Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


سائنس اور بائبل کی ہم آھنگی

THE COMPATIBILITY OF SCIENCE AND THE BIBLE
(Urdu)

کرسٹوفر ایل کیگن کی جانب سے
by Dr. Christopher L. Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
سوموار کی صبح، 7 ستمبر، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Monday Morning, September 7, 2015

’’آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فِضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔ دِن سے دِن بات کرتا ہے اور رات کو رات حکمت سکھاتی ہے۔ کوئی کلام یا زبان ایسی نہیں جس میں اُن کی آواز سُنائی نہ دیتی ہو۔ اُن کی صدا تمام زمین پر سُنائی دیتی ہے اور اُن کا کلام دُنیا کی حدوں تک گیا ہے‘‘ (زبور19: 1۔4)۔

’’کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی اندیکھی صفات ہیں دُنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں۔ لہٰذا، انسان کے پاس کوئی عذر نہیں‘‘ (رومیوں1: 20)۔

آج کل زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں کہ آپ یا تو سائنس پر یقین رکھتے ہیں، یا آپ بائبل پر یقین رکھتے ہیں۔ میں ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ میں نے سوچا کہ سائنس نے بہت پہلے بائبل کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔ بائبل میں بے شمار غلطیاں تھیں – جن کا میں نے مطالعہ نہیں کیا تھا، لیکن میرے لیے اس طرح سوچنا آسان تھا، اور اس بات نے مجھے اپنے گناہوں اور اپنے منصوبوں کو جاری رکھنے دیا۔ میرے نزدیک، بائبل ایک متروک اور قدیم کتاب تھی جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا، اور یقینی طور پر مسیحیت میں نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ یسوع ایک ایسا آدمی تھا جو دو ہزار سال پہلے زندہ رہا، کچھ اخلاقی سبق سکھائے، مصلوب ہوا، اور بس۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے۔

میں نے سوچا کہ مذہب ایک بیساکھی ہے، ایک غلط خیال جسے کچھ پرانے، جاہل لوگ پکڑے ہوئے تھے۔ بائبل پر یقین کرنے، یا یہاں تک کہ خدا پر یقین کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ایک شخص کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ دماغ۔ یہ پہاڑوں میں کسی ایسے شخص کے لیے تھا جو اسکول نہیں گیا تھا، کتاب نہیں پڑھی تھی، اور کچھ نہیں جانتا تھا۔

یہ سب حقیقت کے برعکس تھا۔ درحقیقت، سائنسی کائنات اور بائبل ہم آھنگ ہیں، کیونکہ وہ دونوں ایک ہی خدا کی طرف سے آئے ہیں۔ خدا نے بائبل کے الفاظ دیئے۔ ہم پڑھتے ہیں، ’’تمام صحیفہ خُدا کے الہام سے دیا گیا ہے‘‘ (2۔ تیمتھیس 3: 16)۔ یونانی الفاظ جن کا ترجمہ ’’خدا کا الہام‘‘ ہے اس کا مطلب ہے ’’خدا کی سانس سے نکلنے والا۔‘‘ خُدا نے بائبل کے سارے الفاظ [اپنی سانس سے] نکالے۔ اس نے انبیاء اور رسولوں کو صحیفوں کے عین مطابق الفاظ عطا کئے۔ بائبل کا ہر لفظ خدا کی طرف سے آیا ہے، اور اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔

اسی خدا نے کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو پیدا کیا۔ ’’آغاز میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا‘‘ (پیدائش1: 1)۔ خدا نے کائنات کو تخلیق کیا اور سائنسی قوانین وضع کیے جن کے ذریعے یہ چلتی ہے۔ اس لیے آپ ستاروں اور زندگی کی خوبصورتی اور سائنس کی درستگی کو دیکھ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک عظیم اور ذہین خدا ہے۔ بائبل کہتی ہے، ’’آسمان خُدا کے جلال کا بیان کرتا ہے، اور آسمان اُس کے کام کو ظاہر کرتا ہے‘‘ (زبور19: 1)۔ ’’کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی اندیکھی صفات ہیں دُنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں‘‘ (رومیوں 1:20)۔

بائبل سائنس کی نصابی کتاب کے طور پر نہیں لکھی گئی ہے۔ لیکن جب یہ سائنس کے بارے میں بات کرتی ہے، تو یہ ہمیشہ سچی ہوتی ہے۔ مسیح سے پندرہ سو سال پہلے، بائبل نے کہا کہ خُدا ’’زمین کو بغیر سہارے کے لٹکا دیتا ہے‘‘ (ایوب 26: 7)۔ خدا نے کہا کہ زمین سہارے کے بغیر لٹک رہی ہے، جیسا کہ سائنسدانوں نے تین ہزار سال بعد دریافت کیا۔ جب کافر لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ زمین کچھوے یا ہاتھی یا سمندری عفریت کی پشت پر ہے یا سمندر میں تیرتی ہے تو خدا نے کہا کہ زمین سہارے کے بغیر موجود ہے۔ بائبل سائنسی طور پر درست تھی اس سے پہلے کہ سائنس دان اِس سچائی تک پہنچتے۔

ہزاروں سالوں سے بے اعتقادے کافروں کا خیال تھا کہ زمین چپٹی ہے۔ لیکن مسیح سے سات سو سال پہلے اشعیا کی کتاب نے کہا کہ خُدا ’’زمین کے دائرے پر بیٹھا ہے‘‘ (اشعیا40: 22)۔ یہ کولمبس کے بحر اوقیانوس کے اس پار جانے سے دو ہزار سال پہلے کی بات ہے، اس سے پہلے کہ میگیلن Magellan اور اس کے آدمیوں نے پوری دنیا میں سفر کیا اور ثابت کیا کہ زمین گول ہے۔ صرف ایک ہی شکل ہے جو کسی بھی طرح سے دائرے کی طرح نظر آتی ہے – اور وہ ہے ایک کرّہ، جو کہ زمین کی شکل ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ پاک صحائف کو سمجھ پاتے بائبل سائنسی طور پر دو ہزار سالوں سے بھی بہت پہلے درست تھی۔ جی نہیں، بائبل سائنس کی نصابی کتاب نہیں ہے، لیکن جب بائبل سائنسی موضوعات پر بات کرتی ہے، تو یہ ہمیشہ درست ہوتی ہے، کیونکہ یہ خود خدا کا کلام ہے۔

بائبل اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ عظیم ماہرِ الہٰیات اور بائبل کے محافظ، ڈاکٹر جے گریشام میکن Dr. J. Gresham Machen نے کہا، ’’ممکنہ طور پر کوئی چیز مذہب میں سچی اور فلسفہ یا سائنس میں غلط نہیں ہو سکتی۔ سچائی تک پہنچنے کے تمام طریقے، اگر وہ درست طریقے ہیں، ایک ہم آہنگ نتیجہ پر پہنچیں گے‘‘ (جے. گریشام مچن Dr. J. Gresham Machen، پی ایچ ڈی، مسیحیت اور لبرل ازم Christianity and Liberalism، ولیم بی عیئرڈمینز پبلشنگ کمپنی William B. Eerdmans Publishing Co.، 1923، صفحہ 58)۔ آج میں آپ کو دکھانے جا رہا ہوں کہ سائنس اور بائبل کئی طریقوں سے کیسے ھم آھنگی رکھتے ہیں۔

I۔ پہلی بات، سائنس کی قانونی فطرت خود خدا، قانون کے دینے والے پر منحصر ہے۔

سائنس کا عروج بائبل پر یقین رکھنے والی مسیحیت کے تناظر میں ہوا۔ کائنات کے قوانین کا مطالعہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر کوئی نہیں ہے! ہندومت میں، یہ دنیا ایک وہم یا فریب ہے اور ہر چیز روانی یا بہاؤ میں ہے۔ بت پرستی میں، جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ نامکمل اور ناراض ’’دیوتاؤں‘‘ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جو ایک کے بعد دوسرا کام اس بات پر کرتے ہیں کہ وہ محسوس کیسا کرتے ہیں۔ پھر سائنس پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں!

لیکن بائبل کا خدا ایک ذہین اور منصفانہ خدا ہے جو کائنات کے لئے سائنسی قوانین بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنس نے پروٹسٹنٹ اصلاحات کے بعد ترقی کی، سترہویں صدی میں اس کی سب سے بڑی کامیابیاں شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر فرانسس شیفر Dr. Francis Schaefferنے لکھا، ’’چونکہ ابتدائی سائنس دانوں کا خیال تھا کہ دنیا ایک معقول خدا کی طرف سے بنائی گئی ہے، وہ یہ جان کر حیران نہیں ہوئے کہ لوگ فطرت اور کائنات کے بارے میں عقل کی بنیاد پر کچھ سچ معلوم کر سکتے ہیں‘‘ (ہمیں پھر کیسے زندگی بسر کرنی چاہیے؟ مغربی آراء اور تہذیب کا عروج و زوال How Should We Then Live? The Rise and Decline of Western Thought and Culture، کراس وے کتبCrossway Books، 2005 ایڈیشن، صفحہ 133)۔ مسیحیت سائنس کی ماں ہے، کیونکہ سائنس اپنے ذہین اور معقول خدا پر منحصر ہے۔

انگلستان میں سائنس کی ترقی کے لیے سب سے بڑی تنظیم رائل سوسائٹی آف لندن تھی۔ اس کے زیادہ تر ارکان مذہبی آدمی تھے، اور ان میں سے اکثر پیوریٹن (بائبل پر یقین رکھنے والے مسیحی) تھے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو ذاتی طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے تھے انہوں نے اپنی سوچ کو ایک ذہین قانون دینے والے خدا کے مسیحی عالمی نظریہ سے اخذ کیا۔

سائنس کے بانیوں میں سے زیادہ تر مسیحی تھے۔ یا کم از کم وہ ایک ذہین اور طاقتور خدا کے مسیحی اصولوں پر استوار تھے۔ رابرٹ بوئل Robert Boyle(1627-1691) کیمسٹری کے بانی تھے۔ اُنہوں نے لندن کی رائل سوسائٹی کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔ اُنہوں نے مذہبی مضامین لکھے، بائبل کے تراجم کی حمایت کے لیے رقوم دی، نئے انگلستان میں انجیل کے پھیلاؤ کے لیے کارپوریشن کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں، اور اپنی وصیت میں غیر ملکی مشن کے کام کے لیے رقم چھوڑ دی۔ مائیکل فیراڈے Michael Faraday (1791-1867) بجلی اور مقناطیسیت کی سائنس کو سب سے زیادہ ترقی دینے والی ہستی تھے۔ وہ ہر روز بائبل پڑھتے تھے اور ایک ایسے گرجا گھر کے رُکن تھے جس کا یقین تھا، ’’جہاں پاک صحائف بولتے ہیں، ہم بولتے ہیں۔ جہاں پاک صحائف خاموش ہیں وہاں ہم خاموش ہیں۔‘‘ لوئس پاسچر Louis Pasteur (1822-1895) نے بیماری میں بیکٹیریا کی اہمیت کو دریافت کیا اور جراثیم کش ادویات کا استعمال متعارف کرایا۔ اس کی دریافتوں کی وجہ سے لاکھوں جانیں بچ گئیں۔ وہ ایک ایماندار مسیحی تھا اور اپنے ہاتھوں میں صلیب پکڑے مرا۔

میں مذید اور لوگوں کے بارے میں بھی بتانا جاری رکھ سکتا ہوں اور دوسری مثالیں دے سکتا ہوں۔ اب تک کا سب سے بڑا سائنسدان آئزک نیوٹن (1642-1727) تھا۔ بیس سال کی عمر میں اس نے کیلکولس ایجاد کیا۔ اس نے پرنسپیا Principia لکھا، جس میں اس نے فزکس کے قوانین اور حرکت کے قوانین وضع کیے جن کا آج بھی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب سائنس کی اب تک کی لکھی جانے والی سب سے عظیم کتاب تھی۔

نیوٹن چرچ آف انگلینڈ کا رکن تھا۔ اگرچہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ ذاتی طور پر مسیح میں ایمان لا کرتبدیل ہوا تھا، لیکن اس کا خدا میں گہرا اعتقاد تھا اور بائبل میں گہری دلچسپی تھی۔ اس نے بائبل کی پیشن گوئی پر مضامین اور مقالے لکھے۔ اُس نے کہا، ’’خُدا دنیا پر پوشیدہ طور پر حکومت کرتا ہے، اور اُس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اُس کی عبادت کریں، اور کوئی دوسرا خُدا نہیں.... اُس نے ہمارے نجات دہندہ یسوع مسیح کو زندہ کیا، جو ہمارے لیے ایک جگہ حاصل کرنے اور تیار کرنے کے لیے آسمان پر گیا، اور...طویل وقت تک واپس آئے گا اور ہم پر راج کرے گا...جب تک کہ وہ تمام مردوں کو زندہ کر کے ان کا فیصلہ نہ کر لے‘‘، (دیکھیں ایلوِین جے شمیٹ، پی ایچ۔ ڈی۔ Alvin J. Schmidt, Ph.D.، اثر کے تحت: کیسے مسیحیت نے تہذیب کو تبدیل کیا Under the Influence: How Christianity Transformed Civilization: 2001، صفحہ 232)۔

پرنسپیاPrincipia کے آخر میں عمومی وضاحتی تبصرے General Scholiumمیں، آئزک نیوٹن نے لکھا کہ کائنات میں ترتیب خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہے:

سورج، سیاروں اور دُمدار ستاروں کا یہ سب سے خوبصورت نظام صرف ایک ذہین اور طاقتور ہستی کے مشورے اور تسلط سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے... سپریم خدا ایک ابدی، لامحدود، بالکل کامل ہستی ہے... اور اس کی حقیقی سلطنت سے اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی خدا ایک زندہ، ذہین اور طاقتور ہستی ہے۔ اور اس کے دوسرے کمالات سے، کہ وہ اعلیٰ، یا سب سے کامل ہے۔ وہ ابدی اور لامحدود ہے، قادر مطلق اور عالم ہے۔ یعنی اس کی مدت ازل سے ابد تک ہے۔ لامحدودیت سے لامحدودیت تک اس کی موجودگی؛ وہ ہر چیز پر حکومت کرتا ہے، اور وہ سب چیزوں کو جانتا ہے جو کی جاتی ہیں یا کی جا سکتی ہیں۔

یہ قدامت پسند مسیحی الہیات کی طرح لگتا ہے، لیکن اسے سر آئزک نیوٹن نے اب تک کی سب سے اہم سائنسی کتاب کے آخر میں لکھا تھا۔ نیوٹن خدا پر یقین رکھتا تھا۔ ابتدائی سائنس دان صحیفوں کی حقیقت کو جانتے تھے:

’’آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فِضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے‘‘ (زبور19: 1)۔

’’کیونکہ خدا کی ازلی قدرت اور الُوہیت جو اُس کی اندیکھی صفات ہیں دُنیا کی پیدائش کے وقت سے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اچھی طرح ظاہر ہیں۔ لہٰذا، انسان کے پاس کوئی عذر نہیں‘‘ (رومیوں1: 20)۔

II۔ دوسری بات، کائنات کی پیچیدگی ایک ذہین خدا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

ولیم پیلے William Paley (1743-1805) نے قدرتی الہٰیات Natural Theologyکے نام سے ایک کتاب لکھی جہاں اس نے دکھایا کہ فطرت کی پیچیدگی کوئی حادثہ نہیں ہے؛ کہ یہ صرف خدا کی طرف سے پیدا کیا جا سکتا ہے. پیلے نے کہا،

ایک بنجر زمین کو عبور کرتے ہوئے، فرض کریں کہ میں نے اپنا پاؤں ایک پتھر پر رکھا، اور مجھ سے پوچھا گیا کہ وہ پتھر وہاں کیسے آیا، تو میں شاید جواب دے سکتا ہوں، کہ، کوئی بھی بات جو میں جانتا ہوں اُس کے برعکس، وہ ہمیشہ سے وہاں پڑا تھا: اور نہ ہی اس جواب کی مضحکہ خیزی کو ظاہر کرنا شاید بہت آسان ہے۔ لیکن فرض کریں کہ مجھے زمین پر ایک گھڑی ملی تھی، اور یہ دریافت کیا جائے کہ وہ گھڑی اس جگہ کیسے پہنچی تھی، تو مجھے شاید ہی اس جواب کے بارے میں شدت سے سوچنا چاہیے جو میں نے پہلے دیا تھا، کہ، کوئی بھی بات جو میں جانتا ہوں اُس کے برعکس، وہ گھڑی ہمیشہ سے وہاں پڑی تھی۔

کائنات میں ہم بے شمار چیزیں دیکھتے ہیں جو کسی بھی گھڑی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں! ہر انفرادی خلیہ – اور ہر جانور میں اربوں خلیے ہوتے ہیں – یہ اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ ایک فیکٹری، شہر یا یہاں تک کہ ایک کہکشاں۔ ڈاکٹر مائیکل بیہ Dr. Michael Behe نے لکھا،

پچھلی چار دہائیوں کے دوران جدید بائیو کیمسٹری نے خلیے کے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے....خلیہ کی تحقیقات کے لیے ان مجموعی کوششوں کا نتیجہ – سالماتی [مالیکیولاتی] سطح پر زندگی کی چھان بین کے لیے – ایک بلند، واضح، دِل میں چُبھن پیدا کر ڈالنے والے ’’ڈیزائن!‘‘ کی پکار ہے۔ نتیجہ اتنا مبہم اور اتنا اہم ہے کہ اسے سائنس کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ یہ دریافت نیوٹنNewton اور آئن سٹائنEinstein، لاوائزرLavoisier اور شروڈنگرSchrodinger، پاسچرPasteur اور ڈارونDarwin کو للکارتی ہے۔ زندگی کے ذہین ڈیزائن کا مشاہدہ اتنا ہی اہم ہے جتنا یہ مشاہدہ کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے... سائنسی برادری لالچ سے اپنی چونکا دینے والی دریافت کو کیوں قبول نہیں کرتی؟ ڈیزائن کے مشاہدے کو دانشورانہ دستانوں سے کیوں سنبھالا جاتا ہے؟ مخمصہ یہ ہے کہ جہاں ہاتھی کے ایک رخ پر ذہین ڈیزائن کا لیبل لگا ہوا ہے، دوسری طرف خدا کا لیبل لگایا جا سکتا ہے (مائیکل جے۔ بیہ پی ایچ۔ ڈی۔ Michael J. Behe, Ph.D.، ڈٓاروِن کا سیاہ ڈبہ Darwin’s Black Box، دی فری پریسThe Free Press، 1966، صفحات 232۔ 233)۔

ہر جاندار خلیہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اتفاق سے تیار نہیں ہوا ہے۔ لوگوں کے ثبوت کو نظر انداز کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ خدا پر یقین نہیں کرنا چاہتے۔ وہ خُدا پر یقین نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ اپنی زندگیوں پر اُس کا کنٹرول نہیں رکھنا چاہتے، اور جب وہ مرتے ہیں تو اُس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ یہ انسانی دل کا گناہ اور بغاوت ہے۔ یہ اتنا ہی آسان ہے۔

اپنی کتاب فرام ڈارون ٹو ڈیزائن From Darwin to Design میں، میں نے لکھا،

آپ کبھی نہیں کہیں گے کہ کمپیوٹر نے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں میں سے تخلیق کیا تھا۔ نہیں، یہ واضح ہے کہ اسے ڈیزائن کرنے اور اسے ایک ساتھ رکھنے میں ہزاروں لوگوں کی سوچ لی گئی۔ اِس کائنات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے – صرف ایک ارب مرتبہ۔ کائنات کی ساخت بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور کسی بھی کمپیوٹر سے کہیں زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ . صرف ایک احمق ہی کہے گا کہ ایک کمپیوٹر اتفاقاً وجود میں آیا بغیر کسی کے اسے ڈیزائن کیے۔ صرف ایک احمق کہے گا کہ کائنات اتفاقاً وجود میں آئی ہے – بغیر کسی کے اسے تخلیق کیے۔ ’’احمق نے اپنے دل میں کہا: کوئی خدا نہیں‘‘ (زبور53: 1)۔ (سی. ایل. کیگن، پی ایچ ڈی۔C. L. Cagan, Ph.D. اور رابرٹ ہائیمرز، ٹی ایچ ڈیRobert Hymers, Th.D.، ڈارون سے ڈیزائن تکFrom Darwin to Design، وائٹیکر ہاؤسWhitaker House، 2006، صفحہ 56)۔

III۔ تیسری بات، توانائی کا ماحولیاتی تحفظ – تھرموڈائینامکس کا پہلا قانون – بائبل کے عادل اور راستباز خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سائنس کے سب سے مضبوط اصولوں میں سے ایک تھرموڈینامکس کا پہلا قانون ہے۔ اسے توانائی کا ماحولیاتی تحفظ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ توانائی نہ تو تخلیق ہوتی ہے اور نہ ہی تباہ ہوتی ہے، بلکہ صرف ایک شکل سے دوسری شکل میں منتقل ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ جیسا کہ میں نے ڈارون سے ڈیزائن میں لکھا تھا،

ساتویں دن کے آغاز سے، کائنات میں مزید کوئی توانائی نہیں ڈالی گئی، سوائے خاص معجزوں کے – جسے خدا جب چاہے انجام دے سکتا ہے... ساتویں دن، توانائی کے ماحولیاتی تحفظ کے قانون نے ہماری کائنات میں اپنا معمول کا کام شروع کیا، سوائے اس کے کہ جب وہ کوئی معجزہ کرتا ہے تو خدا کی طرف سے اس کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ خدا کائنات کے ہر مادے پر نظر رکھتا ہے۔ جیسا کہ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، ’’تمہارے سر کے بال تک سب گنے گئے ہیں‘‘ (متی10: 30)۔ (ڈارون سے ڈیزائن تکFrom Darwin to Design، صفحہ 84-85)۔

یہ خدا کے مکمل انصاف کے ساتھ مکمل ہم آھنگی رکھتا ہے۔

سائنس میں، توانائی کا ماحولیاتی تحفظ ایک اصول ہے جو خدا کے قانون اور انصاف کی عکاسی کرتا ہے۔ تھرموڈینامکس کا پہلا قانون کہتا ہے کہ نظام کی کل توانائی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ توانائی کہیں سے نہیں آ سکتی اور یہ کہیں غائب نہیں ہو سکتی۔ اور جب توانائی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ، یا ایک شکل سے دوسری شکل میں منتقل کیا جاتا ہے، تو یہ یقینی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے، جو یہ بتاتے ہیں کہ توانائی آخر میں حاصل یا ضائع نہیں ہوتی۔ یہ سائنسی اصول ہمیں خدا کے قانون اور انصاف کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو کائنات کی ہر چیز پر نظر رکھتا ہے – اور جو اس کے اخلاقی قانون اور اس کے انصاف کی خلاف ورزی کرنے والے تمام اعمال کا فیصلہ اور سزا دے گا۔ توانائی کا تحفظ اس حقیقت کا سائنسی اظہار ہے کہ خدا عادل ہے، کہ وہ وہی کرتا ہے جو صحیح ہے۔ یہ خدا کے انصاف کی طرف اشارہ کرتا ہے (ibid.، صفحہ 85)۔

ریاستہائے متحدہ میں زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں کہ خدا ہر ایک کو جنت میں جانے دے گا کیونکہ وہ محبت کا خدا ہے۔ وہ کسی کو سزا نہیں دیتا۔ وہ یقینی طور پر کسی کو جہنم میں نہیں بھیجے گا، کیونکہ خدا ایک اچھی ہستی ہے اور ہر چیز کو نظر انداز کر دے گا۔ لیکن تھرموڈینامکس کا پہلا قانون ایک خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اصرار کرتا ہے کہ گناہ کا فیصلہ اور سزا دی جائے۔ بائبل کہتی ہے، ’’خُدا ہر عمل کا، ہر پوشیدہ چیز کے ساتھ، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا ہو انصاف کرے گا‘‘ (واعظ12: 14)۔ خدا کی پاکیزگی اور انصاف کا تقاضا ہے کہ گناہ کی ادائیگی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یسوع آیا اور صلیب پر اپنا خون بہایا،

’’ایمان کے وسیلے سے اُس کے خون میں کفارہ بن جائے‘‘ (رومیوں3: 25)۔

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں، تو آپ کے گناہوں کا کفارہ، اس کی صلیب پر خونی موت کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ گناہ کی کوئی دوسری ادائیگی نہیں ہے۔ اپنے گناہ سے اور اپنے آپ سے مُنہ موڑیں اور مسیح کے پاس آئیں۔

IV۔ چوتھی بات، بے قاعدگی یا بے ترکیبی کو بڑھانے کا اصول – تھرموڈینامکس کا دوسرا قانون – دنیا میں گناہ اور موت کے اثر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سائنس میں، تھرموڈینامکس کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ کائنات میں ہر چیز صرف ایک سمت میں چلتی ہے، ترتیب سے خرابی تک، مفید توانائی سے لے کر افراتفری اور فضلہ تک۔ بے اعتقادے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اربوں سال پہلے کائنات ایک ’‘بڑے دھماکےBig Bang‘‘ میں پھٹ گئی تھی اور تب سے ایسے ہی چل رہی ہے۔ جیسا کہ جیریمی رفکنJeremy Rifkin نے کہا، ’’دوسرا قانون یہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات میں ہر چیز ساخت اور قدر کے ساتھ شروع ہوئی اور بے مقصد انتشار اور فضلہ کی سمت بڑھ رہی ہے" (جیریمی رفکنJeremy Rifkin، اینٹروپی: اے نیو ورلڈ ویو، بنٹم بکس، 1980، صفحہ 6)۔

میں دوسرا قانون مانتا ہوں۔ اگر آپ نئی کار کے ساتھ شروعات کرتے ہیں تو جلد یا بدیر یہ ٹوٹ جاتی ہے۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ ٹوٹی ہوئی کار خود کو ایک نئی میں تبدیل کرتی ہے! لوگ اور جانور بوڑھے ہو جاتے ہیں، بیمار ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اینٹروپی (بے قاعدگی) ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے، کبھی دوسری طرف نہیں پلٹتی۔ بے قاعدگی کا قانون نظریہ ارتقاء سے متصادم ہے – لیکن کافر اس بات پر اپنا دماغ بند کر لیتے ہیں! اپنے اردگرد کی دنیا کو دیکھیں۔ کیا حالات بہتر ہو رہے ہیں یا زمین برباد ہو رہی ہے؟ کیا چیزیں ہمیشہ اس طرح چل سکتی ہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔

جو لوگ اس بارے میں مخلص ہیں کوئی امید نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے پادری، ڈاکٹر ہائیمرز نے لکھا ہے کہ "لارڈ برٹرینڈ رسلLord Bertrand Russell بیسویں صدی کے ایک مشہور برطانوی ریاضی دان اور فلسفی تھے... ان تمام تعریفوں اور اعزازات کے ساتھ جو انہیں دیے گئے تھے، آپ سوچیں گے کہ وہ ایک خوش انسان تھے۔ اس کے بجائے اُنہوں نے زندگی کے بارے میں ایک نا امید رویہ رکھا۔ اپنی موت سے پہلے برٹرینڈ رسل نے لکھا،

کوئی آگ، کوئی بہادری، اور نہ ہی سوچ اور احساس کی شدت، ایک انفرادی زندگی کو قبر سے باہر محفوظ رکھ سکتی ہے... [سب] کا نصیب نظام شمسی کی وسیع موت میں معدوم ہونے کے لیے ہے، اور انسان کی کامیابی کا پورا مندر کھنڈرات میں کائنات کے ملبے کے نیچے لازمی طور پر دفن ہونا چاہیے۔ (لارڈ برٹرینڈ رسل Lord Bertrand Russell، ایک آزاد انسان کی عبادت A Free Man’s Worship

وہ بیسویں صدی کے سب سے ذہین آدمیوں میں سے ایک تھے - لیکن اُنہیں صرف ’کھنڈرات میں ایک کائنات‘ کا انتظار کرنا تھا۔ وہیں ایک ’فطری آدمی‘ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے – بغیر کسی امید کے، نہ کوئی سکون، نہ کوئی مستقبل، اور نہ ہی کوئی خدا۔ (ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز، جونیئر۔ ’’آخری دنوں میں طعنہ زنی کرنے والے"، 14 جون 2015 کو لاس اینجلس کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغ کی گئی)۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے آگے کہا کہ ’’بیسویں صدی کا ایک اور مشہور آدمی ایچ جی ویلز H. G. Wells تھا۔ اس نے دی ٹائم مشینThe Time Machine، دی وار آف دی ورلڈزThe War of the Worlds اور دی آؤٹ لائن آف ہسٹریThe Outline of History لکھی۔ مسٹر ویلز ایک فلسفی، مؤرخ اور سائنس فکشن مصنف تھے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی مسیحیت پر حملہ کرنے میں گزاری۔ لیکن جب وہ ایک بوڑھا شخص تھے تو اُنہوں نے کہا، ’میں اب پینسٹھ برس کی عمر کا ہوں اور اب بھی امن کی تلاش میں ہوں۔ امن صرف ایک ناامید خواب ہے۔‘‘ اپنی زندگی کے اختتام پر مسٹر ویلز نے کہا کہ بنی نوع انسان کا نصیب’’ذلت، مصائب اور موت کے لیے برباد ہونا ہے‘‘ (ibid.)۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل (1844۔1906) میں لوڈوِگ بولٹزمینLudwing Boltzmann ایک ماہر طبیعیات تھے۔ اُںہوں نے کئی سالوں تک تھرموڈائینامکس کا مطالعہ کیا اور کافی تحقیق کی۔ لیکن اُنہوں نے کبھی بھی یسوع پر بھروسہ نہیں کیا۔ آخر کار وہ بہت افسردہ ہو گئے اور خودکشی کر لی۔ اُنہیں کوئی امید نہیں تھی۔ خدا کے بغیر، مسیح کے بغیر، کوئی امید نہیں ہے. اگر ملحدین درست ہیں تو ہم تھوڑی دیر زندہ رہیں گے اور پھر مر جائیں گے، بعد میں کچھ نہیں ہوگا۔ آخر کار زمین اور پھر کائنات مر جائے گی۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ انہیں کس بات کا انتظار کرنا ہے؟ ڈاکٹر بولٹزمین نے اسے سمجھ لیا تھا۔

بائبل کہتی ہے کہ گناہ کی وجہ سے کائنات میں موت، خرابی اور بربادی ہے۔ جب آدم نے گناہ کیا، تو اس نے صرف خود کو متاثر نہیں کیا۔ اس نے صرف انسانی نسل کو متاثر نہیں کیا۔ اس نے پوری مخلوق کو تباہی اور بربادی دی۔ سائنس نے کائنات میں جو زوال پایا ہے وہ گناہ کی موجودگی اور نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’چنانچہ ساری خلقت بڑی آرزو کے ساتھ اِس انتظار میں ہے کہ خدا اپنے فرزندوں کو ظاہر کرے۔ اِس لیے کہ خلقت اپنی خوشی سے نہیں بلکہ خالق کی مرضی سے فنا کے اِختیار میں کر دی گئی ہے اِس اُمید کے ساتھ کہ وہ بھی آخر کار فنا کی غلامی سے چھڑائی جائے گی اور خدا کے فرزندوں کی جلالی آزادی میں شریک ہو گی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت آج تک کراہتی ہے گویا کہ وہ دردِ زہ میں مبتلا ہے‘‘ (رومیوں8: 19۔22)۔

گناہ کی وجہ سے تخلیق، کائنات، کراہنے اور تکلیف میں ہے۔ خدا کے فضل کے بغیر، واقعی کوئی امید نہیں ہے. لیکن یسوع نے مسیحیوں سے کہا کہ ’’اوپر دیکھو اور اپنے سر اٹھاؤ۔ کیونکہ آپ کی مخلصی قریب ہے‘‘ (لوقا21: 28)۔ یسوع دوبارہ آ رہا ہے! ’’کہ وہ [تخلیق] بھی آخر کار فنا کی غلامی سے چھڑائی جائے گی اور خدا کے فرزندوں کی جلالی آزادی میں شریک ہو گی‘‘ (رومیوں8: 21)۔ آخر کار، زمین اور کائنات کو تباہ کر دیا جائے گا اور وہ ایک نئے آسمان اور نئی زمین سے بدل دیا جائے گا جہاں کوئی گناہ اور موت نہیں ہوگی۔ بائبل کہتی ہے، ’’پھر بھی ہم، اُس کے وعدے کے مطابق، نئے آسمانوں اور نئی زمین کی تلاش کرتے ہیں، جس میں راستبازی بسی ہوئی ہو‘‘ (2۔ پطرس3: 13)۔ دنیا کو کوئی امید نہیں۔ خُدا کا شکر ہے، ہم مسیحیوں کو امید ہے – بابرکت امید – ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی واپسی!

V۔ پانچویں بات، کائنات کی ریاضیاتی خصوصیات بتاتی ہیں کہ اسے جان بوجھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا۔

کائنات انسان کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسے ’’انسانی اصول‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسے ’’بہترین روانی کی کائنات‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بہت ہی مخصوص اعداد جو فزکس کے قوانین میں بنائے گئے ہیں اور وہ ذرات جو کائنات کی ہر چیز کو بناتے ہیں بالکل اسی طرح فٹ ہوتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اگر وہ بہت تھوڑا مختلف ہوتے تو کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی۔ سائنسی فلسفی پال ڈیوس Paul Davies نے لکھا،

     کیا وجود کے پیچھے کوئی مطلب ہے؟... یہ پوچھنا دلچسپ ہے کہ یہ کتنا ناممکن ہے کہ طبیعیات کے قوانین پیچیدہ ڈھانچوں کو وجود میں لانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان قوانین کو کس قدر باریک طریقے سے ’’ٹیون‘‘ کیا جانا چاہیے؟...برطانوی ماہرین فلکیات برنارڈ کار Bernard Carrاور مارٹن ریس Martin Reesنے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا طبیعیات کے قوانین میں معمولی تبدیلیوں کے لیے غیر معمولی طور پر حساس ہے، تاکہ ہمارے پاس قوانین کا جو مخصوص مجموعہ ہے اگر کسی بھی طرح سے تبدیل کیا جائے تو کائنات پہچان سے باہر بدل جائے گی۔
     کارCarr اور ریسRees نے پایا کہ پیچیدہ ڈھانچوں کا وجود ان عددی قدروں پر بہت حساس طور پر انحصار کرتا ہے جو قدرت نے نام نہاد بنیادی کونسٹنٹس کو تفویض کی ہیں، وہ اعداد جو جسمانی مظاہر کے پیمانے کا تعین کرتے ہیں۔ ان کونسٹنٹس میں روشنی کی رفتار، مختلف ذیلی ایٹمی ذرات کی کمیت، اور متعدد ’’کپلنگ‘‘ کونسٹنٹس ہیں جیسے چارج کی ابتدائی اکائی، جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مختلف قوتیں مادے پر کتنی مضبوطی سے عمل کرتی ہیں۔ ان مقداروں کے ذریعے اختیار کی جانے والی اصل عددی قدریں دنیا کی بہت سی مجموعی خصوصیات کا تعین کرتی ہیں، جیسے ایٹموں، نیوکلئیسوں، سیاروں اور ستاروں کے سائز، کائنات میں مواد کی کثافت، ستاروں کی زندگی، اور یہاں تک کہ جانوروں کی اونچائی (پال ڈیوس Paul Davies ، سپر فورس: دی سرچ فار اے گرینڈ یونیفائیڈ تھیوری آف نیچر Superforce: The Search for a Grand Unified Theory of Nature ، ٹچ اسٹون، 1984، صفحہ 241-42)۔

کائنات کی بنیادی تعداد میں معمولی تبدیلیاں تمام زندگی کو ناممکن بنا دے گی۔ اگر کائنات کی بنیادی قوتیں – جیسے کشش ثقل، برقی مقناطیسیت، کمزور جوہری قوت، اور مضبوط جوہری قوت – کی طاقتیں تھوڑی سی مختلف ہوتیں، تو کوئی جاندار چیز نہیں ہوسکتی تھی۔

نیوکلیون کو نیوکلیائی میں باندھنے والی قوت Epsilon (ε) کی طاقت، 0.007 ہے۔ اگر یہ 0.006 ہوتی تو صرف ہائیڈروجن ہی موجود ہو سکتی تھی، اور پیچیدہ کیمسٹری ناممکن ہو جاتی۔ اگر یہ 0.008 ہوتی تو کوئی ہائیڈروجن موجود نہ ہوتی۔

ایک پرانی مثال Hoyle state حوائل کی علامت ہے، جو کاربن-12 نیوکلئس کی تیسری سب سے کم توانائی کی حالت ہے، جس کی توانائی سطح زمین سے 7.656 MeV [ملین الیکٹران وولٹ] ہے۔ ایک حساب کے مطابق، اگر Hoyle کی توانائی 7.3 سے کم یا 7.9 MeV سے زیادہ ہوتی تو زندگی کو سہارا دینے کے لیے ناکافی کاربن موجود ہوتا۔

اسی طرح کا حساب، ان سے پہلے کے بنیادی مستقلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جو توانائی کی مختلف سطحوں کو جنم دیتے ہیں، یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مضبوط قوت کو کم از کم 0.5% کی درستگی اور برقی مقناطیسی قوت کو کم از کم 4% کی درستگی کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے، تاکہ اسے یا تو کاربن کی پیداوار یا آکسیجن کی پیداوار کو نمایاں طور پر گرنے سے روکا جا سکے۔ (ویکیپیڈیا مضمون، ’’فائن ٹیونڈ کائناتThe Fine-Tuned Universe‘‘)۔

ایرک میٹاکساسEric Metaxas نے

اس اصول کے بارے میں وال اسٹریٹ جرنل Wall Street Journal ، امریکہ کے معروف مالیاتی اخبار میں لکھا (’’سائنس تیزی سے خدا کے لیے کیس بناتی ہے،‘‘ وال اسٹریٹ جرنل، 25 دسمبر 2014)۔ میں آپ کو ان کے مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر سُناؤں گا۔

آج زندگی کو سہارا دینے کے لیے ایک سیارے کے لیے 200 سے زیادہ معلوم پیرامیٹرز [نمبرز] ضروری ہیں – جن میں سے ہر ایک کا مکمل طور پر پورا ہونا ضروری ہے، یا سب کچھ ڈھے جائے گا۔ مشتری جیسے بڑے سیارے کی قربت کے بغیر، جس کی کشش ثقل سیارچوں کو پرے کھینچ لے گی، ورنہ زمین کی سطح سے ہزار گنا زیادہ ٹکرائیں گے۔ [میں یہ کہوں گا کہ اگر زمین کا چاند بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہوتا یا زمین کا محور بہت زیادہ یا بہت چھوٹا ہوتا تو اس سیارے پر کوئی زندگی نہیں ہوسکتی تھی، کیونکہ سمندر کی لہریں اور زمین کی آب و ہوا غلط ہو جائے گی۔]

[میٹاکساس Metaxasکہتے ہیں] پھر بھی ایک ہم ہیں جو ، نہ صرف موجود ہیں، بلکہ موجود ہونے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کیا سکتا ہے؟ کیا ان بہت سے پیرامیٹرز میں سے ہر ایک حادثاتی طور پر کامل ہو سکتا ہے؟ کس مقام پر یہ تسلیم کرنا مناسب ہے کہ سائنس بتاتی ہے کہ ہم بے ترتیب قوتوں کا نتیجہ نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ فرض نہیں کیا جا رہا ہے کہ کسی ذہانت نے یہ کامل حالات پیدا کیے ہیں اس سے کہیں کم یقین کی ضرورت ہے کہ زندگی کو برقرار رکھنے والی زمین نے وجود میں آنے کے ناقابل تصور مشکلات کو شکست دی؟

اِس کے علاوہ اور بھی ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے وجود کے لیے جو فائن ٹیوننگ ضروری ہے اس کے مقابلے میں سرے سے کائنات کے وجود کے لیے ضروری فائن ٹیوننگ کچھ بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، فلکی طبیعیات کے ماہرین اب جانتے ہیں... چار بنیادی قوتوں کی قدریں – کشش ثقل، برقی مقناطیسی قوت، اور ’’مضبوط‘‘ اور ’’کمزور‘‘ جوہری قوتیں... کسی ایک قدر کو تبدیل کریں اور کائنات موجود نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر، اگر نیوکلیئر مضبوط قوت اور برقی مقناطیسی قوت کے درمیان تناسب سب سے چھوٹے حصے کے سب سے چھوٹے حصے سے ہوتا ہے – 100,000,000,000,000,000 میں سے ایک حصہ بھی – تو کوئی ستارہ کبھی بھی نہیں بن سکتا تھا۔ بلا جھجھک گلا تر کر [حیران ہو] لیں۔

اس واحد پیرامیٹر کو دیگر تمام ضروری شرائط سے ضرب دیں، اور موجودہ کائنات کے خلاف مشکلات اتنی دل کو روک دینے والی فلکیاتی ہیں کہ یہ تصور کہ یہ سب ’’ابھی ہوا‘‘ عقل کی نفی کرتا ہے۔ یہ ایک سکے کو اچھالنے اور اس کا شرط والا رخ لگا تار 10 کوئنٹلین بار اوپر آنے جیسا ہوگا۔ واقعی میں؟

Fred Hoyle، ماہر فلکیات... نے کہا کہ ان کی دہریت ان پیش رفتوں پر ’’بہت ہلی ہوئی‘‘ تھی۔ اُنہوں نے بعد میں لکھا کہ ’’حقائق کی ایک عام فہم تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ ایک انتہائی ذہانت نے فزکس کے ساتھ ساتھ کیمسٹری اور بیالوجی کے ساتھ بھی بندر بانٹ کیا ہے... اُن حقائق سے جو اعداد شمار ہوتا ہے وہ مجھے اتنا زبردست لگتا ہے جتنا کہ اِس نتیجے کو سوال سے ہی تقریباً پرے کر دینا ہوتا ہے۔

نظریاتی ماہر طبیعیات پال ڈیوس نے کہا ہے کہ ’’ڈیزائن کی ظاہری شکل شدید انتہائی ہے‘‘ اور آکسفورڈ کے پروفیسر ڈاکٹر جان لینوکس نے کہا ہے کہ ’’ہم اپنی کائنات کے بارے میں جتنا زیادہ جانیں گے، اتنا ہی زیادہ اس قیاس آرائی کا کہ ایک خالق ہے... ہم یہاں کیوں ہیں اس کی بہترین وضاحت کے طور پر اعتبار حاصل ہوتا ہے۔

جی ہاں، کائنات زندگی کو ممکن بنانے کے لیے بالکل ڈیزائن کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی وضاحت نہیں ہے۔ بے اعتقادے سائنسدان کائنات کی خوبصورتی اور کمال پر حیران ہوں گے اور کہیں گے، ’’یہ تو بس ہوا‘‘۔ ’’یہ سب خود ایک بڑے دھماکے میں ہوا۔‘‘ ’’یہ تو بس صرف ہوا ہے.‘‘ لیکن یہ یقین کرنا ایمان کا ایک بہت بڑا عمل ہے اس بات پر یقین کرنے سے کہ اسے ایک ذہین اور معقول خدا نے ڈیزائن کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ کائناتوں کی ایک ناقابل یقین حد تک بڑی تعداد ہے [جسے ہم کبھی نہیں دیکھ سکتے ہیں] جہاں ڈیزائن اور اعداد میں سے ہر ایک میں تھوڑا فرق تھا – اور ہم بالکل صحیح والی [کائنات] میں رہتے ہیں۔ اور یہ اور بھی بڑا سیٹ اپ ’’ابھی ہوا‘‘، بغیر کسی وجہ یا ذہانت کے اپنے طور پر موجود ہے۔ ٹھیک ہے، یہ یقین کرنے کے لیے کہ اس کے لیے اور بھی زیادہ ایمان کی ضرورت ہے! یہ یقین کرنا کہیں زیادہ عقلمندی کی بات ہے کہ کائنات خدا کی طرف سے بنائی گئی ہے بجائے اس کے کہ یہ یقین کرنا کہ یہ خود سے ہی موجود رہی ہے۔

میں اس قادر مطلق خدا پر یقین کرنا چاہتا ہوں جس نے ہمیں بنایا۔ لیکن یہ جاننا کہ خدا ہے ذاتی طور پر اسے جاننے جیسا نہیں ہے۔ عقل صرف خدا کی صفت نہیں ہے۔ ہمارے لیے اپنی محبت اور دیکھ بھال میں، اُس نے بائبل میں اپنے بارے میں اور ہمارے بارے میں سچائی ظاہر کی۔ اور ہمارے لیے اپنی محبت میں، اس نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو صلیب پر قربان ہونے کے لیے بھیجا اور آپ کے اور میرے گناہوں کی ادائیگی کے لیے اپنا خون بہایا۔ یسوع پر بھروسہ کریں اور آپ کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ یہ میری امید اور دعا ہے کہ یہاں کوئی اس پر بھروسہ کرے گا۔ یسوع کے نام میں، آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔