فانی حالت کی شیخیوں پر مسحور و مدہوش ہونے کے ہم پیچھے پڑے ہوئے ہیں جبکہ دائمی دُنیا کی ٹھوس خوشیوں اور دائمی لذتوں کے لیے ہم کوئی خواہش ظاہر نہیں کرتے! یہ، دوبارہ سے، روحانی موت کا نشان ہے… وہ مُردہ ہے؛ جی ہاں خود مسیح کے لیے وہ مُردہ ہے جبکہ اُس کو منادی کی جا چکی ہے – مسیح جو خدا کا بیٹا ہے، کنواری کا بچہ ہے، جو متکبرانہ نجات دہندہ ہے، جو اُبھرتا ہوا فاتح ہے، جلالیت کا تاج پہنے ہوئے وہ اعلیٰ اور ارفع بادشاہ – کیوں خدا کے لوگ اُس کے بارے میں سُن کر خوش ہوتے ہیں۔ یسوع کے نام کا لُطف زخم پر مرہم لگانے جیسا ہے۔ جبکہ قدرتی انسان کے سامنے نجات دہندہ کو ظاہر کرنے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔ وہ کیسے پا سکتا ہے؟ وہ مُردہ ہے، قصوروں اور گناہوں میں مُردہ … وہ بہترین قدرتی انسان… اُس میں چاہے جس مرضی قسم کا نور ہو، وہ نور جو خدا کے ساتھ، روحانی دُنیا کے ساتھ، جو آنے والی دںیا سے نمٹتا ہے اُس میں نہیں ہوتا۔ وہ اِن باتوں سے بے حِس یا غافل ہوتا ہے، اِن کا ساتھ اُس کی کوئی رفاقت نہیں ہوتی۔ وہ مُردہ ہوتا ہے اور بدکاری کے لیے ایک شکار ہوتا ہے (سی ایچ سپرجئین C. H. Spurgeon، ’’بشر کا بیدار ہونا The Soul’s Awakening‘‘، میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرِم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت1979، جلد 60، صفحات 28۔29)۔

قصوروں اور گناہوں میں مُردہ۔ فطرت میں قہر کے بچے۔

’’کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب کے سب گمراہ ہو گئے ہیں وہ کسی کام کے نہیں رہے۔ کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، نہیں، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں 3: 11۔12)۔

لیکن، خداوند کا شکر ہو، یسوع نے کہا،

’’وہ وقت آ رہا ہے ’’بلکہ آ چکا ہے‘‘ جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

جو ہمیں ہمارے آخری نکتے تک لے آتا ہے۔

III۔ تیسرا طریقہ، اِس سے مُراد بیدار ہونا اور نیا جنم پانا ہے۔

’’… جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

جب ایک مُردہ بشر زندگی کی طرف آتا ہے تو وہ مبلغ کی آواز کے ذریعے نہیں آتا ہے۔ مبلغ صرف ایک آلہ ہوتا ہے۔ وہ حقیقی آواز جو مُردہ بشر کو زندگی کی طرف لاتی ہے یسوع مسیح کی آواز ہوتی ہے۔

’’… جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

یہ پاک روح کے ذریعے سے ہوتا ہے کہ ایک مُردہ بشر کے لیے مسیح کی آواز بات کرتی ہے۔ میں سینکڑوں سالوں تک مُردہ گنہگاروں کو تبلیغ کر سکتا ہوں اور میری آواز کو سُننے کے ذریعے سے اُن میں سے ایک بھی نجات نہیں پائے گا۔ تو پھر میں تبلیغ کیوں کرتا ہوں؟ کیونکہ میں مسیح کا ایک آلہ ہوں۔ لیکن اُسے الفاظ کو اپنانا چاہیے اور آپ کے مُردہ روح میں متحرک کرنا ہوتا ہے۔ یسوع مسیح کی ہی وہ واحد آواز ہوتی ہے جو آپ کو مُردوں میں سے زندگی طرف لے آتی ہے!

ایک شخص ہزاروں واعظوں کو سُن سکتا ہے اور پھر بھی مُردہ ہی رہتا ہے۔ لیکن پھر ایک لمحہ آتا ہے جب ایک دوسرے واعظ کی منادی ہوتی ہے، اور ایک دم سے خوشخبری کے الفاظ، جو پہلے کئی مرتبہ سُنے جا چکے ہوتے ہیں، ایک نئی زندگی اپنا لیتے ہیں۔ تب، بیداری کے اُس عجیب اور جلالی لمحے میں،

’’مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

میں کئی واعظوں کو سُن چکا تھا، اور یہاں تک کہ ایک لائسنس یافتہ مغربی بپٹسٹ مبلغ کی حیثیت سے خوشخبری کی تبلیغ کر چکا تھا۔ لیکن خوشخبری کے جن الفاظ کی تبلیغ میں نے کی تھی صرف رٹے ہوئے الفاظ تھے جب تک کہ 28 ستمبر، 1961 کی ایک صبح مسیح نے میرے دِل سے بات کی۔ میں اُس دِن کو کبھی بھی بُھلا نہیں پاؤں گا جب ڈاکٹر چارلس جے ووڈبریج Dr. Charles J. Woodbridge نے تبلیغ کی تھی۔ لیکن یہ اُن کی آواز نہیں تھی جس نے مجھے بیدار کیا تھا اور مجھے نجات دہندہ کی جانب مائل کیا تھا۔ اوہ، جی نہیں! اُس صبح ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ [مجھ میں] پھوٹ پڑی، میری مُردہ روح اُس [یسوع] کے پاس چلی آئی اور میں مسیح میں زندہ رہا۔

ایسا ہی سپرجئین کے ساتھ ہوا تھا۔ اُن کے والد صاحب ایک مذہبی خادم تھے جو نجات کی منادی کرتے تھے۔ ایسے ہی اُن کے دادا تھے، جن کے ساتھ اُنہوں نے کچھ عرصہ زندگی بسر کی تھی۔ لیکن اُن کی منادی، حالانکہ مجھے یقین ہے کو وہ اچھی اور مستند تھی، کبھی بھی اپنے ساتھ اُن کی تاریک، مُردہ روح کے لیے ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ لے کر نہیں آئی۔ یہ اُس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ وہ ایک ابتدائی میتھوڈسٹ چھوٹے گرجا گھر Primitive Methodist Chapel میں نہیں گئے اور ایک بیچارے آدمی کو سُنا جو مشکل سی ہی تبلیغ کر سکتا تھا [اُس نے] خوشخبری میں ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ کو اُجاگر کیا جو بالاآخر اُن میں سما گئی اور اُن کے دِل کو چھو لیا۔ تب، اُس لمحے میں، وہ مسیح کے ہو گئے اور زندہ رہے۔ تب، اُس لمحے میں، اُنہوں نے نجات دہندہ میں یقین کیا اور معافی اور ابدی زندگی پائی۔ تب اُس وقت وہ موت سے زندگی کی جانب بڑھ گئے، اور نیا جنم لیا تھا۔ ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ اُن کے دِل تک پہنچی۔ اُنہوں نے مسیح کو اُن کے ساتھ کلام کرتے ہوئے سُنا اور وہ زندہ رہے۔ لیکن سپرجئین نے کہا،

آپ کو یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ ایک آدمی اس معاملے میں غیر فعال ہے… ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ آپ ہی ہیں جسے توبہ اور یقین کرنا چاہئے۔ پاک [روح] آپ کے لیے توبہ نہیں کرے گا… اور پاک [روح] آپ کے لیے یقین نہیں کرے گا… مسیح آواز دیتا ہے، لیکن آدمی سنتا ہے… وہ آواز جو نجات دیتی ہے وہ مسیح کی آواز ہے، لیکن ذاتی نجات کا عروج اُس وقت ہوتا ہے جب آدمی حقیقت میں سچ سنتا اور قبول کرتا ہے (سی ایچ سپرجئینC. H. Spurgeon، ibid.، صفحہ 32-33)۔

’’ٹھیک ہے،‘‘ کوئی کہتا ہے، ’’میرے کرنے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ میں صرف اِتنا ہی کر سکتا ہوں کہ مجھے زندگی کی طرف بُلانے کے لیے مسیح کی آواز کا انتظار کروں۔‘‘ جی نہیں، یہ نہیں ہے جو سپرجئین نے کہا تھا۔ اُس نے کہا،

آپ کو یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ ایک آدمی اس معاملے میں غیر فعال ہے… ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ آپ ہی ہیں جسے توبہ اور یقین کرنا چاہئے۔ (ibid.)۔

’’وہ جو سُنیں گے زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا 5: 25)۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب مسیح آپ کو پکارتا ہے تو آپ کو ضرور سننا چاہیے۔ جب وہ آپ کے تاریک، مردہ دل سے بات کرتا ہے، تو اُٹھیں اور اُس کے پاس آئیں! آپ کو نجات نہیں ملے گی جب تک کہ آپ اسے نہیں سنیں گے، اور اس کے پاس نہیں آئیں گے۔

آپ ایک طویل عرصے تک خوشخبری کی منادی سن سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کبھی بھی مسیح کی آواز نہیں سنتے، اور اُس کے پاس نہیں آتے ہیں، تو منادی آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ درحقیقت یہ آپ کو اور بھی سخت کر سکتی ہے۔ اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ بیدار ہو چکے ہیں؟ کیا آپ مسیح کی تلاش کر رہے ہیں؟ کیا آپ اس کے پاس آئے ہیں؟ کیا آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گئے ہیں؟ یا کیا آپ صرف میری باتیں سن رہے ہیں، سن رہے ہیں، سن رہے ہیں، سن رہے ہیں، بغیر ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ سنے؟ کیا آپ

’’سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2 تیمتھیس 3: 7)؟

مزید سنتے رہنے اور سیکھتے رہنے کا ساتھ ختم کریں۔ اس کی آواز سنیں، جب وہ آپ کی روح میں گہرائی سے بولتا ہے۔ آپ کو ’’خداوند کے بیٹے کی آواز‘‘ سننی چاہیے اور اس کے پاس آنا چاہیے۔ اُس کے ذریعے اپنی موت سے بچیں۔ اُس کے وسیلہ سے دوبارہ جنم لیں۔ اُس کے خون سے اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو جائیں۔ مسیح کے پاس آئیں۔ اس کی آواز سُنیں اور اس کے پاس آئیں۔ کوئی نجات نہیں ہے جب تک کہ آپ اس کے پاس نہ آئیں!

اپنی غلامی، دُکھوں اور اندھیروں سے باہر، یسوع، میں آتا ہوں، یسوع، میں آتا ہوں؛
تیرے نور، شادمانی اور آزادی میں داخلے کے لیے، یسوع، میں تیرے پاس آنے کے لیے آتا ہوں؛
میری بیماری سے نکل کر، تیری تندرستی میں، میری چاہت سے نکل کر اور تیرے خزانوں میں،
اپنے گناہ سے نکل کر اور یسوع تیری ذات میں، میں تیرے پاس آتا ہوں۔
     (’’یسوع، میں آتا ہوں Jesus, I Come‘‘ شاعر ولیم ٹی. سلیپر William T. Sleeper، 1819۔1904).


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

وہ جو اُسے سُنیں گے زندہ رہیں گے

THEY THAT HEAR SHALL LIVE

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں، وہ وقت آ رہا ہے بلکہ آ چکا ہے جب مُردہ خداوند کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اُسے سُن کر زندہ رہیں گے‘‘ (یوحنا5: 25)۔

I۔   پہلا طریقہ، اس سے مُراد وہ باتیں ہیں جو پہلے سے ہی ہو رہی تھیں جب مسیح نے بات کی تھی، یوحنا5: 24 .

II۔  دوسرا طریقہ، اس سے مُراد مُردوں کا روحانی طور پر مسیح کی آواز کو سُننا ہے،
کُلسیوں 2: 13؛ افسیوں 2: 5، 3؛ رومیوں3: 11۔12 .

III۔ تیسرا طریقہ، اِس سے مُراد بیدار ہونا اور نیا جنم پانا ہے، 2 تیمتھیس 3: 7 .